سالانہ بجٹ اور اس کے اہداف
سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اور اسکول کے دیگر ملازمین کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کی ضرورت ہے
موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو مالیاتی و معاشی بحران تو پوری شدت سے موجود تھا اور اب بھی موجود ہے لیکن اصل مسئلہ اس بحران سے نکلنا اور سالانہ بجٹ پیش کرنا تھا۔
بہرحال جمعے کو وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے یہ مرحلہ بھی طے کرلیا اورمالی سال 23۔2022کے لیے3798 ارب روپے خسارے اور9 ہزار 502 ارب روپے حجم کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا،بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4.9 فیصد کے برابر ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں شرکت کی۔نئے مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد جب کہ پنشن میں پانچ فیصد اضافہ کردیا گیا ہے، 6لاکھ روپے تک آمدن رکھنے والوں کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے،نئے بجٹ میں ادویات،سولر پینلز،زرعی مشینری،زرعی ٹریکٹر،تمام اقسام بیج،سونا،چاندی ،پوٹاشیم کلورائٹ سمیت دیگر اشیاء سستی کردی گئی ہیں۔ سولرپینل،زرعی آلات ،ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کوٹیکس سے مستثنیٰ قراردیا گیا ہے۔
یہ بہتر اقدامات کہے جاسکتے ہیں خصوصاً زرعی مشینری اور زرعی مداخل کو سستا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ، اسی طرح سولر پینلز اور ادویات کو سستا کرنا بھی بہت ضروری ہے اور اس سے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔
سالانہ میزانئے میں کرائے سے ہونے والی آمدنی، جائیداد کے لین دین پر ٹیکس میں اضافہ کردیا گیا ہے۔اس حوالے سے بھی حکومت کو کوئی حد مقرر کرنی چاہیے ۔ پوش علاقوں میں بڑے پلاٹوں ، کمرشل پلاٹوں اور فارم ہاوس کی خرید و فروخت پر ٹیکس عائد کرنا درست عمل ہے جب کہ پسماندہ بستیوں میں چھوٹے گھروں یا دوکانوں کی خریداری پر ٹیکس عائد نہیں ہونا چاہیے۔ کرائے سے حاصل ہونے والے آمدنی کے بارے میں بھی یہی فارمولہ اختیار کیا جانا چاہیے
۔ بجٹ میں کہا گیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ماہانہ ایک لاکھ روپے تنخواہ پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا، مہنگائی کی شرح 11.5فیصد پر لانے کا عزم بھی کیا گیا ہے،فائلر کو کریڈٹ کارڈ سے ادائیگیوں پر ایک فیصد ٹیکس اورنان فائلرز کو2 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔
غور کیا جائے تو یہ ٹیکس ریشنل اپروچ کے مطابق نہیں ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کریڈٹ کارڈ قرضے کی ہی ایک قسم ہے، صارف کریڈٹ کارڈ کی سالانہ فیس ادا کرتا ہے اور دوسرا اس کے ذریعے جو خریداری کرتا ہے ، اس پر جی ایس ٹی وغیرہ ایٹ دی سپاٹ ادا کرتا ہے، اگر صارف فائلر ہے تو واضح کہ صارف انکم ٹیکس یا جو بھی اس کے گوشوارے میں ہوگا، ادا کرتا ہے ۔کریڈٹ کارڈ کی رقم پر بینک کو مارک اپ وغیرہ کی ادائیگی بھی کرتا ہے ، یوں دیکھا جائے تو کریڈٹ کارڈ پر ٹیکس عائد نہیں ہونا چاہیے ۔
بجٹ کے مطابق وفاقی کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کے پٹرول کی حد کو 40 فیصد کم کیا جائے گا، حکومتی خرچ پر لازمی بیرونی دوروں کے سوا تمام دوروں پر پابندی ہوگی، 1600سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافے کی تجویز ہے۔
آیندہ مالی سال کے بجٹ میں معاشی شرح نمو کا ہدف5 فیصد رکھا گیا ہے، جی ڈی پی کو67 کھرب سے بڑھا کر 78.3کھرب تک پہنچایا جائے گا ۔اگلے سال جی ڈی پی میں ٹیکسز کی شرح 9.4فیصد تک لائی جائے گی۔وفاقی وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ مالی سال 23۔2022میں 3950 ارب روپے ڈیٹ سروسنگ پر خرچ ہوں گے۔ پی ایس ڈی پی کے لیے800 ارب ، ملکی دفاع کے لیے 1523 ارب، سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 550 ارب روپے،پنشن کی مد میں 530 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
عوام کی سہولت کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈیز کے لیے 699 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3144 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ وفاقی بجٹ میں فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 21ارب روپے ،دیامر بھاشا ڈیم، مہمند، داسو، نئی گاج ڈیم اور کمانڈ ایریا پروجیکٹس کے لیے 100 ارب روپے،شاہراہوں اور بندرگاہوں کے لیے 202 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تقریباً 10 ارب روپے رقوم مختص کی ہیں اس میں شجر کاری اور قدرتی ماحول بہتر بنانے کے دیگر منصوبے شامل ہیں۔
وفاقی وزیرخزانہ نے بتایا کہ وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی حد 12 لاکھ روپے مقرر کردی گئی ہے ۔ان کا کہنا تھا تنخواہ دار طبقے کی معاشی پریشانیوں کے ازالے کے لیے ٹیکس چھوٹ کی موجودہ حد6لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ کرنے،اس کے علاوہ مہنگائی کے پیش نظر انفرادی کاروبار اور اے او پیز کے لیے ٹیکس چھوٹ کی بنیادی حد 4 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ کرنے کی تجویز ہے۔
وفاقی وزیرخزانہ نے اگلے سال کے بجٹ میں طلبہ کے لیے ایک بار پھرلیپ ٹاپ اسکیم شروع کرنے کا اعلان کیا،طلبہ کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ آسان قسطوں پر فراہم کیے جائیں گے۔ وفاقی بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم 250ارب روپے سے بڑھا کر 364ارب روپے کردی گئی اس کے علاوہ یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن پر اشیاء کی سبسڈی کے لیے 12ارب روپے مختص کی گئی ہے۔ 5ارب روپے کی اضافی رقم رمضان پیکیج کے لیے مختص کی گئی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے بجٹ میں 65 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ 2018 کی فلم و کلچر پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے فلم کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے اور ایک ارب روپے سالانہ کی لاگت سے بائنڈنگ فلم فنانس فنڈ قائم کیا جارہا ہے جب کہ فنکاروں کے لیے میڈیکل انشورنس پالیسی شروع کی جارہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ فلم سازوں کو پانچ سال کا ٹیکس ہالی ڈے، نئے سنیما گھروں ، پروڈکشن ہاؤسز اورفلم میوزیمز کے قیام پر پانچ سال کا انکم ٹیکس اور دس سال کے لیے فلم اور ڈرامہ کی ایکسپورٹ پر ٹیکس ری بیٹ جب کہ سنیما اور پروڈیوسرز کی آمدن کو انکم ٹیکس سے استثنیٰ دیا جارہا ہے۔
ادھر وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15اور پینشن میں 5 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی۔ وزیر اعظم ایک ماہ قبل پینشن میں 10فیصد اضافہ کا اعلان کر چکے ہیں،اس طرح مجموعی طور پر پینشن میں بھی 15فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ کابینہ نے فنانس بل 2022،23 کی بھی منظوری دے دی۔ وزیراعظم نے کہایہ بجٹ ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کا نسخہ ہے، جس میں امیروں سے قربانی مانگی گئی ہے اور کمزور طبقات کو آسانی دی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ معاشرے کے صاحب ثروت طبقات کو مشکل حالات میں غریبوں کی مشکلات کا بوجھ اٹھانے میں بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بجٹ میں زراعت، صنعت، تجارت، آئی ٹی، فلم وثقافت سمیت ہر شعبے پر توجہ دی گئی ہے ، زراعت کوپہلی بار ٹیکس استثنیٰ دیا ، جس سے کسان کو نئی معاشی زندگی ملے گی ، گرین انقلاب برپا ہوگا اور فصلوں کی پیداوار بڑھے گی بلکہ خوراک کی قیمتوں میں کمی لانے میںمدد ملے گی۔ فلمی صنعت کی بحالی کے لیے اتنا بڑی رعایت کسی حکومت نے نہیں دی۔
ملک کے کاروباری طبقے نے اس بجٹ پر ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا ہے جب کہ تحریک انصاف نے بجٹ پر کڑی تنقید کی ہے ۔سابق وزیر خزانہ شوکت ترین اور عمرایوب نے بجٹ کے بارے میں کہا ہے کہ اسے مہنگائی کا سیلاب آئے گا۔ادھرکراچی چیمبر آف کامرس، لاہور اور راولپنڈی کے کاروباری حلقوں نے موجودہ حالات میں بجٹ کو مناسب قرار دیا ہے۔ بلاشبہ جن حالات میں بجٹ پیش کیا گیا ہے، وہ اچھے نہیں ہیں۔
تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور ریسرچ پر اتنا خرچ نہیں کیا جاسکے گا جتنا کہ ہونا چاہیے۔ملک کی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کو زیادہ فیسیلٹیز کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکے اور ان کے بچوں کا مستقبل بھی روشن ہوسکے۔ملک میں تعلیمی نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کوششوں اور اس کے لیے بجٹ میں رقم مختص ہونی چاہیے تھی۔
سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اور اسکول کے دیگر ملازمین کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ سرکاری اسکولز کا انفرااسٹرکچر جدید بنانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے جو سرکاری اسکول مختلف قسم کے فلاحی یا چیریٹی اداروں کے حوالے کیے گئے ہیں، انھیں واپس لے کر حکومت براہ ان اسکولوں کی ذمے داری لے تاکہ لوئر مڈل کلاس اور نچلے طبقے کے بچوں کو اچھی اور معیاری تعلیم اور اچھا ماحول میسر آسکے۔
بہرحال جمعے کو وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے یہ مرحلہ بھی طے کرلیا اورمالی سال 23۔2022کے لیے3798 ارب روپے خسارے اور9 ہزار 502 ارب روپے حجم کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا،بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4.9 فیصد کے برابر ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں شرکت کی۔نئے مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد جب کہ پنشن میں پانچ فیصد اضافہ کردیا گیا ہے، 6لاکھ روپے تک آمدن رکھنے والوں کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ہے،نئے بجٹ میں ادویات،سولر پینلز،زرعی مشینری،زرعی ٹریکٹر،تمام اقسام بیج،سونا،چاندی ،پوٹاشیم کلورائٹ سمیت دیگر اشیاء سستی کردی گئی ہیں۔ سولرپینل،زرعی آلات ،ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کوٹیکس سے مستثنیٰ قراردیا گیا ہے۔
یہ بہتر اقدامات کہے جاسکتے ہیں خصوصاً زرعی مشینری اور زرعی مداخل کو سستا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ، اسی طرح سولر پینلز اور ادویات کو سستا کرنا بھی بہت ضروری ہے اور اس سے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔
سالانہ میزانئے میں کرائے سے ہونے والی آمدنی، جائیداد کے لین دین پر ٹیکس میں اضافہ کردیا گیا ہے۔اس حوالے سے بھی حکومت کو کوئی حد مقرر کرنی چاہیے ۔ پوش علاقوں میں بڑے پلاٹوں ، کمرشل پلاٹوں اور فارم ہاوس کی خرید و فروخت پر ٹیکس عائد کرنا درست عمل ہے جب کہ پسماندہ بستیوں میں چھوٹے گھروں یا دوکانوں کی خریداری پر ٹیکس عائد نہیں ہونا چاہیے۔ کرائے سے حاصل ہونے والے آمدنی کے بارے میں بھی یہی فارمولہ اختیار کیا جانا چاہیے
۔ بجٹ میں کہا گیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ماہانہ ایک لاکھ روپے تنخواہ پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا، مہنگائی کی شرح 11.5فیصد پر لانے کا عزم بھی کیا گیا ہے،فائلر کو کریڈٹ کارڈ سے ادائیگیوں پر ایک فیصد ٹیکس اورنان فائلرز کو2 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔
غور کیا جائے تو یہ ٹیکس ریشنل اپروچ کے مطابق نہیں ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کریڈٹ کارڈ قرضے کی ہی ایک قسم ہے، صارف کریڈٹ کارڈ کی سالانہ فیس ادا کرتا ہے اور دوسرا اس کے ذریعے جو خریداری کرتا ہے ، اس پر جی ایس ٹی وغیرہ ایٹ دی سپاٹ ادا کرتا ہے، اگر صارف فائلر ہے تو واضح کہ صارف انکم ٹیکس یا جو بھی اس کے گوشوارے میں ہوگا، ادا کرتا ہے ۔کریڈٹ کارڈ کی رقم پر بینک کو مارک اپ وغیرہ کی ادائیگی بھی کرتا ہے ، یوں دیکھا جائے تو کریڈٹ کارڈ پر ٹیکس عائد نہیں ہونا چاہیے ۔
بجٹ کے مطابق وفاقی کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کے پٹرول کی حد کو 40 فیصد کم کیا جائے گا، حکومتی خرچ پر لازمی بیرونی دوروں کے سوا تمام دوروں پر پابندی ہوگی، 1600سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافے کی تجویز ہے۔
آیندہ مالی سال کے بجٹ میں معاشی شرح نمو کا ہدف5 فیصد رکھا گیا ہے، جی ڈی پی کو67 کھرب سے بڑھا کر 78.3کھرب تک پہنچایا جائے گا ۔اگلے سال جی ڈی پی میں ٹیکسز کی شرح 9.4فیصد تک لائی جائے گی۔وفاقی وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ مالی سال 23۔2022میں 3950 ارب روپے ڈیٹ سروسنگ پر خرچ ہوں گے۔ پی ایس ڈی پی کے لیے800 ارب ، ملکی دفاع کے لیے 1523 ارب، سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 550 ارب روپے،پنشن کی مد میں 530 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
عوام کی سہولت کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈیز کے لیے 699 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3144 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ وفاقی بجٹ میں فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 21ارب روپے ،دیامر بھاشا ڈیم، مہمند، داسو، نئی گاج ڈیم اور کمانڈ ایریا پروجیکٹس کے لیے 100 ارب روپے،شاہراہوں اور بندرگاہوں کے لیے 202 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تقریباً 10 ارب روپے رقوم مختص کی ہیں اس میں شجر کاری اور قدرتی ماحول بہتر بنانے کے دیگر منصوبے شامل ہیں۔
وفاقی وزیرخزانہ نے بتایا کہ وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی حد 12 لاکھ روپے مقرر کردی گئی ہے ۔ان کا کہنا تھا تنخواہ دار طبقے کی معاشی پریشانیوں کے ازالے کے لیے ٹیکس چھوٹ کی موجودہ حد6لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ کرنے،اس کے علاوہ مہنگائی کے پیش نظر انفرادی کاروبار اور اے او پیز کے لیے ٹیکس چھوٹ کی بنیادی حد 4 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ کرنے کی تجویز ہے۔
وفاقی وزیرخزانہ نے اگلے سال کے بجٹ میں طلبہ کے لیے ایک بار پھرلیپ ٹاپ اسکیم شروع کرنے کا اعلان کیا،طلبہ کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ آسان قسطوں پر فراہم کیے جائیں گے۔ وفاقی بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم 250ارب روپے سے بڑھا کر 364ارب روپے کردی گئی اس کے علاوہ یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن پر اشیاء کی سبسڈی کے لیے 12ارب روپے مختص کی گئی ہے۔ 5ارب روپے کی اضافی رقم رمضان پیکیج کے لیے مختص کی گئی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے بجٹ میں 65 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ 2018 کی فلم و کلچر پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے فلم کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے اور ایک ارب روپے سالانہ کی لاگت سے بائنڈنگ فلم فنانس فنڈ قائم کیا جارہا ہے جب کہ فنکاروں کے لیے میڈیکل انشورنس پالیسی شروع کی جارہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ فلم سازوں کو پانچ سال کا ٹیکس ہالی ڈے، نئے سنیما گھروں ، پروڈکشن ہاؤسز اورفلم میوزیمز کے قیام پر پانچ سال کا انکم ٹیکس اور دس سال کے لیے فلم اور ڈرامہ کی ایکسپورٹ پر ٹیکس ری بیٹ جب کہ سنیما اور پروڈیوسرز کی آمدن کو انکم ٹیکس سے استثنیٰ دیا جارہا ہے۔
ادھر وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15اور پینشن میں 5 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی۔ وزیر اعظم ایک ماہ قبل پینشن میں 10فیصد اضافہ کا اعلان کر چکے ہیں،اس طرح مجموعی طور پر پینشن میں بھی 15فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ کابینہ نے فنانس بل 2022،23 کی بھی منظوری دے دی۔ وزیراعظم نے کہایہ بجٹ ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کا نسخہ ہے، جس میں امیروں سے قربانی مانگی گئی ہے اور کمزور طبقات کو آسانی دی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ معاشرے کے صاحب ثروت طبقات کو مشکل حالات میں غریبوں کی مشکلات کا بوجھ اٹھانے میں بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بجٹ میں زراعت، صنعت، تجارت، آئی ٹی، فلم وثقافت سمیت ہر شعبے پر توجہ دی گئی ہے ، زراعت کوپہلی بار ٹیکس استثنیٰ دیا ، جس سے کسان کو نئی معاشی زندگی ملے گی ، گرین انقلاب برپا ہوگا اور فصلوں کی پیداوار بڑھے گی بلکہ خوراک کی قیمتوں میں کمی لانے میںمدد ملے گی۔ فلمی صنعت کی بحالی کے لیے اتنا بڑی رعایت کسی حکومت نے نہیں دی۔
ملک کے کاروباری طبقے نے اس بجٹ پر ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا ہے جب کہ تحریک انصاف نے بجٹ پر کڑی تنقید کی ہے ۔سابق وزیر خزانہ شوکت ترین اور عمرایوب نے بجٹ کے بارے میں کہا ہے کہ اسے مہنگائی کا سیلاب آئے گا۔ادھرکراچی چیمبر آف کامرس، لاہور اور راولپنڈی کے کاروباری حلقوں نے موجودہ حالات میں بجٹ کو مناسب قرار دیا ہے۔ بلاشبہ جن حالات میں بجٹ پیش کیا گیا ہے، وہ اچھے نہیں ہیں۔
تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور ریسرچ پر اتنا خرچ نہیں کیا جاسکے گا جتنا کہ ہونا چاہیے۔ملک کی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کو زیادہ فیسیلٹیز کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکے اور ان کے بچوں کا مستقبل بھی روشن ہوسکے۔ملک میں تعلیمی نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کوششوں اور اس کے لیے بجٹ میں رقم مختص ہونی چاہیے تھی۔
سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اور اسکول کے دیگر ملازمین کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ سرکاری اسکولز کا انفرااسٹرکچر جدید بنانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے جو سرکاری اسکول مختلف قسم کے فلاحی یا چیریٹی اداروں کے حوالے کیے گئے ہیں، انھیں واپس لے کر حکومت براہ ان اسکولوں کی ذمے داری لے تاکہ لوئر مڈل کلاس اور نچلے طبقے کے بچوں کو اچھی اور معیاری تعلیم اور اچھا ماحول میسر آسکے۔