افغانستان کا نظام حکومت
افغانستان میں جو نظام نافذ ہے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن اسلامی نہیں ہو سکتا
افغانستان کی صورت حال میں' پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی فکر ہے' طالبان حکومت اس تنظیم کی مکمل پشت پناہی کر رہی ہے' یہ تنظیم مستقل طور پر پاکستان کے اندر دہشت گرد حملے کر رہی ہے اور خاص کر سیکیورٹی اداروں کے افسروں اور جوانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
اس تنظیم نے صرف اپریل، مئی 2022 کے دوران میں افغانستان کی سرزمین سے پاکستانی علاقے کے اندر 25سے زیادہ حملے کیے ہیں' پاکستان نے افغانستان کی طالبان حکومت سے کئی بار مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے سرحد کے ساتھ علاقوں کو محفوظ بنائے اور پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے' اس کے جواب میں افغان طالبان حکومت نے خوست اور کنڑ میں TTP کے ٹھکانوں پر حملوں کا پاکستان کو ذمے دار ٹھرایا تھا' طالبان حکومت نے پاکستان کی اس درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
جس میں کہا گیا تھا کہ TTP کے لیڈروں اور ارکان کو افغانستان سے نکالا جائے' طالبان حکومت نے TTP کو پاکستان پر حملوں سے روکنے اور اس تنظیم کو محدود کرنے کے لیے بھی کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی ہے بلکہ پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کرے۔ ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے ہیں' اس سلسلے میں جنگ بندی بھی کی گئی ہے لیکن حملے پھر بھی ہو رہے ہیں' یہ مذاکرات افغان طالبان خصوصاً وزیر داخلہ سراج الحق حقانی کے توسط سے ہو رہے ہیں۔
یوں ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت اور افغانستان کے وزیر داخلہ سراج حقانی ایک دوسرے کے لیے کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ پاکستان نے تو ان کے مطالبے پر بہت سے ایسے لوگ جو دہشت گردی کے جرائم کے تحت جیلوں میں بند تھے ، ان کو رہا کر دیا ہے۔ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں کے عمائدین پر مشتمل ایک 60رکنی جرگہ (پنچائت) بھی کابل گیا تھا تاکہ پاکستانی طالبان سے بات چیت کرے لیکن طالبان کے سخت رویے اور مطالبات کی وجہ سے جرگہ ناکام واپس آگیا' کیونکہ اس جرگے کو نہ اختیار تھا اور نہ طالبان کے مطالبات قابل قبول ہو سکتے ہیں' اس سے قبل ریاستی اداروں کا جرگہ بھی مذاکرات کرچکا تھا۔
اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے متعلق پاکستانی حکومت کی پالیسی کیا ہے؟ کیا حکومت اس تنظیم کو مکمل ختم کرنا چاہتی ہے یا ان کو ایک غیر مسلح تنظیم میں تبدیل کرنا چاہتی ہے؟ کیا ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرت کی میز پر بیٹھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان نے TTP کی تنظیم کو ایک جائز تنظیم تسلیم کرلیا ہے؟ بہرحال یہ طے ہے کہ اس کرنے سے پاکستان کی سلامتی کو زیادہ خطرات درپیش ہو سکتے ہیں' دونوں ملکوں کی سرحد پر اور باہمی تعلقات میں کشیدگی سے دہشت گرد فائدہ اٹھائیں گے اور اپنی کارrوائیاں تیز کرنے کا موقع ان کو ملے گا۔
پاکستان کو TTP کے خطرے کے علاوہ افغانستان کے بارے میں دیگر پریشانیاں بھی ہیں' مثلاً طالبان حکومت ملک کے سماجی' معاشی اور سفارتی مسائل حل کرنے میں ناکام چلی آرہی ہے' افغانستان بدترین عالمی اور علاقائی تنہائی کا شکار ہے۔ پاکستان اس حکومت کے ساتھ باقاعدہ تجارتی تعلقات نہیں رکھ سکتا۔ طالبان حکومت سخت گیر پالیسی کی وجہ سے ماڈریٹ سوچ رکھنے والے افغان باشندوں کا انخلا جا رہی ہے جب کہ ناخواندہ، غیر ہنرمند اور غریب لوگ پاکستان میں داخلے کی کوشش کرتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں سماجی اور معاشی مسائل شدید ہو رہے ہیں۔
پاکستان کا افغان طالبان پر اثر و رسوخ بھی کم ہو رہا ہے' اس کے باوجود بین الاقوامی برادری پاکستان سے توقع رکھتی ہے کہ وہ طالبان کو بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے وعدوں پر عمل کرنے پر مجبور کرے' حالیہ اقدامات جس میں خواتین کے پردے کے بارے میں احکام بھی شامل ہیں' اس بات کا ثبوت ہیں کہ طالبان اپنے رجعت پسند نظریات کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں اور مستقبل میں اور بھی رجعتی اقدامات کریں گے۔
داعش نے بھی طالبان کو سخت اقدامات کرنے پر مجبور کر دیا ہے جن سے ان کے ہمسایوں کی سلامتی کو خطرات درپیش ہیں' پاکستان میں بعض حلقے اس بات پر خوشیاں منا رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان فتح یاب ہوگئے ہیں حالانکہ ان کے اقدامات سے افغانستان تباہی کی طرف جا رہا ہے اور کھنڈر بنتا جا رہا ہے۔
افغانستان کی صورت حال کے کئی پہلو ہیں' جو تجزیے کے قابل ہیں'مثلاً یہ سوال کہ کیا وہاں اسلامی نظام نافذ ہے؟ پاکستان کا مخصوص طبقہ، خصوصاً خیبرپختونخوا کا مخصوص طبقہ، یہ کہے گا کہ وہاں اسلامی نظام نافذ ہے' افغانستان میں فحاشی اور عریانی نہیں ہے' وہاں کافرانہ مغربی جمہوریت کے بجائے اسلامی خلافت کا نظام ہے' وہاں سود کی ممانعت ہے' پورے ملک میں کوئی کلب' تھیٹر یا سینما نہیں ہے' شراب خانے اور جوئے خانہ نہیں ہیں' کوئی عورت بغیر برقع کے باہر نہیں نکل سکتی' ٹی وی پر بھی عورت پردے میں خبریں پڑھتی ہے۔
یہ ساری باتیں وہی ہیں جن کا مذہبی زعماء پاکستان میں پرچار کرتے ہیں اور پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے' کیا واقعی یہ اسلامی نظام کا ماڈل ہے؟ اگر یہ درست تصویر ہے تو پھر اس کے ثمرات کہاں ہیں؟ جب افغانستان کے حکمران ملا عمر صاحب تھے' پانچ سال تک وہ بلا شرکت غیرے' افغانستان کے سیاہ وسفید کے مالک رہے' کیا اس وقت یہ ملک ایک ماڈل اسلامی ریاست بن سکا تھا؟ اگر نہیں تو اب کیسے بنے گا؟ اب تو وہاں بھوک اور افلاس کا ڈیرا ہے' شاید اسلامی ریاست کا ماڈل وہ نہیں جو طالبان افغانستان میں رائج کرنا چاہتے ہیں۔
اسلامی نظام کے داعی چاہے پاکستان میں ہوں یا افغانستان میں' ان کی تان عورت' فحاشی اور سود پر ٹوٹتی ہے' ان کے خیال میں تمام مسائل کا حل' فحاشی اور سود کے خاتمے اور عورت کے پردے میں پوشیدہ ہے' آپ سوال کریں کہ معاشرے میں جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں؟ جواب ملے گا فحاشی کی وجہ سے' لوگ غربت کا شکار کیوں ہیں؟ سودی نظام کی وجہ سے' اگر یہ وجوہات ہیں تو افغانستان نے تو یہ ماڈل نافذ کر دیا، پھر وہاں غربت کیوں ہے؟ افغانستان کے جہادی گروپوں کی ابتدائی حکومت اور پھر ملا عمر کے دور سے لے کر آج تک پورا ملک کھنڈر بنا ہوا ہے۔
بھوک ' افلاس اور خانہ جنگی کا وہاں راج ہے' آج مغرب میں جہاں جہاں فلاحی ریاستیں قائم ہیں' وہ سماجی انصاف کے اس اصول پر کھڑی ہیں' وہاں ہر شخص قانون کے سامنے برابر ہے اور ہر کوئی آزادی سے اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے' اگر دائیں بازو کے سخت گیر لوگ افغان طالبان کے نظام کو اسلامی ثابت کریں گے' تووہ غلطی کر رہے ہیں کیونکہ افغانستان میں جو نظام نافذ ہے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن اسلامی نہیں ہو سکتا۔
کیا طالبان کی حکومت اور کابینہ اسلامی اصولوں کے تحت میرٹ پر منتخب ہوئی ہے؟ اگر وہ عبوری سیٹ اپ ہے تو کیا افغانستان میں بسنے والی تمام قومیتوں اور مذہبی اقلیتوں کو عبوری حکومت میں بھر پور نمایندگی دی گئی ہے؟ ریاست اپنے تمام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمے دار ہے' انصاف کے آگے سب برابر ہیں' کیا افغانستان میں ایسے نظام کے نفاذ کا امکان ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ طالبان قیادت کی فہم کے مطابق ان کا اپنا نظام ہے، اسلامی نظام نہیں ہے۔
اس تنظیم نے صرف اپریل، مئی 2022 کے دوران میں افغانستان کی سرزمین سے پاکستانی علاقے کے اندر 25سے زیادہ حملے کیے ہیں' پاکستان نے افغانستان کی طالبان حکومت سے کئی بار مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے سرحد کے ساتھ علاقوں کو محفوظ بنائے اور پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے' اس کے جواب میں افغان طالبان حکومت نے خوست اور کنڑ میں TTP کے ٹھکانوں پر حملوں کا پاکستان کو ذمے دار ٹھرایا تھا' طالبان حکومت نے پاکستان کی اس درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
جس میں کہا گیا تھا کہ TTP کے لیڈروں اور ارکان کو افغانستان سے نکالا جائے' طالبان حکومت نے TTP کو پاکستان پر حملوں سے روکنے اور اس تنظیم کو محدود کرنے کے لیے بھی کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی ہے بلکہ پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کرے۔ ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے ہیں' اس سلسلے میں جنگ بندی بھی کی گئی ہے لیکن حملے پھر بھی ہو رہے ہیں' یہ مذاکرات افغان طالبان خصوصاً وزیر داخلہ سراج الحق حقانی کے توسط سے ہو رہے ہیں۔
یوں ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت اور افغانستان کے وزیر داخلہ سراج حقانی ایک دوسرے کے لیے کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ پاکستان نے تو ان کے مطالبے پر بہت سے ایسے لوگ جو دہشت گردی کے جرائم کے تحت جیلوں میں بند تھے ، ان کو رہا کر دیا ہے۔ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں کے عمائدین پر مشتمل ایک 60رکنی جرگہ (پنچائت) بھی کابل گیا تھا تاکہ پاکستانی طالبان سے بات چیت کرے لیکن طالبان کے سخت رویے اور مطالبات کی وجہ سے جرگہ ناکام واپس آگیا' کیونکہ اس جرگے کو نہ اختیار تھا اور نہ طالبان کے مطالبات قابل قبول ہو سکتے ہیں' اس سے قبل ریاستی اداروں کا جرگہ بھی مذاکرات کرچکا تھا۔
اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے متعلق پاکستانی حکومت کی پالیسی کیا ہے؟ کیا حکومت اس تنظیم کو مکمل ختم کرنا چاہتی ہے یا ان کو ایک غیر مسلح تنظیم میں تبدیل کرنا چاہتی ہے؟ کیا ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرت کی میز پر بیٹھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان نے TTP کی تنظیم کو ایک جائز تنظیم تسلیم کرلیا ہے؟ بہرحال یہ طے ہے کہ اس کرنے سے پاکستان کی سلامتی کو زیادہ خطرات درپیش ہو سکتے ہیں' دونوں ملکوں کی سرحد پر اور باہمی تعلقات میں کشیدگی سے دہشت گرد فائدہ اٹھائیں گے اور اپنی کارrوائیاں تیز کرنے کا موقع ان کو ملے گا۔
پاکستان کو TTP کے خطرے کے علاوہ افغانستان کے بارے میں دیگر پریشانیاں بھی ہیں' مثلاً طالبان حکومت ملک کے سماجی' معاشی اور سفارتی مسائل حل کرنے میں ناکام چلی آرہی ہے' افغانستان بدترین عالمی اور علاقائی تنہائی کا شکار ہے۔ پاکستان اس حکومت کے ساتھ باقاعدہ تجارتی تعلقات نہیں رکھ سکتا۔ طالبان حکومت سخت گیر پالیسی کی وجہ سے ماڈریٹ سوچ رکھنے والے افغان باشندوں کا انخلا جا رہی ہے جب کہ ناخواندہ، غیر ہنرمند اور غریب لوگ پاکستان میں داخلے کی کوشش کرتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں سماجی اور معاشی مسائل شدید ہو رہے ہیں۔
پاکستان کا افغان طالبان پر اثر و رسوخ بھی کم ہو رہا ہے' اس کے باوجود بین الاقوامی برادری پاکستان سے توقع رکھتی ہے کہ وہ طالبان کو بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے وعدوں پر عمل کرنے پر مجبور کرے' حالیہ اقدامات جس میں خواتین کے پردے کے بارے میں احکام بھی شامل ہیں' اس بات کا ثبوت ہیں کہ طالبان اپنے رجعت پسند نظریات کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں اور مستقبل میں اور بھی رجعتی اقدامات کریں گے۔
داعش نے بھی طالبان کو سخت اقدامات کرنے پر مجبور کر دیا ہے جن سے ان کے ہمسایوں کی سلامتی کو خطرات درپیش ہیں' پاکستان میں بعض حلقے اس بات پر خوشیاں منا رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان فتح یاب ہوگئے ہیں حالانکہ ان کے اقدامات سے افغانستان تباہی کی طرف جا رہا ہے اور کھنڈر بنتا جا رہا ہے۔
افغانستان کی صورت حال کے کئی پہلو ہیں' جو تجزیے کے قابل ہیں'مثلاً یہ سوال کہ کیا وہاں اسلامی نظام نافذ ہے؟ پاکستان کا مخصوص طبقہ، خصوصاً خیبرپختونخوا کا مخصوص طبقہ، یہ کہے گا کہ وہاں اسلامی نظام نافذ ہے' افغانستان میں فحاشی اور عریانی نہیں ہے' وہاں کافرانہ مغربی جمہوریت کے بجائے اسلامی خلافت کا نظام ہے' وہاں سود کی ممانعت ہے' پورے ملک میں کوئی کلب' تھیٹر یا سینما نہیں ہے' شراب خانے اور جوئے خانہ نہیں ہیں' کوئی عورت بغیر برقع کے باہر نہیں نکل سکتی' ٹی وی پر بھی عورت پردے میں خبریں پڑھتی ہے۔
یہ ساری باتیں وہی ہیں جن کا مذہبی زعماء پاکستان میں پرچار کرتے ہیں اور پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے' کیا واقعی یہ اسلامی نظام کا ماڈل ہے؟ اگر یہ درست تصویر ہے تو پھر اس کے ثمرات کہاں ہیں؟ جب افغانستان کے حکمران ملا عمر صاحب تھے' پانچ سال تک وہ بلا شرکت غیرے' افغانستان کے سیاہ وسفید کے مالک رہے' کیا اس وقت یہ ملک ایک ماڈل اسلامی ریاست بن سکا تھا؟ اگر نہیں تو اب کیسے بنے گا؟ اب تو وہاں بھوک اور افلاس کا ڈیرا ہے' شاید اسلامی ریاست کا ماڈل وہ نہیں جو طالبان افغانستان میں رائج کرنا چاہتے ہیں۔
اسلامی نظام کے داعی چاہے پاکستان میں ہوں یا افغانستان میں' ان کی تان عورت' فحاشی اور سود پر ٹوٹتی ہے' ان کے خیال میں تمام مسائل کا حل' فحاشی اور سود کے خاتمے اور عورت کے پردے میں پوشیدہ ہے' آپ سوال کریں کہ معاشرے میں جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں؟ جواب ملے گا فحاشی کی وجہ سے' لوگ غربت کا شکار کیوں ہیں؟ سودی نظام کی وجہ سے' اگر یہ وجوہات ہیں تو افغانستان نے تو یہ ماڈل نافذ کر دیا، پھر وہاں غربت کیوں ہے؟ افغانستان کے جہادی گروپوں کی ابتدائی حکومت اور پھر ملا عمر کے دور سے لے کر آج تک پورا ملک کھنڈر بنا ہوا ہے۔
بھوک ' افلاس اور خانہ جنگی کا وہاں راج ہے' آج مغرب میں جہاں جہاں فلاحی ریاستیں قائم ہیں' وہ سماجی انصاف کے اس اصول پر کھڑی ہیں' وہاں ہر شخص قانون کے سامنے برابر ہے اور ہر کوئی آزادی سے اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے' اگر دائیں بازو کے سخت گیر لوگ افغان طالبان کے نظام کو اسلامی ثابت کریں گے' تووہ غلطی کر رہے ہیں کیونکہ افغانستان میں جو نظام نافذ ہے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن اسلامی نہیں ہو سکتا۔
کیا طالبان کی حکومت اور کابینہ اسلامی اصولوں کے تحت میرٹ پر منتخب ہوئی ہے؟ اگر وہ عبوری سیٹ اپ ہے تو کیا افغانستان میں بسنے والی تمام قومیتوں اور مذہبی اقلیتوں کو عبوری حکومت میں بھر پور نمایندگی دی گئی ہے؟ ریاست اپنے تمام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمے دار ہے' انصاف کے آگے سب برابر ہیں' کیا افغانستان میں ایسے نظام کے نفاذ کا امکان ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ طالبان قیادت کی فہم کے مطابق ان کا اپنا نظام ہے، اسلامی نظام نہیں ہے۔