مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا چاہیے

امید پیدا ہوئی ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والا مذاکراتی عمل جلد نتیجہ خیز ہو گا


Editorial March 06, 2014
حکومت اور طالبان کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات اب نئے فیصلہ سازی کے مرحلے میں داخل ہونا خوش آیند امر ہے۔ فوٹو: اے پی پی/فائل

حکومت اور طالبان کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات اب نئے فیصلہ سازی کے مرحلے میں داخل ہونا خوش آیند امر ہے۔ اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والا مذاکراتی عمل جلد نتیجہ خیز ہو گا اور گو مگو کی یہ کیفیت ختم ہو جائے گی۔حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے درمیان پہلا مرحلہ رابطہ کاری کے عمل سے شروع ہوا پھر اس میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔ اس کے بعد طالبان کی جانب سے عارضی جنگ بندی کے اعلان کے بعد حکومت کی جانب سے جوابی کارروائیاں روک دی گئیں اور مذاکرات کو آگے بڑھانے کا عندیہ دیا گیا۔ اب خبر کے مطابق حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل اہم اور فیصلہ کن موڑ میں داخل ہو گیا ہے۔ بدھ کو حکومتی اور طالبان رابطہ کار کمیٹیوں کا اجلاس اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کی رہائش گاہ پر ہوا جس سے سترہ روز بعد مذاکراتی عمل بحال ہو گیا۔ اس موقع پر دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات کے حوالے سے تازہ صورت حال کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ نئے فیصلہ سازی کے مرحلے میں کمیٹیوں میں ردوبدل کرنے کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ جس کے بعد جمعرات کو یہ اطلاعات آئیں کہ حکومت نے حکومتی کمیٹی تحلیل کر کے نئی مذاکراتی ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں جرگہ فوج اور پولیٹیکل انتظامیہ کو بھی شامل کرنے کا امکان ہے اور یہ نئی مذاکراتی ٹیم وزیرستان میں طالبان قیادت سے براہ راست مذاکرات کرے گی۔

طالبان کی جانب سے ایک ماہ کی عارضی جنگ بندی کے بعد یہ امید بندھی تھی کہ شدت پسندوں کی جانب سے حملے رک جائیں گے اور امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئے گی مگر ایسا نہیں ہو سکا بلکہ نئے نام سے منظر عام پر آنے والے شدت پسندوں کی جانب سے حملوں میں تیزی آ گئی ہے۔ بدھ کو کرم ایجنسی میں ایف سی کے قافلے پر ریموٹ کنٹرول بم حملے میں چھ اہلکار شہید ہو گئے' انصار المجاہدین نامی تنظیم نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ پیر کو اسلام آباد کچہری پر حملے کی ذمے داری بھی ایک گروپ احرار الہند نے قبول کر لی تھی جس کا نام پہلی بار سامنے آیا۔ جمعرات کو بھی ہنگو میں پولیٹیکل ایجنٹ کی گاڑی کے قریب ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں پولیٹیکل ایجنٹ سمیت 2 پولیٹیکل اسسٹنٹ ایجنٹ زخمی ہو گئے۔ ان حملوں میں نئی صورت حال سامنے آئی ہے جس میں شدت پسندوں کے نئے گروہ منظر عام پر آئے ہیں۔ طالبان تو فائر بندی کے اعلان کے بعد ہونے والے حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں مگر نئے سامنے آنے والے گروپوں کی جانب سے ہونے والے حملوں نے تشویش کی لہر دوڑا دی ہے کہ یہ گروپ کون ہیں اور کیا یہ طالبان کے کنٹرول سے باہر ہیں اور طالبان کے کسی فیصلے کو تسلیم کرنے پر رضا مند نہیں۔ بدھ کو کرم ایجنسی پر ایف سی کے قافلے پر حملہ کرنے والے گروپ انصار المجاہدین کے ترجمان نے ایک خبر رساں ایجنسی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ وہ طالبان کا حصہ ہیں نہ ان کے جنگ بندی کے اعلان پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔

یہ ایک پریشان کن امر ہے کہ یہ گروہ کسی کے کنٹرول میں نہیں اور یہ مذاکراتی امن عمل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لیے حملے کر رہے ہیں۔ اب اس نئی صورتحال میں حکومت کا تحریک طالبان سے مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو بعد کی بات ہے مگر طالبان کے مذاکرات کرنے کے باوجود صورت حال میں تبدیلی نہیں آ رہی اور حملوں کا سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔ اگر طالبان کا واقعی ان گروپوں سے کوئی تعلق نہیں اوروہ خلوص نیت سے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو انھیں یہ واضح اعلان کرنا ہو گا کہ ان کا ان گروہوں سے کوئی تعلق نہیں اور انھیں ان کے ٹھکانوں کی نشاندہی کے لیے حکومت سے تعاون کرنا ہو گا تاکہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ جب تک طالبان واضح طور پر ان گروپوں سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کرتے اعتماد کی فضا برقرار رکھنا مشکل امر ہوگا کیونکہ دوسری جانب بعض ایسے بااثر اور طاقتور حلقے بھی موجود ہیں جو حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے قطعی حامی نہیں اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں کہ مذاکرات کا عمل معطل کیا جائے ،اس کے علاوہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے والے شدت پسند گروہ بھی اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس گھمبیر صورت حال میں مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے کے لیے طالبان کا تعاون اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ طالبان کی جانب سے غیر مشروط اعلان جنگ بندی کے بعد اگر حملے اسی طرح جاری رہتے ہیں تو منظر عام پر آنے والے یہ نئے شدت پسند گروہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

اس لیے ان حملوں کو رکوانے کے لیے طالبان کو آگے آنا اور ان گروہوں کو حملوں سے باز رکھنے میں فوری کردار ادا کرنا ہو گا۔ ذرایع کے حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ شمالی وزیرستان میں ممکنہ آپریشن کے پیش نظر شدت پسندوں کے کئی گروہ کرم ایجنسی میں منتقل ہو گئے ہیں جس سے ایجنسی میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اگر کچھ گروہ شمالی وزیرستان سے فرار ہو کر ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہو رہے ہیں تو یہ مزید پریشان کن امر ہے کہ اس سے سیکیورٹی اداروں پر حملوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا اس صورت حال کے تناظر میں سیکیورٹی اداروں کی ذمے داری بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ شمالی وزیرستان سے آنے والے تمام راستوں کی کڑی نگرانی کریں۔ اب نئی حکومتی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دینے اور طالبان سے براہ راست مذاکرات کے فیصلے سے مذاکراتی عمل جلد آگے بڑھنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ مذاکراتی عمل میں شامل دونوں فریقین کو مذاکرات کو جلد نتیجہ خیز بنانے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے کیونکہ جتنی تاخیر ہوتی جائے گی اس کی راہ میں اتنی ہی زیادہ رکاوٹیں پیدا ہوتی جائیں گی۔ حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کو بھی مذاکرات میں شامل کرنا چاہیے تاکہ اس حوالے سے سیاسی سطح پر کوئی کنفیوژن پیدا نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔