بلوچستان میں امریکی مفادات

دنیا کی واحد سپر پاور نے اپنے مفادات کے تحفظ پر کبھی کسی ملک سے ایسا کوئی معاہدہ یا سمجھوتہ نہیں کیا

پاک امریکا تعلقات کی چھ دہائیوں پر مشتمل تاریخ پر نظر رکھتے اور امریکی خارجہ پالیسی کی پس پردہ حکمت عملی کو سمجھنے والے مبصرین و تجزیہ نگار اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں کہ دنیا کی واحد سپر پاور نے اپنے مفادات کے تحفظ پر کبھی کسی ملک سے ایسا کوئی معاہدہ یا سمجھوتہ نہیں کیا جس سے اس کی عالمی بالادستی وعلاقائی حاکمیت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان دوستی، تعاون اور اشتراک عمل سے عوام کے دوطرفہ تعلقات ہمیشہ مد و جزر کی کیفیت کا شکار رہے۔ اگرچہ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران امریکا کے چند ایک صدور ہی نے پاکستان کے گنتی کے دورے کیے جب کہ لیاقت علی خان سے لے کراب تک پاکستان کے تقریباً تمام ہی حکمرانوں نے امریکی دوروں کا ''اعزاز'' حاصل کیا ۔اس کے باوجود پاکستان اور امریکا کے درمیان اعتماد و اعتبار کا مستحکم دیانت دار راستہ پروان نہ چڑھ سکا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ پاکستانی قیادت کا امریکا پر حد درجہ بھروسہ تھا جب کہ دوسری جانب امریکی حکمراں پاکستان کے مسائل، مشکلات اور ضروریات کو سمجھنے کے باوجود اس پر کلی اعتماد کرنے پر دل سے آمادہ نہ ہوئے اور محض اپنے مفادات کو اہمیت دیتے رہے تاکہ ان کی خارجہ پالیسی متعین راستوں پر چلتی رہے اور امریکی بالادستی اور طاقت کا بھرم قائم رہے تاکہ پاکستان امریکی دباؤ کے زیر اثر اس کے علاقائی و عالمی مفادات کے تحفظ میں امریکی خواہش کے مطابق کردار ادا کرتا رہے۔

تقریباً ایک عشرہ قبل یعنی 9/11 کے سانحے کے بعد امریکا نے ایک مرتبہ اپنے روایتی طرز عمل کے تحت پاکستان کو اپنے دباؤ میں لاتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ میں اپنا فرنٹ لائن اتحادی بننے پر مجبور کردیا۔ امریکا نے عالمی سطح پر جس تباہ کن جنگ کا آغاز کیا اور اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مسلمان ملکوں افغانستان، عراق اور لیبیا میں خوفناک کارروائیوں کے ذریعے وہاں برسراقتدار حکومتوں کو برطرف کرکے اپنے گماشتوں کو بٹھایا اس نے امریکی سامراج کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا۔ پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام میں امریکی کارروائیوں پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور مسلمان ممالک میں امریکا مخالف جذبات میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔ پاکستان فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناتے امریکا کی عالمی جنگ میں اپنا رول ادا کرتا آرہا ہے ہر چند کہ اس وحشت ناک جنگ کے شعلوں میں پاکستان بھی جھلس رہا ہے۔ ایک عشرے سے ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانیاں بھی دیں جس کا امریکا اور اس کے اتحادی برملا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود حیرت اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ امریکی پالیسی ساز اپنے روایتی منافقانہ طرز عمل کے باعث اپنے اتحادیوں کے ہمراہ مل کے جنوبی ایشیا میں پاکستان کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے خفیہ پلاننگ بھی کرتے رہتے ہیں۔


ایک جانب تو پاکستان کی سلامتی، آزادی و خودمختاری کے احترام کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف درپردہ سازشوں کے ذریعے ہماری جغرافیائی حدود کو توڑنے اور نقصان پہنچانے کی سازشیں بھی کی جا رہی ہیں بالخصوص پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت وہاں کے ان علیحدگی پسندوں کے ہاتھ مضبوط ہوتے کیے جا رہے ہیں جو ''آزاد بلوچستان'' کی تحریک کو ہوا دے رہے ہیں۔ اسی حوالے سے امریکی کانگریس کے رکن لوئی گومرٹ کا بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے جس میں انھوں نے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرکے ''آزاد بلوچستان'' قائم کرنے کے خفیہ امریکی منصوبے کا انکشاف کیا ہے۔ ان کے مذکورہ بیان پر پاکستان میں سخت تشویش کا اظہارکیا گیا ، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں بھی کانگریسی رکن کے بیان پر تنقید کی گئی تو اوباما انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی اور اپنی ساکھ مجروح ہوتے دیکھ کر وہ حرکت میں آگئی پھر سرکاری سطح پر امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان کی جغرافیائی حدود کا احترام کرتا ہے۔ اوباما انتظامیہ کی ''آزاد بلوچستان'' تحریک کی حمایت کی کوئی پالیسی نہیں ہے ہم رکن کانگریس گومرٹ کے بیان سے واقف ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے رکن کانگریس کے بیان کو اس انداز سے تحفظ فراہم کیا کہ اراکین کانگریس مختلف خیالات اور آرا کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن ایسے بیانات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ امریکی حکومت کی ان بیانات کو حمایت حاصل ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے ایک پریس ریلیز جاری کرکے بظاہر کانگریسی رکن کے اشتعال انگیز بیان کی شدت کو کم کرنے اور اپنی خارجہ پالیسی ''واضح'' کرنے کی موہوم سی کوشش کی ہے کہ بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو امریکی حمایت کا تاثر غلط ہے کیونکہ ایسی تحریک امریکی عالمی و علاقائی مفادات کے خلاف ہے۔ اگرچہ امریکی محکمہ خارجہ کی وضاحتوں سے کانگریسی رکن کے بیان سے اٹھنے والی گرد جلد بیٹھ جائے گی لیکن امریکی پالیسیوں کے پس پردہ حقائق اور خفیہ وارداتوں کے حوالے سے جن تحفظات اور شکوک وشبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ان میں موجود وزن کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ''کمالات'' سے کون آگاہ نہیں جو بدنام زمانہ امریکی سیکیورٹی ایجنسی ''بلیک واٹر'' کے گماشتوں کے ساتھ مل کر بیرون ملک کارروائیاں کرتے ہیں۔ ایک برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلیک واٹر اپنی سرگرمیاں نئے نام کے ساتھ بلوچستان میں آپریٹ کرتی رہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکا پاکستان کے ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کو بھی وطن عزیز میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے تعاون فراہم کرتا ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق پاکستان میں اعلیٰ ترین سطح پر یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ امریکا اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے وہ بھارت اور افغانستان کو مکمل تعاون فراہم کر رہا ہے۔ اخبارکے مطابق پاکستان کو تشویش ہے کہ افغانستان میں بھارتی قونصل خانے بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کی حمایت کر رہے ہیں۔ امریکا کے آرمڈ فورسز جرنل میں رالف پیٹرز کی جانب سے لکھے گئے کالم ''بلڈ بارڈرز ہاؤ اے بیٹر مڈل ایسٹ ووڈ لک لائک''(Blood borders: How a better Middle East would look like)میں بلوچستان کو ایک علیحدہ ملک کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ صورت حال ارباب حکومت اور اہل اقتدار کے علاوہ محب وطن حلقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ امریکا، بھارت اور افغانستان خفیہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کی جغرافیائی حدود کو پامال کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو بلوچستان میں امریکی مداخلت پر بھرپور احتجاج کرنا چاہیے۔
Load Next Story