تھر میں قحط سالی سے ہلاکتوں پرایکسپریس نیوز کی خبر پر سندھ حکومت نیند سے جاگ گئی

تھرمیں قحط سالی سے دسمبر سے اب تک بچوں سمیت 114 افراد ہلاک ہوئے جب کہ علاقے سے بڑی تعداد میں افراد نقل مکانی کرچکے ہیں


ویب ڈیسک March 06, 2014
تھرپارکر میں گندم کی فراہمی ٹرانسپورٹرز کو کرایہ نہ ملنے کے باعث تاخیر کا شکار ہوئی، فوٹو:فائل

تھر میں قحط سالی سے بچوں سمیت 114 افراد کی ہلاکت پرایکسپریس نیوز کی خبر پر سندھ حکومت نیند سے جا گ گئی۔

تھر میں قحط سالی سے دسمبر سے لے کر اب تک بچوں سمیت 114 افراد کی ہلاکت پر ایکسپریس نیوز کی خبر پر حکومت سندھ نیند سے جاگ گئی اوروزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ مٹھی پہنچ گئےجس کےساتھ ہی تھر کی انتطامیہ بھی حرکت میں آگئی اور مٹھی کا اسپتال جو گندگی اور غلاظت کا ڈھیر بنا ہوا تھا اس کی فوری طور پر صفائی کرادی گئی ،وزیراعلیٰ کے پہنچنے سے پہلے اسپتال میں دوائیں موجود بھی نہ تھیں جبکہ وزیراعلیٰ کی آمد کی خبر سنتے ہی انتظامیہ نے اسپتال میں دواؤں کی فراہمی سمیت دیگر کام بھی فوری طور پر انجام دینا شروع کردیئے۔وزیراعلیٰ کی آمد سے قبل ہی اسپتال میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو موجودگی کو یقینی بنادیا گیا اور وزیراعلیٰ کو سب اچھا ہے دکھانے کی کوشش کی گئی۔

وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے تھرپارکر میں قحط سالی سے ہلاکتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جنوری اور فروری کےد وران 60 ہلاکتیں ہوئی جن میں زیادہ ہلاکتیں 5 سال سے کم عمر کے بچوں کی ہیں۔

تھرپارکر میں قحط سالی میں سندھ حکومت کی غیر سنجیدگی بھی دیکھنے میں آئی اورذرائع کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں گندم کی فراہمی ٹرانسپورٹرز کو کرایہ نہ ملنے کے باعث تاخیر کا شکار ہوئی، حکومت سندھ کےمحکمہ خوراک نے گندم کی 60 ہزار بوریاں مٹھی پہنچانا تھیں مگر حکومت کی جانب سے ٹرانسپورٹرز کو کرائے کی مد میں 30 لاکھ روپے کی ادائیگی کرنا تھی،کرائے کی عدم ادائیگی کے باعث گندم کی فراہمی تاخیر کا شکار ہوگئی۔

دوسری جانب تھر میں قحط سالی سے تنگ آکر مقامی آبادی نے نقل مکانی شروع کردی ہے آج بھی مزید 25 بچوں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا،اسپتال انتظامیہ کے مطابق ایک ماہ میں 30 سے زائد بچے قحط سالی کےباعث ہلاک ہوچکے ہیں۔اسپتال انتظامیہ کا کہنا تھا کہ زیادہ تر بچے اسہال ، کم خوراکی کے باعث وزن اورقوت مدافعت میں کمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کےباعث لائے جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔