توانائی بحران اور بچت
حکومت کی طرف سے سخت ترین اقدامات اٹھائے جانے کی صورت میں ہی مہنگائی میں کمی ہوگی لیکن پہلے روپیہ مضبوط کرنا ہوگا
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے یہ فیصلے توانائی بحران پر قابو پانے کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ بچت کرنا بھی مقصود تھا۔ ان فیصلوں کے تحت گاڑیوں کی خریداری پر ، بیرون ملک دوروں اور علاج پر پابندی کے علاوہ دفاتر میں لنچ ڈنر بند کردیا گیا۔ پاکستان میں عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ دارالخلافہ سے جیسے ہی کوئی بڑا سرکاری افسر یا دیگر افسران کسی بھی شہر میں چلے جائیں ان کی اس آمد کو سرکاری وزٹ قرار دیا جاتا ہے۔ کراچی، ملتان، کوئٹہ یا جہاں بھی موقعہ ملے یہ افسران بذریعہ جہاز اس شہر میں وارد ہوتے ہیں۔
پھر ان کے ذیلی دفاتر میں خوب چہل پہل ہوتی ہے ان کی رہائش پر بھی ہزاروں روپے صرف کیے جاتے ہیں۔ پھر ایک طرف صبح کا پرتکلف ناشتہ ، دوپہر کا بھر پور لنچ اسی طرح رات کے ڈنر پر بھی ہزاروں روپے سرکاری خزانے سے خرچ کر دیے جاتے ہیں۔
جہاں تک کام کی بات ہے زیادہ تر کام اسلام آباد میں بیٹھ کر بھی ہوسکتے ہیں۔ بہرحال ان دوروں کی سخت ضرورت بھی اگر ہو تو کم سے کم خرچ میں بھی باآسانی کام چلایا جاسکتا ہے ، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جہاں تک بیرونی دوروں کی بات ہے تو ایک غریب مقروض ملک کے حکام جب بھی قرض لینے واشنگٹن جاتے ہیں یا آئی ایم ایف سے دبئی میں بات چیت کرنی ہو تو کروڑوں روپے تو صرف اس آنے جانے میں خرچ ہو جاتے ہیں کہ قرض دینے والے بھی منہ تکتے رہ جاتے ہیں کہ کروڑوں روپے خرچ کرکے کروڑوں ڈالر قرض کے خواہاں ہیں۔
اس کے علاوہ گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کردی گئی ہے جو ایک اچھا اقدام ہے۔ کسی بھی سرکاری محکمے میں چلے جائیں وہاں گاڑیوں کی لائن لگی ہوگی۔ پاکستان میں مختلف بجٹس کے مواقعے پرگاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی میں کمی کی جاتی ہے۔ مثلاً 2002 کے بجٹ میں اعلان کیا گیا کہ گھی اور تیل 15 فیصد مہنگا کردیا گیا جب کہ گاڑیوں پر ڈیوٹی میں کمی کردی گئی ہے۔ ڈیزل پر ڈیوٹی میں اضافہ اور مٹی کے تیل پر بھی سرچارج لگادیا گیا۔
یعنی غریبوں کی ضروریات پر ٹیکس اور امیروں کی ضرورت گاڑیوں پر ڈیوٹی میں کمی کردی گئی۔ اسی بجٹ کے اعلان پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ 8 جون 2003 کو جو بجٹ پیش کیا گیا اس موقع پر اعلان کیا گیا کہ درآمد شدہ خوردنی تیل کے بیجوں پر 20 فیصد سیلز ٹیکس اور بڑی گاڑیاں سستی کردی گئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اشرافیہ اور امرا طبقے کے مطالبات کو مدنظر رکھا گیا۔
لیکن اس سے پاکستان کی درآمدات پر ناگوار بوجھ بڑھتا ہی چلا گیا۔ اربوں ڈالر کی اب تک قیمتی اور لگژری گاڑیاں درآمد کی جاچکی ہیں۔ بہرحال حکومت نے اب درآمدی گاڑیوں اور محکموں کی طرف سے خریدی جانے والی گاڑیوں پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
اسی طرح فرنیچر اور دیگر سامان کی خریداری بھی بند کردی گئی ہے۔ پون صدی گزرنے کے باوجود کسی دفتر، کسی محکمے میں چلے جائیں ایک طرف مختلف اقسام کے فرنیچر کی بھرمار کے باوجود نئے فرنیچر کی خریداری بھی ہو رہی ہے۔ کیونکہ اس طرح کے سودوں سے کئی متعلقین کا بھلا بھی ہو جاتا ہے اور کتنوں کی جیب بھی گرم ہو جاتی ہے۔ لیکن پیسہ تو پاکستانی عوام کا ہے۔
عوام کے ٹیکس میں سے ادائیگی کی جاتی ہے۔ ان مشکل ترین حالات تک پہنچنے کی ایک اہم وجہ یہی ہے کہ بے انتہا فضول خرچیاں کی جاتی رہی ہیں۔ ابھی بھی بہت سے شعبے اور مد ایسے ہیں جن میں کفایت شعاری کرکے اربوں روپے بچائے جاسکتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت کا صحیح رخ متعین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں ہر طرف کی بے یقینی کی فضا کو ختم کیا جائے۔ بے یقینی کی فضا مختلف اقسام کے معیشت کو زک پہنچانے والی افواہوں کو جنم دیتی ہے۔ جس سے کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کی ضرورت ہے۔
اس کے لیے سیاسی کشیدگی کے تناؤ کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی ملک ہو سیاسی بے چینی، سیاسی کشیدگی کی فضا اس کی معیشت کے لیے کسی طور پر بھی درست قرار نہیں دی جاسکتی ، کیونکہ ان باتوں کا اب سب سے زیادہ منفی اثر پاکستانی کرنسی پر مرتب ہو رہا ہے۔ پاکستانی روپیہ مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ ڈالر انٹر بینک مارکیٹ میں 2.77 روپے بڑھ کر 202.83 روپے کی تاریخی سطح پر آگیا۔
حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ پٹرول تھوڑا اور مہنگا ہوگا، مہنگائی کنٹرول کرلیں گے ، لیکن یہاں پر تو مہنگائی میں اضافے کی تمام تر شرائط پوری ہو رہی ہیں۔ حکومت باوجود کوشش کے اب تک مہنگائی کو قطعاً کنٹرول نہ کرسکی۔ موجودہ حکومت کی آمد کے ساتھ ہی آٹا 90روپے فی کلو تک جا پہنچا۔ چاول، دال، گھی، کوکنگ آئل، مرغی کا گوشت، گائے، بکرے کا گوشت مہنگا سے مہنگا تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کراچی میں دودھ 170 روپے فی لیٹر کردیا گیا۔
اس سلسلے میں فارمرز کا کہنا ہے کہ چارے کی قیمت میں دگنا اضافہ ہو چکا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق مختلف علاقوں کے بھینس باڑے کے مالکان نے بھینسیں فروخت کردی ہیں۔ بہرحال دودھ کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے عوام کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
حکومت کوئی ایسا لائحہ عمل، فارمولا یا طریقہ کار طے کرنے سے قاصر ہے جس سے واضح ہو سکے کہ ڈالر ریٹ کم ہوں گے، مہنگائی میں کمی ہوگی، روپے کی قدر میں اضافہ ہوگا اور دیگر معاشی مسئلے حل ہوکر رہیں گے۔
کیونکہ اعتماد اور بھروسے کی فضا میں ہی معیشت پروان چڑھتی ہے، کاروباری سرگرمیوں میں بہتری آتی ہے، معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے، تب کہیں جا کر ملک معاشی ترقی کرتا ہے، معاشی خوشحالی آتی ہے۔
غربت میں کمی کے آثار پیدا ہوتے ہیں، حکومت کی طرف سے سخت ترین اقدامات اٹھائے جانے کی صورت میں ہی مہنگائی میں کمی ہوگی لیکن پہلے روپیہ مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ڈالر سستا ہو اور آیندہ قرض لینے سے پرہیز کرنے کی معاشی منصوبہ بندی کرنا ہوگی تاکہ قرض لینے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کشکول توڑنے کی باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب اس کے لیے عملاً ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ بچت کرنا بھی مقصود تھا۔ ان فیصلوں کے تحت گاڑیوں کی خریداری پر ، بیرون ملک دوروں اور علاج پر پابندی کے علاوہ دفاتر میں لنچ ڈنر بند کردیا گیا۔ پاکستان میں عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ دارالخلافہ سے جیسے ہی کوئی بڑا سرکاری افسر یا دیگر افسران کسی بھی شہر میں چلے جائیں ان کی اس آمد کو سرکاری وزٹ قرار دیا جاتا ہے۔ کراچی، ملتان، کوئٹہ یا جہاں بھی موقعہ ملے یہ افسران بذریعہ جہاز اس شہر میں وارد ہوتے ہیں۔
پھر ان کے ذیلی دفاتر میں خوب چہل پہل ہوتی ہے ان کی رہائش پر بھی ہزاروں روپے صرف کیے جاتے ہیں۔ پھر ایک طرف صبح کا پرتکلف ناشتہ ، دوپہر کا بھر پور لنچ اسی طرح رات کے ڈنر پر بھی ہزاروں روپے سرکاری خزانے سے خرچ کر دیے جاتے ہیں۔
جہاں تک کام کی بات ہے زیادہ تر کام اسلام آباد میں بیٹھ کر بھی ہوسکتے ہیں۔ بہرحال ان دوروں کی سخت ضرورت بھی اگر ہو تو کم سے کم خرچ میں بھی باآسانی کام چلایا جاسکتا ہے ، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جہاں تک بیرونی دوروں کی بات ہے تو ایک غریب مقروض ملک کے حکام جب بھی قرض لینے واشنگٹن جاتے ہیں یا آئی ایم ایف سے دبئی میں بات چیت کرنی ہو تو کروڑوں روپے تو صرف اس آنے جانے میں خرچ ہو جاتے ہیں کہ قرض دینے والے بھی منہ تکتے رہ جاتے ہیں کہ کروڑوں روپے خرچ کرکے کروڑوں ڈالر قرض کے خواہاں ہیں۔
اس کے علاوہ گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کردی گئی ہے جو ایک اچھا اقدام ہے۔ کسی بھی سرکاری محکمے میں چلے جائیں وہاں گاڑیوں کی لائن لگی ہوگی۔ پاکستان میں مختلف بجٹس کے مواقعے پرگاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی میں کمی کی جاتی ہے۔ مثلاً 2002 کے بجٹ میں اعلان کیا گیا کہ گھی اور تیل 15 فیصد مہنگا کردیا گیا جب کہ گاڑیوں پر ڈیوٹی میں کمی کردی گئی ہے۔ ڈیزل پر ڈیوٹی میں اضافہ اور مٹی کے تیل پر بھی سرچارج لگادیا گیا۔
یعنی غریبوں کی ضروریات پر ٹیکس اور امیروں کی ضرورت گاڑیوں پر ڈیوٹی میں کمی کردی گئی۔ اسی بجٹ کے اعلان پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ 8 جون 2003 کو جو بجٹ پیش کیا گیا اس موقع پر اعلان کیا گیا کہ درآمد شدہ خوردنی تیل کے بیجوں پر 20 فیصد سیلز ٹیکس اور بڑی گاڑیاں سستی کردی گئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اشرافیہ اور امرا طبقے کے مطالبات کو مدنظر رکھا گیا۔
لیکن اس سے پاکستان کی درآمدات پر ناگوار بوجھ بڑھتا ہی چلا گیا۔ اربوں ڈالر کی اب تک قیمتی اور لگژری گاڑیاں درآمد کی جاچکی ہیں۔ بہرحال حکومت نے اب درآمدی گاڑیوں اور محکموں کی طرف سے خریدی جانے والی گاڑیوں پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
اسی طرح فرنیچر اور دیگر سامان کی خریداری بھی بند کردی گئی ہے۔ پون صدی گزرنے کے باوجود کسی دفتر، کسی محکمے میں چلے جائیں ایک طرف مختلف اقسام کے فرنیچر کی بھرمار کے باوجود نئے فرنیچر کی خریداری بھی ہو رہی ہے۔ کیونکہ اس طرح کے سودوں سے کئی متعلقین کا بھلا بھی ہو جاتا ہے اور کتنوں کی جیب بھی گرم ہو جاتی ہے۔ لیکن پیسہ تو پاکستانی عوام کا ہے۔
عوام کے ٹیکس میں سے ادائیگی کی جاتی ہے۔ ان مشکل ترین حالات تک پہنچنے کی ایک اہم وجہ یہی ہے کہ بے انتہا فضول خرچیاں کی جاتی رہی ہیں۔ ابھی بھی بہت سے شعبے اور مد ایسے ہیں جن میں کفایت شعاری کرکے اربوں روپے بچائے جاسکتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت کا صحیح رخ متعین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں ہر طرف کی بے یقینی کی فضا کو ختم کیا جائے۔ بے یقینی کی فضا مختلف اقسام کے معیشت کو زک پہنچانے والی افواہوں کو جنم دیتی ہے۔ جس سے کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کی ضرورت ہے۔
اس کے لیے سیاسی کشیدگی کے تناؤ کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی ملک ہو سیاسی بے چینی، سیاسی کشیدگی کی فضا اس کی معیشت کے لیے کسی طور پر بھی درست قرار نہیں دی جاسکتی ، کیونکہ ان باتوں کا اب سب سے زیادہ منفی اثر پاکستانی کرنسی پر مرتب ہو رہا ہے۔ پاکستانی روپیہ مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ ڈالر انٹر بینک مارکیٹ میں 2.77 روپے بڑھ کر 202.83 روپے کی تاریخی سطح پر آگیا۔
حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ پٹرول تھوڑا اور مہنگا ہوگا، مہنگائی کنٹرول کرلیں گے ، لیکن یہاں پر تو مہنگائی میں اضافے کی تمام تر شرائط پوری ہو رہی ہیں۔ حکومت باوجود کوشش کے اب تک مہنگائی کو قطعاً کنٹرول نہ کرسکی۔ موجودہ حکومت کی آمد کے ساتھ ہی آٹا 90روپے فی کلو تک جا پہنچا۔ چاول، دال، گھی، کوکنگ آئل، مرغی کا گوشت، گائے، بکرے کا گوشت مہنگا سے مہنگا تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کراچی میں دودھ 170 روپے فی لیٹر کردیا گیا۔
اس سلسلے میں فارمرز کا کہنا ہے کہ چارے کی قیمت میں دگنا اضافہ ہو چکا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق مختلف علاقوں کے بھینس باڑے کے مالکان نے بھینسیں فروخت کردی ہیں۔ بہرحال دودھ کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے عوام کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
حکومت کوئی ایسا لائحہ عمل، فارمولا یا طریقہ کار طے کرنے سے قاصر ہے جس سے واضح ہو سکے کہ ڈالر ریٹ کم ہوں گے، مہنگائی میں کمی ہوگی، روپے کی قدر میں اضافہ ہوگا اور دیگر معاشی مسئلے حل ہوکر رہیں گے۔
کیونکہ اعتماد اور بھروسے کی فضا میں ہی معیشت پروان چڑھتی ہے، کاروباری سرگرمیوں میں بہتری آتی ہے، معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے، تب کہیں جا کر ملک معاشی ترقی کرتا ہے، معاشی خوشحالی آتی ہے۔
غربت میں کمی کے آثار پیدا ہوتے ہیں، حکومت کی طرف سے سخت ترین اقدامات اٹھائے جانے کی صورت میں ہی مہنگائی میں کمی ہوگی لیکن پہلے روپیہ مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ڈالر سستا ہو اور آیندہ قرض لینے سے پرہیز کرنے کی معاشی منصوبہ بندی کرنا ہوگی تاکہ قرض لینے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کشکول توڑنے کی باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب اس کے لیے عملاً ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔