نیب اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی
صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ بیوروکریسی اور کاروباری طبقہ بھی نیب کے خاتمے پر بضد ہے
نیب کے حوالے سے کئی سوال آج بہت اہم ہیں۔ کیا نیب نے پاکستان میںکرپشن کے خاتمے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ کیا نیب کی کوئی کارکردگی رہی ہے۔ کیا نیب ملک میں پولیٹیکل انجینئرنگ کا ایک آلہ کار رہا ہے۔ کیا نیب میں کرپشن ہے۔ نیب کس کے اشاروں پر چلتا رہا ہے۔
لوگ نیب کے سبکدوش ہونے والے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی کارکردگی اور ان کی پالیسیوں پر بھی بہت سے سوال اٹھاتے ہیں۔ کیا انھوں نے نیب کو اس قدر متنازعہ نہیں بنا دیا ہے کہ آج نیب کی بقا بھی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ اسی لیے آج نیب کے حوالے سے ایسی قانون سازیاں سامنے آرہی ہیں جن کا شاید جسٹس (ر) جاوید اقبال سے پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
آج یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ نیب اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے۔ صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ بیوروکریسی اور کاروباری طبقہ بھی نیب کے خاتمے پر بضد ہے۔ اور ان کا فیصلہ ہے کہ جب تک نیب موجود ہے وہ کام نہیں کریں گے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ایک اجلاس میں نیب کے افسران اور اہلکاروں کے اثاثوں کی بھی چھان بین کا حکم دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اچھا حکم ہے۔ نیب کے حوالے سے بہت سی داستانیں مشہور ہیں۔ ان کے سچے اور جھوٹے ہونے کے بارے میں کہنا مشکل ہے لیکن حالات و واقعات ان کہانیوں کے حق میں گواہی دیتے ہیں۔ کیا نیب میں سب ٹھیک ہے۔ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ نیب میں سب ٹھیک نہیں ہے۔ وہاں تفتیش ٹھیک نہیں ہے۔ وہاں انکوائری کے معاملات شفاف نہیں ہیں۔ کس کیس کو پر لگ جائیں اور کس کیس کو بند کر دیا جائے اس کی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتی۔ فیصلوں میں شفافیت پر ایک سوال ضرور ہے۔ اسی وجہ سے داستانیں بھی ہیں۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی دفعہ بڑے بڑے معاملات پر سرد مہری دکھائی جاتی ہے اور کئی دفعہ چھوٹے چھوٹے معمولی معاملات پر نیب بہت متحرک نظر آتا ہے۔ کہیں اربوں پر خاموشی ہے اور کہیں لاکھوں پر پھرتیاں نظر آتی ہیں۔ معاشرہ میں سب سے بڑی سفارش نیب کے افسران کی ہی بن گئی تھی۔سرکاری افسران ان کے کام کو نہ کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے تھے۔ کئی کئی ماہ افسران کی انکوائریاں زیر التو رکھنا بھی ان کو دباؤ میں رکھنے کا ایک طریقہ ہی تھا۔ نیب کی انکوائری کا لیٹر ان کی ترقیاں اور پوسٹنگ رکوا دیتا ہے۔ پھر چاہے یہ انکوائری کئی سال ہی زیر التو ہی کیوں نہ رہے۔ اس لیے افسر شاہی کا غصہ بے جا نہیں ہے۔
نیب میں اچھے لوگ بھی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کاروباری لوگوں کے معاملات میں داستانیں سامنے آئی ہیں۔ پلی بارگین میں داستانیں سامنے آئی ہیں۔ماضی میں بھی نیب کے چیئرمین کو جب قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بلایا تو اس کو بہت ایشو بنانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو نیب کے احتساب کا حق ہونا چاہیے۔ نیب کو اس احتساب سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ماضی میں اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ جس نے بھی نیب پر سوال اٹھانے کی کوشش کی اس کے خلاف کوئی انکوائری بنا کر اس احتساب سے بچنے کی کوشش کی گئی۔ آج نور عالم کے کیس میں بھی یہی کیا گیا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نیب نے آج تک کتنی ریکوری کی ہے۔
نیب میں انکوائریوں کا نظام کتنا شفاف ہے۔ پلی بارگین کے کیا اصول ہیں۔ کس کو کتنی مدت دینی ہے یہ صوابدید کیوں ہے۔ اس پر نیب نے آج تک اپنے اندر کوئی واضع قواعد کیوں نہیں بنائے۔ ہر کیس میں نیا اصول کیوں نظر آتا ہے۔ اس سب کا احتساب کون کرے گا۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس کا بہترین فورم ہے۔ میں نئی قانون سازی کی اس شق کے حق میں ہوں کہ جب تک کیس فائنل ہو جائے نیب کسی بھی انکوائری کی تفصیلات پبلک نہ کرے۔ یہ میڈیا ٹرائل کی پالیسی نے نیب کو فائدہ نہیں نقصان پہنچایا ہے۔ نیب کو سمجھنا چاہیے کہ وہ میڈیا کی جنگ نہیں جیت سکتا۔ یہ اس کا کام نہیں ہے۔ غلط ریفرنس پر سزا ہونی چاہیے۔ کسی کی زندگی سے کھیلنے کی کھلی اجازت کیسے ہونی چاہیے۔ سزا ہونی چاہیے۔