ہمارے مغالطے اور واہمے

ماضی کے برعکس جدید دور میں قلت خوراک سے کم ہی لوگ مررہے ہیں

zahedahina@gmail.com

یہ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کا ایک حیرت انگیز دور ہے۔ معلومات اور اعدادو شمار کا غیر معمولی ذخیرہ نہ صرف یکجا کردیا گیا ہے بلکہ اس میں اضافے کا ایک نہ ختم ہونے والا عمل بھی جاری ہے۔

آپ کسی بھی موضوع پرجو جاننا چاہیں اس تک رسائی چند لمحوں میں ممکن ہے، کوئی بھی فرد تعلیمی اعتبار سے ناخواندہ ہوسکتا ہے لیکن معلوماتی لحاظ سے وہ ناخواندہ نہیں ہوتا، اسے اپنی دلچسپی کے موضوع کے بارے میں کئی پڑھے لکھے لوگوں سے زیادہ معلومات ہوتی ہیں۔

یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ اس دور میں بھی نہ صرف کتابیں شایع ہورہی ہیں بلکہ ان کے قارئین کی تعداد میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ وہ ادیب اور دانشور جو تخلیقی اظہار کے عمل میں معلومات سے استفادہ کرتے ہیں ان کی تحریروں کو بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ عرفان جاوید کا شمار بھی ایسے نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ میں ان کی کتاب عجائب خانہ کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکی ہوں۔ قدرتی ماحول کو بے دردی سے تباہ کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے میں نے ان کی کتاب میں شامل ایک باب ''درخت آدمی ہیں'' کو موضوع بنایا تھا تاکہ لوگ فطرت کے خلاف مزاحمت کے بجائے محبت کا رویہ اختیار کریں۔

ہمارے معاشرے میں مغالطوں اور حقائق کے حوالے سے ایک بحران پایا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ مغالطوں کے بحران میں گھرا ہوا ہے اور لوگ مغالطوں کو ہی حقائق تصور کرتے ہیں۔ اس موضوع پر عرفان نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے لیکن میں یہاں اس کا مختصر ذکر کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں کیونکہ مفروضوں اور مغالطوں سے باہر نکلے بغیر کوئی قوم اور معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے۔ ''انسانی دماغ و فہم، مغالطوں اور واہموں کی ایک عجیب پراسرار دنیا ہے۔ اس میں بہت سے صحیح العقل اور بہ ظاہر دانش مند لوگ پریقین طور پر اغلاط پر یقین کر بیٹھتے ہیں بات کو بڑھایا جائے تو بقول میر تقی میر۔

یہ تو ہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

حقیقت سے فرار کی مناسبت سے شتر مرغ کے ریت میں سر دینے کی مثال دی جاتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ شتر مرغ دشمنوں سے بچنے کے لیے کبھی بھی اپنا سر ریت میں نہیں چھپاتے۔ اس بات کا پہلی مرتبہ تذکرہ قریباً دو ہزار برس پہلے روسی فلسفی ، مفکر اور جنگجو کمانڈر یلینی 23) تا 79 عیسوی) نے کیا تھا۔ تب سے یہ بات بلاتحقیق اتنے تواتر سے دہرائی گئی کہ اسے حقیقت سمجھ لیا گیا ہے۔

یہ تو ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ نارڈک لوگ پہلی مرتبہ امریکا پہنچے اور انھوں نے امریکا دریافت کیا مگر آج بھی ایک اکثریت اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ کرسٹوفرکولمبس، جس کے سر امریکا کی دریافت کا سہرا رکھا جاتا ہے، نے کبھی بھی سرزمین امریکا پر پیر نہ دھرے تھے۔ وہ جزائر غرب الہند کے ساحلوں پر اترا تھا اور وہیں سے لوٹ گیا تھا۔

یہ بھی ایک مغالطہ ہے کہ جدید دور کی دریافت سے پہلے زمین کو چپٹا سمجھا جاتا تھا۔ درحقیقت افلاطون اور ارسطو کے دور کے فلاسفہ سے لے کر بعد کے ادوار تک کے مفکرین زمین کومدور یا بیضوی سمجھتے آئے ہیں۔ اس کا ادراک ان کو تب ہی ہوجاتا تھا جب وہ بلندی پر کھڑے ہوکر سمندروں کو دیکھا کرتے تھے اور انھیں بحری جہازوں کے مستول پہلے نظر آتے تھے اور جہاز بعد میں، علاوہ ازیں سمندر و آسمان کا باہمی اتصال انھیں قاشِ ماہ تاب کے مانند کمان کی طرح نیم گولائی میں نظر آتا تھا۔


ایک تاریخی واقعے کو محاورے کا درجہ حاصل ہوچکا ہے کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ یہ محاورہ کسی شخص کی سفاکی اور سنگ دلی کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ واقعہ 64 عیسوی کا ہے۔ جب کہ سارنگی صدیوں بعد ایجاد ہوئی تھی۔ اس روایت کے ڈانڈے رومی تاریخ نیسی ٹس کے غیرمصدقہ بیان میں ملتے ہیں جس کے مطابق جب روم جل رہا تھا تو اس کا حکم ران نیرو گا بجا رہا تھا۔

محققین کے مطابق جب نیرو کو روم میں آگ لگنے کی اطلاع ملی تو اس نے آگ بجھانے اور لوگوں کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ نیرو کے ناقدین کے مطابق گوکہ آگ نیرو نے ہی لگوائی تھی اس بات کو تقویت پہنچاتی ہے کہ آگ کے بعد وہ زمین جہاں عمارات جل کر راکھ ہوگئی تھیں،اس پر نیرو نے اپنی مرضی کی تعمیرات کروائی تھیں۔ نیرو اس آگ کا الزام اس دور میں یہودیوں کے ایک چھوٹے مگر طاقت پکڑتے فرقے کے سر رکھتا ہے۔ اس فرقے کا نام مسیحی یعنی ''کرسچین'' تھا جو بعد ازاں ایک زیادہ طاقت ور مذہب بن گیا۔

ایک چونکا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ ہم معلوم انسانی تاریخ کے بہترین دور میں جی رہے ہیں۔ لطف و راحت کے وہ سامان جو ماضی میں ایک بادشاہ کو میسر تھے آج ایک عام آدمی کو بھی میسر ہیں۔صحت سے متعلق سہولیات، وسائل اور باخبری سے اوسط عمر میں خاطر خواہ اضافہ ہے۔ یہ بات کہ پرانے وقتوں کے بزرگوں کی صحت اچھی ہوتی تھی اور وہ دیسی خوراک کے زور پر بھرپور طویل زندگی گزارتے تھے کا تجزیہ کرنے کے لاہور میں واقع میانی صاحب کے قبرستان کی پرانی قبروں پر نصب کتبوں پردرج عمریں پڑھ لی جانی چاہئیں۔

علاوہ ازیں اس خیال کی تردید کے لیے برطانوی مصنفین کی برصغیر پر لکھی کتابیں، پرانے احوال اور دیگر دستاویزات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک علاقے میں وبائی امراض پھیلتے تھے تو پورے کے پورے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ جاتے تھے، دست و پیچش اور زچگی کی پیچیدگیوں سے نومولود بڑی تعداد میں فوت ہوجاتے تھے اور ایک گھرانے میں ایک بچہ زندہ رہ جاتا تو کئی مرجاتے تھے۔ ذیابیطس، سرطان، ٹائیفائیڈ وغیرہ کا نہ علم تھا نہ علاج۔ اس لیے جب کوئی فوت ہوتا تھا تو پس یہی سمجھا جاتا تھا کہ لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے۔

کسی بیماری کے سراغ کے بغیر لوگ اللہ کو پیارے ہوجاتے تھے۔ آج دنیا میں پانچ لاکھ افراد سو برس کی عمر سے اوپر ہیں اور 2050 تک یہ تعداد بڑھ کر چالیس لاکھ ہوجائے گی۔ پہلے اوسط عمر بیماری، جنگ اور نومولودگی میں وفات کی وجہ سے کم ہوتی تھی۔ اب جنگوں میں پہلے کی طرح لاکھوں کروڑوں لوگ نہیں مرتے، بیماریوں پر یاتو قابو پالیاگیا ہے یا ان کا مقابلہ بہت بہتر ہونے لگا ہے اور اطفال کی اموات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس لیے 1900 میں جو اوسط عمر 31 برس اور 1950 میں 48 برس تھی اب بہتر (72) برس تک پہنچ چکی ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جنگ عظیم اول میں دو کروڑ لوگ لقمہ اجل بنے تھے اور جنگ عظیم دوم میں یہ تعداد چھ کروڑ تھی۔ آج کا زمانہ معلوم تاریخ کا پرامن ترین زمانہ ہے۔ ذرایع ابلاغ کی وجہ سے دنیا کے ایک کونے میں ہونے والی جنگ جھڑپ کی گونج دوسرے کونے میں بیٹھے ہوئے شخص کو اپنے مہمان خانے میں سنائی دیتی ہے۔ جنگ وجدال نہیں بڑھا۔ اس سے متعلق باخبری بڑھ گئی ہے۔

دنیا میں جنگوں اور خانہ جنگیوں سے مرنے والے افراد کی تعداد 1930 کی دہائی میں تین سو افراد فی لاکھ افراد تھی جو 1950 کی دہائی میں تیس افراد فی لاکھ افراد سے کم ہوتی ہوئی، اکیسویں صدی میں ایک فرد فی ایک لاکھ افراد ہے۔میڈیا پر دن رات قتل، ڈکیتی زیادتی وغیرہ کی خبریں چلتی رہتی ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہر سو بے امنی کا دور ہے۔ اگر امریکا ہی کی مثال لے لی جائے تو وہاں نوے کی دہائی میں اکیس ہزار قتل، اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں سولہ ہزار قتل اور دوسری دہائی میں تیرہ ہزار قتل ہوئے۔

اگر دنیا بھر کا تجزیہ کیا جائے تو بیسویں صدی میں جو جرائم اپنے عروج پر تھے وہ اکیسویں صدی میں کم ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں مجموعی ملکی جرائم نہیں بلکہ آبادی کے تناسب جرائم کی تعداد سے ہے۔پرانے قصوں میں بھوک سے مرجانے والوں کا تذکرہ عام ہے، قحط بنگال تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔ بہت سے قحط خوراک کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ خانہ جنگی اور دیگر بحرانوں کا نتیجہ ہوتے تھے، البتہ خوراک کی کم یابی بھی ایک سنگین مسئلہ تھی۔

ماضی کے برعکس جدید دور میں قلت خوراک سے کم ہی لوگ مررہے ہیں۔ البتہ موٹاپے سے نہ صرف بڑی تعداد میں لوگ ذیابیطس، کولیسٹرول، امراض قلب وغیرہ میں مبتلا ہوکر مررہے ہیں بلکہ دبلا کرنے کی ایک پوری صنعت کو چلا رہے ہیں۔

کتنا بڑا المیہ ہے کہ دنیا خود کو مغالطوں سے آزاد کررہی ہے لیکن ہم حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے واہموں اور مفروضوں میں راہ فرار اختیار کرکے اس کی بھاری قیمت ادا کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
Load Next Story