خزانہ خالی ہونے کا واویلا
ماضی کی حکومتوں پر الزامات روایت ضرور رہی ہے مگر کسی حکومت نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی
لاہور:
وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں قومی خزانہ کبھی اتنا خالی نہیں ہوا جتنا آج ہے کیونکہ سابق حکومت کو اپنے جانے کا پتا تھا اس لیے وہ جانے سے پہلے خزانہ خالی کر گئے جب کہ پی ٹی آئی کے ترجمان سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ایک وزیر کہتا ہے کہ زہر کھانے کو پیسے نہیں ہیں جب کہ حکومت اپنی عیاشیوں پر خزانہ لٹا رہی ہے ، وزیر اعظم ڈیڑھ ماہ میں 6 غیر ملکی دورے کرچکے ہیں جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوچکے ہیں۔
شیخ رشید کے مطابق جب ایم کیو ایم اور بی این پی نے عمران خان حکومت کا ساتھ چھوڑا تو انھیں حکومت ختم ہونے کا یقین ہوگیا تھا۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ سابق حکومت کے آخری دنوں میں ملکی معیشت بہتر ہو رہی تھی ، یہی بات عمران خان بھی کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت ایک سازش کے تحت اس وقت ختم کی گئی جب ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے لگی تھی۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے سمیت سابق حکومت ہمارے لیے بارودی سرنگیں بچھا کر گئی ہے۔ سابق حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی جو قیمت کم کی تھی اس کا خزانے میں کوئی ذکر نہیں ، نہ ہی رقم موجود ہے۔ جس کی وجہ سے ہی ڈالر کا نرخ بڑھا اور روپے کی قدر کم ہوئی جس کی ذمے دار سابق حکومت ہے اور وہ جانے سے قبل قومی خزانہ خالی کر کے گئی ہے۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ملک دولخت ہونے کے بعد اقتدار ملا تھا۔ ملک ٹوٹ چکا تھا مگر اس وقت بھی یہ بات نہیں کہی گئی تھی کہ خزانہ خالی ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت میں قابل لوگ موجود تھے اور ڈاکٹر مبشر حسن وزیر خزانہ تھے اور بھٹو صاحب نے اپنی صلاحیت اور اپنے قابل وزیروں کے ذریعے ملک سنبھال لیا تھا۔ ملک دولخت ہوتے وقت ملک کا دارالحکومت اسلام آباد تھا جب کہ الگ ہونے والے سابق مشرقی پاکستان کی نئی حکومت بنگلہ دیش کی مالی حالت خراب تھی جب کہ بقایا مغربی پاکستان، پاکستان بن چکا تھا اور اس کی نئی حکومت نے ملکی معیشت کچھ عرصے بعد سنبھال لی تھی جس کو 50 سال گزر چکے ہیں۔
بنگلہ دیش نے اپنے قیام کے وقت مغربی پاکستان سے کچھ نہ ملنے پر احتجاج کیا تھا مگر بعد میں بنگلہ دیش اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا اور اس کی معیشت پاکستان سے بہت بہتر ہے اور وہ مختلف شعبوں میں پاکستان سے کہیں آگے ہے اور وہاں سیاسی استحکام بھی ہے جس کی خاتون وزیر اعظم اپنے ملک کو ترقی دلا رہی ہیں اور پاکستان کے مرد وزرائے اعظم اقتدار سنبھال کر یہی رونا روتے آ رہے ہیں کہ جانے والی حکومت خزانہ خالی کرگئی اور ہمیں ملک مالی بحران میں مبتلا اور معیشت تباہ حال ملی ہے۔
فروری 1989 میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان میرے آبائی شہر شکارپور آئے تھے جہاں راقم نے صدر سے پوچھا تھا کہ '' آپ ضیا الحق دور میں وزیر خزانہ، چیئرمین سینیٹ رہے اور اب صدر مملکت ہیں اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو مسلسل کہہ رہی ہیں کہ ہمیں خزانہ خالی ملا ہے تو کیا آپ نے انھیں خالی خزانہ دیا ہے؟'' صدر مملکت نے راقم کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ پاکستان کا خزانہ مغلوں کا خزانہ تو ہے نہیں کہ جس میں رات کو ہیرے جواہرات آئیں اور صبح خزانہ خالی ہو گیا۔ راقم نے صدر مملکت سے کہا کہ '' وزیر اعظم مسلسل کہہ رہی ہیں کہ خزانہ خالی ہے کیا وہ غلط کہہ رہی ہیں؟'' تو صدر مملکت کا جواب تھا کہ یہ انھی سے پوچھیں۔ وزیر اعظم سے کسی صحافی نے یہ تو نہیں پوچھا تھا کہ صدر مملکت کا کہنا درست ہے یا وزیر اعظم کا، مگر صدر مملکت کے یہ ریمارکس میڈیا میں شہ سرخی سے چھپے تھے اور وزیر اعظم کے خزانہ خالی ہونے کے بیانات ضرور بند ہوگئے تھے۔
عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل کہا تھا کہ ان کے پاس بہترین ماہرین کی ٹیم ہے اور انھوں نے پہلے ہی اسد عمر کو اپنا وزیر خزانہ بنانے کا عندیہ دے دیا تھا مگر اسد عمر معیشت کے ماہر نہیں تھے جو آئی ایم ایف جانے کا جلد فیصلہ نہ کرسکے اور انھوں نے عمران خان کو مایوس کیا۔ پھر چند روز حماد اظہر کو وزیر خزانہ بنایا اور بعد میں پی پی دور کے عبدالحفیظ شیخ اور شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنایا مگر دونوں ملکی معیشت نہ سنبھال سکے اور حکومت ہی ختم ہوگئی۔
اتحادی حکومت سابق حکومت پر خزانہ خالی کر جانے اور ملکی معیشت تباہ کر جانے کے ماضی جیسے ہی الزامات لگا رہی ہے جس نے 60 روپے پٹرول مہنگا کردیا ہے اور سزا عوام بھگت رہے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں پر الزامات روایت ضرور رہی ہے مگر کسی حکومت نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی اور خزانہ خالی ہونے کا واویلا ماضی سے اب تک بدستور جاری ہے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں قومی خزانہ کبھی اتنا خالی نہیں ہوا جتنا آج ہے کیونکہ سابق حکومت کو اپنے جانے کا پتا تھا اس لیے وہ جانے سے پہلے خزانہ خالی کر گئے جب کہ پی ٹی آئی کے ترجمان سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ایک وزیر کہتا ہے کہ زہر کھانے کو پیسے نہیں ہیں جب کہ حکومت اپنی عیاشیوں پر خزانہ لٹا رہی ہے ، وزیر اعظم ڈیڑھ ماہ میں 6 غیر ملکی دورے کرچکے ہیں جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوچکے ہیں۔
شیخ رشید کے مطابق جب ایم کیو ایم اور بی این پی نے عمران خان حکومت کا ساتھ چھوڑا تو انھیں حکومت ختم ہونے کا یقین ہوگیا تھا۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ سابق حکومت کے آخری دنوں میں ملکی معیشت بہتر ہو رہی تھی ، یہی بات عمران خان بھی کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت ایک سازش کے تحت اس وقت ختم کی گئی جب ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے لگی تھی۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے سمیت سابق حکومت ہمارے لیے بارودی سرنگیں بچھا کر گئی ہے۔ سابق حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی جو قیمت کم کی تھی اس کا خزانے میں کوئی ذکر نہیں ، نہ ہی رقم موجود ہے۔ جس کی وجہ سے ہی ڈالر کا نرخ بڑھا اور روپے کی قدر کم ہوئی جس کی ذمے دار سابق حکومت ہے اور وہ جانے سے قبل قومی خزانہ خالی کر کے گئی ہے۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ملک دولخت ہونے کے بعد اقتدار ملا تھا۔ ملک ٹوٹ چکا تھا مگر اس وقت بھی یہ بات نہیں کہی گئی تھی کہ خزانہ خالی ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت میں قابل لوگ موجود تھے اور ڈاکٹر مبشر حسن وزیر خزانہ تھے اور بھٹو صاحب نے اپنی صلاحیت اور اپنے قابل وزیروں کے ذریعے ملک سنبھال لیا تھا۔ ملک دولخت ہوتے وقت ملک کا دارالحکومت اسلام آباد تھا جب کہ الگ ہونے والے سابق مشرقی پاکستان کی نئی حکومت بنگلہ دیش کی مالی حالت خراب تھی جب کہ بقایا مغربی پاکستان، پاکستان بن چکا تھا اور اس کی نئی حکومت نے ملکی معیشت کچھ عرصے بعد سنبھال لی تھی جس کو 50 سال گزر چکے ہیں۔
بنگلہ دیش نے اپنے قیام کے وقت مغربی پاکستان سے کچھ نہ ملنے پر احتجاج کیا تھا مگر بعد میں بنگلہ دیش اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا اور اس کی معیشت پاکستان سے بہت بہتر ہے اور وہ مختلف شعبوں میں پاکستان سے کہیں آگے ہے اور وہاں سیاسی استحکام بھی ہے جس کی خاتون وزیر اعظم اپنے ملک کو ترقی دلا رہی ہیں اور پاکستان کے مرد وزرائے اعظم اقتدار سنبھال کر یہی رونا روتے آ رہے ہیں کہ جانے والی حکومت خزانہ خالی کرگئی اور ہمیں ملک مالی بحران میں مبتلا اور معیشت تباہ حال ملی ہے۔
فروری 1989 میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان میرے آبائی شہر شکارپور آئے تھے جہاں راقم نے صدر سے پوچھا تھا کہ '' آپ ضیا الحق دور میں وزیر خزانہ، چیئرمین سینیٹ رہے اور اب صدر مملکت ہیں اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو مسلسل کہہ رہی ہیں کہ ہمیں خزانہ خالی ملا ہے تو کیا آپ نے انھیں خالی خزانہ دیا ہے؟'' صدر مملکت نے راقم کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ پاکستان کا خزانہ مغلوں کا خزانہ تو ہے نہیں کہ جس میں رات کو ہیرے جواہرات آئیں اور صبح خزانہ خالی ہو گیا۔ راقم نے صدر مملکت سے کہا کہ '' وزیر اعظم مسلسل کہہ رہی ہیں کہ خزانہ خالی ہے کیا وہ غلط کہہ رہی ہیں؟'' تو صدر مملکت کا جواب تھا کہ یہ انھی سے پوچھیں۔ وزیر اعظم سے کسی صحافی نے یہ تو نہیں پوچھا تھا کہ صدر مملکت کا کہنا درست ہے یا وزیر اعظم کا، مگر صدر مملکت کے یہ ریمارکس میڈیا میں شہ سرخی سے چھپے تھے اور وزیر اعظم کے خزانہ خالی ہونے کے بیانات ضرور بند ہوگئے تھے۔
عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل کہا تھا کہ ان کے پاس بہترین ماہرین کی ٹیم ہے اور انھوں نے پہلے ہی اسد عمر کو اپنا وزیر خزانہ بنانے کا عندیہ دے دیا تھا مگر اسد عمر معیشت کے ماہر نہیں تھے جو آئی ایم ایف جانے کا جلد فیصلہ نہ کرسکے اور انھوں نے عمران خان کو مایوس کیا۔ پھر چند روز حماد اظہر کو وزیر خزانہ بنایا اور بعد میں پی پی دور کے عبدالحفیظ شیخ اور شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنایا مگر دونوں ملکی معیشت نہ سنبھال سکے اور حکومت ہی ختم ہوگئی۔
اتحادی حکومت سابق حکومت پر خزانہ خالی کر جانے اور ملکی معیشت تباہ کر جانے کے ماضی جیسے ہی الزامات لگا رہی ہے جس نے 60 روپے پٹرول مہنگا کردیا ہے اور سزا عوام بھگت رہے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں پر الزامات روایت ضرور رہی ہے مگر کسی حکومت نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی اور خزانہ خالی ہونے کا واویلا ماضی سے اب تک بدستور جاری ہے۔