مشکل مرحلہ
ابتدا میں جب طالبان کاوجود ظہورپذیر ہوا تو سمجھا یہ گیا کہ یہ ایک مذہب اور ایک دین کے ناتے ہمارے ہمدرد اور دوست ہوں گے
ابتدا میں جب طالبان کا وجود ظہور پذیر ہوا تو سمجھا یہ گیا کہ یہ ایک مذہب اور ایک دین کے ناتے ہمارے ہمدرد اور دوست ہوں گے۔ اِن کی اصل لڑائی اسلام دشمنوں سے ہوگی۔ پاکستان کی اُس وقت کے حکومت نے اُنہیں بخوشی تسلیم بھی کرلیا اور وہ ہماری سر زمین پر بغیر کسی خوف اور ڈر کے آزاد زندگی گذارنے لگے۔دنیا کی واحد سپر پاورامریکا سے اُنہیں اُصولی اور نظریاتی اختلاف تھا اور وہ اُس کی زیادتیوں کے خلاف ہر سطح پر مخالفت کرنے لگے، رفتہ رفتہ جب اُسامہ بن لادن کی تنظیم القائدہ کمزورہونے لگی تو طالبان نے اُس کی جگہ سنبھال لی اور وہ امریکا کے خلاف معرکہ آرائی کو جہاد کا درجہ دے کر ہر اُس ملک کی دشمن ہوگئی جوکسی نہ کسی لحاظ سے امریکی مفادات کا حامی اور ترجمان بن کر اُس کا اسٹرٹیجک پارٹنر کا کردار ادا کر رہا ہو۔ پاکستان پرویز مشرف دور میں کیے گئے معاہدوںکی وجہ سے امریکا کی اُس جنگ کا اہم رکن بن گیا جسے وہ عالمی دہشت گردی کی جنگ کا نام دے کر صرف اپنے تحفظ اورحفاظت کا بندوبست کر رہا تھا۔ پاکستان اِس غیر ملکی جنگ میں بلاوجہ ملوث ہوتا گیا اور دس سال سے زائد جانی، مالی و اقتصادی نقصانات سمیت لاتعداد مصائب کا متحمل ہوتا چلا گیا۔ دنیا کا کوئی ملک ہماری سر زمین پر سرمایہ کاری کے لیے تیار نہ رہا اور ساری دنیا میں صرف اِسے ایک غیر محفوظ ملک قرار دیکر اِس سے خوفزدہ ہونے لگی۔
گزشتہ دس سالوں سے کوئی بین الاقوامی کھیلوں کا مقابلہ یہاں منعقد ہونا ہمارے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔ ہزاروں معصوم افراد دھماکوں کی نذر ہو گئے، ملک مالی خسارے کے دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ عوام خوشحالی کی بجائے مسلسل بدحالی کا شکار ہوتے گئے اور اِن بے تحاشہ قربانیوں کے صلے میں معمولی مالی امداد پر ٹرخا کر ساری قوم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک خوفناک گوریلا جنگ کے حوالے کر دیا گیا۔دوسروں کی لڑائی اب ہماری جنگ بن چکی ہے۔ امریکا درمیان سے نکل چکا ہے، ہمارے اپنے ہمارے دشمن بن چکے ہیں، بیگناہ لوگ قتل ہو رہے ہیں، اہم مراکز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکا کا اُنہوں نے کچھ نہیں بگاڑا، پاکستان جس نے اُنہیں رہنے کو اپنی سر زمین دی وہ اُسی کے دشمن بن گئے۔امریکا اگر ڈرون کے ذریعے کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو وہ جواباً پاکستانی عوام پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ہم مسلسل یہ صورتحال بھگت رہے ہیں۔
پہلے ڈرون حملوں کو بہانہ بناکر خود کش حملے کیے جاتے رہے لیکن اب جب ڈرون تقریباً ڈیڑھ ماہ سے مکمل بند ہیں مگر شہریوں پر حملے کم نہ ہوئے بلکہ اُن میں تیزی اور اضافہ ہی ہوتا گیا۔ پاکستانی حکومت اور یہاں کی پارلیمنٹ صبر سے سب کچھ برداشت کرتی رہی ہے ، معاملات کو آخری حد تک پہنچنے سے قبل ہر آپشن پر غور کیا اور مذاکرات کے ذریعے سدھار کا کوئی راستہ تلاش کرنا چاہا لیکن ملک کے اندر ہر روز حملے ہو رہے ہیں ، معصوم جانیں ضایع اور ملک کو بے تحاشہ نقصان پہنچ رہا ہے ۔ کوئی بھی حکومت اور کوئی بھی قوم اپنی تباہی کا یہ نظارہ یوں خاموش رہ کر نہیں دیکھ سکتی تھی، لہذا ان قوتوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بہت ڈھیل دی گئی، بہت سا وقت ضایع ہو چکا،عوام اچھے دنوں کی راہ تکتے تکتے مایوس ہوچکے ، کوئی سبیل دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ خودکش حملے کم نہ ہوئے، ہر کسی نے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر اپنی ضد سے کوئی باز نہ آیا، مذاکرات اور امن کی بحالی کی ہر ممکن تجویز رکھی گئی ۔ اب حکومت کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا تھا اور ان کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کا منظم لائحہ عمل تیار کر لیا گیا، جوابی کارروائیاں شروع ہوگئیں اور یکطرفہ سیز فائر پر رضامندی کا فیصلہ ہوگیا۔
جو بات ایک عرصے سے حکومت کہہ رہی تھی مگر وہ اس طرف نہیں آ رہے تھے اب اچانک مان گئے۔افسوس کہ سیز فائر پر رضامند ہونے میں اُنہوں نے کئی سال لگا دیے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مذاکراتی عمل پر اپنے اِس نئے عہد پر وہ کب تک قائم رہتے ہیں۔ معمولی سی غلط فہمی ساری کوششوں پرپانی پھیر دے گی۔عقل اور ہوش کے ناخن لینا ہونگے، احتیاط اور صبر کا دامن تھامے رکھنا ہوگا۔ پائیدار امن اب سب کی ضرورت بن چکا ہے، خدا خدا کرکے حالات اِس نہج پر پہنچے ہیں کہ امن و امان کی کوئی راہ دکھائی دینے لگی ہے۔ اِس سنہری موقعے کو ہر گز گنوا نا نہیں چاہیے۔حکومت اور طالبان کو اب اپنے اصل دشمن کو تلاش کرنا ہوگا۔ وہ کون ہے جس نے پُرامن مذاکرات کی کوششوں کو ایک بار پھرسبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کی اور اسلام آباد کے سیکٹر F-8 میں دہشت گردی کی واردات کر کے سارے ماحول کو ایک بار پھر غم زدہ بنا دیا۔ کرم ایجنسی میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ کردیا، طالبان نے اِس واردات کی ذمے داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ پھر یہ لوگ کون ہے جو اِس طرح کی وارداتوں میں اب تک ملوث ہیں ، ہمارا اصل دشمن کون ہے۔حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ وہ کون ہے جو اِس ملک میں امن و مان قائم ہونے نہیں دیتا۔ مشکل یہ ہے کہ طالبان صرف ایک تنظیم یا گروپ کا نام نہیں ہے۔
یہ کئی مختلف گروپوں پر مشتمل عسکری جانبازوں کا نام ہے۔ ان لوگوں کو پیار اور محبت سے رام کیا جا سکتا ہے، کوشش ہونے چاہیے کہ ایکشن کی ضرورت ہی نہ رہے اور معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوجائیں، خون خرابہ ملک اور قوم دنوں کے لیے نقصان دہ ہے، ہمیں اِس سے حتی المقدور اجتناب کرنا ہوگا، جو کام مذاکرات کے ذریعے ممکن ہو اُسے بلاوجہ آگ کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔ہماری اولین ترجیح اپنے یہاں امن و امان قائم کرنا ہے۔ جو اگر باآسانی بغیر خون خرابے کے حاصل ہو جائے تو اِسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔حکومت اور سیکیورٹی ادارے رات دن اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔مذاکرات کے مخالفوں کو فی الحال دستِ تعاون بڑھانا ہوگا اور خاموش رہ کر وقت کا انتظار کرنا ہوگا۔معاملات کی سنگینی بصیرت اور سنجیدگی کا تقاضاکرتی ہے، معمولی سی غلطی ساری کوششوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔ اگر فریق ثانی بات چیت کے اپنے عہد پر قائم نہ رہے تو پھر دوسرا آپشن ہی واحد حل ہے۔ ہمیں نیک ارادوں ،خلوصِ نیت اور اچھی توقعات کے ساتھ اِس مشکل ترین مرحلے سے کامیاب نکلنا ہوگا۔اِسی میں ہماری بقا،سالمیت اور خوشحالی مضمر ہے۔
گزشتہ دس سالوں سے کوئی بین الاقوامی کھیلوں کا مقابلہ یہاں منعقد ہونا ہمارے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔ ہزاروں معصوم افراد دھماکوں کی نذر ہو گئے، ملک مالی خسارے کے دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ عوام خوشحالی کی بجائے مسلسل بدحالی کا شکار ہوتے گئے اور اِن بے تحاشہ قربانیوں کے صلے میں معمولی مالی امداد پر ٹرخا کر ساری قوم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک خوفناک گوریلا جنگ کے حوالے کر دیا گیا۔دوسروں کی لڑائی اب ہماری جنگ بن چکی ہے۔ امریکا درمیان سے نکل چکا ہے، ہمارے اپنے ہمارے دشمن بن چکے ہیں، بیگناہ لوگ قتل ہو رہے ہیں، اہم مراکز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکا کا اُنہوں نے کچھ نہیں بگاڑا، پاکستان جس نے اُنہیں رہنے کو اپنی سر زمین دی وہ اُسی کے دشمن بن گئے۔امریکا اگر ڈرون کے ذریعے کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو وہ جواباً پاکستانی عوام پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ہم مسلسل یہ صورتحال بھگت رہے ہیں۔
پہلے ڈرون حملوں کو بہانہ بناکر خود کش حملے کیے جاتے رہے لیکن اب جب ڈرون تقریباً ڈیڑھ ماہ سے مکمل بند ہیں مگر شہریوں پر حملے کم نہ ہوئے بلکہ اُن میں تیزی اور اضافہ ہی ہوتا گیا۔ پاکستانی حکومت اور یہاں کی پارلیمنٹ صبر سے سب کچھ برداشت کرتی رہی ہے ، معاملات کو آخری حد تک پہنچنے سے قبل ہر آپشن پر غور کیا اور مذاکرات کے ذریعے سدھار کا کوئی راستہ تلاش کرنا چاہا لیکن ملک کے اندر ہر روز حملے ہو رہے ہیں ، معصوم جانیں ضایع اور ملک کو بے تحاشہ نقصان پہنچ رہا ہے ۔ کوئی بھی حکومت اور کوئی بھی قوم اپنی تباہی کا یہ نظارہ یوں خاموش رہ کر نہیں دیکھ سکتی تھی، لہذا ان قوتوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بہت ڈھیل دی گئی، بہت سا وقت ضایع ہو چکا،عوام اچھے دنوں کی راہ تکتے تکتے مایوس ہوچکے ، کوئی سبیل دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ خودکش حملے کم نہ ہوئے، ہر کسی نے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر اپنی ضد سے کوئی باز نہ آیا، مذاکرات اور امن کی بحالی کی ہر ممکن تجویز رکھی گئی ۔ اب حکومت کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا تھا اور ان کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کا منظم لائحہ عمل تیار کر لیا گیا، جوابی کارروائیاں شروع ہوگئیں اور یکطرفہ سیز فائر پر رضامندی کا فیصلہ ہوگیا۔
جو بات ایک عرصے سے حکومت کہہ رہی تھی مگر وہ اس طرف نہیں آ رہے تھے اب اچانک مان گئے۔افسوس کہ سیز فائر پر رضامند ہونے میں اُنہوں نے کئی سال لگا دیے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مذاکراتی عمل پر اپنے اِس نئے عہد پر وہ کب تک قائم رہتے ہیں۔ معمولی سی غلط فہمی ساری کوششوں پرپانی پھیر دے گی۔عقل اور ہوش کے ناخن لینا ہونگے، احتیاط اور صبر کا دامن تھامے رکھنا ہوگا۔ پائیدار امن اب سب کی ضرورت بن چکا ہے، خدا خدا کرکے حالات اِس نہج پر پہنچے ہیں کہ امن و امان کی کوئی راہ دکھائی دینے لگی ہے۔ اِس سنہری موقعے کو ہر گز گنوا نا نہیں چاہیے۔حکومت اور طالبان کو اب اپنے اصل دشمن کو تلاش کرنا ہوگا۔ وہ کون ہے جس نے پُرامن مذاکرات کی کوششوں کو ایک بار پھرسبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کی اور اسلام آباد کے سیکٹر F-8 میں دہشت گردی کی واردات کر کے سارے ماحول کو ایک بار پھر غم زدہ بنا دیا۔ کرم ایجنسی میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ کردیا، طالبان نے اِس واردات کی ذمے داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ پھر یہ لوگ کون ہے جو اِس طرح کی وارداتوں میں اب تک ملوث ہیں ، ہمارا اصل دشمن کون ہے۔حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ وہ کون ہے جو اِس ملک میں امن و مان قائم ہونے نہیں دیتا۔ مشکل یہ ہے کہ طالبان صرف ایک تنظیم یا گروپ کا نام نہیں ہے۔
یہ کئی مختلف گروپوں پر مشتمل عسکری جانبازوں کا نام ہے۔ ان لوگوں کو پیار اور محبت سے رام کیا جا سکتا ہے، کوشش ہونے چاہیے کہ ایکشن کی ضرورت ہی نہ رہے اور معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوجائیں، خون خرابہ ملک اور قوم دنوں کے لیے نقصان دہ ہے، ہمیں اِس سے حتی المقدور اجتناب کرنا ہوگا، جو کام مذاکرات کے ذریعے ممکن ہو اُسے بلاوجہ آگ کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔ہماری اولین ترجیح اپنے یہاں امن و امان قائم کرنا ہے۔ جو اگر باآسانی بغیر خون خرابے کے حاصل ہو جائے تو اِسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔حکومت اور سیکیورٹی ادارے رات دن اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔مذاکرات کے مخالفوں کو فی الحال دستِ تعاون بڑھانا ہوگا اور خاموش رہ کر وقت کا انتظار کرنا ہوگا۔معاملات کی سنگینی بصیرت اور سنجیدگی کا تقاضاکرتی ہے، معمولی سی غلطی ساری کوششوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔ اگر فریق ثانی بات چیت کے اپنے عہد پر قائم نہ رہے تو پھر دوسرا آپشن ہی واحد حل ہے۔ ہمیں نیک ارادوں ،خلوصِ نیت اور اچھی توقعات کے ساتھ اِس مشکل ترین مرحلے سے کامیاب نکلنا ہوگا۔اِسی میں ہماری بقا،سالمیت اور خوشحالی مضمر ہے۔