سیاسی مکالمے کی برکات
سب کچھ کھو کر اگر مکالمے کی میز پر آئیں تو یہ دانشمندی اور حکمت نہیں کہلا سکتی
کراچی:
حالیہ ایام میں یہ بات سب سے پہلے نون لیگ کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر اعظم، جناب شاہد خاقان عباسی، نے ایک انٹرویو میں کہی ۔ پھر اس کی تائید و تصدیق میں وزیر اعظم جناب شہباز شریف کئی قدم آگے بڑھ گئے۔
عباسی صاحب نے کہا : ''وزیر اعظم شہباز شریف کو سیاسی ڈائیلاگ کرنا چاہیے۔ آج ملک کو ایک نئے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ کیا گالم گلوچ کرنے اور لوگوں کو حملہ آور ہونے کی شہ دے کر یہ نظام آگے بڑھ سکے گا؟ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر بیٹھنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ آگے کیسے بڑھنا ہے اور ملکی معیشت کو گڑھے سے کیسے نکالنا ہے؟ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ یہ سیاسی نظام ہے، دشمنی نہیں ہے۔ سب کو سیاسی مکالمے کے لیے دعوت دینی چاہیے ۔'' اور اس کے بعد وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے بھی کھلے بندوں وطنِ عزیز کے سبھی سیاستدانوں کو گرینڈ ڈائیلاگ کی دعوت دی ہے۔
جناب شاہد خاقان عباسی متحمل مزاج سیاستدان ہیں۔ وہ صبر، ٹھنڈے لہجے اور شائستگی کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ موجودہ سیاست میں پائی جانے والی شدید حدت کو ٹھنڈا کرنے اور ملکی مفاد میں عباسی صاحب نے جو تجویز دی ہے، وہ اُن کے مزاج کے عین مطابق ہے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ متحارب فریقین میں سیاسی مکالمے کی پہل کرے گا کون ؟ ہمارے سیاستدان جس ماحول میں گھر گئے ہیں، اس میں پہل کرنے کے لیے اپنی ناک اور مونچھ نیچی کرنا سہل نہیں ہے ۔
لیکن اگر باہمی سیاسی مکالمے کی پہل نہیں کی جائے گی تو خدانخواستہ لڑتے لڑتے ایک کی دُم اور ایک کی چونچ گم ہو جانے کے خدشات بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے بالکل بجا کہا ہے کہ یہ سیاسی نظام ہے، دشمنی نہیں ہے۔ ماضی قریب میں دو بڑی سیاسی جماعتوں ( نون لیگ اور پیپلز پارٹی) نے دشمنی کرکے کیا حاصل کر لیا تھا؟ تھک ہار کر نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو لندن میں میثاقِ جمہوریت کرنا پڑا تھا۔ یہ میثاق دراصل سیاست میں مکالمے کی فتح تھی۔ آج ہمیں اتحادی حکومت میں جس طرح پیپلز پارٹی اور نون لیگ شیروشکر نظر آتی ہیں تو درحقیقت اس اتحاد کی جڑیں اُسی میثاقِ جمہوریت میں پائی جاتی ہیں۔
سب کچھ کھو کر اگر مکالمے کی میز پر آئیں تو یہ دانشمندی اور حکمت نہیں کہلا سکتی۔ جناب شہباز شریف نے جناب عمران خان کو قومی اسمبلی کے فورم پر ''میثاقِ معیشت'' کرنے کی پیشکش کی تھی۔ خان صاحب نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ خان صاحب نے ان تینوں بڑی جماعتوں سے مصافحہ نہ کرنے کا جو بیانیہ ترتیب دیا تھا، اِسی میں اُن کی سیاسی و حکمرانی بقا تھی۔ ہم سب نے مگر دیکھا کہ اس عدم مکالمے کی فضا نے سب کا نقصان کیا ہے۔ حتیٰ کہ خان صاحب کی حکومت بھی اِسی عدم مکالمے کی فضا کا شکار بن گئی۔
آج کے حکمرانوں اور آج کی اپوزیشن میں سیاسی مکالمہ نہ ہونے کا نتیجہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو کئی آئینی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اِسے بد قسمتی ہی کہا جائے گا کہ جنابِ صدرِ مملکت بھی آج کی عمرانی اپوزیشن کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔ اس طرزِ عمل نے فریقین میں مزید کشا کش پیدا کی ہے۔ صدر صاحب اور وزیر اعظم میں باہمی عدم تعاون اور عدم مکالمے کا یہ نتیجہ بھی نکلا ہے کہ صدر صاحب نے نیب اور الیکشن بلز پر اپنے اعتراض لگا دیے ہیں اور دستخط کرنے کے بجائے نظرِ ثانی کے لیے واپس حکومت کو بھجوا دیے ہیں۔
اس اقدام نے شہباز شریف کی حکومت کے لیے ایک سبکی کی سی کیفیت پیدا کی ہے۔ اس سے قبل پنجاب میں گورنر نامزد کیے جانے کے حوالے سے صدر صاحب کے اقدامات کے پس منظر میں بھی سارے ملک نے تماشہ دیکھا ہے۔ یوں اس عدم مکالمے کی فضا نے حقیقی معنوں میں ملک میں دو حکومتوں کا تاثر گہرا کر دیا ہے۔ اِس ناقابلِ رشک ماحول کے پیش منظر میں نون لیگی سینیٹر، جناب عرفان صدیقی، کو طنزاً کہنا پڑا ہے :''عارف علوی صاحب ایوانِ صدر چھوڑ کر اپنے لیڈر کی دَم توڑتی سیاست کا کچھ کریں۔'' اگر صحتمند سیاسی مکالمے کی فضا رہتی تو ایسے بیان داغنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔
آئیڈیل صورت تو یہ ہے کہ ایوانِ صدر کو وزیر اعظم سے محاذ آرائی سے حتمی طور پر گریز کرنا چاہیے۔ موجودہ منظر مگر قطعی مختلف ہے۔ ملک کی معاشی نبضیں ڈُوب رہی ہیں اور ہماری سیاست کے انداز ہی نرالے ہیں۔
ایسے ماحول میں اگر کوئی طاقتور اُٹھے گا اور متحارب فریقین کو طاقت اور دبدبے سے مکالمے اور صلح کی ایک میز پر بٹھانے کی کوشش کرے گا تو سب خوشی خوشی مکالمے کی میز پر آ بیٹھیں گے۔ یہ نوبت مگر آنے سے قبل ہی کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ حکمت و دانائی کے ساتھ، از خود، سبھی فریقین سیاسی مکالمے کی میز پر آ بیٹھیں اور ملک و قوم کے لیے اُمید اور آس کی نئی شمعیں روشن کریں؟ وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تو ایسی تجاویز دے دی ہیں لیکن کیا اس پر فریقِ ثانی بھی عمل کر سکتا ہے؟
جناب عمران خان کے لہجے اور جلسوں میں اُن کی جانب سے اُٹھنے والی آوازوں کو پیشِ نظر رکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال ایسے کسی سیاسی مکالمے کے وقوع پذیر ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے فرمایا ہے : ''ہم اِس حکومت سے گرینڈ ڈائیلاگ نہیں کریں گے۔'' خان صاحب کی اس روش سے نون لیگی صفوں میں بھی سختی دیکھنے میں آئی ہے۔
مثال کے طور پر وزیر داخلہ، جناب رانا ثناء اللہ، سے جب ایک نجی ٹی وی کے اینکر نے یہ پوچھا کہ ''ملک کے وسیع ترمفاد میں عمران خان کی طرف مکالمے کے لیے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا جا سکتا؟'' تو جواباً کہا گیا:'' ہم تو تیار ہیں لیکن عمران خان نے ہمارے لیے جو روش اور ضد اپنا رکھی ہے، اس میں یہ فی الحال ممکن نظر نہیں آ رہا۔'' رانا ثناء اللہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں مزید کہا:'' اگر عمران خان ہم سے مکالمے پر راضی نہیں ہیں تو ہم کیا۔
اُن کے مزارع ہیں کہ اُن سے بات چیت کرنے کی درخواست کرتے رہیں ؟'' لیکن اب تو رانا صاحب نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ خان صاحب سے جلد انتخابات کے موضوع پر بھی بات ہو سکتی ہے۔ حکومت کی بہرحال، صلح کے لیے، زیادہ ذمے داریاں ہوتی ہیں۔ اُسے ہی پہل کرنی چاہیے۔ یورپی ممالک آپس میں لڑتے لڑتے آخر کار تھک ہار کر یورپین یونین بنانے پر مجبور ہوگئے ہیں تو ہمارے سیاستدان کیوں ایک میز پر نہیں بیٹھ سکتے؟ سیاست تو مکالمے اور لچک ہی کا دوسرا نام ہے۔
حالیہ ایام میں یہ بات سب سے پہلے نون لیگ کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر اعظم، جناب شاہد خاقان عباسی، نے ایک انٹرویو میں کہی ۔ پھر اس کی تائید و تصدیق میں وزیر اعظم جناب شہباز شریف کئی قدم آگے بڑھ گئے۔
عباسی صاحب نے کہا : ''وزیر اعظم شہباز شریف کو سیاسی ڈائیلاگ کرنا چاہیے۔ آج ملک کو ایک نئے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ کیا گالم گلوچ کرنے اور لوگوں کو حملہ آور ہونے کی شہ دے کر یہ نظام آگے بڑھ سکے گا؟ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر بیٹھنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ آگے کیسے بڑھنا ہے اور ملکی معیشت کو گڑھے سے کیسے نکالنا ہے؟ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ یہ سیاسی نظام ہے، دشمنی نہیں ہے۔ سب کو سیاسی مکالمے کے لیے دعوت دینی چاہیے ۔'' اور اس کے بعد وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے بھی کھلے بندوں وطنِ عزیز کے سبھی سیاستدانوں کو گرینڈ ڈائیلاگ کی دعوت دی ہے۔
جناب شاہد خاقان عباسی متحمل مزاج سیاستدان ہیں۔ وہ صبر، ٹھنڈے لہجے اور شائستگی کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ موجودہ سیاست میں پائی جانے والی شدید حدت کو ٹھنڈا کرنے اور ملکی مفاد میں عباسی صاحب نے جو تجویز دی ہے، وہ اُن کے مزاج کے عین مطابق ہے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ متحارب فریقین میں سیاسی مکالمے کی پہل کرے گا کون ؟ ہمارے سیاستدان جس ماحول میں گھر گئے ہیں، اس میں پہل کرنے کے لیے اپنی ناک اور مونچھ نیچی کرنا سہل نہیں ہے ۔
لیکن اگر باہمی سیاسی مکالمے کی پہل نہیں کی جائے گی تو خدانخواستہ لڑتے لڑتے ایک کی دُم اور ایک کی چونچ گم ہو جانے کے خدشات بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے بالکل بجا کہا ہے کہ یہ سیاسی نظام ہے، دشمنی نہیں ہے۔ ماضی قریب میں دو بڑی سیاسی جماعتوں ( نون لیگ اور پیپلز پارٹی) نے دشمنی کرکے کیا حاصل کر لیا تھا؟ تھک ہار کر نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو لندن میں میثاقِ جمہوریت کرنا پڑا تھا۔ یہ میثاق دراصل سیاست میں مکالمے کی فتح تھی۔ آج ہمیں اتحادی حکومت میں جس طرح پیپلز پارٹی اور نون لیگ شیروشکر نظر آتی ہیں تو درحقیقت اس اتحاد کی جڑیں اُسی میثاقِ جمہوریت میں پائی جاتی ہیں۔
سب کچھ کھو کر اگر مکالمے کی میز پر آئیں تو یہ دانشمندی اور حکمت نہیں کہلا سکتی۔ جناب شہباز شریف نے جناب عمران خان کو قومی اسمبلی کے فورم پر ''میثاقِ معیشت'' کرنے کی پیشکش کی تھی۔ خان صاحب نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ خان صاحب نے ان تینوں بڑی جماعتوں سے مصافحہ نہ کرنے کا جو بیانیہ ترتیب دیا تھا، اِسی میں اُن کی سیاسی و حکمرانی بقا تھی۔ ہم سب نے مگر دیکھا کہ اس عدم مکالمے کی فضا نے سب کا نقصان کیا ہے۔ حتیٰ کہ خان صاحب کی حکومت بھی اِسی عدم مکالمے کی فضا کا شکار بن گئی۔
آج کے حکمرانوں اور آج کی اپوزیشن میں سیاسی مکالمہ نہ ہونے کا نتیجہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو کئی آئینی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اِسے بد قسمتی ہی کہا جائے گا کہ جنابِ صدرِ مملکت بھی آج کی عمرانی اپوزیشن کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔ اس طرزِ عمل نے فریقین میں مزید کشا کش پیدا کی ہے۔ صدر صاحب اور وزیر اعظم میں باہمی عدم تعاون اور عدم مکالمے کا یہ نتیجہ بھی نکلا ہے کہ صدر صاحب نے نیب اور الیکشن بلز پر اپنے اعتراض لگا دیے ہیں اور دستخط کرنے کے بجائے نظرِ ثانی کے لیے واپس حکومت کو بھجوا دیے ہیں۔
اس اقدام نے شہباز شریف کی حکومت کے لیے ایک سبکی کی سی کیفیت پیدا کی ہے۔ اس سے قبل پنجاب میں گورنر نامزد کیے جانے کے حوالے سے صدر صاحب کے اقدامات کے پس منظر میں بھی سارے ملک نے تماشہ دیکھا ہے۔ یوں اس عدم مکالمے کی فضا نے حقیقی معنوں میں ملک میں دو حکومتوں کا تاثر گہرا کر دیا ہے۔ اِس ناقابلِ رشک ماحول کے پیش منظر میں نون لیگی سینیٹر، جناب عرفان صدیقی، کو طنزاً کہنا پڑا ہے :''عارف علوی صاحب ایوانِ صدر چھوڑ کر اپنے لیڈر کی دَم توڑتی سیاست کا کچھ کریں۔'' اگر صحتمند سیاسی مکالمے کی فضا رہتی تو ایسے بیان داغنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔
آئیڈیل صورت تو یہ ہے کہ ایوانِ صدر کو وزیر اعظم سے محاذ آرائی سے حتمی طور پر گریز کرنا چاہیے۔ موجودہ منظر مگر قطعی مختلف ہے۔ ملک کی معاشی نبضیں ڈُوب رہی ہیں اور ہماری سیاست کے انداز ہی نرالے ہیں۔
ایسے ماحول میں اگر کوئی طاقتور اُٹھے گا اور متحارب فریقین کو طاقت اور دبدبے سے مکالمے اور صلح کی ایک میز پر بٹھانے کی کوشش کرے گا تو سب خوشی خوشی مکالمے کی میز پر آ بیٹھیں گے۔ یہ نوبت مگر آنے سے قبل ہی کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ حکمت و دانائی کے ساتھ، از خود، سبھی فریقین سیاسی مکالمے کی میز پر آ بیٹھیں اور ملک و قوم کے لیے اُمید اور آس کی نئی شمعیں روشن کریں؟ وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تو ایسی تجاویز دے دی ہیں لیکن کیا اس پر فریقِ ثانی بھی عمل کر سکتا ہے؟
جناب عمران خان کے لہجے اور جلسوں میں اُن کی جانب سے اُٹھنے والی آوازوں کو پیشِ نظر رکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال ایسے کسی سیاسی مکالمے کے وقوع پذیر ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے فرمایا ہے : ''ہم اِس حکومت سے گرینڈ ڈائیلاگ نہیں کریں گے۔'' خان صاحب کی اس روش سے نون لیگی صفوں میں بھی سختی دیکھنے میں آئی ہے۔
مثال کے طور پر وزیر داخلہ، جناب رانا ثناء اللہ، سے جب ایک نجی ٹی وی کے اینکر نے یہ پوچھا کہ ''ملک کے وسیع ترمفاد میں عمران خان کی طرف مکالمے کے لیے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا جا سکتا؟'' تو جواباً کہا گیا:'' ہم تو تیار ہیں لیکن عمران خان نے ہمارے لیے جو روش اور ضد اپنا رکھی ہے، اس میں یہ فی الحال ممکن نظر نہیں آ رہا۔'' رانا ثناء اللہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں مزید کہا:'' اگر عمران خان ہم سے مکالمے پر راضی نہیں ہیں تو ہم کیا۔
اُن کے مزارع ہیں کہ اُن سے بات چیت کرنے کی درخواست کرتے رہیں ؟'' لیکن اب تو رانا صاحب نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ خان صاحب سے جلد انتخابات کے موضوع پر بھی بات ہو سکتی ہے۔ حکومت کی بہرحال، صلح کے لیے، زیادہ ذمے داریاں ہوتی ہیں۔ اُسے ہی پہل کرنی چاہیے۔ یورپی ممالک آپس میں لڑتے لڑتے آخر کار تھک ہار کر یورپین یونین بنانے پر مجبور ہوگئے ہیں تو ہمارے سیاستدان کیوں ایک میز پر نہیں بیٹھ سکتے؟ سیاست تو مکالمے اور لچک ہی کا دوسرا نام ہے۔