بلاول بھٹو زرداری کا دورہ لاڑکانہ شہر کو پیرس بنانے کا عزم

افسران اعلیٰ کی سرزنش۔

افسران اعلیٰ کی سرزنش۔ فوٹو : فائل

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے لاڑکانہ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر نوڈیرو میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، فریال تالپور، چیف سیکریٹری اور صوبائی وزراء سمیت قومی و صوبائی اراکین اسمبلی کا اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں لاڑکانہ ڈویژن میں امن امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے محکمہ پولیس میں 10 ہزار اہل کار بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

بلاول بھٹوزرداری نے لاڑکانہ میں ناقص ترقیاتی کاموں اور بڑے پیمانے پر کی گئی کرپشن پر برہمی کا اظہار کیا اورکہا کہ وہ ہر ماہ لاڑکانہ کا دورہ کریں گے، آیندہ ترقیاتی کام لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ٹھیکے داروں کی بجائے دیگر شہروں کے اچھی شہرت رکھنے والے ٹھیکے داروں سے کرائے جائیں گے۔ انہوں نے لاڑکانہ کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ لاڑکانہ شہر میرے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو کا نہیں لگتا، کیوں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اس شہر کو پیرس سے تعبیر کیا تھا، لیکن یہاں کی سڑکیں، گلیاں اور راستے زبوں حالی کا شکار ہیں، گندگی اور سیوریج کے پانی نے شہریوں کو عذاب میں مبتلا کر دیا ہے اور یہ عوامی شکایات عام ہیں۔ انہوں نے جب افسران سے پوچھا کہ شہر کے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈ کہاں گئے؟ تو افسران کو سانپ سونگھ گیا۔ بلاول بھٹو نے معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار اور اعلان کیا کہ وہ ہر ماہ لاڑکانہ کا دورہ کریں گے۔

بلاول بھٹو نے کمشنر لاڑکانہ ڈاکٹر سعید احمد، ڈپٹی کمشنر گھنورعلی لغاری سمیت تمام محکموں کے افسران کو ہدایت کی کہ و ہ تمام کام شفاف طریقے سے کروائیں تاکہ لوگوں میں اعتماد بحال ہو سکے۔ بعدازاں انہوں نے موئن جو دڑو کا دورہ کیا اور ماسٹر پلان کا جائزہ بھی لیا۔ ایک جانب بلاول بھٹو افسران کو اپنا قبلہ درست کرنے کا کہہ رہے تھے تو دوسری طرف محکمہ صحت عامہ کے انجینئرراور ایس ڈی او کی جانب سے مبینہ طور پر سرکاری ٹھیکے سیاسی سفارش اور بھاری رشوت کے عوض من پسند ٹھیکے دار کو دینے کے خلاف محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئر سے منسلک مہران لطیف گورنمنٹ کنٹریکٹرز اتحاد لاڑکانہ کے راہ نماؤں حسین ابڑو، احسان سہاگ، سعید جتوئی، ریاض لانگاہ کی ایک ماہ سے لاڑکانہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ اور بھوک ہڑتال جاری ہے۔ راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ پبلک ہیلتھ انجنیئر اور ایس ڈی او نے خلاف قانون ترقیاتی اسکیموں کے ٹھیکے سیاسی سفارش اور بھاری رشوت کے عوض من پسند ٹھیکے دار کو دے کر چھوٹے کنٹریکٹرز سے زیادتی کی ہے۔



ان کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ اورمتعلقہ صوبائی وزیر نوٹس لے کر جاری کردہ ٹھیکے منسوخ کریں۔ بلاول بھٹو کے احکامات کے بعد مختلف محکموں کے افسران میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ گھنورعلی لغاری نے سرکٹ ہاؤس میں میٹ دی پریس میں کہا کہ میں نے چارج سنبھالتے ہی شہر کا دورہ کیا، افسوس کہ شہر میں تجاوزات کی بھر مار ہے، چھوٹی چھوٹی دکانوں کا سارا سامان راستوں پر رکھا جاتا ہے، شہر میں کئی غیر قانونی ٹرانسپورٹ اڈے قائم ہیں، جس کی وجہ سے ٹریفک جام رہنا بھی معمول بن گیا ہے، مسائل کے حل کے لیے خصوصی ہدایات ملی ہیں۔ ہم پہلے مرحلے میں دکان داروں کو تجاوزات ختم کرنے کے لیے قانونی نوٹس جاری کر رہے ہیں، جس کے بعد مارچ کے دوسرے ہفتے میں گرینڈ آپریشن کیا جائے گا تاکہ کسی کو اعتراض کا موقع نہ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ صحافی کالونی کا مسئلہ بھی جلد حل کر لیا جائے گا۔ جب کہ بیمار صحافیوں کا سرکاری خرچ پر اعلاج بھی کرائیں گے۔ لاڑکانہ میں زیر التوا ترقیاتی کاموں کے متعلق بھی اہم فیصلے ہو چکے ہیں، ان پر کام جلد شروع کر کے انہیں مکمل کیا جائے گا۔


پیپلز پارٹی کے سابقہ اور حالیہ اقتدار میں یہ ساتویں ڈپٹی کمشنر ہیں، جنہوں نے یہ دعوے کیے ہیں۔ لیکن لاڑکانہ کی حالت نہیں بدلی۔ تاہم شہر ی پھر بھی پر امید ہیںکہ بلاول ان کے دکھوں کا مداوا بن سکتے ہیں، بلاول ہی کہ احکامات پر لاڑکانہ کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر امن امان کو قائم رکھنے کے لیے ضلع کی چاروں تحصیلوں میں مزید پانچ تھانوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایس ایس پی لاڑکانہ خالد مصطفٰیٰ کورائی نے اﷲ آباد، بنگل ڈیرو، گڑھی خدا بخش، سیہڑاور شہید بے نظیر بھٹو تھانے قائم کرنے کے لیے صوبائی وزارت داخلہ سے اجازت طلب کی ہے۔ پچھلے دنوں نیشنل فنڈز فار موئن جودڑو کنسلٹیٹو کمیٹی کا 7 واں اجلاس وزیر اعلیٰ سندھ کی معاون خصوصی برائے ثقافت شرمیلا فاروقی کی صدارت میں موئن جودڑو ریسٹ ہاؤس میں منعقد ہوا، جس میں یونیسکو کے سابق ایڈوائزر پروفیسرمائیکل جانسن، ڈائریکٹر آرکیالاجی قاسم علی قاسم، کوآرڈی نیٹر اشفاق موسوی اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں موئن جودڑو کے ایک سال سے زیر التوا ماسٹر پلان کے متعلق اہم فیصلے کیے گئے۔ اجلاس میں کمیٹی کی سینئر ممبر نیلوفر شیخ کا استعفیٰ بھی منظور کیا گیا۔



اجلاس کے بعد شرمیلا فاروقی نے کہا کہ پہلی بار یونیسکو کے7 سالہ پرانے مطالبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے موئن جودڑو کی حدود اور بفر زون کا تعین کرنے کے لیے نان ڈسٹرکٹو میتھرڈ کے ذریعے ڈرائے کور ڈرلنگ کا مرحلہ شروع کیا جا رہا ہے، جو کہ 4 ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا اور رپورٹ ورلڈ ہیرٹیج کمیٹی یونیسکو میں پیش کردی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ماہرین اندازہ لگا رہے ہیں کہ موئن جودڑو دنیا کا سب سے بڑا قدیم شہر تھا اور حدود معلوم ہونے کے بعد اس تاریخی مقام کو دنیا کی مزید توجہ حاصل ہو گی۔ شرمیلا فاروقی نے مزید کہا کہ دڑو پر انٹر نیٹ اور میٹھے پانی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جبکہ 285 ملین روپے کی منظور شدہ اسکیم کے فنڈز ملتے ہی کھدائی کا عمل بھی شروع کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ موئن جودڑو کے عارضی ملازمین کو مستقل کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ سے سفارش کی جائے گی۔ قبل ازیں این ایف ایم کمیٹی نے موئن جو دڑو کے حساس مقامات کا دورہ بھی کیا۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے اجلاس پہلے بھی کئی بار ہوئے ہیں لیکن وہ موثر نہیں رہے۔

اب دیکھنا یہ ہے سندھ فیسٹیول اور اس اجلاس کے بعد موئن جو دڑو کی تقدیر بدلے گی یا نہیں؟ کیوں کہ اجلاس کے بعد عملی طور پر کوئی کام اب تک نظر نہیں آیاہے۔ لاڑکانہ کے تاجروں کے دیرینہ مطالبے کے پیش نظرماحولیات پروٹیکشن ایجنسی سندھ کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل وقار حسین پھلپوٹو کی صدارت میں مقامی ہوٹل میں سیمینار منعقد کیا گیا جس میں ایم ڈی سائٹ نظر محمد بوزدار اور دیگر افسران نے شرکت کی۔ سیمینار سے خطاب میں وقار حسین نے کہا کہ جلد ہی لاڑکانہ کے موئن جو دڑو روڈ پر گاؤں آریجا کے قریب انڈسٹریل اسٹیٹ قائم کیا جائے گا، جس سے بے روزگاری میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پروجیکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں 250 ایکڑ رقبے پرایک ایک ایکڑکے 230 انڈسٹریل پلاٹ قائم کیے جائیں گے، جب کہ انڈسٹریل اسٹیٹ میں بینک ، مسجد، پوسٹ آفیس، ٹیلی فون ایکس چینج، ہوٹل، ریسٹورینٹ، پیٹرول پمپ، پولیس، واپڈا اور گیس اسٹیشن، رہایشی کوارٹرکے علاوہ ہول سیل اور ٹریڈ مارکیٹ بھی قائم کی جائیں گی۔ اس انڈسٹریل زون کو قائم کرنے کے لیے گلوبل انوائرمینٹل منیجمنٹ سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ سے رپورٹ بھی لے لی گئی ہے۔

حیرت اس امر پر ہے کہ اس پروجیکٹ کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔ محکمہ خوراک کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری محمد نصیر جمالی نے بھی بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے کہا کہ اس سال گندم کی خریداری روایتی طریقے کی بجائے بہتر اور جدید طریقہ کارسے ہوگی، تحصیل کی سطح تک کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی، جن میں اسسٹنٹ کمشنر، مختیار کار، آبادگار بورڈ اور محکمہ خوراک کے نمایندے شامل ہو ں گے، جن کے سامنے گزشتہ دو سالوں کی باردانہ تقسیم کی فہرستیں رکھیں جائیں گی، اگر ان میں کسی بیوپاری کو باردانہ دیا گیا ہوگا تو اس تاجر کا نام خارج کر دیا جائے گا، اس سال گندم کی سالانہ پیداوار چالیس سے بیالیس لاکھ ٹن ہے، جب کہ امسال سندھ حکومت 13 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کرے گی جو کہ گذشتہ برس 10 لاکھ ٹن تھی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ لاڑکانہ سے 35 ہزار ٹن، قمبر سے 35 ہزار ٹن، شکار پور اور جیکب آباد سے 20,20 ہزار ٹن، کشمور سے 25 ہزار ٹن گندم خریدنے کا ٹارگیٹ مقرر کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرانی گندم جوگوداموں میں موجود ہے، 15 مارچ 2014 تک جاری کر دی جائے گی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پنجاب سے ہمارے آٹے کے نرخ کم ہیں، اگر ضرورت سے زیادہ گند م خریدی تو وہ خراب ہونے کا امکان ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ 25 مارچ 2014 تک گندم خریداری مراکز کا اعلان کرتے ہوئے گندم پالیسی کا بھی اعلان کریں گے، ایک فوڈ انسپکٹر کو صرف ایک سینٹر دیا جائے گا، جب کہ گندم کا نرخ گذشتہ برس کی طرح 1200 روپے من ہی رہے گا۔ اس موقع پر آبادگاروں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ اس سال کافی بہتر فصل ہوئی ہے، آبادگاروں تک کبھی بھی باردانہ نہیں پہنچا اور ہر بار با اثر افراد کو ہی باردانہ میسر ہو تا ہے، جب کہ ایک سو کلو گندم پر دو کلو کی کٹوتی بند کر کے صرف ایک کلو کی جائے ، نرخوں میں اضافے پر بھی غور کیا جائے، گندم کی اسمگلنگ کو بھی روکا جائے، اس موقع پر ایڈیشنل سیکریٹری خوراک نے انہیں تمام مسائل کے حل کی یقین دہانی بھی کروائی۔
Load Next Story