دہشت گردی کے خاتمے کا عزم
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہادری سے جنگ لڑی اور دہشت گردوں کو شکست سے دوچار کیا
پاکستان اور چین نے مشکل وقت میں اپنی تزویراتی شراکت داری کا اعادہ کرتے ہوئے باہمی دلچسپی کے امور پر نقطہ نظرکا باقاعدہ تبادلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
دونوں ممالک نے ٹرائی سروس کی سطح پر اپنی تربیت، ٹیکنالوجی اور انسداد دہشت گردی تعاون کو بڑھانے کے عزم کا اظہارکیا ہے۔ یہ تمام تفصیلات پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے اعلیٰ سطح وفدکے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں دورہ چین کے بعد منظرعام پر آئی ہیں۔
درحقیقت پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے، جو وسط ایشیا کا دروازہ ہے تو دوسری طرف وسط ایشیا اور چین کے لیے مشرق وسطی تک رسائی کا ذریعہ ہے ۔ اس اہم ترین پوزیشن اور بھارت کے ساتھ کشیدگی کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان کو جدید دفاعی نظام کے حصول کی ضرورت ہے۔ پاکستان بالخصوص ہائبرڈ جنگوں میں پائیدار دفاعی حل کی تلاش کے روشن امکانات کے سبب سائبر اور خلائی انفرا اسٹرکچر کے شعبوں میں چین کے ہمراہ دفاعی تعاون کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
تزویراتی عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے چین کے ساتھ دفاعی تعاون خودکار سسٹمز ، مصنوعی ذہانت ، فضائی دفاعی نظام اورکوانٹم کمپیوٹنگ کے شعبوں میں ہوسکتا ہے۔ ملک کے عسکری اداروں کو جدید خطوط پر استوارکرنے میں معاونت کے علاوہ چین نے پاک چین معاشی راہداری (سی پیک) کے ذریعے اسے باقی کی دنیا سے ملانے کے لیے منصوبہ بندی کے ذریعے پاکستان کی اہمیت کو از سرنو اجاگر کیا ہے۔
پاکستان جو معاشی مسائل میں جکڑا ہوا ترقی پذیر ملک ہے ، سی پیک سے جڑے ترقی کے امکانات سے ہاتھ نہیں دھو سکتا۔ سی پیک نہ صرف پاکستانی معیشت کے لیے بلکہ مجموعی طور پر پورے خطے کے لیے ناگزیر ہے۔
بھارت کی امریکا سے گہری ہوتی تزویراتی شراکت داری پاکستان کو غیر محفوظ تزویراتی حیثیت میں پہنچا سکتی ہے۔ پاک امریکا تعلقات کا مستقبل بڑی حد تک اس امر پر منحصر ہوگا کہ امریکا، چین اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو کیسے آگے بڑھاتا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ چین کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کے مقابلے میں قدرے نرم پالیسی اختیار کر سکتی ہے، تاہم نئی دہلی سے تعلقات میں بڑی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات زیادہ گہرے ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے مفاد میں یہی ہے کہ وہ چین اور امریکا دونوں سے مثبت تعلقات کو فروغ دے اور اسے دونوں ممالک کے ہمراہ تزویراتی توازن قائم کرنے کے لیے متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہوگی۔
موجودہ عالمی صف بندی میں پاکستان دفاعی حوالے سے امریکا پر انحصار نہیں کرسکتا ہے، خاص کر ایسے میں جب بھارت امریکا تزویراتی شراکت داری گہری ہورہی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے لازم بنا دیتی ہے کہ وہ چین سے قریبی تعلقات برقرار رکھے جب کہ بھارت اور امریکا کے ساتھ متوازن پالیسی سے آگے بڑھے ، پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں جدید ترین ٹیکنالوجی تک محدود رسائی حاصل ہے۔
بھارت میں غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا ، یورپ اور اسرائیل نے بھارت کو اپنی ترجیح بنایا ہے، اس وجہ سے بھارت میں جدید ٹیکنالوجی ٹرانسفر ہونا شروع ہوئی اور عالمی سرمائے کا رخ بھی بھارت کی جانب ہوا۔ پاکستان کو ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے حوالے سے چین کی مدد وتعاون بہت ضروری ہے۔ یہاں پاکستان کے پالیسی سازوں کی ذہانت اور چابکدستی کا امتحان ہے کہ وہ خود کو امریکا اور چین کے درمیان جاری آویزش سے دور رکھتا ہے اور ایک بیلنسڈ خارجہ پالیسی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف دو تین دہائیوں سے جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان نے فوجی جوانوں سمیت 70 ہزار پاکستانی جانوں کا نقصان اٹھایا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھایا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی اور خطرناک جنگ لڑی گئی اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ اپنے وسائل سے لڑی ہے اور لڑ رہا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے پاک افغان سرحد پردہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس میں سرحد پار سے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان کے اندرکارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں، پاکستان نے گزشتہ چند ماہ میں بارہا افغان حکومت سے سرحدی علاقے کو محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے۔ مسلح عناصر ہماری سیکیورٹی پوسٹوں پر بھی حملے کرنے لگے ہیں جب کہ ماضی میں زیادہ کارروائیاں دہشت گردی پر ہی مبنی تھیں اور چھپ کر حملے کیے جاتے تھے، اس طرح کی دیدہ دلیری دشمن کے خطرناک عزائم کا پتہ دیتی ہے۔ دوسری جانب پاک فوج نے افغان سرحد کے قریب سے شدت پسندوں کے تمام محفوظ ٹھکانوں کو ختم کر دیا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد خیال یہ تھا کہ ہماری شمال مغربی سرحد محفوظ ہوگئی ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ، طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی انکار کردیا ۔یوں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں۔ دوسری جانب بھارت کی پالیسی بھی اینٹی پاکستان ہے۔اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیاں تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، تنازعہ کشمیر نے حل تو کیا ہونا تھا، بھارت نے اس تنازعہ کو مزید گہرا کردیا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت بند ہے۔ بھارت میں جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے اور نریندر مودی وزیراعظم بنے ہیں، پاکستان کے بارے میں بھارتی پالیسی جارحانہ ہوگئی ہے۔
بھارتی حکومت کے منفی کردار کی وجہ سے پاکستان بھارت کے افغانستان میں کسی بھی قسم کے رول کے مخالف رہا ہے۔ پاکستان، بھارت کے ساتھ تمام مسائل کا حل مذاکرات سے چاہتا ہے کیونکہ مذاکرات کے لیے پاکستان کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔
امریکا کی جانب سے بھارت کے لیے جاری عسکری حمایت کے سبب حادثاتی اشتعال انگیزی اور غیر متوقع جارحیت کا خطرہ موجود ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مستقبل قریب میں امریکا اور بھارت کے درمیان تزویراتی شراکت داری کی بساط واپس لپیٹے جانے کی امید نہیں ہے۔ البتہ اگر امریکا کے پالیسی ساز جنوبی ایشیاء میں طاقت کا توازن قائم کرنے میں سنجیدہ ہوں اور کوئی مثبت کردار ادا کرنا چاہیں تو الگ بات ہے ۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ حقیقت سامنے رکھ کر خارجہ پالیسی کی تشکیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بھارت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا جب کہ پاکستان دہشت گردی کے جنگ میں اقوام عالم کے ساتھ کھڑا رہا اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہادری سے جنگ لڑی اور دہشت گردوں کو شکست سے دوچار کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت کر پاکستان نے امریکا، یورپ کو ہی نہیں بلکہ بھارت کو بھی دہشت گرد حملوں سے بچایاہے ۔ہماری مسلح افواج آج بھی دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں، ہمارے جوان اور افسر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں عوامی جمہوریہ چین کا آگے بڑھنا، پاکستان کے لیے بہت حوصلہ افزاء ہے۔
شہباز شریف کے وزیراعظم منتخب ہونے پر چینی حکومت نے اس اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ اب سی پیک منصوبوں میں تیزی آ جائے گی، امریکا چین اور سی پیک سے متعلق ایک واضح پالیسی رکھتا ہے، بھارت بھی اس منصوبے کے خلاف ہے لیکن دہشت گردی ایک ایسا پوائنٹ ہے جس پر سب یکساں موقف رکھتے ہیں کیونکہ جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوتا، انٹرنیشنل ٹریڈ بھی پھل پھول نہیں سکتی۔ پاکستان کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کو لے کر چین اور امریکا کے ساتھ بیلنس تعلقات رکھ سکتا ہے ۔
ویسے موجودہ صورتحال میں افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کرنا چین کے لیے زیادہ ضروری ہوگیا ہے ۔چین سی پیک سے فائدہ اسی وقت اٹھا سکتاہے جب اس خطے سے دہشت گردی ختم ہوگی ، اسی لیے چین کی کوشش ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا جائے اور پاکستان بھی یہی چاہتا ہے ، حالات ایسے بن گئے ہیں کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرکے، چین کو مطمئن رکھ سکتا ہے جب کہ امریکا کو پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات پر بھی اعتراض نہیں ہوگا۔
اگر یہ اقدامات کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایسے میں پاکستان دو عظیم طاقتوں کے درمیان میں اپنی موجودگی کی منفرد حیثیت کو استعمال میں لاتے ہوئے امریکا اور چین دونوں سے سرمایہ کاری اور معاشی مدد حاصل کرنے کے قابل ہوسکتا ہے۔
دونوں ممالک نے ٹرائی سروس کی سطح پر اپنی تربیت، ٹیکنالوجی اور انسداد دہشت گردی تعاون کو بڑھانے کے عزم کا اظہارکیا ہے۔ یہ تمام تفصیلات پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے اعلیٰ سطح وفدکے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں دورہ چین کے بعد منظرعام پر آئی ہیں۔
درحقیقت پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے، جو وسط ایشیا کا دروازہ ہے تو دوسری طرف وسط ایشیا اور چین کے لیے مشرق وسطی تک رسائی کا ذریعہ ہے ۔ اس اہم ترین پوزیشن اور بھارت کے ساتھ کشیدگی کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان کو جدید دفاعی نظام کے حصول کی ضرورت ہے۔ پاکستان بالخصوص ہائبرڈ جنگوں میں پائیدار دفاعی حل کی تلاش کے روشن امکانات کے سبب سائبر اور خلائی انفرا اسٹرکچر کے شعبوں میں چین کے ہمراہ دفاعی تعاون کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
تزویراتی عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے چین کے ساتھ دفاعی تعاون خودکار سسٹمز ، مصنوعی ذہانت ، فضائی دفاعی نظام اورکوانٹم کمپیوٹنگ کے شعبوں میں ہوسکتا ہے۔ ملک کے عسکری اداروں کو جدید خطوط پر استوارکرنے میں معاونت کے علاوہ چین نے پاک چین معاشی راہداری (سی پیک) کے ذریعے اسے باقی کی دنیا سے ملانے کے لیے منصوبہ بندی کے ذریعے پاکستان کی اہمیت کو از سرنو اجاگر کیا ہے۔
پاکستان جو معاشی مسائل میں جکڑا ہوا ترقی پذیر ملک ہے ، سی پیک سے جڑے ترقی کے امکانات سے ہاتھ نہیں دھو سکتا۔ سی پیک نہ صرف پاکستانی معیشت کے لیے بلکہ مجموعی طور پر پورے خطے کے لیے ناگزیر ہے۔
بھارت کی امریکا سے گہری ہوتی تزویراتی شراکت داری پاکستان کو غیر محفوظ تزویراتی حیثیت میں پہنچا سکتی ہے۔ پاک امریکا تعلقات کا مستقبل بڑی حد تک اس امر پر منحصر ہوگا کہ امریکا، چین اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو کیسے آگے بڑھاتا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ چین کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کے مقابلے میں قدرے نرم پالیسی اختیار کر سکتی ہے، تاہم نئی دہلی سے تعلقات میں بڑی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات زیادہ گہرے ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے مفاد میں یہی ہے کہ وہ چین اور امریکا دونوں سے مثبت تعلقات کو فروغ دے اور اسے دونوں ممالک کے ہمراہ تزویراتی توازن قائم کرنے کے لیے متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہوگی۔
موجودہ عالمی صف بندی میں پاکستان دفاعی حوالے سے امریکا پر انحصار نہیں کرسکتا ہے، خاص کر ایسے میں جب بھارت امریکا تزویراتی شراکت داری گہری ہورہی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے لازم بنا دیتی ہے کہ وہ چین سے قریبی تعلقات برقرار رکھے جب کہ بھارت اور امریکا کے ساتھ متوازن پالیسی سے آگے بڑھے ، پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں جدید ترین ٹیکنالوجی تک محدود رسائی حاصل ہے۔
بھارت میں غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا ، یورپ اور اسرائیل نے بھارت کو اپنی ترجیح بنایا ہے، اس وجہ سے بھارت میں جدید ٹیکنالوجی ٹرانسفر ہونا شروع ہوئی اور عالمی سرمائے کا رخ بھی بھارت کی جانب ہوا۔ پاکستان کو ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے حوالے سے چین کی مدد وتعاون بہت ضروری ہے۔ یہاں پاکستان کے پالیسی سازوں کی ذہانت اور چابکدستی کا امتحان ہے کہ وہ خود کو امریکا اور چین کے درمیان جاری آویزش سے دور رکھتا ہے اور ایک بیلنسڈ خارجہ پالیسی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف دو تین دہائیوں سے جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان نے فوجی جوانوں سمیت 70 ہزار پاکستانی جانوں کا نقصان اٹھایا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھایا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی اور خطرناک جنگ لڑی گئی اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ اپنے وسائل سے لڑی ہے اور لڑ رہا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے پاک افغان سرحد پردہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس میں سرحد پار سے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان کے اندرکارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں، پاکستان نے گزشتہ چند ماہ میں بارہا افغان حکومت سے سرحدی علاقے کو محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے۔ مسلح عناصر ہماری سیکیورٹی پوسٹوں پر بھی حملے کرنے لگے ہیں جب کہ ماضی میں زیادہ کارروائیاں دہشت گردی پر ہی مبنی تھیں اور چھپ کر حملے کیے جاتے تھے، اس طرح کی دیدہ دلیری دشمن کے خطرناک عزائم کا پتہ دیتی ہے۔ دوسری جانب پاک فوج نے افغان سرحد کے قریب سے شدت پسندوں کے تمام محفوظ ٹھکانوں کو ختم کر دیا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد خیال یہ تھا کہ ہماری شمال مغربی سرحد محفوظ ہوگئی ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ، طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی انکار کردیا ۔یوں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں۔ دوسری جانب بھارت کی پالیسی بھی اینٹی پاکستان ہے۔اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیاں تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، تنازعہ کشمیر نے حل تو کیا ہونا تھا، بھارت نے اس تنازعہ کو مزید گہرا کردیا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت بند ہے۔ بھارت میں جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے اور نریندر مودی وزیراعظم بنے ہیں، پاکستان کے بارے میں بھارتی پالیسی جارحانہ ہوگئی ہے۔
بھارتی حکومت کے منفی کردار کی وجہ سے پاکستان بھارت کے افغانستان میں کسی بھی قسم کے رول کے مخالف رہا ہے۔ پاکستان، بھارت کے ساتھ تمام مسائل کا حل مذاکرات سے چاہتا ہے کیونکہ مذاکرات کے لیے پاکستان کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔
امریکا کی جانب سے بھارت کے لیے جاری عسکری حمایت کے سبب حادثاتی اشتعال انگیزی اور غیر متوقع جارحیت کا خطرہ موجود ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مستقبل قریب میں امریکا اور بھارت کے درمیان تزویراتی شراکت داری کی بساط واپس لپیٹے جانے کی امید نہیں ہے۔ البتہ اگر امریکا کے پالیسی ساز جنوبی ایشیاء میں طاقت کا توازن قائم کرنے میں سنجیدہ ہوں اور کوئی مثبت کردار ادا کرنا چاہیں تو الگ بات ہے ۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ حقیقت سامنے رکھ کر خارجہ پالیسی کی تشکیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بھارت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا جب کہ پاکستان دہشت گردی کے جنگ میں اقوام عالم کے ساتھ کھڑا رہا اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہادری سے جنگ لڑی اور دہشت گردوں کو شکست سے دوچار کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت کر پاکستان نے امریکا، یورپ کو ہی نہیں بلکہ بھارت کو بھی دہشت گرد حملوں سے بچایاہے ۔ہماری مسلح افواج آج بھی دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں، ہمارے جوان اور افسر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں عوامی جمہوریہ چین کا آگے بڑھنا، پاکستان کے لیے بہت حوصلہ افزاء ہے۔
شہباز شریف کے وزیراعظم منتخب ہونے پر چینی حکومت نے اس اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ اب سی پیک منصوبوں میں تیزی آ جائے گی، امریکا چین اور سی پیک سے متعلق ایک واضح پالیسی رکھتا ہے، بھارت بھی اس منصوبے کے خلاف ہے لیکن دہشت گردی ایک ایسا پوائنٹ ہے جس پر سب یکساں موقف رکھتے ہیں کیونکہ جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوتا، انٹرنیشنل ٹریڈ بھی پھل پھول نہیں سکتی۔ پاکستان کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کو لے کر چین اور امریکا کے ساتھ بیلنس تعلقات رکھ سکتا ہے ۔
ویسے موجودہ صورتحال میں افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کرنا چین کے لیے زیادہ ضروری ہوگیا ہے ۔چین سی پیک سے فائدہ اسی وقت اٹھا سکتاہے جب اس خطے سے دہشت گردی ختم ہوگی ، اسی لیے چین کی کوشش ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا جائے اور پاکستان بھی یہی چاہتا ہے ، حالات ایسے بن گئے ہیں کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرکے، چین کو مطمئن رکھ سکتا ہے جب کہ امریکا کو پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات پر بھی اعتراض نہیں ہوگا۔
اگر یہ اقدامات کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایسے میں پاکستان دو عظیم طاقتوں کے درمیان میں اپنی موجودگی کی منفرد حیثیت کو استعمال میں لاتے ہوئے امریکا اور چین دونوں سے سرمایہ کاری اور معاشی مدد حاصل کرنے کے قابل ہوسکتا ہے۔