دامِ خیال
اُس کی افسانہ نگاری اور دیگر تحریروں کی خوشبو اس کتاب کے ایک ایک صفحے پر پھیلی ہوئی ہے
طارق محمودکی اس خود نوشت سوانح عمری کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اُس نے ایک فوٹو گرافر کی طرح منظروں کو اُن کی اصل شکل میں دکھایا تو ہے لیکن اُن پر اپنی رائے کا اظہار ایک مصور کی طرح سے کیا ہے جس کی وجہ سے اس کی تحریر حقیقت خواب اور نظریے کا ایک ملا جلا مگر بہت دلچسپ اظہار بن گئی ہے اور یوں طارق ہستی کے فریب میں آنے کے بجائے اُلٹا دامِ ِ خیال میں اپنی رودادِ حیات کو ''جو ہے ! جیسا ہے'' کی طرح محفوظ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے ا ور یوں غالبؔ کے اس شعر کو ایک نئی معنویت مل گئی ہے ۔
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے
تین چار دہائیوں پر پھیلی ہوئی رفاقت کی وجہ سے طارق کے سیالکوٹ ، افریقہ ، مشرقی پاکستان برطانیہ ، پی ٹی وی اور بیوروکریسی سے تعلق کی مجھے پہلے سے آگاہی تھی مگر اب اس کتاب کی معرفت ایک تسلسل سے جاننا ایک بالکل نیا اور مختلف تجربہ تھا بالخصوص اپنے والد کے ساتھ اس کا افریقہ میں گزرا ہوا بچپن کا زمانہ اپنے دلچسپ واقعات اور کرداروں کی وجہ سے قاری کی نگاہ کو کتاب کے صفحات سے ہٹنے نہیں دیتا اور یہ جان کر بہت خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ اُس نے کس طرح اُس کم عمری میں نہ صرف ان مناظر کو جذب کیا بلکہ جس کامیابی اور خوب صورتی سے اُس نے ہر چیز کی جزئیات کو الفاظ میں ڈھالا ہے وہ اُس کی یادداشت اور بیانیے کا ایک ایسا مظہر ہے جس پر اُس کو جتنی بھی داد دی جائے وہ کم ہے کہ اس کے لیے اُسے اپنی تعلیم اور پیشے کی مدد بھی حاصل نہیں تھی۔
جس مہارت اور دردمندی سے اُس نے ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) میں اپنی تعلیم یونیورسٹی کے ماحول، سیاسی کشمکش، بنگال کی اشرافیہ، دانشوروں اور عوام کے حقیقی مسائل ا ور وفاق کی سطح پر کی جانیوالی غلطیوں اور یونیورسٹی کے طلبہ سمیت مکتی باہنی اور بھارت کے کردار کو دیکھا، سمجھا اور بیان کیا ہے، اس کا بہت سا حصہ عام روایات سے مختلف بھی ہے اور بہت سچا بھی ، قومی تاریخ کے اس المناک باب کے بارے میں ایسی بے لاگ، گہری اور درد مندانہ تحریر اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے ۔
پی ٹی وی کے نیوز چینل میں اپنی دو سالہ ملازمت، معاشرے اور اسٹوڈیو کے ماحول ، خبروں کے حوالے سے دلچسپ واقعات اور متعلقہ کرداروں کے بارے میں جو تصویر کشی کی ہے اُس نے خود مجھے پچاس سال پہلے کی فضا میں سانس لینے کا جو موقع فراہم کیا ہے ا ور جن دقت کے غبار میں گمشدہ کرداروںکوہمیشہ کے لیے زندہ اور محفوظ کردیا ہے وہ بلاشبہ کسی کارنامے سے کم نہیں ۔
سول سروس میں داخلے کے بعد پہلے جونیئر اور پھر سینئر افسر کی حیثیت میں اُس کے تجربات، مشاہدات اور تبصرے بے حد دلچسپ بھی ہیں اور چشم کشا بھی کہ ہمارے شہروں میں رہنے والے دوست عام طور پر دیہات، دیہاتیوں اور جاگیرداروں کے جس تعارف کے عادی ہیں وہاں کی زندگی میں اُس کی صورت کسی طلسم ہو شربا سے کم نہیں۔ انگریزکی طویل غلامی کے باعث ہمارے بیشتر بڑے زمیندار سرکاری افسران کی خدمت اور خوشامد ایک فریضے کی طرح کرتے ہیں اور عملی طور پر اُن کی دنیا اور روایات ایک عجیب طرح کے بہروپیا پن کے مظہر دکھائی دیتے ہیں۔
طارق نے اس کتاب میں تو نہیں لکھا مگر ایک واقعہ مجھے خود سنایا کہ ایک دیہاتی پس منظر والے اسٹیشن سے عید سے دو دن قبل اُس کی ٹرانسفر ہوگئی، کسی وجہ سے اُس نے عید کے دن وہیں گزارنے کا فیصلہ کیا، عید کی نماز کے فوراً بعد علاقے کے اہم لوگوں نے روایتی انداز میں عید ملنے کا سلسلہ شروع کر دیا اُن میں اُس علاقے کے ایک بڑے زمیندار بھی صاحب کے لیے ڈھیر سارے پھلوں کے ٹوکرے وغیرہ لے کر آگئے جب طارق نے یہ تھیلے لینے سے معذرت کی تو وہ دونوں ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوگئے ا ور کہنے لگے کہ میرا دل نہ توڑیے آپ کی خدمت تو ہمارے لیے دھرم کا درجہ رکھتی ہے آپ کے آنے سے یہ علاقہ جنت بن گیا ہے اور سچ پوچھئے تو میری عید تو شروع ہی آپ کے دیدار سے ہوئی ہے، کچھ دیر وہ اسی طرح کی خوشامدانہ باتیں کرتے رہے اور پھر طارق کے ہاتھ چُوم کر اُلٹے پائوں کمرے سے باہر نکل گئے۔
طارق نے بتایا کہ کچھ دیر بعد انھیں اُسی شخص کی اُونچی آواز میں چنگھاڑنے کی سی آوازیں آئیں۔ طارق نے متعلقہ عملے کو بلایا اور پوچھا کہ چوہدری صاحب کس بات پر ناراض ہو رہے تھے مگر ملازم سر جھکا کریہی کہتے رہے کہ کچھ نہیں جی کچھ بس ایسے ہی ... چوہدری صاحب کی طبیعت ہی ایسی ہے۔ طارق نے قدرے غصے سے دوبارہ پوچھا کہ وہ کس بات پر ناراض ہو رہے تھے اس پر ایک ملازم نے رک رک کر کہا صاحب جی وہ اس بات پر ناراض ہو رہے تھے کہ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ صاحب کی ٹرانسفر ہوگئی ہے ۔
''دامِ خیال'' ایک راست فکر اور جہاندیدہ انسان کی ایسی رودادِ حیات ہے کہ آپ اُسے ایک بار شروع کرنے کے بعد پڑھتے چلے جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ طارق محمود بے شک اشفاق احمد جیسا بے مثال قصہ گو نہ ہو مگر اُس کی افسانہ نگاری اور دیگر تحریروں کی خوشبو اس کتاب کے ایک ایک صفحے پر پھیلی ہوئی ہے اور یہ اُن چند کتابوں میں سے ایک ہے ،جنھیں آپ آج کے تیز رفتار اور کتاب سے دوری کے دورمیں بھی ایک سے زیادہ بار پڑھ سکتے ہیں اور میں یہ بات مصنف سے اپنی دوستی اور پسندیدگی کی وجہ سے نہیں کہہ رہا اور مجھے یقین ہے کہ میری اس بات کی گواہی وہ سب دوست دیں گے، جنھیں اس کے مطالعے کا موقع ملے گا۔
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے
تین چار دہائیوں پر پھیلی ہوئی رفاقت کی وجہ سے طارق کے سیالکوٹ ، افریقہ ، مشرقی پاکستان برطانیہ ، پی ٹی وی اور بیوروکریسی سے تعلق کی مجھے پہلے سے آگاہی تھی مگر اب اس کتاب کی معرفت ایک تسلسل سے جاننا ایک بالکل نیا اور مختلف تجربہ تھا بالخصوص اپنے والد کے ساتھ اس کا افریقہ میں گزرا ہوا بچپن کا زمانہ اپنے دلچسپ واقعات اور کرداروں کی وجہ سے قاری کی نگاہ کو کتاب کے صفحات سے ہٹنے نہیں دیتا اور یہ جان کر بہت خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ اُس نے کس طرح اُس کم عمری میں نہ صرف ان مناظر کو جذب کیا بلکہ جس کامیابی اور خوب صورتی سے اُس نے ہر چیز کی جزئیات کو الفاظ میں ڈھالا ہے وہ اُس کی یادداشت اور بیانیے کا ایک ایسا مظہر ہے جس پر اُس کو جتنی بھی داد دی جائے وہ کم ہے کہ اس کے لیے اُسے اپنی تعلیم اور پیشے کی مدد بھی حاصل نہیں تھی۔
جس مہارت اور دردمندی سے اُس نے ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) میں اپنی تعلیم یونیورسٹی کے ماحول، سیاسی کشمکش، بنگال کی اشرافیہ، دانشوروں اور عوام کے حقیقی مسائل ا ور وفاق کی سطح پر کی جانیوالی غلطیوں اور یونیورسٹی کے طلبہ سمیت مکتی باہنی اور بھارت کے کردار کو دیکھا، سمجھا اور بیان کیا ہے، اس کا بہت سا حصہ عام روایات سے مختلف بھی ہے اور بہت سچا بھی ، قومی تاریخ کے اس المناک باب کے بارے میں ایسی بے لاگ، گہری اور درد مندانہ تحریر اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے ۔
پی ٹی وی کے نیوز چینل میں اپنی دو سالہ ملازمت، معاشرے اور اسٹوڈیو کے ماحول ، خبروں کے حوالے سے دلچسپ واقعات اور متعلقہ کرداروں کے بارے میں جو تصویر کشی کی ہے اُس نے خود مجھے پچاس سال پہلے کی فضا میں سانس لینے کا جو موقع فراہم کیا ہے ا ور جن دقت کے غبار میں گمشدہ کرداروںکوہمیشہ کے لیے زندہ اور محفوظ کردیا ہے وہ بلاشبہ کسی کارنامے سے کم نہیں ۔
سول سروس میں داخلے کے بعد پہلے جونیئر اور پھر سینئر افسر کی حیثیت میں اُس کے تجربات، مشاہدات اور تبصرے بے حد دلچسپ بھی ہیں اور چشم کشا بھی کہ ہمارے شہروں میں رہنے والے دوست عام طور پر دیہات، دیہاتیوں اور جاگیرداروں کے جس تعارف کے عادی ہیں وہاں کی زندگی میں اُس کی صورت کسی طلسم ہو شربا سے کم نہیں۔ انگریزکی طویل غلامی کے باعث ہمارے بیشتر بڑے زمیندار سرکاری افسران کی خدمت اور خوشامد ایک فریضے کی طرح کرتے ہیں اور عملی طور پر اُن کی دنیا اور روایات ایک عجیب طرح کے بہروپیا پن کے مظہر دکھائی دیتے ہیں۔
طارق نے اس کتاب میں تو نہیں لکھا مگر ایک واقعہ مجھے خود سنایا کہ ایک دیہاتی پس منظر والے اسٹیشن سے عید سے دو دن قبل اُس کی ٹرانسفر ہوگئی، کسی وجہ سے اُس نے عید کے دن وہیں گزارنے کا فیصلہ کیا، عید کی نماز کے فوراً بعد علاقے کے اہم لوگوں نے روایتی انداز میں عید ملنے کا سلسلہ شروع کر دیا اُن میں اُس علاقے کے ایک بڑے زمیندار بھی صاحب کے لیے ڈھیر سارے پھلوں کے ٹوکرے وغیرہ لے کر آگئے جب طارق نے یہ تھیلے لینے سے معذرت کی تو وہ دونوں ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوگئے ا ور کہنے لگے کہ میرا دل نہ توڑیے آپ کی خدمت تو ہمارے لیے دھرم کا درجہ رکھتی ہے آپ کے آنے سے یہ علاقہ جنت بن گیا ہے اور سچ پوچھئے تو میری عید تو شروع ہی آپ کے دیدار سے ہوئی ہے، کچھ دیر وہ اسی طرح کی خوشامدانہ باتیں کرتے رہے اور پھر طارق کے ہاتھ چُوم کر اُلٹے پائوں کمرے سے باہر نکل گئے۔
طارق نے بتایا کہ کچھ دیر بعد انھیں اُسی شخص کی اُونچی آواز میں چنگھاڑنے کی سی آوازیں آئیں۔ طارق نے متعلقہ عملے کو بلایا اور پوچھا کہ چوہدری صاحب کس بات پر ناراض ہو رہے تھے مگر ملازم سر جھکا کریہی کہتے رہے کہ کچھ نہیں جی کچھ بس ایسے ہی ... چوہدری صاحب کی طبیعت ہی ایسی ہے۔ طارق نے قدرے غصے سے دوبارہ پوچھا کہ وہ کس بات پر ناراض ہو رہے تھے اس پر ایک ملازم نے رک رک کر کہا صاحب جی وہ اس بات پر ناراض ہو رہے تھے کہ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ صاحب کی ٹرانسفر ہوگئی ہے ۔
''دامِ خیال'' ایک راست فکر اور جہاندیدہ انسان کی ایسی رودادِ حیات ہے کہ آپ اُسے ایک بار شروع کرنے کے بعد پڑھتے چلے جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ طارق محمود بے شک اشفاق احمد جیسا بے مثال قصہ گو نہ ہو مگر اُس کی افسانہ نگاری اور دیگر تحریروں کی خوشبو اس کتاب کے ایک ایک صفحے پر پھیلی ہوئی ہے اور یہ اُن چند کتابوں میں سے ایک ہے ،جنھیں آپ آج کے تیز رفتار اور کتاب سے دوری کے دورمیں بھی ایک سے زیادہ بار پڑھ سکتے ہیں اور میں یہ بات مصنف سے اپنی دوستی اور پسندیدگی کی وجہ سے نہیں کہہ رہا اور مجھے یقین ہے کہ میری اس بات کی گواہی وہ سب دوست دیں گے، جنھیں اس کے مطالعے کا موقع ملے گا۔