کس سے منصفی چاہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

شہر قائد پر سرکاری اداروں کا قبضہ

شہر قائد پر سرکاری اداروں کا قبضہ. فوٹو : فائل

مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا، سسکتا ہوا شہر قائد، جو ہر روز نئے زخموں سے چور ہوتا ہے۔

اس پر قبضے کی جنگ عروج پر ہے۔ یہ مختلف مافیاز کے ساتھ سرکاری اداروں کے بھی نرغے میں ہے۔ بورڈ آف ریونیو کی رپورٹ کے مطابق کراچی کی تقریباً 52 ہزار ایکڑ سے زاید زمین سرکاری اداوں کے قبضے میں ہے۔ تاہم پہلے مرحلے میں محکمہ لینڈ اینڈ یوٹیلائزیشن نے 32 ہزار ایکڑ اراضی پر قابض سرکاری اداروں کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔ ان اداروں میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، ملیر کینٹ، پورٹ قاسم،کے پی ٹی اور دیگر ادارے شامل ہیں۔

بورڈ آف ریونیو کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق ڈی ایچ اے 5257 ایکڑ سرکاری اراضی پر قابض ہے،کراچی پورٹ ٹرسٹ 769 ایکڑ، ایم ڈی اے 9512 ایکڑ، پورٹ قاسم اتھارٹی 3690 ایکڑ اورملیر کینٹ نے سندھ سرکار کی 1522 ایکڑ زمین اپنے قبضے میں لی ہوئی ہے۔ یہ انکشافات سنیئر ممبر بورڈ آف ریونیو سندھ فضل الرحمن نے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کیے۔ اس رپورٹ کے مطابق سرکاری اداروں نے کراچی میں 52130 ایکڑ اراضی پر قبضہ کررکھا ہے۔



محکمہ لینڈ اینڈ یوٹیلائزیشن نے ان اداروں کو نوٹسز جاری کرنے کے ساتھ متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو بھی ان اداروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیاہے اور ڈپٹی کمشنرز نے بھی ان اداروں کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ڈی ایچ اے نے5257 ایکڑ اراضی پر قبضہ کیا ہے۔کے پی ٹی 769 ایکڑ پر قابض ہے، جن میں ہاربر سب ڈویژن کراچی ویسٹ اور مائی کولاچی روڈ پر کے پی ٹی ہاؤسنگ سوسائٹی شامل ہے۔ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے سندھ حکومت کو نہ صرف 9512 ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ کی رقم ادا نہیں کی، بلکہ ایم ڈی اے 3158 ایکڑ اراضی پر قابض بھی ہے۔ ایل ڈی اے نے8175 ایکڑ اراضی پر قبضہ کررکھا ہے، پورٹ قاسم اتھارٹی نے 3960 ایکڑ اراضی پر غیرقانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ ملیر کینٹ 1522 ایکڑ پر قابض ہے۔


سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے عدالت کو بتایا کہ جعلی گوٹھوں کے نام پر 6528 ایکڑسرکاری اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے، جب کہ 1216 ایکڑاراضی پر تجاوزات قائم کی گئی ہیں۔ سیٹلائٹ سروے کے مطابق کے پی ٹی کے پاس 2000ء میں 436 ایکڑ اراضی تھی جو کہ 2005ء میں بڑھ کر 443 اور 2012ء میں 1674 ایکڑ ہوگئی۔



اس طرح کے پی ٹی کی اراضی میں 1238 ایکڑ کا غیرقانونی اضافہ ہوا، سروے کے مطابق 2000ء میں پورٹ قاسم اتھارٹی کے پاس 692 ایکڑ اراضی تھی، جو کہ 2005ء میں بڑھ کر698 اور2012ء میں 794 ایکڑ ہوگئی، اس طرح پورٹ قاسم اتھارٹی کی اراضی میں 101 ایکڑ کا اضافہ ہوا، ڈی ایچ اے فیزVIII میں 2000ء میں 254 ایکڑ اراضی تھی جو 2005ء میں بڑھ کر 371 ایکڑ ہوگئی، اس طرح 117 ایکڑ اراضی کا اضافہ ہوا اور ڈی ایچ اے نے مزید 371 ایکر اراضی غیرقانونی طریقے سے حاصل کی ہے۔

گزشتہ بلدیاتی حکومتوں میں بھی یہ معاملات سامنے آئے تھے کہ کراچی کا اکثر حصہ شہری حکومت کے زیر انتظام ہے ہی نہیں۔ اسی وجہ سے شہری حکومت کو اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ مثلاً کسی شاہ راہ کا منصوبہ، یا فراہمی آب یا نکاسی آب کی لائنوں کا مسئلہ ہو تو مقامی حکومت کو ڈی ایچ اے، کے پی ٹی اور دیگر اداروں سے بھی معاملات طے کرنے ہوتے۔ اس وجہ سے باقی شہر کے مسائل حل کرنے میں شدید مشکلات درپیش رہیں۔ شہر کو اگر مسائل سے نکالنا ہے تو اسے اس انتظامی پیچیدگی سے بھی نکالنا ہوگا، تاکہ شہری حکومت کا جو بھی نظام موجود ہو ، وہ آزادی سے اپنے امور کی انجام دہی کر سکے، بہ صورت دیگر اس کے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

سرکاری اراضی کو واگزار کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اگر خود سرکاری ادارے ہی اس پر قابض ہوں تو اسے کیا کہا جائے۔ سوائے اس کے کہ قانون کا مذاق اگر سرکاری ادارے ہی اڑا رہے ہوں، تو دوسروں کی نظر میں قانون کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
Load Next Story