ملکی سیاسی صورتحال
پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت اور سیاسی قائدین نے اس ساری صورتحال کوبھانپنے کے بعد بالآخردو ماہ میں سب سے بڑا سخت فیصلہ کیا
لاہور:
ملکی سیاسی صورتحال میں درجہ حرارت روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور ہر روز ایک نئی خبر، نئی آڈیو یا وڈیو نہ صرف ذرایع ابلاغ پر موضوع سخن رہتی ہے بلکہ عدم برداشت کا وہ رویہ جو سیاسی عمل کی اساس سمجھا جاتا تھا اور جس پر مغربی جمہوریت آج بھی قائم ہے پاکستان میں دم توڑتا جا رہا ہے ایک طرف ملک معاشی بحران کی اس منزل تک آن پہنچا ہے جہاں روز یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت جو بظاہر حکمرانی کے داؤ پیچ سے واقف سیاسی جماعتوں کا مجموعہ ہے، عوامی ردعمل اور غم و غصے سے بچنے کے لیے محتاط ہو کر فیصلے کرنا چاہتی ہے اور ایسے اقدامات سے گریزاں دکھائی دیتی ہے جو آیندہ انتخابات میں ان کی مقبولیت اور ووٹ بینک پر اثرانداز ہو، لیکن معاشی دیوالیہ پن سے ملک کو نکالنے کے لیے جن سخت اقدامات کی ضرورت ہے وہ کوئی منتخب حکومت اور پارلیمنٹ ہی اٹھا سکتی ہے نگران حکومت ایسے اقدامات کی نہ تو مجاز ہوتی ہے اور نہ ہی ان اقدامات کو بین الاقوامی اداروں کی تائید حاصل ہوتی ہے۔
10 اپریل سے 10 جون کی اس دو ماہی حکومت نے اپنا زیادہ وقت شش و پنج اور اپنے کولیشن پارٹنرز کی مشاورت میں گزار دیا اور اس کا سیاسی فائدہ ماضی کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے اٹھانے کی بھرپور کوشش کی اور انھوں نے اپنے لانگ مارچ کی ناکامی کے نتیجے اور دھرنے کے التوا کے باوجود زبانی گولہ باری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی مگر ان کا نشانہ صرف مخلوط حکومت ہی نہیں بلکہ وہ قوتیں زیادہ رہیں جو ان کے گمان کے مطابق موجودہ حکومت کو برسر اقتدار لانے اور انھیں اقتدار سے محروم کرنے میں پس پردہ کارفرما تھیں اگرچہ ان کی حکومت کو ایک آئینی اقدام کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں جانا پڑا مگر اپنی اس سیاسی ناکامی کو جو ایک بیڈ گورننس کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی۔
دوسرے حلقوں پر ڈالنے کا بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں اور اپنے اس رویے میں کوئی سیاسی لچک دکھائے بغیر مخالفین پر تابڑ توڑ حملے جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی جان کو خطرے کا ایک ایسا بیانیہ پختہ کرچکے ہیں کہ اب ان کی جماعت کے پارلیمنٹ کے منتخب ارکان ایسے بیانات دے رہے ہیں جن میں خودکش حملے کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
یہ صورت حال ایک طرف تو سیاسی عدم برداشت کے کلچر کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے، دوسری طرف عام سیاسی کارکن جو پہلے اپنے سیاسی رہنماؤں کی محبت میں جذبات کی رو میں بہت آگے نکلا ہوتا ہے تشدد اور قانون شکنی کی ترغیب پا رہا ہے جو کسی صورت نہ ملک کی سالمیت کی ضمانت ہے اور نہ ہی قومی یکجہتی کے ماحول کی برقراری کے لیے سودمند ہے لہٰذا سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی یہ قومی ذمے داری ہے کہ اقتدار حکومت طاقت اور اختیارات سب کچھ ملک کے وجود سے مشروط ہے تو ان حالات میں ایسے بیانات اور اشتعال انگیز رویوں سے اجتناب کی ضرورت ہے جو سیاسی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ پارلیمانی روایات کا آئینہ دار ہوں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کے اعلان کے باوجود ملک میں سیاسی عمل کو جاری رکھنے والی قوتوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے ایوان میں واپس آ جانا چاہیے اور خود پی ٹی آئی کے ارکان کی اکثریت بھی درون خانہ اس بات کے حق میں دکھائی دیتی ہے کہ سیاست دانوں کا اصل میدان جنگ پارلیمنٹ ہی ہے یہی وجہ ہے کہ اسٹیریو ٹائپ استعفوں کے باوجود پی ٹی آئی کے ارکان اس آئینی عمل سے گریزاں ہیں جس کے تحت استعفے منظور ہو سکتے ہیں اور وہ عمل یہ ہے کہ ہر منتخب رکن کو اسپیکر کے روبرو پیش ہو کر اپنے استعفے کی تصدیق کرنی ہوتی ہے جس کے بعد اسپیکر استعفیٰ منظور کرکے الیکشن کمیشن کو ارسال کر دیتا ہے اور الیکشن کمیشن اس رکن کی نشست کو خالی قرار دیکر ضمنی انتخاب کا عمل شروع کرتا ہے لیکن پی ٹی آئی کے ارکان اور قیادت اس عمل میں شریک ہونے سے گریز کر رہی ہے جس سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی دوبارہ قومی اسمبلی میں اپنا آئینی کردار ادا کرسکتی ہے جیساکہ وہ ماضی میں بھی 2014 میں استعفوں کے بعد اسمبلی میں واپس آگئی تھی ۔
اگر صورتحال جوں کی توں رہتی ہے تو ملک میں کوئی سیاسی اور آئینی خطرہ نہیں، پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت اور سیاسی قائدین نے اس ساری صورتحال کو بھانپنے کے بعد بالآخر دو ماہ میں سب سے بڑا سخت فیصلہ کیا اور پٹرولیم مصنوعات پر قیمتوں میں اضافے کی آئی ایم ایف شرط کو تسلیم کرتے ہوئے ایک ہفتے کے دوران 30 روپے اور پھر 30 روپے فی لیٹر قیمت کا اضافہ کرکے پہلی کڑوی گولی نگل لی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی آئی ایم ایف کی شرط پر ماضی کی حکومت نے معاہدہ کیا تھا لیکن معاہدے کے برعکس قیمتوں میں اضافے کے بجائے 10 روپے فی لیٹر کم کردیے تھے جس میں حکومت پر سبسڈی کی مد میں بھاری بوجھ پڑا تھا، موجودہ حکومت نے دو ماہ یہ بوجھ برداشت کرنے کے بعد بالآخر دوحہ میں ہونیوالے آئی ایم ایف کے مذاکرات میں سبسڈی واپس لینے کی شرط مان لی جس سے عام صارف کی زندگی اجیرن تو ہوگئی لیکن ملک کے دیوالیہ پن کی جانب جانے کا خطرہ کسی حد تک کم ہو گیا اگرچہ حکومت کی جانب سے کم آمدنی والے ڈیڑھ کروڑ افراد کو دو ہزار روپے ماہانہ امداد کا اعلان بھی کیا گیا لیکن یہ امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے کچھ ایسے اقدامات پر غور ہو رہا ہے جن میں ہفتے میں دو دن کی چھٹی کے بعد ایک دن ورک فرام ہوم کی تجویز بھی شامل ہے۔
اس طرح توانائی کے بحران پر قابو پانے کی جانب پیش رفت ہوگی ساتھ ہی مارکیٹوں کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات کار کے تعین کی خبریں بھی گردش میں ہیں اس طرح بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گیس، ڈیزل اور فرنس آئل سے بجلی بنانے والے عمل میں بھی اس ایندھن کی کھپت میں کمی ہوگی اور یہ ایندھن توانائی اور صنعتی شعبے کی طرف استعمال ہو سکے گا۔ آیندہ مالی سال کا بجٹ بھی پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت نے پیش کر دیا ہے ۔اب دیکھیے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔