اسوۂ حسنہ راہ بَر و راہ نما ﷺ
’’نیکی حُسنِ اخلاق کا نام ہے اور بُرائی وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تمہیں ناپسند ہو کہ لوگ اسے جانیں۔‘‘
لاہور:
رسول اکرم ﷺ نے اخلاق کو علم اور عبادات کی زینت قرار دیا ہے، قیامت کے دن مومن کے میزانِ عمل میں کوئی چیز حُسنِ اخلاق سے زیادہ باوزن نہیں ہوگی۔ حُسنِ اخلاق کی وجہ سے ہی مومن ہمیشہ روزے رکھنے والا اور تہجّد گزار کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ مسلم شریف کی روایت کا مفہوم ہے: ''نیکی حُسنِ اخلاق کا نام ہے اور بُرائی وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تمہیں ناپسند ہو کہ لوگ اسے جانیں۔''
نبی کریمؐ کے ارشاد کا مفہوم: ''تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے اچھا ہو۔''
اخلاق کی معمولی قسم یہ ہے کہ آدمی کا اخلاق جوابی اخلاق ہوکہ جو مجھ سے جیسا سلوک کرے گا، میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہے کروں گا، یہ عام اخلاق ہیں۔ اس کے مقابلے میں اعلی اخلاق یہ ہیں کہ آدمی دوسرے کے رویّے کی پروا کیے بغیر اپنا رویّہ متعین کرے، اس کا اخلاق اصولی ہو، نہ کی جوابی۔ اس اخلاق کو وہ ہر جگہ برتے، خواہ معاملہ موافق کے ساتھ ہو یا مخالف کے ساتھ، حتٰی کہ اس کے ساتھ بھی جو اس سے بُرا سلوک کرے۔ اگر انسان کی طبیعت اور عادات اچھی ہوگی تو کہا جائے گا کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں۔
اسی کی تعلیم ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے دی۔ آپ ﷺ نے اپنے ارشادات میں اخلاقِ حسنہ کو نہایت اہمیت دی ہے۔ امام غزالیؒ نے اپنی کتاب ''احیاء العلوم'' میں روایت نقل کی ہے: ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! دین کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اچھا خُلق۔ آپ ﷺ سے سوال ہُوا: کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اچھا خُلق۔ نیز فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، جنّت میں صرف اچھے خُلق والا ہی داخل ہوگا۔
کمال عظمتِ اخلاق، نبی اکرم ﷺ کا امتیازی اعزاز ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی ذاتِ بابرکات و عالی صفات تمام اخلاق و خصائل، صفات و جمال میں اعلیٰ اشرف و اقویٰ ہے۔ ان تمام کمالات و محاسن کا احاطہ اور بیان کرنا انسانی قدرت و طاقت سے باہر ہے۔ کیوں کہ وہ تمام کمالات جن کا عالمِ امکان میں تصور ممکن ہے سب کے سب نبی اکرم ﷺ کو حاصل ہیں۔ جب نظریہ عمل کے سانچے میں ڈھلتا ہے تو کمی بیشی عموماً ہوجاتی ہے، مگر اخلاق کا نظریہ جتنا معقول اور مستحکم ہے، اخلاق کا نمونہ بھی اتنا ہی مستحکم ہے۔
اس لیے دنیا کے بیشتر مفکرین اور معلمین کی نظر میں اخلاق کا درس خوش نما نظر آتا ہے، مگر جب ان کے قریب جائیے تو فکر و عمل کا تضاد اور گفتار و کردار کا اختلاف سامنے آتا ہے، لیکن رسول اکرم ﷺ کا معاملہ یہ ہے کہ آپؐ کی گفتار جتنی پاکیزہ ہے، کردار بھی اتنا ہی پاکیزہ نظر آتا ہے۔ تعلیم جتنی روشن دکھائی دیتی ہے، سیرت بھی اتنی ہی صیقل نظر آتی ہے۔
جب مکہ فتح ہوا تو حرم کے صحن میں قریش کے تمام سردار شکست خوردہ کھڑے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جو اسلام کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے، وہ بھی تھے جو آپ ﷺ کو نعوذباﷲ جھٹلایا کرتے تھے، وہ بھی تھے جو آپ ﷺ کی برائی بیان کیا کرتے تھے، وہ بھی تھے جو آپ ﷺ کو گالیاں دیا کرتے تھے۔
وہ بھی تھے جو پیکرِ قدسیؐ کے ساتھ گستاخیاں کرتے تھے، وہ بھی تھے جنہوں نے آپ ﷺ پر پتھر پھینکے تھے، آپ ﷺ کی راہ میں کانٹے بچھائے تھے، ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے آپ ﷺ پر تلواریں چلائی تھیں، وہ بھی تھے جو غریب اور بے کس مسلمانوں کو ستاتے تھے، ان کو جلتی ریت پر لٹاتے تھے، دہکتے شعلوں سے ان کے اجسام کو داغتے تھے (نعوذباﷲ)۔ آج یہ تمام مجرم سرنگوں سامنے تھے، پیچھے دس ہزار تلواریں آنحضرت ﷺ کے ایک اشارے کی منتظر تھیں۔ مگر قربان جائیے! محسن انسانیت محمد عربی ﷺ پر کہ آپؐ نے ان تمام جرائم سے قطع نظر، جانیں دشمنوں پر ہر طرح سے غلبہ حاصل کرنے کے باوجود ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور اپنے بلند اخلاق کا کیسا دائمی اور عالمگیر نمونہ دنیا والوں کے لیے قائم کردیا۔
رسول اکرم ﷺ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے قریشیوں! تمہیں کیا توقع ہے کہ اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ انہوں نے جواب دیا: ہم اچھی ہی امید رکھتے ہیں، آپ ﷺ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تم سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا: آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
بلندی اخلاق کی ایسی جیتی جاگتی، دائمی اور عالم گیر مثال کیا کوئی اور پیش کر سکتا ہے یا دنیا نے اپنے معرضِ وجود کے دن سے اب تک ایسی نظیر دیکھی ہے ۔۔۔؟
مولانا سید سلیمان ندویؒ کی مشہور کتاب ''خطباتِ مدراس'' کا اقتباس پیشِ خدمت ہے جس میں سیّد صاحب نے رسول اکرم ﷺ کے کامل، عالم گیر اور لافانی نقشِ حیات آپ ﷺ کی کاملیت و جامعیت اور تمام طبقاتِ انسانی نیز ہر ماحول، ہر زمانے، ہر پیشے اور ہر مشغلے غرض ہر قسم کے حالات اور ہر سطح و معیار کے لیے آپ ﷺ کی کامل و جامع راہ نمائی اور اسوہ حسنہؐ کی نہایت موثر اور بلیغ انداز میں تشریح کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
'' ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالتِ انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو، صرف محمد رسول اﷲ ﷺ کی سیرت ہے، اگر تم دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو، اگر تم غریب ہو تو شعبِ ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو، اگر تم بادشاہ ہو تو بدر و حنین کے سپہ سالار پر نگاہ دوڑاؤ، اگر تم نے شکست کھائی ہے تو معرکہ احد سے عبرت حاصل کرو، اگر تم استاد ہو تو صفہ کی درس گاہ کے معلم قدسؐ کو دیکھو، اگر تم واعظ و ناصح ہو تو مسجدِ مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو، اگر تم تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کے منادی کا فرض سر انجام دینا چاہتے ہو تو طائف والے کی باتیں سنو، اگر تم تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کے منادی کا فرض سر انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یار و مددگار نبیؐ کا اسوۂ حسنہ تمہارے سامنے ہے۔
اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں کو زیر اور اپنے مخالفوں کو کم زور بنا چکے ہو تو فاتحِ مکہ کا نظارہ کرو، اگر تم اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم و نسق درست کرنا چاہتے ہو تو بنی نضیر، خیبر اور فدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم و نسق کو دیکھو، اگر یتیم ہو تو آمنہ اور عبداﷲ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو، اگر بچے ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے کو دیکھو، اگر تم جوان ہو تو مکہ کے ایک چرواہے کی سیرت پڑھو، اگر تم سفری کاروبار میں ہو تو کاروان سالار کی مثالیں ڈھونڈو، اگر تم عدالت کے قاضی ہو تو اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نورِ آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو جو حجرِ اسود کو کعبہ کے ایک گوشہ میں کھڑا کر رہا ہے، مدینہ کی کچی مسجد کی صحن میں بیٹھنے والے منصفؐ کو دیکھو جس کی نظرِ اوصاف میں شاہ و گدا اور امیر و غریب سب برابر ہیں۔
اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہؓ اور عائشہؓ کے مقدس شوہرؐ کی حیاتِ پاک کا مطالعہ کرو، اگر تم اولاد والے ہو تو فاطمہؓ کے باپؐ اور حسنؓ و حسینؓ کے نانا کا حال پوچھو، غرض تم کچھ بھی ہو اور کسی حال میں بھی ہو تمہاری زندگی کے لیے نمونہ، تمہاری سیرت و اخلاق کی درستی و اصلاح کے لیے سامان، تمہارے ظلمت خانے کے لیے ہدایت کا چراغ اور راہ نمائی کا نُور محمد ﷺ کی جامعیتِ کبری کے خزانے میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے، اس لیے طبقاتِ انسانی کے ہر طالبِ علم اور نُورِ ایمانی کے ہر متلاشی کے لیے صرف محمّد رسول اﷲ ﷺ کی سیرت ہی ہدایت کا نمونہ اور نجات کا ذریعہ ہے۔''
رسول اکرم ﷺ نے اخلاق کو علم اور عبادات کی زینت قرار دیا ہے، قیامت کے دن مومن کے میزانِ عمل میں کوئی چیز حُسنِ اخلاق سے زیادہ باوزن نہیں ہوگی۔ حُسنِ اخلاق کی وجہ سے ہی مومن ہمیشہ روزے رکھنے والا اور تہجّد گزار کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ مسلم شریف کی روایت کا مفہوم ہے: ''نیکی حُسنِ اخلاق کا نام ہے اور بُرائی وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تمہیں ناپسند ہو کہ لوگ اسے جانیں۔''
نبی کریمؐ کے ارشاد کا مفہوم: ''تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے اچھا ہو۔''
اخلاق کی معمولی قسم یہ ہے کہ آدمی کا اخلاق جوابی اخلاق ہوکہ جو مجھ سے جیسا سلوک کرے گا، میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہے کروں گا، یہ عام اخلاق ہیں۔ اس کے مقابلے میں اعلی اخلاق یہ ہیں کہ آدمی دوسرے کے رویّے کی پروا کیے بغیر اپنا رویّہ متعین کرے، اس کا اخلاق اصولی ہو، نہ کی جوابی۔ اس اخلاق کو وہ ہر جگہ برتے، خواہ معاملہ موافق کے ساتھ ہو یا مخالف کے ساتھ، حتٰی کہ اس کے ساتھ بھی جو اس سے بُرا سلوک کرے۔ اگر انسان کی طبیعت اور عادات اچھی ہوگی تو کہا جائے گا کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں۔
اسی کی تعلیم ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے دی۔ آپ ﷺ نے اپنے ارشادات میں اخلاقِ حسنہ کو نہایت اہمیت دی ہے۔ امام غزالیؒ نے اپنی کتاب ''احیاء العلوم'' میں روایت نقل کی ہے: ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! دین کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اچھا خُلق۔ آپ ﷺ سے سوال ہُوا: کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اچھا خُلق۔ نیز فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، جنّت میں صرف اچھے خُلق والا ہی داخل ہوگا۔
کمال عظمتِ اخلاق، نبی اکرم ﷺ کا امتیازی اعزاز ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی ذاتِ بابرکات و عالی صفات تمام اخلاق و خصائل، صفات و جمال میں اعلیٰ اشرف و اقویٰ ہے۔ ان تمام کمالات و محاسن کا احاطہ اور بیان کرنا انسانی قدرت و طاقت سے باہر ہے۔ کیوں کہ وہ تمام کمالات جن کا عالمِ امکان میں تصور ممکن ہے سب کے سب نبی اکرم ﷺ کو حاصل ہیں۔ جب نظریہ عمل کے سانچے میں ڈھلتا ہے تو کمی بیشی عموماً ہوجاتی ہے، مگر اخلاق کا نظریہ جتنا معقول اور مستحکم ہے، اخلاق کا نمونہ بھی اتنا ہی مستحکم ہے۔
اس لیے دنیا کے بیشتر مفکرین اور معلمین کی نظر میں اخلاق کا درس خوش نما نظر آتا ہے، مگر جب ان کے قریب جائیے تو فکر و عمل کا تضاد اور گفتار و کردار کا اختلاف سامنے آتا ہے، لیکن رسول اکرم ﷺ کا معاملہ یہ ہے کہ آپؐ کی گفتار جتنی پاکیزہ ہے، کردار بھی اتنا ہی پاکیزہ نظر آتا ہے۔ تعلیم جتنی روشن دکھائی دیتی ہے، سیرت بھی اتنی ہی صیقل نظر آتی ہے۔
جب مکہ فتح ہوا تو حرم کے صحن میں قریش کے تمام سردار شکست خوردہ کھڑے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جو اسلام کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے، وہ بھی تھے جو آپ ﷺ کو نعوذباﷲ جھٹلایا کرتے تھے، وہ بھی تھے جو آپ ﷺ کی برائی بیان کیا کرتے تھے، وہ بھی تھے جو آپ ﷺ کو گالیاں دیا کرتے تھے۔
وہ بھی تھے جو پیکرِ قدسیؐ کے ساتھ گستاخیاں کرتے تھے، وہ بھی تھے جنہوں نے آپ ﷺ پر پتھر پھینکے تھے، آپ ﷺ کی راہ میں کانٹے بچھائے تھے، ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے آپ ﷺ پر تلواریں چلائی تھیں، وہ بھی تھے جو غریب اور بے کس مسلمانوں کو ستاتے تھے، ان کو جلتی ریت پر لٹاتے تھے، دہکتے شعلوں سے ان کے اجسام کو داغتے تھے (نعوذباﷲ)۔ آج یہ تمام مجرم سرنگوں سامنے تھے، پیچھے دس ہزار تلواریں آنحضرت ﷺ کے ایک اشارے کی منتظر تھیں۔ مگر قربان جائیے! محسن انسانیت محمد عربی ﷺ پر کہ آپؐ نے ان تمام جرائم سے قطع نظر، جانیں دشمنوں پر ہر طرح سے غلبہ حاصل کرنے کے باوجود ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور اپنے بلند اخلاق کا کیسا دائمی اور عالمگیر نمونہ دنیا والوں کے لیے قائم کردیا۔
رسول اکرم ﷺ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے قریشیوں! تمہیں کیا توقع ہے کہ اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ انہوں نے جواب دیا: ہم اچھی ہی امید رکھتے ہیں، آپ ﷺ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تم سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا: آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
بلندی اخلاق کی ایسی جیتی جاگتی، دائمی اور عالم گیر مثال کیا کوئی اور پیش کر سکتا ہے یا دنیا نے اپنے معرضِ وجود کے دن سے اب تک ایسی نظیر دیکھی ہے ۔۔۔؟
مولانا سید سلیمان ندویؒ کی مشہور کتاب ''خطباتِ مدراس'' کا اقتباس پیشِ خدمت ہے جس میں سیّد صاحب نے رسول اکرم ﷺ کے کامل، عالم گیر اور لافانی نقشِ حیات آپ ﷺ کی کاملیت و جامعیت اور تمام طبقاتِ انسانی نیز ہر ماحول، ہر زمانے، ہر پیشے اور ہر مشغلے غرض ہر قسم کے حالات اور ہر سطح و معیار کے لیے آپ ﷺ کی کامل و جامع راہ نمائی اور اسوہ حسنہؐ کی نہایت موثر اور بلیغ انداز میں تشریح کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
'' ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالتِ انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو، صرف محمد رسول اﷲ ﷺ کی سیرت ہے، اگر تم دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو، اگر تم غریب ہو تو شعبِ ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو، اگر تم بادشاہ ہو تو بدر و حنین کے سپہ سالار پر نگاہ دوڑاؤ، اگر تم نے شکست کھائی ہے تو معرکہ احد سے عبرت حاصل کرو، اگر تم استاد ہو تو صفہ کی درس گاہ کے معلم قدسؐ کو دیکھو، اگر تم واعظ و ناصح ہو تو مسجدِ مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو، اگر تم تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کے منادی کا فرض سر انجام دینا چاہتے ہو تو طائف والے کی باتیں سنو، اگر تم تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کے منادی کا فرض سر انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یار و مددگار نبیؐ کا اسوۂ حسنہ تمہارے سامنے ہے۔
اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں کو زیر اور اپنے مخالفوں کو کم زور بنا چکے ہو تو فاتحِ مکہ کا نظارہ کرو، اگر تم اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم و نسق درست کرنا چاہتے ہو تو بنی نضیر، خیبر اور فدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم و نسق کو دیکھو، اگر یتیم ہو تو آمنہ اور عبداﷲ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو، اگر بچے ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے کو دیکھو، اگر تم جوان ہو تو مکہ کے ایک چرواہے کی سیرت پڑھو، اگر تم سفری کاروبار میں ہو تو کاروان سالار کی مثالیں ڈھونڈو، اگر تم عدالت کے قاضی ہو تو اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نورِ آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو جو حجرِ اسود کو کعبہ کے ایک گوشہ میں کھڑا کر رہا ہے، مدینہ کی کچی مسجد کی صحن میں بیٹھنے والے منصفؐ کو دیکھو جس کی نظرِ اوصاف میں شاہ و گدا اور امیر و غریب سب برابر ہیں۔
اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہؓ اور عائشہؓ کے مقدس شوہرؐ کی حیاتِ پاک کا مطالعہ کرو، اگر تم اولاد والے ہو تو فاطمہؓ کے باپؐ اور حسنؓ و حسینؓ کے نانا کا حال پوچھو، غرض تم کچھ بھی ہو اور کسی حال میں بھی ہو تمہاری زندگی کے لیے نمونہ، تمہاری سیرت و اخلاق کی درستی و اصلاح کے لیے سامان، تمہارے ظلمت خانے کے لیے ہدایت کا چراغ اور راہ نمائی کا نُور محمد ﷺ کی جامعیتِ کبری کے خزانے میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے، اس لیے طبقاتِ انسانی کے ہر طالبِ علم اور نُورِ ایمانی کے ہر متلاشی کے لیے صرف محمّد رسول اﷲ ﷺ کی سیرت ہی ہدایت کا نمونہ اور نجات کا ذریعہ ہے۔''