اگر سے مگر تک
سفرجاری ہے، جاری تھا اورجاری رہے گا۔ کیونکہ انسانی ذہن سوچنے کے ایک مستقل اور مسلسل عمل سے دو چار ہے
سفرجاری ہے، جاری تھا اورجاری رہے گا۔ کیونکہ انسانی ذہن سوچنے کے ایک مستقل اور مسلسل عمل سے دو چار ہے۔ اسے سوچنا پڑتا ہے۔ ہر حالت میں، ہر قیمت پر۔ وہ سوچ خواہ مثبت ہو یا منفی، تعمیری ہو یا تخریبی، حقیقی ہو یا مجازی اسے سوچتے رہنا ہے۔
''اگر'' دراصل ایک ایسے کام کی ابتدا ہے جسے کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں کوئی قطعی فیصلہ کیے بغیر امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہو۔ ''مگر'' اسی سلسلے میں ایک ایسا عذر یا مجبوری ہے جو ویسے تو اگر سے ہی جڑا ہے۔ لیکن معاملے کے درمیان یا آخر میں کسی ایسی صورت حال کا مظہر ہے جو توقع کے مطابق نہ ہو۔ لہٰذا خیال کی صورت میں نمو پانے والی سوچ ان ہی دو لفظی خانوں سے گزرتی ہوئی حالت سفر میں رہتی ہے۔ جس سے کہیں امید، کہیں ناامیدی، کہیں یقین اور کہیں گمان کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ان دنوں ملک ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہے جس میں ہر موڑ پر ایک اگر سفر کرتے ہوئے ایک مگر کے سرے پر جا نکلتا ہے۔ اگرچہ فیصلہ کرنا ناگزیر ہے۔ لیکن ہر فیصلہ اپنے وجود میں عام نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اسے کرنے کے بعد نتیجہ یا تو زندگی یا موت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔لہٰذا حالت یہ ہے کہ اگر ہم طالبان سے مذاکرات کرتے ہیں تو ملک میں جاری دہشت میں کمی آجائے گی یا ممکن ہے کہ ختم ہی ہوجائے۔ مگر مستقبل میں ہم ایسے کتنے مزید گروہوں سے مذاکرات کریں گے۔ جو نہ تو ملک کے آئین کو مانتے ہیں نہ ریاست کو۔ اگر ہم ان کے خلاف آپریشن کرتے ہیں تو ہماری ریاستی ''رٹ'' قائم رہ جائے گی۔ بغاوت ختم ہوجائے گی اور آیندہ کوئی ہتھیار بند ہوکر ریاست کے خلاف سر نہیں اٹھاسکے گا۔ مگر آپریشن کے نتیجے میں دہشت گرد جن کا نیٹ ورک اب پورے ملک میں موجود ہے۔ حرکت میں آجائے گا۔ بالخصوص شہری علاقوں میں ان کے خودکش بمبار تباہی مچا دیں گے۔
سیکڑوں، ہزاروں انسانی جانوں کے نقصان کا خدشہ ہے۔ اور آپریشن خدانخواستہ ناکام رہا تو ریاستی بالادستی بھی متاثر ہوگی۔ اسی طرح ''اگر'' سے بے شمار راستے ''مگر'' کی سمت جانکلتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم گزشتہ الیکشن میں ''مسلم لیگ (ن)'' کا ساتھ نہ دیتے تو آج ''پاکستان پیپلز پارٹی'' کی حکومت برسر اقتدار ہوتی۔ مگر صورتحال موجودہ صورتحال سے بھی ابتر ہوتی اور ہمیں دہشت گردوں کے ساتھ کرپشن کی وحشت گردی کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔
اگر۔ ہم پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیتے تو حالات شاید کچھ تبدیل ہوتے۔ مگر ۔ وہ نئے لوگ تھے، ناتجربہ کار بھی تھے اسی لیے ہم نے انھیں آیندہ کے خانے میں رکھ لیا۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کرپشن کی انتہا نہ کردیتی تو ان کے حق میں کچھ بہتر ممکن تھا کیونکہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں حکومت میں آئے تھے۔ مگر انھوں نے تو ملک کو لوٹ کا مال سمجھ لیا اور ہوگئے شروع۔ صبح و شام کرپشن تھی۔ ملکی دولت تھی اور وہ تھے۔ مگر۔ اس طرح سے انھوں نے اپنا اور اپنی جماعت کا (جو وراثت میں ان کے ہاتھ لگی تھی) مستقبل تاریک کرلیا۔ اگر موجودہ حکومت کی 10 ماہ کی کارکردگی کا ازسر نو جائزہ لیں تو بعداز اصلاح وہ اپنا باقی دور بہتر انداز میں گزار سکتی ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت کرپشن سے کچھ باہر ہیں اگر۔ عمران خان کسی ایک نقطہ نظر پر جم کر کھڑے ہوجائیں تو ان کی شخصیت پر ہم بھی اپنے اعتماد کو مستقل کرلیں۔ مگر وہ اور ان کی سوچ روزمرہ کی بدلتی ہوئی صورتحال کے اسیر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے بیانات بے موسم کی بارش جیسے لگتے ہیں اور کسی رہنما کے لب و لہجے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اگر ہم 98 فیصد لوگ اپنے مسائل کے باعث آیندہ الیکشن میں قیادت کا انتخاب اپنی صفوں میں سے کرلیں تو ملک میں انقلاب آسکتا ہے۔ مگر ہم ایسا نہیں کریں گے۔ کیونکہ 1947 میں ہم صرف سرحدوں سے آزاد ہوئے تھے ذہنی غلامی سے نہیں۔ لہٰذا جیسے ہی ہمارے پرانے آقاؤں نے ہمیں خیرباد کہا۔ ہم فوراً نئے مالکوں کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے اور فرنگیوں سے زیادہ اچھے مالک تلاش کرکے ہی گھر کو لوٹے۔ جو اب ہمارے نمایندے ہیں۔ ہر بڑا زمیندار، ہر بڑا انڈسٹریلیسٹ،کروڑ پتی، ارب پتی،اور اس معاملے میں ہمارا نقطہ نظر بھی دلچسپ ہے کہ ہم غریب، مفلوک الحال لوگ کیسے قیادت کرلیں جب کہ ہمارے پاس تو الیکشن میں حصہ لینے کے وسائل ہی موجود نہیں ہیں۔
جو لوگ ساحل پر بیٹھنے کے شوقین ہیں، وہ جانتے ہیں کہ سمندر کے تلاطم کے نتیجے میں بننے والی سفید دھاری موج ساحل تک بڑے طمطراق اور بڑے وقار سے آتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ آج یہ ساحل کا ضرور کچھ بگاڑ کر رہے گی۔ لیکن جب وہ اپنے زور میں ساحل کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتی ہے تو اس کے وجود کی اکائیاں بوندوں کی شکل میں بکھر جاتی ہیں اور ایک آواز کے بعد سکوت طاری ہوجاتا ہے اور پھر دوسری موج۔۔۔۔یہی حالت ذہن کے سمندر میں امڈنے والے خیالات کی ہے جو سوچ کا روپ دھار کر یقین کے ساحل کو پالینا چاہتے ہیں لیکن حقیقت سے مل کر یا تو گمان کی بھاپ بن کر اڑ جاتے ہیں یا ان کی جگہ نئے خیالات ایک اگر کو لے کر بننا شروع ہوجاتے ہیں۔
بنیادی طور پر یہ ایک بحث ہے۔ لیکن کئی ایک مواقعے پر اسے گلے، شکوے کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ''اگر میں اپنے خزانے بھی تمہارے بس میں کردوں تو تم اتنے بخیل ہو کہ انھیں بھی روک رکھوگے۔''
لیکن زندگی میں یہی دو حرف ہمیں تھامے رکھتے ہیں۔ بالخصوص حالت خودکلامی میں بہت کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ جب آپ اپنے آپ سے گفتگو کر رہے ہوں تو آپ کے تمام تر منصوبے ان ہی دو لفظوں پر ٹکے ہوتے ہیں۔ یعنی اگر میں یہ کرلوں تو بہتر ہوگا مگر پھر ویسا ہوجائے گا۔
اور قارئین کرام! اگر میں کہوں کہ دنیا کے تمام بڑے سائنسی انکشافات بھی ان ہی دو لفظوں کے مرہون منت ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ کیا آپ مجھ سے سرآئزک نیوٹن کے اس انکشاف پر اختلاف کریں گے جب انھوں نے آم کے ایک درخت کے نیچے لیٹ کر یہ سوچا تھا کہ ''اگر یہ آم نیچے گرا ہے تو زمین پر کس طاقت نے اسے اپنی طرف کھینچا ہے؟'' یہ اوپر بھی تو جاسکتا تھا۔ مگر کیوں نہیں گیا؟ اور اسی اگر سے مگر تک کے درمیان کشش ثقل "Gravitational Force"کا انکشاف ہوگیا۔
''اگر'' دراصل ایک ایسے کام کی ابتدا ہے جسے کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں کوئی قطعی فیصلہ کیے بغیر امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہو۔ ''مگر'' اسی سلسلے میں ایک ایسا عذر یا مجبوری ہے جو ویسے تو اگر سے ہی جڑا ہے۔ لیکن معاملے کے درمیان یا آخر میں کسی ایسی صورت حال کا مظہر ہے جو توقع کے مطابق نہ ہو۔ لہٰذا خیال کی صورت میں نمو پانے والی سوچ ان ہی دو لفظی خانوں سے گزرتی ہوئی حالت سفر میں رہتی ہے۔ جس سے کہیں امید، کہیں ناامیدی، کہیں یقین اور کہیں گمان کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ان دنوں ملک ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہے جس میں ہر موڑ پر ایک اگر سفر کرتے ہوئے ایک مگر کے سرے پر جا نکلتا ہے۔ اگرچہ فیصلہ کرنا ناگزیر ہے۔ لیکن ہر فیصلہ اپنے وجود میں عام نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اسے کرنے کے بعد نتیجہ یا تو زندگی یا موت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔لہٰذا حالت یہ ہے کہ اگر ہم طالبان سے مذاکرات کرتے ہیں تو ملک میں جاری دہشت میں کمی آجائے گی یا ممکن ہے کہ ختم ہی ہوجائے۔ مگر مستقبل میں ہم ایسے کتنے مزید گروہوں سے مذاکرات کریں گے۔ جو نہ تو ملک کے آئین کو مانتے ہیں نہ ریاست کو۔ اگر ہم ان کے خلاف آپریشن کرتے ہیں تو ہماری ریاستی ''رٹ'' قائم رہ جائے گی۔ بغاوت ختم ہوجائے گی اور آیندہ کوئی ہتھیار بند ہوکر ریاست کے خلاف سر نہیں اٹھاسکے گا۔ مگر آپریشن کے نتیجے میں دہشت گرد جن کا نیٹ ورک اب پورے ملک میں موجود ہے۔ حرکت میں آجائے گا۔ بالخصوص شہری علاقوں میں ان کے خودکش بمبار تباہی مچا دیں گے۔
سیکڑوں، ہزاروں انسانی جانوں کے نقصان کا خدشہ ہے۔ اور آپریشن خدانخواستہ ناکام رہا تو ریاستی بالادستی بھی متاثر ہوگی۔ اسی طرح ''اگر'' سے بے شمار راستے ''مگر'' کی سمت جانکلتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم گزشتہ الیکشن میں ''مسلم لیگ (ن)'' کا ساتھ نہ دیتے تو آج ''پاکستان پیپلز پارٹی'' کی حکومت برسر اقتدار ہوتی۔ مگر صورتحال موجودہ صورتحال سے بھی ابتر ہوتی اور ہمیں دہشت گردوں کے ساتھ کرپشن کی وحشت گردی کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔
اگر۔ ہم پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیتے تو حالات شاید کچھ تبدیل ہوتے۔ مگر ۔ وہ نئے لوگ تھے، ناتجربہ کار بھی تھے اسی لیے ہم نے انھیں آیندہ کے خانے میں رکھ لیا۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کرپشن کی انتہا نہ کردیتی تو ان کے حق میں کچھ بہتر ممکن تھا کیونکہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں حکومت میں آئے تھے۔ مگر انھوں نے تو ملک کو لوٹ کا مال سمجھ لیا اور ہوگئے شروع۔ صبح و شام کرپشن تھی۔ ملکی دولت تھی اور وہ تھے۔ مگر۔ اس طرح سے انھوں نے اپنا اور اپنی جماعت کا (جو وراثت میں ان کے ہاتھ لگی تھی) مستقبل تاریک کرلیا۔ اگر موجودہ حکومت کی 10 ماہ کی کارکردگی کا ازسر نو جائزہ لیں تو بعداز اصلاح وہ اپنا باقی دور بہتر انداز میں گزار سکتی ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت کرپشن سے کچھ باہر ہیں اگر۔ عمران خان کسی ایک نقطہ نظر پر جم کر کھڑے ہوجائیں تو ان کی شخصیت پر ہم بھی اپنے اعتماد کو مستقل کرلیں۔ مگر وہ اور ان کی سوچ روزمرہ کی بدلتی ہوئی صورتحال کے اسیر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے بیانات بے موسم کی بارش جیسے لگتے ہیں اور کسی رہنما کے لب و لہجے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اگر ہم 98 فیصد لوگ اپنے مسائل کے باعث آیندہ الیکشن میں قیادت کا انتخاب اپنی صفوں میں سے کرلیں تو ملک میں انقلاب آسکتا ہے۔ مگر ہم ایسا نہیں کریں گے۔ کیونکہ 1947 میں ہم صرف سرحدوں سے آزاد ہوئے تھے ذہنی غلامی سے نہیں۔ لہٰذا جیسے ہی ہمارے پرانے آقاؤں نے ہمیں خیرباد کہا۔ ہم فوراً نئے مالکوں کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے اور فرنگیوں سے زیادہ اچھے مالک تلاش کرکے ہی گھر کو لوٹے۔ جو اب ہمارے نمایندے ہیں۔ ہر بڑا زمیندار، ہر بڑا انڈسٹریلیسٹ،کروڑ پتی، ارب پتی،اور اس معاملے میں ہمارا نقطہ نظر بھی دلچسپ ہے کہ ہم غریب، مفلوک الحال لوگ کیسے قیادت کرلیں جب کہ ہمارے پاس تو الیکشن میں حصہ لینے کے وسائل ہی موجود نہیں ہیں۔
جو لوگ ساحل پر بیٹھنے کے شوقین ہیں، وہ جانتے ہیں کہ سمندر کے تلاطم کے نتیجے میں بننے والی سفید دھاری موج ساحل تک بڑے طمطراق اور بڑے وقار سے آتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ آج یہ ساحل کا ضرور کچھ بگاڑ کر رہے گی۔ لیکن جب وہ اپنے زور میں ساحل کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتی ہے تو اس کے وجود کی اکائیاں بوندوں کی شکل میں بکھر جاتی ہیں اور ایک آواز کے بعد سکوت طاری ہوجاتا ہے اور پھر دوسری موج۔۔۔۔یہی حالت ذہن کے سمندر میں امڈنے والے خیالات کی ہے جو سوچ کا روپ دھار کر یقین کے ساحل کو پالینا چاہتے ہیں لیکن حقیقت سے مل کر یا تو گمان کی بھاپ بن کر اڑ جاتے ہیں یا ان کی جگہ نئے خیالات ایک اگر کو لے کر بننا شروع ہوجاتے ہیں۔
بنیادی طور پر یہ ایک بحث ہے۔ لیکن کئی ایک مواقعے پر اسے گلے، شکوے کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ''اگر میں اپنے خزانے بھی تمہارے بس میں کردوں تو تم اتنے بخیل ہو کہ انھیں بھی روک رکھوگے۔''
لیکن زندگی میں یہی دو حرف ہمیں تھامے رکھتے ہیں۔ بالخصوص حالت خودکلامی میں بہت کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ جب آپ اپنے آپ سے گفتگو کر رہے ہوں تو آپ کے تمام تر منصوبے ان ہی دو لفظوں پر ٹکے ہوتے ہیں۔ یعنی اگر میں یہ کرلوں تو بہتر ہوگا مگر پھر ویسا ہوجائے گا۔
اور قارئین کرام! اگر میں کہوں کہ دنیا کے تمام بڑے سائنسی انکشافات بھی ان ہی دو لفظوں کے مرہون منت ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ کیا آپ مجھ سے سرآئزک نیوٹن کے اس انکشاف پر اختلاف کریں گے جب انھوں نے آم کے ایک درخت کے نیچے لیٹ کر یہ سوچا تھا کہ ''اگر یہ آم نیچے گرا ہے تو زمین پر کس طاقت نے اسے اپنی طرف کھینچا ہے؟'' یہ اوپر بھی تو جاسکتا تھا۔ مگر کیوں نہیں گیا؟ اور اسی اگر سے مگر تک کے درمیان کشش ثقل "Gravitational Force"کا انکشاف ہوگیا۔