کراچی اپنا مقدمہ کہاں درج کرائے۔۔۔

بنیادی سہولتوں کو ترستے اور ناگہانی حادثوں میں سسکتے ہوئے شہر کا نوحہ

بنیادی سہولتوں کو ترستے اور ناگہانی حادثوں میں سسکتے ہوئے شہر کا نوحہ۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
یکم جون 2022ء کو شہیدِ ملت روڈ اور جیل روڈ کراچی کے سنگم پر واقع 'سمعیہ برج ویو اپارٹمنٹ' میں قائم ایک بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور 'چیز' کے تہ خانے میں آتش زدگی کا نہایت خوف ناک واقعہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں ایک نوجوان جاں بحق ہوگیا۔۔۔ ساتھ ہی بھاری مالی نقصان کے ساتھ اس عمارت میں موجود 170 گھروں کے مکین دربہ بھی در ہوگئے ہیں۔۔۔!

اِن سطور کے لکھے جانے تک واقعے کو چوتھا روز ہے اور آگ تاحال بجھائی نہیں جا سکی ہے، جب کہ شہر بھر کی فائربریگیڈ ہی نہیں، پاک بحریہ تک کی مدد حاصل کی گئی ہے، اس کے باوجود یہ صورت حال ہے۔ یہ جتنی بھیانک اور دہشت ناک ہے، اتنی ہی عین ممکن اور متوقع بھی ہے! متوقع اس لیے ہے کہ اس تین کروڑ آبادی کے کراچی کو دینے کے لیے 'صاحب اقتدار' کے پاس صرف طعنے تشنے ہیں یا لارے لپّے۔۔۔!

چاہے وفاق میں آصف زرداری کے بعد نوازشریف، عمران خان اور شہبازشریف کا اقتدار ہو، لیکن یہ سب شاید اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ کراچی کا ایک ایک قطرہ تک نچوڑنا ہے اور اِس سارے عمل میں 2008ء سے بلاشرکت غیرے صوبہ سندھ کی حکم راں 'پاکستان پیپلز پارٹی' مکمل طور ہم نوا دکھائی دیتی ہے۔۔۔

آتش زدگی کے واقعے کے بعد ہمیشہ کی طرح روایتی بیان بازیوں کا بازار بھی گرم ہوا، خیر سے ذمہ داران کو نہ چھوڑنے کا مژدہ بھی سنایا گیا اور اسٹور کے مالکان کے خلاف 'سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی' (ایس بی سی اے) نے ایک عدد 'پرچا' بھی کرا دیا۔ بالکل درست ہے، 'تیری آواز مکے مدینے!' کیا ہی بات ہو، اگر اس کے ذمہ داران اور واقعی ذمے داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔

'سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی' نے مقدمہ تو ایسے درج کرایا ہے کہ جیسے 'شہر قائد' میں وہ اپنے تمام فرائض پوری طرح انجام دے رہی ہو۔ ہم یہاں اُس کی ''کارکردگی'' پر اپنے الفاظ قطعی ضایع نہیں کریں گے، کیوں کہ کراچی کا تقریباً ہر شہری اس سے بہ خوبی واقف ہے۔ غالباً سندھ کے ایک صوبائی وزیر نے یہ ارشاد بھی فرمایا ہے کہ عمارت میں آگ بجھانے کے لیے راستہ موجود نہیں تھا، تبھی آگ بجھائی نہیں جا سکی۔

یعنی کہ آگ نہ ہوئی، چچا جی کی برات ہوگئی، کہ 100 کو بلاوے بھیجے تھے اور پہنچ گئے 200۔۔۔! اس لیے انتظام سے زیادہ مہمانوں کے آ جانے سے ساری گڑ بڑ ہوئی! ارے صاحب، یہ حادثہ ہے، حادثہ۔۔۔!! اب حادثے بھی کوئی امدادی یا تلافی کے راستے دیکھ کر برپا ہوا کرتے ہیں۔۔۔؟ یا 'حکومت سندھ' کے خیال میں آگ ہی دراصل آگ لگنے کی اصل قصور وار ہے۔

وہ پہلے دیکھ لیتی کہ اُسے بجھانے کا راستہ تو ہے ہی نہیں، اس لیے نہ بھڑکتی۔۔۔! اصل مدعا یہ ہے کہ آپ اپنے صوبے کی راج دھانی میں گذشتہ 14 سال سے بلاتعطل حکومت کر رہے ہیں، تو یہ کس کا ذمہ تھا کہ وہ ایسی تعمیرات روکے، جہاں ایسے کسی حادثے کی صورت میں امدادی سرگرمیوں کی گنجائش نہ ہو؟َ یہ کس کی غفلت ہے کہ نہ صرف ایسی عمارت بنی، بلکہ اس کا بے ہنگم تجارتی استعمال بھی ہوتا رہا۔۔۔؟ اس کا جواب کوئی نہیں دے گا!

کراچی والے بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وہ اگر ایک پتھارا بھی لگاتے ہیں، تو 'سرکار' اور اس سے چپکے ہوئے دسیوں وردی اور بنا وردی کے ادارے کیسے دوڑے چلے آتے ہیں ۔۔۔! اگر آپ شریف آدمی ہیں، تو ذرا ایک ٹرالی ریتی تو گھر کے باہر ڈلوا کر دیکھیے، پھر کیسے سارے متعلقہ اور غیر متعلقہ ادارے آپ پر چڑھ دوڑیں گے۔ لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے!

کراچی اس ریاست کا وہ بدنصیب ترین شہر ہے، جو ریاستی کمائی میں 70 فی صد حصہ ہی نہیں ڈالتا، بلکہ زلزلے اور سیلاب جیسی کسی ناگہانی میں دل کھول کر سب کی مدد بھی کرتا ہے، اس کے باوجود نہ جانے کیوں اس شہر کو پانی، بجلی، گیس اور صفائی اور سڑکوں جیسے مسائل ہی سے نہیں دوچار کیا گیا، بلکہ اس کی طرف ملک بھر سے نقل مکانی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی مسلط کر رکھا ہے۔

یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام حصوں میں روزگار کے مناسب مواقع پیدا کرے، تاکہ لوگوں کو روزگار کے حصول کے لیے اپنے صوبوں اور شہر سے کراچی نہ آنا پڑے، جہاں پہلے ہی سہولتوں کا فقدان ہے۔ دوسری طرف اب وفاق اور صوبے کو کراچی کے حوالے سے اپنی بند آنکھیں کھول لینی چاہئیں۔ یہ بات ان ہی صفحات پر نہیں مختلف مواقع پر درجنوں مرتبہ بہت سے ماہرین بھی کہہ چکے ہیں کہ کراچی میں خدانخواستہ کوئی بھی آفت ناقابل تصور تباہی پھیلا سکتی ہے۔ اس کی مثال ہر موسمی بارش کے بعد بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔

یہی نہیں جون 2015ء میں گرمی کی شدید لہر میں جب ایک ہفتے میں ڈیڑھ ہزار شہری جاں بحق اور ہزاروں متاثر ہوئے تھے، تو تب شہر میں صحت کی سہولتوں کی قلعی کھل کر رہ گئی تھی۔ یہی نہیں عام دنوں میں بھی کراچی کے کسی بھی چھوٹے بڑے اسپتال میں جا کر دیکھ لیجیے، تو یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہوگی کہ کراچی کو صحت کے معاملے میں کس قدر بڑے پیمانے پر توجہ کی ضرورت ہے۔

یہاں بات صرف صحت کی سہولتوں کی نہیں ہے، 'سمعیہ برج ویو اپارٹمنٹ' کی اِس آتش زدگی نے ایک بار پھر الارم بجایا ہے کہ حکم رانو! کراچی میں کسی بھی قسم کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے جاگ جاؤ۔۔۔! لیکن ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ حکام کا اب بھی ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔۔ اور بدقسمتی سے اِس بار بھی حادثے کی گرد بیٹھنے کے بعد، ابھی جو ہلکی پھلکی سی آوازیں اٹھ رہی ہیں، وہ سب چپ کر جائیں گی۔


اور کراچی اور ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات میں، انتخابات اور جوڑ توڑ میں اس قدر مصروف ہوجائیں گی کہ انھیں اِس ''فضول'' مسئلے کی طرف سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہوگی۔ انتہا تو یہ ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں کراچی پر عدالتی احکامات پر توڑ پھوڑ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ ''غیرقانونی'' اور ''قبضے'' کی جگہ کے نعرے لگا لگا کر لوگوں کو باہر نکال کر ان کے گھر توڑ دیے گئے۔

ایک رہائشی عمارت کے لیے تو یہاں تک کہا گیا کہ ''اسے بم لگا کر اڑا دیا جائے۔۔۔!'' جس کے بعد کمشنر کراچی کی طرف سے اخبار میں باقاعدہ 'اظہارِدل چسپی' کا ایک اشتہار دیا گیا اور دھماکے سے عمارت گرانے کا تجربہ رکھنے والے طلب کیے گئے! لیکن شاید کوئی ''تجربہ کار بم والا'' مل نہ سکا اور آخر کار شاہراہ فیصل اور شاہ راہِ قائدین کے سنگم پر حکومتی کاغذات اور اجازت ناموں سے قائم ہونے والی وہ عمارت ہتھوڑے برسا برسا کر توڑ دی گئی۔۔۔! یہاں کہنے والی بات یہ ہے کہ یہ توڑ پھوڑ تو کرا دی گئی۔

لیکن کیا ملک کے کسی بھی بااختیار ادارے کو 'آبادی کے بارود' کے ڈھیر سے لگا ہوا کراچی دکھائی نہیں دے رہا کہ وہ کم از کم یہ تو کرسکے کہ ہر سال ریکارڈ ٹیکس اور سرکاری اندازوں سے بھی زیادہ واجبات اور محصولات جمع کرانے والوں کو ناگہانی آفات میں سسک سسک کر مرنے سے بچا سکیں۔۔۔! آج کراچی کے تقریباً ہر دوسرے علاقے میں ببانگ دہل 20، 20 منزلہ عمارتیں سر اٹھائے کھڑی ہوگئی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی زور شور سے جاری ہے۔

کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ آخر ایسی عمارتوں میں حادثے کے بعد مدد کے لیے کیا انتظام ہے؟ اور حکومت کی جانب سے اس کے لیے کتنی سہولتیں دست یاب ہیں؟ کیا تب بھی حکومتی عمائدین یہ کہہ کر اپنا دامن جھاڑ لیں گے کہ عمارت میں امدادی کارروائیوں کے لیے راستہ نہیں تھا؟ جہاں پورے شہر کی 'فائربریگیڈیں' مل کر محض ایک عمارت کی آگ کو نہ بجھا پائیں، وہاں کوئی چھوٹی سی بھی ہنگامی صورت حال کسی بہت بڑے انسانی المیے کو جنم دینے کے لیے کافی ثابت ہوگی۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر ہمارے ادارے اور حکومتیں اب اور کس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ کم سے کم پانی، بجلی، گیس کو ترستے ہوئے شہر کو کسی بھی ناگہانی حادثے سے بچانے کے لیے اپنی روایتی شرم ناک سطح سے کچھ تو اوپر اٹھ آؤ۔۔۔!

عالَم یہ ہے کہ نہ یہ ریاست خود اس شہر کو کچھ دینے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی اس شہر کے لوگوں کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے وسائل اور اپنے اداروں پر خوداختیار حاصل کر کے اپنے شہر کے بنیادی مسائل خود حل کریں اور پھر خود اپنے زورِبازو اور اپنے وسائل سے 'شہری دفاع' کے تمام ضروری ادارے بھی بنائیں۔ جب یہ شہر ملک کی معیشت کے ساتھ اس ملک کے ہزاروں فلاحی اداروں کو چلا سکتا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی نجی ایمبولینس سروس 'ایدھی' اِس شہر کے پاس ہے، اور بھی اس جیسے درجنوں مختلف اداروں کے ذریعے یہ شہر اندرون اور بیرونِ کراچی اپنا کردار ادا کر رہا ہے، تو آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے شہر، اپنی گلیوں اور سڑکوں کے لیے کوئی سنجیدہ اور مخلصانہ منصوبہ بندی نہ کر سکے اور بنیادی سہولتوں سے لے کر ہنگامی امداد تک، مستقبل کے حوالے سے کوئی بہترین لائحہ عمل ترتیب نہ دے سکے۔

ماضی میں بااختیار شہری حکومتوں میں ایسا ہوا بھی ہے۔ اس لیے اب یہی گزارش کی جا سکتی ہے، کہ بنیادی سہولتوں کے لیے ترستے ہوئے کراچی کو حادثوں میں سسکنے سے بچانے کے لیے اُسے شہر کے وسائل پر بااختیار کر دیا جائے، ورنہ یہ بتا دیا جائے کہ وہ اپنے زخموں، اپنی محرومیوں اور اپنی ناانصافیوں کا مقدمہ کہاں درج کرائے۔۔۔؟ کہ جس طرح سرکار نے اپنے گریبان میں جھانکنے کے بہ جائے، متاثرہ اسٹور کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا ہے۔

٭رہائشی علاقوں کا تجارتی استعمال!
'سمعیہ برج ویو اپارٹمنٹ' میں آتش زدگی کے حادثے کے بعد کسی بھی رہائشی عمارت کی نچلی منزلوں کے تجارتی استعمال کے حوالے سے مختلف سوالات سامنے آنے لگے ہیں۔ کچھ حلقے زور شور سے اس کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔

'بلدیۂ عظمیٰ کراچی' اور اس کے متوازی دیگر مختلف بلدیاتی ادارے بھی اکثر وبیش تر رہائشی جگہوں کے تجارتی استعمال کے خلاف ''قانونی کارروائی'' کرتے ہی رہتے ہیں۔ بہ ظاہر یہ عمل بہت خوب معلوم ہوتا ہے اور برحق ہے۔

رہائشی علاقوں کا تجارتی استعمال بالکل نہیں ہونا چاہیے، گھروں کے درمیان بنیادی ضرورت کی حد تک ہی تجارتی استعمال کی اجازت ہونی چاہیے، لیکن یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پورا کراچی ہی نہ صرف بے ہنگم طریقے سے پھیلایا جارہا ہے، بلکہ اس کے اندر کالے گورے ہر طرح کا سب گول مال والا حساب ہے۔ یعنی رہائشی اور تجارتی علاقوں کو الگ کرنا اب ایک ناممکن امر نظر آتا ہے، اور اگر ایسی کوئی کارروائی کی جاتی ہے، تو لامحالہ وہ چھوٹی پونجی کے تاجروں کے لیے ایک نئے عذاب کا باعث بنے گی۔

یہاں ہم اگر اس کے ذمہ داران کا سوال کریں گے، تو سارا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اب کم از کم اتنا تو ہوسکتا ہے کہ آج کی تاریخ کے بعد جہاں یہ سلسلہ دراز ہو رہا ہے اور تجارتی علاقوں میں غیرقانونی طریقے سے تجارتی سرگرمیاں ہو رہی ہیں، تو اسے ضرور روکا جائے۔ ورنہ ہم پہلے ہی دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف گھروں پر ''غیرقانونی'' کی عدالتی کدال چلی، دوسری طرف غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ روکنے کی طرف توجہ نہیں۔ پھر یہی ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے جاگتے ہیں اور جب عمارتیں اور دکانیں آباد ہو جاتی ہیں، تب انھیں سارے قواعد وضوابط یاد آتے ہیں اور تب بے رحم تجزیہ کار اور 'سستے بقراط' اپنی نام نہاد دانش وَری کی جگالی کرتے ہیں کہ 'چیزیں کہیں سے تو ٹھیک ہونا شروع ہوں گی۔'

ارے ٹھیک کرنے سے پہلے اسے مزید خراب ہونے سے تو روک لو! یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ اگر کراچی میں مزید گنجائش نہ ہونے کی بنا پر نئی تعمیرات پر قدغن ہو، تو ہزاروں محنت کشوں کے بے روزگار ہونے کا راگ الاپا جاتا ہے! بالکل ایسے ہی کہ جیسے کسی نشے کی فیکٹری کو بند کیا جائے، تو اس میں کام کرنے والوں کے بے روزگار ہونے کا ''غم'' کیا جائے، اور اس فیکٹری کی وجہ سے سماج میں پھیلنے والی تباہی کو نظر انداز کر دیا جائے۔
Load Next Story