وقت سے پہلے انتہائی اقدام

عمران خان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ عوام کی قوتِ احتجاج کی ایک حد ہوتی ہے

gfhlb169@gmail.com

ISTANBUL:
جناب ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت سے پھانسی کی سزا سنائی جا چکی تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی ان کی اپیل ناکام رہی تھی۔ خدشہ تھا کہ سزا پر عمل درآمد کی اطلاع، عام ہوتے ہی کہیں بڑے پیمانے پر فسادات نہ پھوٹ پڑیں۔ ضیاء الحق نے مشورے شروع کر دیے کہ اس نازک صورتحال میں کیا حکمتِ عملی اپنائی جائے۔

اس بات کو دیکھا گیا کہ پیپلز پارٹی اشتعال میں آکر زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتی ہے۔ خیال کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کے کارکن اشتعال میں آ کر زیادہ سے زیادہ جو کر سکتے ہیں، وہ پھانسی سے پہلے ان سے کروا لیا جائے۔ جنرل ضیاء الحق کی ٹیم کی اس منصوبہ بندی کو کامیابی سے پیپلز پارٹی کی صفوں میں پھیلانے کے لیے ایک پولیس افسر کو چنا گیا جس نے کمال مہارت سے اُس وقت پارٹی کے ایک نوجوان لیڈر کو یہ مشورہ دیا، اس وقت یعنی پھانسی سے پہلے اگر خود سوزی کے چند واقعات ہوجائیں تو حکومتِ وقت ڈر کر بھٹو صاحب کو رعایت دینے پر مجبور ہو جائے گی۔

اس لیڈر نے محترمہ نصرت بھٹو کے کان میں یہ بات ڈالی تو محترمہ کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ پیپلز پارٹی نے اس اسکیم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کمیٹی چوک راولپنڈی اور چند دوسرے شہروں میں خود سوزی کروائی۔ احتجاج کے حوالے سے یہ ایک انتہائی قدم تھا جو غلط وقت پر یعنی صحیح وقت سے پہلے اُٹھا لیا گیا اور پھر جب بھٹو صاحب کو مجرمانہ طریقے سے پھانسی دے کر قتل کر دیا گیا تو احتجاج کرنے والا کوئی نہ تھا۔ بھٹو صاحب کو جس ہمالہ کے رونے کا یقین تھا اُس کا ایک آنسو بھی نہ بہا۔ سچ ہے کہ انتہائی قدم کو بہت سوچ سمجھ کر ہی اٹھانا چاہیے۔

یہ ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں غالباً محمد خان جونیجو مرحوم کی وزارتِ عظمیٰ کا دوسرا سال تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ پیپلز پارٹی نے اس موقع پر طے کیا کہ محترمہ وطن واپسی کے لیے لاہور ہوائی اڈے پر اتریں گی۔ اُن کے استقبال کے لیے لاہور کے علاوہ پورے ملک سے لوگ ہوائی اڈے اور مال روڈ لاہور پر جمع ہوگئے۔ محترمہ کو یہ عزت افزائی اس وجہ سے دی جا رہی تھی کیونکہ لوگ انھیں ان کے والد کی سیاسی وارث کے طور پر دیکھتے تھے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور کے ہوائی اڈے پر اتریں تو مجمع بہت پرجوش ہوگیا۔ محترمہ کا پروگرام یہ تھا کہ وہ ہوائی اڈے سے نکل کر مال روڈ لاہور کے راستے ٹاؤن ہال لاہور اور پوسٹ ماسٹر جنرل کے دفاتر سے داہنی جانب مڑ کر داتاگنج بخش سیدعلی ہجویری کے مزارِ پر حاضری دیں گی۔ ہوائی اڈے سے داتا صاحب کے مزار تک یہ سفر جو زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ گھنٹے کا ہونا چاہیے تھا اس میں تقریباً گیارہ گھنٹے لگ گئے۔ جلوس میں شامل افراد سامراج کے خلاف پرجوش نعرے لگا رہے تھے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کا فقید المثال استقبال دیکھ کر انتظامیہ کے ہوش اڑ گئے۔ وزیرِ اعظم جناب جونیجو کو مشورہ دیا گیا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نبٹا جائے۔ جناب جونیجو جیسا سادہ اور زیرک سیاست دان بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ کاش وہ ضیاء الحق کے فوجی دور میں وزیرِ اعظم نہ ہوتے بلکہ ایک صاف ستھرے جمہوری دور میں اقتدار میں ہوتے تو شاید آج پاکستانی سیاست کا رنگ کچھ اور ہوتا۔ ایک فوجی دور میں وہ جمہوریت کے لیے انتھک کوشش کرتے رہے۔ انھوں نے پہلے سال ہی کہہ دیا کہ مارشل لاء اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اور آخرِ کار وہ مارشل لاء ختم کروانے میں کامیاب ہوگئے۔

جناب جونیجو نے اس وقت کے فوجی اور سول افسران کا مشورہ ماننے سے انکار کر دیا اور معاملے کے ساتھ خالص جمہوری انداز میں نبٹنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے کاروان کو بلا روک ٹوک آگے بڑھنے دیا جائے، ہاں محترمہ کی سیکیورٹی کو ضرور یقینی بنایا جائے۔


لاہور کے ہوائی اڈے سے لے کر داتا صاحب تک لوگوں کا تاحدِ نگاہ ایک سیلاب تھا۔ لاہور سے محترمہ کا کارواں اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تو گوجرانوالہ سے نکلنے تک جمِ غفیر میں کمی آگئی تھی۔ محترمہ اگر لاہور میں ہی اپنا احتجاجی جلوس ختم کر دیتی تو ان کا سیاسی قد بہت بڑھ جاتا اور حکومت کے اوپر دباؤ والا مقصد بھی حاصل ہو جاتا لیکن وہ حکومت کی چال کو نہ سمجھ سکیں۔ دراصل بڑے مجمعے کو دیکھ کر عقلی فیصلے کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ان دو واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کے لیے ہر دفعہ آہنی ہاتھ استعمال کرنا ضروری نہیں اسی طرح جلسے جلوسوں کو دیکھ کر جذباتی فیصلے نہیں ہونے چاہئیں۔ عوامی جوش و خروش کو قائم رکھنا اور اسے بالکل صحیح وقت پر اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا بڑے سیاستدان کا کام ہے۔

انتہائی قدم کو صحیح وقت سے پہلے یا بعد میں اُٹھانے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ جناب عمران خاں نے کئی مرتبہ کہا کہ انھیں تحریکِ عدم اعتماد لائے جانے کا پچھلی جولائی سے پتہ تھا۔ اگر ایسا تھا تو سات آٹھ مہینے کیا کیا۔ یہ تو اس بات کا ثبوت ہوا کہ جناب عمران خان صحیح وقت پر صحیح فیصلے نہیں کر سکے۔ وہ شاید اس انتظار میں رہے کہ اسٹیبلشمنٹ اُس وقت کی حزب اختلاف کو جھاڑ پلاتے ہوئے جناب عمران خان کی مشکل ختم کر دے گی۔

اگر ایسا ہے تو یہ کوئی اچھی لیڈری نہیں۔ جناب عمران خان کو معلوم ہوگا کہ لانگ مارچ اور دھرنا انتہائی اقدامات ہیں اور یہ صحیح وقت پر اٹھانے چاہیئیں جب مطلوبہ نتائج نکلنے یقینی ہوں۔ اس بار تو طاہر القادری بھی ساتھ نہیں تھے۔ جناب عمران خان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ عوام کی قوتِ احتجاج کی ایک حد ہوتی ہے۔

آپ روز جلسے کر رہے ہوں تو کارکن جلدی تھک جاتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر لانگ مارچ کی کال بھی دے دی جائے تو دیکھیں کہ کہیں آپ اپنے کارکنوں کو بہت زیادہ امتحان میں تو نہیں ڈال رہے۔ کسی بھی احتجاج کو روزانہ کی بنیاد پر کرنے سے کارکنوں کے اندر Fatigue کا عنصر پیدا ہونا بہت فطری ہے۔

روزانہ ایک ہی تقریر بھی کارکنوں کے اندر Fatigue پیدا کر سکتی ہے۔ جناب عمران خان کے زیادہ تر پیروکار کھاتے پیتے فیشن ایبل گھرانوں سے ہیں۔ یہ وٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام کے اوپر تو بہت سرگرم رہ سکتے ہیں لیکن گرمی کی شدت اور حالات کی گرمی سہنے والے نہیں اور نہ ہی وہ سڑکوں پر آکر پولیس کا سامنا کرسکتے ہیں۔

اگر جناب عمران خان لانگ مارچ کی تاریخ نہ دیتے اور لانگ مارچ کی دھمکی دیتے رہتے تو حکومت کے اوپر بہت دباؤ ہوتا اور اس بات کا بہت امکان تھا کہ حکومت کی صفوں میں دراڑ پڑ جاتی لیکن صحیح وقت سے پہلے ناکام لانگ مارچ نے جناب عمران خان کے امیج کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ شاید کسی پولیس افسر )استعارہ( نے جناب عمران خان سے بھی وقت سے پہلے انتہائی قدم اُٹھوا دیا۔ جناب کو اپنی صفوں کے اندر لوگوں کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔
Load Next Story