چائلڈ لیبر ظلم خاتمے کیلیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملکر کام کرنا ہوگا ایکسپریس فورم
چائلڈلیبرکی حوصلہ شکنی کیلیے قانون سازی کی جائے،افتخار مبارک،بچوں کے والدین کو بڑے پیمانے پرآگاہی دیناہوگی،فاطمہ طاہر
چائلڈ لیبر ایک ظلم ہے۔بچے سے اس کا بچپن چھین کر مشقت پرلگا دیناانسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان نے عالمی کنونشنز کی توثیق کررکھی ہے،اس پرآئین پاکستان اورعالمی کنونشنزکی روشنی میں قانون سازی بھی کی گئی مگرتاحال چائلڈپروٹیکشن پالیسی نہیں بنائی گئی جوافسوسناک ہے۔
20 سالہ پرانے سروے کے مطابق چائلڈ لیبر کی تعداد33لاکھ ہے تاہم عالمی ادارے کے تعاون سے محکمہ لیبرپنجاب نے نیاسروے مکمل کرلیاہے جس کی روشنی میں چائلڈپروٹیکشن پالیسی یاایکشن پلان بنایاجائے گا۔دکانوں،کارخانوں سمیت گھروں میں کام کرنے والے بچے جسمانی تشدد، جنسی زیادتی، شدید نفسیاتی دباؤودیگرامراض کاشکارہورہے ہیں، ان کاکوئی پرسان حال نہیں ہے۔
قانون سازی کے باوجودایک بڑی تعدادمیں بچے محنت مزدوری کررہے ہیں،چائلڈلیبرکے خاتمے کیلیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کرکام کرناہوگا،قوانین پر عملدرآمدکامیکنزم بنانے کے ساتھ ساتھ لوگوں خصوصاََ بچوںکے والدین کو آگاہی دیناہوگی۔ ان خیالات کااظہارحکومت،ماہر نفسیات اورسول سوسائٹی کے نمائندوں نے''چائلڈ لیبرکے خاتمے کے عالمی دن''کے حوالے سے منعقدہ''ایکسپریس فورم''میں کیا۔
رکن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ندیم اشرف نے کہا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 25(A) ریاست کو پابند کرتاہے کہ وہ 6 برس سے 15 برس کی عمر کے بچوں کومفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے جبکہ آرٹیکل 27 اور 28 میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کے حوالے سے اقدامات کرنے کی بات کی گئی ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے آئین کی ان شقوں کی روشنی میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے قانون سازی کی،بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن کے مطابق چائلڈ لیبر کو روکنے کیلیے ریاست کوکرداراداکرناہوگا۔
انھوں نے کہا کہ آئی ایل او کنونشن 182 بچوں کی پرخطر ملازمت کی ممانعت کرتاہے،اس پرتمام ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں،دیکھنایہ ہے کہ ہمارے ہاں اس پرعملدرآمد ہو رہا ہے یا نہیں؟ انھوں نے کہا کہ 20 سالہ پرانے سروے کے مطابق 33 لاکھ بچے محنت مشقت کر رہے ہیں، آبادی میں اضافے کے بعد یہ تعداد کافی بڑھ چکی ہوگی جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے،یہ بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں، نفسیاتی مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔
ڈائریکٹر محکمہ لیبر پنجاب داؤد عبداللہ نے کہا کہ پنجاب میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے تین قوانین موجود ہیں جن پر عملدرآمد کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔ 2016ء میں بچوں کی مشقت اور بھٹہ مزدوری کے حوالے سے جو دو قوانین آئے، ان پر عملدرآمد کے حوالے سے ہم ریگولر انسپکشن کر رے ہیں، اس کیلیے جدید میکنزم اپنایا گیا ہے،اب انسپکٹر کو وہاں جاکر وہاں کی تصویر دیگر تفصیلات دیناہوتی ہیں،ہمارا انسپکشن کاسارانظام آن لائن ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے۔
انھوں نے کہاکہ2017ء سے اب تک ہم ہرسال چائلڈ لیبرکے حوالے سے کم ازکم 1ہزارایف آئی آردرج کرواتے ہیں جن میں سے 80فیصد مجرمان کو جرمانے گئے ہیں جبکہ بیشترکو قیدکی سزابھی سنائی گئی۔انھوں نے بتایاکہ چائلڈ لیبرکی تعدادجاننے کیلیے چائلڈ لیبرسروے کیاجارہا ہے تاکہ اعداد و شمارکی روشنی میں اقدامات کیے جاسکیں، چائلڈ لیبرسروے کی روشنی میں چائلڈلیبرپالیسی یا ایکشن پلان بنایاجائے گا۔
نمائندہ سول سوسائٹی افتخارمبارک نے کہاکہ اس عالمی دن کاموضوع ''چائلڈ لیبرکے خاتمے کیلیے سماجی تحفظ سب کیلیے ''ہے،سماجی تحفظ کی سکیموں کوبہترکرکے یہ یقینی بنایا جائے کہ پسماندہ اور نظر اندازہونے والے طبقات کو اس سے فائدہ ہوسکے اورچائلڈ لیبرکامکمل خاتمہ ہوسکے۔
انھوں نے کہاکہ پاکستان نے1990ء میں بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے کی توثیق کی جس کاآرٹیکل 32 خاص طور پرریاستوں کوپابند کرتا ہے کہ وہ بچوں کو چائلڈلیبر سے بچانے کیلیے اقدامات کریں،چائلڈ لیبر بچوں کا معاشی استحصال بھی ہے اس کے خاتمے کیلیے کام کرنا ہوگا، ایسی قانون سازی کی جائے جس سے چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی ہو۔پنجاب میں کوئی چائلڈ پروٹیکشن پالیسی نہیں ہے، یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر تاحال اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ تمام سٹیک ہولڈرز کومل کرکام کرناہوگا۔
کلینکل سائکالوجسٹ فاطمہ طاہرنے کہاکہ مزدور بچوں کے والدین غربت کی کہانی سناتے ہیں،انہیں آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ قانون پر سختی سے عملدرآمدکیاجائے تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔
20 سالہ پرانے سروے کے مطابق چائلڈ لیبر کی تعداد33لاکھ ہے تاہم عالمی ادارے کے تعاون سے محکمہ لیبرپنجاب نے نیاسروے مکمل کرلیاہے جس کی روشنی میں چائلڈپروٹیکشن پالیسی یاایکشن پلان بنایاجائے گا۔دکانوں،کارخانوں سمیت گھروں میں کام کرنے والے بچے جسمانی تشدد، جنسی زیادتی، شدید نفسیاتی دباؤودیگرامراض کاشکارہورہے ہیں، ان کاکوئی پرسان حال نہیں ہے۔
قانون سازی کے باوجودایک بڑی تعدادمیں بچے محنت مزدوری کررہے ہیں،چائلڈلیبرکے خاتمے کیلیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کرکام کرناہوگا،قوانین پر عملدرآمدکامیکنزم بنانے کے ساتھ ساتھ لوگوں خصوصاََ بچوںکے والدین کو آگاہی دیناہوگی۔ ان خیالات کااظہارحکومت،ماہر نفسیات اورسول سوسائٹی کے نمائندوں نے''چائلڈ لیبرکے خاتمے کے عالمی دن''کے حوالے سے منعقدہ''ایکسپریس فورم''میں کیا۔
رکن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ندیم اشرف نے کہا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 25(A) ریاست کو پابند کرتاہے کہ وہ 6 برس سے 15 برس کی عمر کے بچوں کومفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے جبکہ آرٹیکل 27 اور 28 میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کے حوالے سے اقدامات کرنے کی بات کی گئی ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں نے آئین کی ان شقوں کی روشنی میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے قانون سازی کی،بچوں کے حقوق کے عالمی کنونشن کے مطابق چائلڈ لیبر کو روکنے کیلیے ریاست کوکرداراداکرناہوگا۔
انھوں نے کہا کہ آئی ایل او کنونشن 182 بچوں کی پرخطر ملازمت کی ممانعت کرتاہے،اس پرتمام ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں،دیکھنایہ ہے کہ ہمارے ہاں اس پرعملدرآمد ہو رہا ہے یا نہیں؟ انھوں نے کہا کہ 20 سالہ پرانے سروے کے مطابق 33 لاکھ بچے محنت مشقت کر رہے ہیں، آبادی میں اضافے کے بعد یہ تعداد کافی بڑھ چکی ہوگی جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے،یہ بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں، نفسیاتی مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔
ڈائریکٹر محکمہ لیبر پنجاب داؤد عبداللہ نے کہا کہ پنجاب میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے تین قوانین موجود ہیں جن پر عملدرآمد کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔ 2016ء میں بچوں کی مشقت اور بھٹہ مزدوری کے حوالے سے جو دو قوانین آئے، ان پر عملدرآمد کے حوالے سے ہم ریگولر انسپکشن کر رے ہیں، اس کیلیے جدید میکنزم اپنایا گیا ہے،اب انسپکٹر کو وہاں جاکر وہاں کی تصویر دیگر تفصیلات دیناہوتی ہیں،ہمارا انسپکشن کاسارانظام آن لائن ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے۔
انھوں نے کہاکہ2017ء سے اب تک ہم ہرسال چائلڈ لیبرکے حوالے سے کم ازکم 1ہزارایف آئی آردرج کرواتے ہیں جن میں سے 80فیصد مجرمان کو جرمانے گئے ہیں جبکہ بیشترکو قیدکی سزابھی سنائی گئی۔انھوں نے بتایاکہ چائلڈ لیبرکی تعدادجاننے کیلیے چائلڈ لیبرسروے کیاجارہا ہے تاکہ اعداد و شمارکی روشنی میں اقدامات کیے جاسکیں، چائلڈ لیبرسروے کی روشنی میں چائلڈلیبرپالیسی یا ایکشن پلان بنایاجائے گا۔
نمائندہ سول سوسائٹی افتخارمبارک نے کہاکہ اس عالمی دن کاموضوع ''چائلڈ لیبرکے خاتمے کیلیے سماجی تحفظ سب کیلیے ''ہے،سماجی تحفظ کی سکیموں کوبہترکرکے یہ یقینی بنایا جائے کہ پسماندہ اور نظر اندازہونے والے طبقات کو اس سے فائدہ ہوسکے اورچائلڈ لیبرکامکمل خاتمہ ہوسکے۔
انھوں نے کہاکہ پاکستان نے1990ء میں بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے کی توثیق کی جس کاآرٹیکل 32 خاص طور پرریاستوں کوپابند کرتا ہے کہ وہ بچوں کو چائلڈلیبر سے بچانے کیلیے اقدامات کریں،چائلڈ لیبر بچوں کا معاشی استحصال بھی ہے اس کے خاتمے کیلیے کام کرنا ہوگا، ایسی قانون سازی کی جائے جس سے چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی ہو۔پنجاب میں کوئی چائلڈ پروٹیکشن پالیسی نہیں ہے، یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر تاحال اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ تمام سٹیک ہولڈرز کومل کرکام کرناہوگا۔
کلینکل سائکالوجسٹ فاطمہ طاہرنے کہاکہ مزدور بچوں کے والدین غربت کی کہانی سناتے ہیں،انہیں آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ قانون پر سختی سے عملدرآمدکیاجائے تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔