عورت حقیر اور کمتر کیوں

کسی قوم کے تہذیب وتمدن اور ترقی کا حال معلوم کرنا ہو تو یہ دیکھو کہ عورت کا کیا مقام ہے۔


Pakiza Munir March 06, 2014

کسی قوم کے تہذیب وتمدن اور ترقی کا حال معلوم کرنا ہو تو یہ دیکھو کہ عورت کا کیا مقام ہے۔ عورت روئے زمین پر محکوم اور کمتر سمجھی جاتی تھی۔ اسلام سے قبل عرب میں کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی تو اپنی بے عزتی سمجھتا اور لوگوں سے چھپتا پھرتا اور پھر اپنی بیٹی کو زندہ دفن کردیتا۔ جب عرب میں اسلام آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں صحیح اور غلط ہر بات بتائی۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:

''اللہ تعالیٰ نے تم ہی سے تمہارے لیے بیویاں بنائیں اور پھر ان بیویوں سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تم کو اچھی چیزیں کھانے پینے کو دیں کیا پھر بھی بے بنیاد چیز پر ایمان رکھوگے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری کرتے رہوگے۔'' (سورۃ النمل۔72)

خدا کی نظر میں مرد اور عورت ایک جیسے ہیں پھر کیوں معاشرے میں آدمی عورت کو ذلیل اور حقیر سمجھتا ہے طرح طرح کے ظلم کیے جاتے ہیں۔ نہ صرف معاشرے کی تکمیل میں عورت کا کلیدی کردار ہے بلکہ رب العزت نے عورت کو معاشرے میں خاص عزت و احترام سے نوازا ہے ان کو تمام حقوق عطا کیے ہیں پھر آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ جو مسلم معاشرہ ہے یہاں خواتین کے حقوق کو بری طرح پامال کیا جاتا ہے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے سالانہ رپورٹس پیش کی۔ اب تک کی رپورٹس میں تشدد، اغوا، خودکشیاں، چولہا پھٹنے اور تیزاب سے جلائے جانے کی دلخراش داستانیں شامل ہیں، یہ صورت حال ہمارے معاشرے کی بے حسی اور سنگ دلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسلامی معاشرے میں عورتوں کے ساتھ اتنا ظلم انتہائی دکھ اور شرم کی بات ہے۔

پاکستان میں گزشتہ 13برسوں کے دوران 86,933خواتین قتل و جسمانی تشدد کا نشانہ بنیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کے حقوق کے علمبردار کب اپنے اعلانات بیانات اور دعوؤں کو عملی شکل میں ڈھالیں گے؟ کب تک عورت ظلم سہتی رہے گی؟

زمانہ جاہلیت میں جب کسی کے گھر بیٹا پیدا ہوتا تو خوب ہی جشن منایا جاتا اور لڑکی پیدا ہوجاتی تو دکھ کے ساتھ ساتھ زندہ دفن کردیتے اور بڑا ہی فخر محسوس کرتے زمانہ جاہلیت میں ہونے والی اس وحشیانہ رسم سے پوری دنیا واقف ہے۔ مگر جب اسلام آیا تو ساری وحشیانہ رسمیں ختم ہوگئیں۔ عورتوں کو اسلام نے جتنے حقوق دیے ہیں ان کی مثال آپ کو دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملے گی۔ مگر افسوس آج کا ہمارا معاشرہ عہد جاہلیت کی تصویر بنا ہوا ہے اسلام نے جو عورتوں کو حقوق دیے آج کا انسان وہ سارے حقوق عورتوں سے چھین رہا ہے۔ دور جاہلیت اور آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کوئی بھی فرق نظر نہیں آتا۔ پہلے بھی عورت کو کم تر سمجھا جاتا تھا اور زندہ دفن کردیا جاتا تھا اور آج بھی عورت کو کم تر سمجھا جاتا ہے اور طرح طرح ظلم کرکے مار دیا جاتا ہے۔

ہم بحیثیت مسلمان ان تمام تعلیمات کو کیوں فراموش کربیٹھے ہیں جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے ملیں ان کو کیوں فراموش کردیا گیا ہے؟ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہم پر وہ تمام تعلیمات لاگو ہوتی ہیں جو اللہ نے قرآن پاک اور اپنے پیارے نبیؐ کے ذریعے ہم تک پہنچا دی ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:

''لوگو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، وہ تمہارے پاس خدا کی امانت ہیں، پس تم ان سے نیک سلوک کرو، تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے۔''

اس حدیث مبارکہ میں صاف واضح ہے کہ عورت کو خدا نے بہت عزت اور احترام بخشا ہے۔ اسلامی فکر و عمل سے منہ موڑ کر ہم اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی استحصال کر رہے ہیں خاص طور پر عورت کا۔ خواتین سب سے زیادہ ظلم کا نشانہ بنتی ہیں، ویسے تو عورت کے اوپر کئی طرح کے ظلم ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں ان میں سے ایک کاروکاری بھی ہے۔

دریائے سندھ کے آس پاس رہنے والے آبادی کے لوگ کاروکاری کو قتل کرنے کے بعد دریا میں بہا دیتے ہیں اور عورت کی ناک کاٹ دیتے ہیں تاکہ دریا میں آگے چل کر کوئی اس نعش کو باہر نکالے تو وہ کٹی ہوئی ناک دیکھ کر سمجھ جائے کہ یہ کاری عورت ہے اور اس کی نعش دریا سے باہر نکال کر دفن نہیں کرنی اسی طرح دریائے سندھ سے دور آباد علاقوں کے لوگ کاری کو بغیر کفن اور نماز جنازہ کے بغیر گڑھے میں دفن کردیتے ہیں۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ شادی شدہ عورت کے قتل ہونے کے بعد اس کے والدین خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری بیٹی کا نصیب ہی یہی ہے۔

تعجب ہے کیا ہم ترقی یافتہ معاشرے میں جی رہے ہیں یا پھر دور جاہلیت میں ہیں؟ کیا واقعی ہم مسلمان ہیں؟ ایک رسم سوارہ بھی ہے اس رسم کے تحت عورتوں اور بچیوں کو کسی گھوڑے یا اونٹ پر سوار کروا کر روانہ کیا جاتا ہے جو اپنے باپ، بھائی یا چچا کے قتل کے جرم میں مرتکب ہونے کے بعد بطور جرمانہ مقتول کے ورثا میں سے کسی مرد کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ سوارہ ہونے والی لڑکی تمام عمر ذلت اور حقارت کا نشانہ بنی رہتی ہے۔ سوارہ ہونے والی کئی بچیوں کی چند ہی روز بعد خودکشی کی داستانیں قبائلی علاقوں میں عام ملتی ہیں۔ یہ رسمیں ساری جاہلیت پر مبنی ہیں ظہور اسلام کے بعد بھی ایسے منظر دیکھنے میں آئیں تو پھر اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کا حق نہیں۔ کیونکہ اسلام ایسی کوئی تعلیمات نہیں دیتا ایسا ظلم کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے ہم کب تک جہل کے اندھیروں میں پھنسے رہیں گے؟ ایسی تمام تر مکروہ رسموں کا خاتمہ ہمارے پیارے نبیؐ نے کردیا تھا خدا کے حکم سے۔ پھر بھی آج کا انسان اپنے آپ کو مسلمان کہلاتا ہے اور اسلامی تعلیمات کو جانتا تک نہیں ہے۔

اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو عورتوں کو مکمل حقوق فراہم کرکے ان کی حفاظت کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عورتوں کو وہ تمام حقوق دیے جائیں جو اسلام نے عورت کو دیے ہیں۔ ہمارے یہاں قوانین بھی بن جاتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ہمیں ایسے قوانین کی ضرورت ہے جو عورتوں کو حقیقی تحفظ فراہم کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں