اداروں سے زیادہ طاقتور تنظیموں کا دور

ہمارے ہاں کچھ لوگوں نے ’’شریعت کے مکمل نظام‘‘ کے ذریعے سستے اور فوری انصاف کا نعرہ بلند کیا


Nusrat Javeed March 06, 2014
[email protected]

پتہ نہیں یہ قصہ کس حد تک سچا ہے۔ مگر افتخار چوہدری کی معزولی کے خلاف چلنے والی تحریک کے دوران اسے بارہا دہرایا گیا۔ بقول یہ قصہ بیان کرنے والوں کے دوسری عالمی جنگ کے غضب ناک مرحلوں کے درمیان ایک مرتبہ یہ ممکن نظر آ رہا تھا کہ ہٹلر کی افواج فرانس کے بعد برطانیہ پر بھی قبضہ کر لیں۔ چرچل ان دنوں برطانیہ کا وزیر اعظم ہوا کرتا تھا۔ اسے جب اس امکان کے بارے میں آگاہ کیا گیا تو بڑے پرسکون انداز میں اس نے اپنے مشیروں سے صرف ایک سوال پوچھا: ''ہمارا عدالتی نظام معمول کے مطابق کام کر رہا ہے؟'' جواب پُر زور ہاں میں ملا تو وہ مطمئن ہو گیا۔ اسے کامل یقین تھا کہ برطانیہ کی عدالتیں اپنے شہریوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں۔ حقیقی انصاف کے حصول کا یقین رکھتے ہوئے برطانوی شہری غیروں کے غلام نہیں بنائے جا سکتے۔

پاکستان کے شہریوں کو حقیقی انصاف کے حصول کے حوالے سے ایسا اطمینان ہرگز میسر نہیں ہے جو چرچل کے برطانیہ میں روزمرہّ والی عام سی بات تھی۔ مگر برطانوی راج ہی کے طفیل ہمارے ہاں بھی عدل و انصاف فراہم کرنے کے نام پر ایک وسیع تر بنیادوں پر اٹھایا گیا ڈھانچہ موجود ہے۔ ہر طرح کے جرائم اور مالی معاملات کو ذہن میں ر کھتے ہوئے عمومی اور خصوصی نوعیت کے بے تحاشہ قوانین بھی لاگو کیے گئے ہیں۔ ان قوانین کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لیے ایک بھرپور انتظامی مشینری بھی اپنی جگہ قائم نظر آتی ہے اور پھر وکلاء ہیں اور عدالتیں۔

پاکستانی شہریوں کی اکثریت مگر اس سست اور پیچیدہ نظر آنے والے نظام سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے۔ ان کے عدم اطمینان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے ہاں کچھ لوگوں نے ''شریعت کے مکمل نظام'' کے ذریعے سستے اور فوری انصاف کا نعرہ بلند کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نعرے میں بڑی شدت بھی دیکھنے میں نظر آ رہی ہے۔ مگر ''شرعی نظام'' کس طریقے سے جلد از جلد ہمارے ہاں تقریباََ سو برس سے قائم عدالتی نظام کی جگہ لے سکتا ہے۔ اس سوال کے موثر جوابات پُر خلوص کوششوں کے باوجود نہیں مل پائے۔

حکومت اور تحریکِ طالبان کے درمیان مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کے راستے ڈھونڈنے کے لیے جب دونوں فریقین نے اپنے نمایندگان نامزد کیے تو مولانا عبدالعزیز ہماری ٹی وی اسکرینوں پر تواتر کے ساتھ نظر آنا شروع ہو گئے۔ انھیں طالبان نے اپنی کمیٹی کا رُکن نامزد کیا تھا۔ مگر وہ جب ٹیلی ویژن اسکرینوں پر رونما ہوتے تو بحث کا رُخ بڑی شدت کے ساتھ یہ طے کرنے کی طرف موڑ دیتے کہ پاکستان میں رائج نظام اسلامی ہے یا نہیں۔ اینکر حضرات اور ان سے بحث کرنے والے انھیں آئین کی مختلف شقیں سناتے ہوئے اس بات پر قائل کرنا شروع ہو جاتے کہ ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' میں قرآن و سنت کے منافی قوانین کی موجودگی ممکن ہی نہیں رہی تو ابلاغ کے ایک حیران کن ماہر کی طرح مولانا عزیز اپنے ہاتھ میں تھامی ایک لمبی فہرست کو جذباتی انداز میں پڑھتے ہوئے اصرار کرنا شروع کر دیتے کہ پاکستان میں رائج دیوانی اور تعزیراتی قوانین کی بے پناہ اکثریت برطانوی آقاؤں نے 19 ویں صدی میں متعارف کروائی تھی۔ اس فہرست کے ساتھ ان کے دائیں ہاتھ میں کلام پاک کی ایک جلد بھی ہوتی۔ وہ اسے دیوانہ وار لہراتے ہوئے بتانا شروع ہو جاتے کہ پاکستان اس وقت تک خود کو ایک اسلامی مملکت نہیں کہلوا سکتا جب تک یہاں ''اللہ کا دیا ہوا قانون'' مکمل طور پر رائج نہیں ہو جاتا۔

میں ذاتی طور پر مولانا عبدالعزیز کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتا۔ یہ اعتراف کرنے کے باوجود میں اس بات پر بضد ہوں کہ ٹی وی اسکرینوں پر ہوئے مناظروں میں مولانا عبدالعزیز کی جانب سے دیے گئے دلائل کا موثر جواب فراہم نہ کیا جا سکا۔ مولانا کے ہمعصر علماء اور ہم مسلکی ناقدین اپنے دفاع میں اکثر بس یہ بات یاد دلانے پر اکتفا کرتے پائے گئے کہ 1973ء کے آئین پر مولانا مفتی محمود اور غلام غوث ہزاروی جیسے اکابرین نے بھی دستخط کیے تھے۔ جامعہ اکوڑہ خٹک کے بانی اور مولانا سمیع الحق کے والد گرامی بھی ان علماء میں شامل تھے جنہوں نے اس آئین کی تیاری اور منظوری کے جاں گسل مراحل میں بھرپور حصہ لیا تھا۔

مولانا عبدالعزیز نے ٹی وی مناظروں میں حصہ لیتے ہوئے جس انداز میں اپنی دھاک جمائی اس نے مجھ ایسے گنہگار کو بلکہ اس بات پر مجبور کر دیا کہ میں اس کالم کے ذریعے ان کے ہنرِ ابلاغ پر حیران کن کنٹرول کا اعتراف کروں۔ بات مگر علمی اور ادبی بحث تک محدود رہتی تو فکر کی کوئی بات نہ تھی۔ اسلام آباد میں موجود عدالتوں پر پیر کی صبح جو حملہ ہوا اس نے مجھے دہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ تحریک طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور ہمیں اس دعوے کا مان لینے میں کوئی حرج نہیں۔ چند لوگوں نے یہ شک بھی پھیلانا چاہا کہ شاید لال مسجد کے واقعات کے بعد جذباتی ہوئے چند نوجوانوں نے یہ حملہ کیا ہے۔ مگر ٹھوس شواہد کے بغیر حملہ آوروں کا مولانا عبدالعزیز سے تعلق جوڑنے کی کوشش بھی ناانصافی کی بات ہے۔

مجھے ہر گز اعتماد نہیں کہ چوہدری نثار علی خان کی ہدایت پر قائم پولیس اور مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افراد پر مشتمل کمیٹی اسلام آباد پر حملہ کرنے والوں کا سراغ لگا پائے گی۔ اس کمیٹی میں یہ صلاحیت ہوتی تو وزیر داخلہ تحریکِ طالبان سے یہ درخواست نہ کرتے کہ وہ اس سانحے کے ذمے داروں کی نشاندہی کرنے میں کچھ کردار ادا کرے۔ طے شدہ بات ہے تو صرف اتنی کہ ہمارے ہاں اب ایسی تنظیمیں وجود میں آ چکی ہیں جن کے پاس یہ قوت بھرپور طریقے سے موجود ہے کہ وہ ہمارے عدالتی نظام کو ''برطانوی راج کی باقیات'' قرار دیتے ہوئے اپنا نشانہ بنا کر ہمیں حیران و پریشان کر سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔