شکریہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن

ساتویں سمسٹر کا اختتام ہو چکا تھا اور سردیوں کے یخ بستہ دنوں میں ایک ہفتہ کی سمسٹر بریک گھر رہ کر ہی گزارنی تھی.


عمر سلیم March 06, 2014
آج کل کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ باقاعدہ لائبریری جا کر کتابیں پڑھے یا سالانہ ممبرشپ کے لئے1000 روپے بھرتا پھرے۔ فوٹو: فائل

ساتویں سمسٹر کا اختتام ہو چکا تھا اور سردیوں کے یخ بستہ دنوں میں ایک ہفتہ کی سمسٹر بریک گھر رہ کر ہی گزارنی تھی ۔جنوری کے دن تو پل میں گزرا کرتے ہیں پر جنوری کی سرد شامیں انسان کو اکثر تنہائی سے دوچار کرتی ہیں ۔سنا تھا کہ کتابیں تنہائی میں بہترین دوست ہواکرتی ہیں ۔میرے خیال سے یہ کسی عاشق کا قول ہے جو اُس نے محبت میں ناکامی کے بعد فرمایا ہوگا۔

تاہم اس قول کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میں نے سمسٹر بریک میں ہفتئہ دانشوری منانے کا ارادہ کیا۔یہ ارادہ عشق میں ناکامی کی وجہ سے نہیں بلکہ خود کو نیم محبت والی سرگرمیوں سے دوررکھنے کے لیے تھا۔اگلا مرحلہ کتابیں خریدنے کے لیے جیب سے پیسے ڈھونڈنا تھا جو آٹے میں نمک تلاش کرنے کے برابر تھا۔ بھلا آٹے سے نمک نکلا ہے کبھی؟ نہیں نا۔ مگر ہم تو نکال ہی لیتے ۔ مسئلہ یہ تھا کہ نمک سِرے سے آٹے میں موجود ہی نہیں تھا۔ابھی قسمت سے گلہ شکوہ جاری تھا کہ اتنے میں ریڈیو سے کال آگئی ۔ بھلا ہو ریڈیو والوں کا وہ ہمیں یاد کر ہی لیتے ہیں ۔ پروگرام کا وقت اگلے رو ز شا م کو مقرر کیا گیا اور زیرِ بحث موضوع بھی مجھے بتایا گیا۔ یوں تو بے حساب گفتگو کرنا عورتوں کی چند اہم عادتوں میں سے ایک ہے مگر یہ نسوانی بیماری مجھ میں کافی حد تک پائی گئی ہے ۔شائد یہی وجہ ہے کہ ریڈیو والے مجھے اپنے پروگرام میں حاضری کا موقع دیتے رہتے ہیں ۔جمعہ کے روز سردی میں ہانپتے کانپتے میں ریڈیو اسٹیشن پہنچا ۔ دوگھنٹے کے شو میں RJ یاسر اور کومل خود ہی مائیک سے کھیلتے رہے اور سٹوڈیو میں بیٹھے مجھ مہمان کو کم ہی موقع دیا۔

شو اختتام ہو ا۔پروگرام کی اسسٹنٹ میرے پاس آئی اور اس نے میرے ہاتھ میں سفیدرنگ کالفافہ دیا۔جب میں نے وہ لفافہ کھولا تو اس میں ایک ہرے رنگ کا کرارا نوٹ چمک رہا تھا۔میرے خیال سے انھیں لفافے میں پیسے ڈال کر ہرگز نہیں دینے چاہئیں تھے کیونکہ ایسے لفافے اکثر لفافہ صحافت سے منسوب کیے جاتے ہیں اور اپنے کرئیر کے آغاذ میں ہی لفافے جمع کرنا انتہائی فحش عمل ہے ۔بہر حال ایک شو کے پانچ سو روپے ملنے پر میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور اگلے روز صبح سویرے ہی راولپنڈی کے کمیٹی چوک بازار میں پہنچا ، اپنی ہر دل عزیز شاپ اشرف بک ایجنسی جہاں کتب کافی رعایتی قیمت میں مل جاتی ہیں وہاں سے عکسی مفتی کی ایک نئی کتاب کاغذ کا گھوڑا خریدی۔ یوں تو کتاب پر قیمت 500 روپے درج تھی مگر رعایت کے ساتھ 340 کی ملی ۔باقی ماندہ رقم سے کتاب تو خریدی نہیں جا سکتی تھی سو وہ بچا کر رکھ لیے۔ 2 دن لگا کر کتاب مکمل کی۔پیسہ ختم ، کتاب ہضم ۔

ابھی میرے ہفتئہ دانشوری میں 4 دن باقی تھے ۔بھلا ہو میرے دوست معیز رحیم کا ، یوں تو وہ ازل سے میرا نظریاتی دشمن ہے پر کبھی کبھی میرے لیے ڈھنگ کا کام بھی کر جاتا ہے ۔شام کو میری طرف آیا اور کہنے لگا۔ ''یار تیرے پاس110 روپے ہونگے؟ ایک بہت فٹ آفر آئی ہے ہمارے لیے''۔

میں نے ساتھ ہی طنزیہ لہجے میں کہا۔ ''خیر ہو! کہیں پھر کوئی لون سکیم تو نہیں آگئی جس کے فارم کیلئے تُو مجھ سے پیسے مانگ رہا ہے۔''

اس نے سنجیدگی سے کہا ''ارے نہیں یار! سین کچھ یوں ہے کہ نیشنل بُک فائونڈیشن کی ایک اسکیم آئی ہے ۔ جس کی ممبر شپ 110 روپے کی ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ نیشنل بُک فائو نڈیشن کی کسی بھی دکان سے ہمیں کتاب 50 فیصد ڈسکائونٹ پر ملے گی اور اس ممبر شپ کی معیاد 6 ماہ تک ہے ۔ ''

یہ سننا تھا کہ میرے منہ سے رال ٹپکنے لگی اور جس طرح ا سکوبی ڈو کو خیال میں ہڈی نظر آتی ہے مجھے اپنی آنکھوں کے سامنے مولانا ابوالکالام آزاد کی India wins freedom اور کلدیپ نائر کیbeyond the lines گھومتی نظر آنے لگی۔میں ابھی اسی خیال میں گم تھا اور وہ ساتھ ہی کہنے لگا۔ ''2 پاسپورٹ سائز تصویریں اور ایک شناختی کارڈ کی کاپی تیا ر رکھ ، کل صبح8 بجے ہم نیشنل بُک فائونڈیشن کے آفس اسلام آباد جا رہے ہیں ۔''

اگلے روز سردیوں کی گرم گرم نیند حرام کرنی پڑی کیونکہ ایسے موقع قدرت کم ہی دیا کرتی ہے وہ بھی وطنِ عزیز میں جہاں روٹی مفت میسر نہ ہو وہاں مفت کتاب کا ملنا کسی مالِ غنیمت سے کم نہیں۔صبح کے خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہوتے اسلام آباد پہنچے۔ نیشنل بک فائونڈیشن پہ ہماری یہ حاضری پہلی بار تھی اس کے علاوہ پاکستان پوسٹ کا دفتر بھی دیکھنے کو ملا ۔ PTCL,Pakistan post اور NBP یہ تینوں ادارے ایک ہی روڈ پر واقع ہیں۔ نیشنل بک کے دفتر میں داخل ہوئے۔ دوعدد ممبر شپ فارم کی قیمت10 روپے اداکی۔فارم پُر کرنے کے بعد رجسڑیشن آفیسر نے ایک ممبر شپ کارڈ کے لیے100 روپے اور 2 پاسپورٹ سائز تصویریں لیں۔تقریباً 20 منٹ کے بعد ممبر شپ کارڈ ہمارے ہاتھوں میں تھے۔

فائونڈیشن آفس کے اندر ایک ریڈرز بک شاپ بھی موجود ہے۔ سوچا یہاں کتابوں کا معائنہ کیا جائے اور پسند آنے پر خرید لی جائیں۔یہاں سے کتاب لینے کا فائدہ یہ تھا کہ یہاں50 کی بجائے 55 فیصد ڈسکائونٹ تھا۔لیو ٹالسٹائی کا war and peace یہاں بہترین پیپر ایڈیشن میں موجود تھا۔ جس کی اصل قیمت 2200 تھی اور 55 فیصد بچت کے ساتھ 990 کا مل رہا تھا۔یہاں کچھ ایسی نایاب کتابیں بھی دیکھنے کو ملی جو اکثر بک شاپز پر نظر نہیں آتی۔ ہیر وارث شاہ انتہائی خوبصورت پیپر اور کور میں تھی اس کے علاوہ بہت سی نایاب انگریزی کتب کے اُردو تراجم بھی شامل تھے۔ممبر شپ کارڈ کے ساتھ ایک لسٹ ایٹیچ ہے ۔ جس میں 20 دکانوں کے نام ، پتہ اور فون نمبر درج تھا جو نیشنل بک فائونڈیشن سے سرٹیفائڈ ہیں جن میں 10 دکانیں راولپنڈی اور 10 سلام آبا د میں موجود ہیں۔

اس ممبر شپ کارڈ پر آپ 5 ہزار کی شاپنگ کر سکتے ہیں۔میں نے اپنے کارڈ پر 2 کتابیں لی۔ جن کی کل قیمت 700 روپےتھی اور مجھے 55 فیصد کی بچت کی ساتھ 513 کی مل گئیں اور میرے کارڈ کی باقی امائونٹ 3400 رہ چکی ہے۔نیشنل بک فائونڈیشن سے نکلتے ہوئے کارڈ پر نگا ہ ڈالی تو یہ دیکھ کر تھوڑا غصہ آیا Valid upto Jan 2014 - June 2014 اور سوچنے لگا کہ اتنی اچھی آفر وہ بھی صرف محدود مدت کے لیے۔ بہر حال آفر تو پھر آفر تھی اور ایسی کہ جسے آسانی سے اگنور نہیں کیا جا سکتا۔ مجھ جیسے کئی لوگ اس سے مستفید ہونگے اور ہو رہے ہیں ۔ محدود ٹائم فریم پر رہی سہی رنجش بھی چند دن بعد دور ہوگئی۔ میرا فلسفی دوست صمنون بسر ا مجھے ملا تو بڑی خوشی سے بتانے لگا کہ جواہر لال نہرو کی کتاب Glimpses of World History وہ ساڑھے تین سو روپے کی رعایت کے ساتھ 1450 روپے میں لے کے آیا ہے ۔ میں نے اس کی بات سننے کے بعدصرف اپنی شرارتی مسکراہٹ دی اور اگلے روز اپنا ممبر شپ کارڈ ساتھ لیا اور صدر راولپنڈی سے یہ کتاب خرید لایا۔

کچھ دن بعد اس نے یہ کتاب میرے ہاتھ میں دیکھی تو کہنے لگا کتنے میں لے کے آیا ہے ؟ میں نے صرف اتنا ہی کہا ۔ '' یوں تو اسکی قیمت 1750 ہے اب چونکہ میرے پاس نیشنل بُک فائونڈیشن کی ممبر شپ ہے تو مجھے یہ کتاب 875 کی پڑی ہے '' ۔ یہ سنے ہی میرے فلسفی دوست ضمنون کو جوش چڑھا اور اس نے بھی نیشنل بک فاؤنڈیشن کی ممبر شپ حاصل کرلی۔

ویسے بھی آج کل نہ تو کسی کے پاس اتنا وقت کے وہ باقاعدہ لائبریری جا کر پڑھے یا کتاب اِیشو کروائے اور سالانہ ممبرشپ کے لئے1000 روپے بھرتا پھرے ۔ بہتر ہو اگر تمام شہروں کی لائبریرز اپنی کچھ کتابیں آدھی قیمت میں فروخت کرنا شروع کر دیں ۔اس سے کتابوں کے شوقین افراد اور غریب عوام باآسانی کم قیمت میں کتاب خرید سکیں گیاور اپنا شوق پورا کرسکیں گے۔

میرے خیال میں راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہنے والوں کے لیے یہ آفر کسی آسمانی نعمت سے کم نہیں ۔ ضرورت یہ سوچنے کی ہے کہ کتابوں سے محبت کرنے والے ان دو شہروں کے علاوہ کراچی سے پشاور اور لاہور سے کوئٹہ تک کے شہروں میں بھی بستے ہیں۔ اگر اس طرح کے اقدامات ان شہر والوں کے لیے بھی کر دیے جائیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ مہنگائی کے اس دور میں جہاں روٹی مہنگی ہو وہاں کتابیں کم قیمت میں ملنے لگیں تو آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن ہوگااور نوجوانوں کی کم کتابیں پڑھنے کی عادت میں بھی ایک واضح تبدیلی آئی گی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔