مگس بانی کی منافع اور صحت بخش صنعت

معاشی استحکام کے لیے شہد کی پیداوار کا بیوپار توجہ کا متقاضی ہے


Naveed Jaan June 12, 2022
معاشی استحکام کے لیے شہد کی پیداوار کا بیوپار توجہ کا متقاضی ہے

پاکستان میں مگس بانی (شہد کی مکھیوں کو پالنا) ایک صنعت کی شکل اختیارکر چکی ہے، اس کے ساتھ تقریباً 15 لاکھ لوگ وابستہ ہیں۔

ملک میں شہد کی پیداوار تقریباً 30 ہزار ٹن ہے جو ملکی ضروریات کے علاوہ مختلف ممالک کو برآمد بھی کی جاتی ہے۔ بالخصوص عرب ممالک کو بڑی مقدار میں شہد برآمدکیا جاتا ہے جس سے ملکی سطح پر خاطرخواہ زرمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے۔

پاکستان میں شہد کی صنعت کواس مقام تک پہنچانے میں بین الاقوامی ادارے یواین ایچ سی آر(UNHCR)کا بنیادی کردار ہے کیوں کہ جب 1979ء میں افغان مہاجرین پاکستان آناشروع ہوئے توان کو رہائش کے ساتھ روزگارکا بھی مسئلہ درپیش تھا۔ لہذا اس مقصدکے تحت یواین ایچ سی آر نے ترناب فارم انٹومالوجی ڈیپارٹمنٹ پشاورمیں ان مہاجرین کو مگس بانی کی تربیت دینا شروع کی اورساتھ ہی ان کومکھیوں کے پانچ پانچ بکس بھی دیے۔

ان کی گاہے بگاہے رہنمائی بھی کی جاتی رہی۔ پاکستان میں اس سے قبل کئی مرتبہ مگس بانی کے تجربات کیے گئے لیکن وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پائے، یواین ایچ سی آرکے تعاون کے بعد اور افغان مہاجرین کی محنت کے نتیجے میں اس سلسلے میں پیش رفت ہوئی۔ اس وقت بھی اس صنعت میں 60 فی صد حصہ افغان مہاجرین کا ہے، 15 اگست 2021 کوافغانستان میں حالات کی تبدیلی کے بعد زیادہ تر افغانی ایک مرتبہ پھر اس شعبے کی طرف لوٹ آئے ہیں۔

شہد کی خرید وفروخت کے لیے ایشیا کی سطح پر سب سے بڑی منڈی خیبرپختون خوا میں پشاورچمکنی مین جی ٹی روڈ پر پاک انٹرنیشنل ہنی مارکیٹ کے نام سے واقع ہے، جہاں آل پاکستان بی کیپرز، ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے نام سے ایک یونین بھی قائم ہے جو مگس بانی کی صنعت کو ترقی اوراس سے جڑے مسائل کو بہتر اندازمیں حل کرنے کے لیے کوششوں میں مگن ہے۔

وطن عزیز میں شہد کی پیداوار ایک انتہائی مفیدکاروبار ہے، یہ ایک ایسا مفید مشغلہ ہے جو بڑے پیمانے پر اقتصادی شراکت داری بھی قائم کرتا ہے۔ ملک میں اس وقت مگس بانی کے لیے بہترین ماحول موجود ہے، تقریباً آٹھ ہزار سے زائد مکھی پال حضرات اس منافع بخش کاروبار سے وابستہ ہیں۔ شہد کی مکھیاں پالناایک صنعت کی صورت اختیارکرگیا ہے جس سے لوگوں کو روزگارکے مواقع فراہم ہو رہے ہیں۔

لوگ تجارتی بنیادوں پرمکھیاں پال کراپنے لیے ضروریات زندگی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔ مگس بانی ایسے علاقوں میں مفید ہے جہاں وسیع پیمانے پردرختوں کی موجودگی اورفصلوں کی کاشت کاکام ہوتا ہو۔ ماہرین کے مطابق پنجاب میں چکوال، میانوالی، اٹک، سرگودھا، ڈسکہ جیسے اضلاع مگس بانی کے لیے بہترین ہیں جب کہ خیبر پختون خوا میں نوشہرہ، نظام پور، پبی،ترناب فارم، صوابی، کرک،کوہاٹ، سوات، چترال اور بنوں زیادہ مناسب علاقے ہیں۔

بلوچستان میںکوئٹہ، زیارت،نصیر آباد اور قلات جب کہ سندھ میں ٹھٹھہ،سجاول، میرپورخاص، حیدر آباد اس کے لیے موزوں علاقے سمجھے جاتے ہیں۔ ایک چھتے سے شہد کی پیداوارکے علاوہ مکھی پال حضرات چھتے سے حاصل ہونے والی دیگر مصنوعات سے بھی اپنی آمدن بڑھا سکتے ہیں ۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت30 ہزار میٹرک ٹن سے زائد سالانہ شہدکی پیداوار حاصل کی جا رہی ہے جب کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے شہدکی پیداوارمیں25 سے 28کلوگرام فی چھتہ اضافہ ہوا ہے۔

مگس بانی کی صنعت کو درپیش مسائل کے باوجود پاکستان میں اعلیٰ درجہ اور معیاری شہدکی پیداوارحاصل کی جا رہی ہے لیکن درختوں خصوصاً بیری کے درخت کا بے دریغ کاٹاجانا، پاکستان میں بیری کے شہد کی پیداوار میں مسائل کا سبب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ جنگلات بیری کے درخت لگانے اور اس کی کٹائی روکنے پر عمل درآمدکے لیے موثرقانون سازی کرے، بیری کے درخت شہد کے مکھیوں کی خوراک کا بڑا ذریعہ بھی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ شہد قدرت کا ایک بے مثال تحفہ ہے اوریہ سالہاسال تک خراب نہیں ہوتا۔ شہدکی مکھیاں مختلف اقسام کے پھول، زرعی اجناس، آرائشی پودوں، جھاڑیوں، جڑی بوٹیوں اورجنگلات کے خود رو پودوں اور درختوں وغیرہ سے اپنی خوراک یعنی رس اور زرگل اکٹھاکرتی ہیں۔

ایسے پودے ملک بھر میں تقریباً ہر جگہ ملتے ہیں، جب کہ یہ مکھیاں عمل زیرگی میں بھی مفید ثابت ہورہی ہیں۔ ایک اوسط شہدکی مکھیوں کی کالونی سالانہ 180 کلوگرام پھولوں کارس (نیکٹر)اکٹھاکرتی ہے اور اسی طرح پانچ سوگرام شہدکی تیاری کے دوران بیس لاکھ پھولوں تک سفرکرتی ہیں۔ شہدکی مکھیاں عموماً اپنی خوراک لوکاٹ، ترشاوہ پھل کینو، مالٹا، لیموں، کھٹی، چکوترہ پہاڑی پھل (سیب، ناشپاتی، آلوچہ، آلو بخارا، خوبانی، املوک،آڑو، انار، اخروٹ، بادام) فالسہ، امرود، جامن، بیر، کیلا، شہتوت، سرسوں، شفتل، آم، الیچی،سٹرابری اور پھلائی وغیرہ سے حاصل کرتی ہیں، جس سے ہمارے لیے شہدکی تیاری کا سامان کیا جاتا ہے اور ملک کے علاوہ بیرون ملک برآمدکرکے زرمبادلہ کمایاجاتا ہے۔

جب کورونا کی عالمی وبا پھوٹ پڑی توپہلے پہل اس کی ہلاکت خیزی سے زیادہ نفسیاتی تناؤ نے ہرخاص وعام کوہلکان کئے رکھا،خلق خدا نے اپنے تئیں اس وبا سے چھٹکارا پانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرناشروع کئے، ایسے میں شہدکو بھی شفایابی کاذریعہ مانا جانے لگا اور پھر لوگوں نے دھڑا دھڑ اس کااستعمال شروع کر دیا، یوں اس کی مانگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ دیگر ٹوٹکوں کی طرح اس کاکوئی سائیڈایفکٹ نہیں طب نبویؐ میں شہد کو شفا قرار دیا گیا ہے۔

اس صورت حال میں اگرایک طرف اس کی مانگ میں اضافہ ہونے لگا تودوسری جانب بے شمارمسائل کے باعث اس کی پیداوارگھٹنے لگی کیوں کہ مگس بانوں سے لے کر پرچون پر فروخت کرنے والوں کوبھی مسائل نے اپنے شکجنے میں جکڑے رکھا اوراس ضمن میں ان کوناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے آل پاکستان بی کیپرز، ایکسپورٹرزاینڈ ٹریڈرزایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شیر زمان مومند نے بتایاکہ موجودہ دورمیں بہت سے مسائل کی طرح کورونا نے بھی ہمیں کافی نقصان پہنچایا، اس وبا نے مگس بانی اورشہد کے کاروبار پربھی کافی برے اثرات ڈالے۔ دکان اورمارکیٹیں ابتدا میں بند رہیں۔

ٹرانسپورٹ کی بندش سے مکھیوں کے فارم جس جگہ پرتھے وہیںپڑے رہے، چنانچہ نہ صرف مکھیوں کی خوراک کا مسئلہ درپیش رہا بلکہ ان کو بیماریوں نے بھی آلیا جس کے باعث شہدکی پیداوار آدھی سے بھی کم رہ گئی۔ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے باعث مگس بان اپنے گھروں تک محدود رہے، مکھی فارم پرغیرحاضر ہونے کی وجہ سے بہت سی مکھیاں بھوک اوربیماری سے مرگئیں۔

ایک اندازے کے مطابق اس دوران صرف خیبرپختون خوا میں دس فی صد فارم مکمل تباہ ہوئے جب کہ پچیس فی صدکوجزوی نقصان پہنچا۔ اس طرح بیس فی صد پیداوار میں بھی کمی واقع ہوئی۔ پچاس فی صد مگس بانوں نے اپنے ملازمین بھی فارغ کردئیے۔ ان کے بقول اگرچہ سابق حکومت نے جنگلات لگانے کے لیے گرین پاکستان منصوبہ شروع توکیا لیکن یہاں بھی منصوبہ بندی کے بغیر اس منصوبے پرکام کاآغازکیاگیا۔

مثال کے طور پرخیبرپختون خواکے ضلع کرک،کوہاٹ، بنوں، نظام پور، نوشہرہ، درہ آدم خیل وغیرہ میں بیری اورپھلائی کے درخت لگانے کی ضرورت تھی کیوں کہ یہاں زیرزمین پانی کی سطح بہت نیچے ہے اوراکثراوقات پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش رہتاہے جب کہ مذکورہ پودے بہت کم پانی استعمال کرنے کے باوجود بڑھوتری کرتے ہیں۔ ایک طرف یہ کم پانی کے ذریعے سرسبزوشاداب رہتے ہیں تودوسری طرف یہ شہدکی پیداوار میں بھی اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔

اس لیے تحقیق کے بعد،کہ کونسا پودا یا درخت کس علاقے کی آب وہوا سے مطابقت رکھتا ہے وہاں پراس کے جنگلات لگانے کی ضرورت تھی، جب کہ جنگلات لگانے کے ساتھ ساتھ ان کی کٹائی پرسخت پابندی بھی لگنی چاہیے،کیوںکہ جنگلات لگانے سے اہم بات اس کی حفاظت ہے۔ وہ بتاتے ہیںکہ فصلوں پر زہریلی ادویات کااستعمال بھی بڑھ گیا ہے، اب یہ معمول بن چکا ہے کہ کسان حضرات مختلف قسم کے کیڑوں مکوڑوں اور بیماریوں کے خاتمے کے لیے اپنی فصلوں پر تواتر کے ساتھ اسپرے کرتے رہتے ہیں لیکن دوسری جانب اس کے مضراثرات بھی سامنے آرہے ہیں جس سے شہدکی مکھیوں کوناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اورروزانہ کے حساب سے ہزاروں شہدکی مکھیاں پھولوں سے رس کشیدگی کے دوران مر رہی ہیں۔

اس لیے خصوصاً پھول نکلنے کے وقت اسپرے کرنے سے اجتناب کیاجائے،کیوں کہ شہدکی مکھیاں کراس پولی نیش کا ذریعہ بن کر فصلوں اور پھلوں کی پیداوارمیں تیس فی صد اضافہ کاسبب بنتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے مگس بانی پراثرات کے متعلق ڈاکٹرسنان احمدکاکہناتھاکہ موسمیاتی تبدیلی بھی شہدکی مکھیوں کی ترقی اورپیداوارکی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ سے ہر فصل کے پھولوں کے نکلنے کاوقت بھی تبدیل ہوچکاہے مثلاً وقت پربارشوں کا نہ ہونا، اس لیے موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے مقامی پودوں اوردرختوں کی افزائش بہت ضروری ہے تاکہ وقت پر بارشوں کے سبب موسم معتدل رہے۔

اس مقصدکے لیے شاہراہوں اورریلوے ٹریک کے کناروں پر زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہیئں۔ شہدکے لیے نئی منڈیوں کی تلاش کے بارے میں کاروباری شخصیت عبدالجلیل بتاتے ہیںکہ شہد ایکسپورٹ کے لیے ہمارے پاس صرف خلیجی ممالک ہیں لیکن ان کے علاوہ دیگرممالک کوشہد برآمدکرنے کے لیے اقدامات ہونے چاہیئں خصوصاً چین، امریکا سمیت یورپی ممالک کو ہم بہترین معیار کی شہد برآمدکرسکتے ہیں۔ خلیجی ممالک کو صرف بیری کے شہد کی برآمدکی جاتی ہے لیکن پھلائی شہد ہماری پیداوارکا پچاس فی صد ہے جویہاں کم قیمت پرفروخت ہوتا ہے جس سے مگس بانوںکے اخراجات اورضروریات پوری نہیں ہو پاتیں،اس لیے حکومت کوچاہیے کہ شہد کے لیے یورپ یا وسطی ایشیائی ممالک میں منڈیاں تلاش کرنے سمیت موجودہ حالات میں برآمدی ٹیکس میں چھوٹ دی جائے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مگس بان عبیدالرحمان،کاشف علی،طارق خان، سیدولی، برکت علی،میاں جان،امداداللہ،واحد خان اورحسنات گل کاکہناتھاکہ اس وقت ہمیں بہت سے مسائل کاسامناہے۔ پہلے پہل ہمیں کورونا نے کافی نقصان پہنچایا اورجنگلات کی کٹائی کے باعث موسمیاتی حدت اور تبدیلی کاسامنا ہے، ہماری مکھیاں مررہی ہیں اور فارم خالی ہو رہے ہیں، کیونکہ مگس بانی ایک محنت طلب کام ہے اوراس میں ہروقت مشکلات اورمسائل کاسامناکرناپڑتاہے، کورونا وائرس کے باعث ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے،اس لیے حکومت مگس بانوں کے لیے خصوصی پیکج کااعلان کرے ۔

20 مئی کو دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں آل پاکستان بی کیپرز، ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرایسوسی ایشن بھی اس دن کومنانے کاخاص اہتمام کرتی ہے، ہمارے ہاں اس صنعت کواس مقام تک پہنچانے میں UNHCR کا اہم کردار ہے، اس لیے اس مرتبہ اس دن کو یواین ایچ سی آرکے زیراہتمام ملک کے مختلف حصوں میں منایاگیا جس میں اس چھوٹے سے کیڑے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس کی زندگی کو بہت سارے خطرات لاحق ہیں جو ہمارے لیے اتنی محنت کرتا ہے اورہمیں بہترین خوراک فراہم کرنے کے ساتھ ملکی معیشت کی ترقی، روزگار کی فراہمی اور فصلوں کی پیداوار بڑھانے میں اہم کرداراداکرتا ہے۔ اس موقع پر جنگلات کی کٹائی روکنے اور شجرکاری جیسے اقدامات پر زوردیاگیا۔

بدقسمتی سے پورے ملک میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی جاری ہے، زیادہ تر جنگلات کی کٹائی بھٹہ خشت اور تمباکوصنعت کی وجہ سے ہو رہی ہے لیکن حکومت نے ابھی تک ایسا قانون نہیں بنایاکہ جتنے جنگلات ان دو صنعتوں نے ختم کیئے ہیں، وہاں دوبارہ شجرکاری کے لیے کیا کام کیا ہے۔ اس کٹائی کوروکنے اور بالخصوص فلورہ والے درخت مثلاًبیری،پھلائی،شیشم، سفیدہ وغیرہ کے تحفظ کے لیے محکمہ جنگلات کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگرچہ سابق حکومت نے بلین ٹری اورسرسبز پاکستان جیسے منصوبوں کے باعث تھوڑا بہت کام کیا لیکن ان جیسے منصوبوں کا تسلسل ہرحال میں ناگزیر ہے۔

اسی طرح مگس بانی کوسی پیک کے منصوبوں میں شامل کیا جائے، سی پیک میں جو سڑکیں اورریلو ے ٹریک بن رہے ہیں جوہزاروں کلومیٹر پرمشتمل ہیں ان کے اطراف میں ایسے درخت لگانے کی ضرورت ہے جوشہد کی پیداوار اورماحولیات دونوں کے لیے سود مند ہوں، ہرضلع میں فلورہ کے درختوں کی نرسری قائم کی جائے، صرف ضلع کرک سالانہ چھ ارب روپے کاشہد پیداکرتاہے، اور دوسرے اضلاع میں بھی یہ صلاحیت موجود ہے۔

مگس بانی اور علاقائی ماحول کے مطابق یہ لازمی ہے کہ جس علاقے میں جس چیزکے جنگلات ہیں وہاں اسی قسم کے جنگلات لگنے چاہیئں مثلاًخیبرپختون خواکے ضلع کرک، بنوں،کوہاٹ، نظام پور، درہ آدم خیل، مہمند میں پہلے سے بیری، پھلائی، شیشم، سفیدہ کے جنگلات موجودہیں۔ اس طرح پنجاب میں میانوالی،تلہ گنگ، چکوال،فتح جنگ،اٹک اورکشمیرکاعلاقہ بیری، پھلائی،شیشم کے درختوں کے لیے مشہور ہے جوشہدکی پیداوارکے لیے زیادہ موزوں علاقے ہیں۔

ضم شدہ اضلاع،گلگت بلتستان،چترال اور سوات میں روبینہ،بیکڑ،رشین زیتون اور بروٹس کے پودے بذریعہ ہیلی کاپٹرگراکرکاشت کئے جاسکتے ہیںکیوں کہ زیادہ ترممالک میں پہاڑی علاقوں میں اسی طریقے سے ان کے بیج گرائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ اوربلوچستان میں شہد کی پیداوار کے لیے موزوں علاقے ہیںلیکن وہاں پر لوگوں کوشہد کی مکھی کے حوالے سے دلچسپی ہے اورنہ معلومات ہیں۔

مگس بانی اورشہدانڈسٹری سے باخبررکھنے کے لیے پرنٹ،الیکٹرانک اورسوشل میڈیامثبت کردار اداکرسکتاہے کیوں کہ زیادہ ترکسانوں کومعلوم ہی نہیںکہ شہدکی مکھی فصلوں اورپھلوں کی پیداوارمیں تقریباً35فی صد اضافہ کرتی ہے،یعنی کراس پولی نیشن کے عمل سے اضافہ ہوتاہے۔ مگس بان اس نڈسٹری کی بنیادی اکائی ہے جوگوناگوں مسائل کاشکار ہے۔ پاکستان میں تین قسم کی مکھیاں موجود ہیں1-Apis Cerana 2-Apis Dorsata 3-Apis Florea

یہ1979میں پاکستان لائے گئے جو ایک کامیاب نسل ہے۔ ان کوEuropen Bees بھی کہتے ہیں اب ان اقسام میں سے دوقسم کی مکھیاں معدوم ہورہی ہیں جس کی بنیادی وجہ جنگلات کی کٹائی،ماحولیاتی آلودگی اورشورشرابہ ہے جس کے بچاؤکے لیے اقدامات ہونے چاہیے،یہ تینوں قسم کی مکھیاں ہمیں Organicشہد میسرکرتی ہے۔ہمارے مگس بان جوانتہائی غربت کی زندگی گزاررہے ہیں،ویرانوں اورجنگلات میں پڑے رہتے ہیں۔

ان کوکوئی سہولت اورحفاظت میسرنہیں ہوتی،مگس بانوںکے لیے ایسے جدید خیمے،شمسی آلات اوربلاسود قرضے،مگس بانی کے جدیدآوزار،ہائی بریڈکوئین،نئی نسل کی مکھیاں،ادویات اورجدیدتقاضوںکے مطابق تربیت ان کی زندگی کوبہتربنانے کے لیے لازمی ہے۔ ہمارے مگس بان مکھیوں سے صرف شہد حاصل کرتے ہیں، شہد سے مہنگی ترین چیزیں رائل جیلی، پولن، موم نہلی سریش اور مکھی کا زہر،یہ وہ چیزیں ہیں جوہمارے مگس بان تربیت اور اوزار میسرنہ ہونے کی وجہ سے حاصل نہیںکرسکتے جب کہ باہرکی دنیا میں ان چیزوںکی قیمت فی کلوگرام ہزاروں ڈالروں میں ہیں اورہماراملک ان چیزوں کے لیے انتہائی موزوں ہے۔

سبزیوں اورپھلوں پر زہریلی ادویات کے سپرے، جنگلی جڑی بوٹیوں پر اسپرے، ماحول میں زہریلی گیسوں کااخراج وغیرہ یہ وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے شہدکی مکھی کی زندگی خطرے میں پڑچکی ہے اوراس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے مقامی مکھیوں کی تین اقسام معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ ملک کے دوردرازعلاقوں میں فصلوں کی بقایاجات کوختم کرنے کے لیے کسان آگ لگاتے ہیں جس کی وجہ سے ہرسال کئی مکھیوں کے فارم جل کرراکھ ہوجاتے ہیں، اسی طرح شاہراؤں کے اطراف پر جڑی بوٹیوں اورگھاس پوس کوآگ لگانے سے ہرسال ہزاروں درخت بھی جل جاتے ہیں جس کاسدباب وقت کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں