بی جے پی سرکار اور ہندو توا کی یلغار
اگر مسلم حکمرانوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو بھارت کے اسلام دشمن حکمرانوں کے حوصلے اور بلند ہوجائیں گے
اللہ تعالیٰ کے بعد اگر کسی کا مقام اور مرتبہ ہے تو وہ اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کا ہے۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر، کلمہ طیبہ میں اسی حقیقت کو قطعی واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ حضور نبی کریم ؐ کی ذاتِ گرامی ہر کلمہ گو کے دل کی دھڑکن ہے۔ پورا عالمِ اسلام اس کو تہہ دل سے تسلیم کرتا ہے۔
آپؐ وجہ تخلیقِ کائنات اور سرکارِ دو عالم ہیں۔ آپؐ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری عالمِ انسانیت کے لیے مجسم رحمت ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو رحمتہ اللعلمین کے لقب سے نوازا۔ آپؐ کی تکریم اور حرمت ہر مسلمان پر لازم ہے اور اس کی خاطر دنیا کا کوئی مسلمان آپ کی شان میں ذرا سی بھی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں رسول اکرم ؐ کی شان میں گستاخی کے حالیہ واقعے نے نہ صرف پورے عالمِ اسلام کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور ہر ایمان والے کا دل پارہ پارہ ہے۔ غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ پوری دنیائے اسلام سراپا احتجاج ہے۔
انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ توہینِ رسالت کسی عام آدمی نے نہیں بلکہ بھارت کے حکمراں اسلام دشمن انتہا پسند اور ہندو توا کے پرچارک بی جے پی کی بدبخت ترجمان نْوپور شرما نامی عورت نے کی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے وہ مسلسل مسلمانوں اور اسلام سے نفرت اور اْن کے خلاف کوئی نہ کوئی کارروائی کرنے سے گریز نہیں کر رہی۔
صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ بھارت میں بسنے والی دیگر اقلیتیں بھی اْس کا نشانہ بنی ہوئی ہیں اور آئے دن کسی نہ کسی جگہ پر اْن کے خلاف کوئی نہ کوئی ظلم ہوتا رہتا ہے۔ دراصل بی جے پی کا خمیر ہی ہندو مہا سبھا سے اٹھا ہے جس کا بیج بال گنگا دھر تِلک اور ساورکر اور مونجے جیسے کٹر اور انتہا پسند متعصب ہندوؤں نے بویا تھا اور جس کی فصل بی جے پی کی شکل میں پروان چڑھی ہے۔
قیامِ پاکستان کے موقع پر 1947 میں جو خوں ریز مسلم کْش فسادات ہوئے تھے جن میں مسلمان عورتوں کی عِصمت دری اور مسلمانوں کی قتل و غارت گری برپا ہوئی تھی، اس کی پشت پر بھی یہی ہندو مہاسبھا اور اِس کی دوسری شاخ آر ایس ایس تھی جس نے مسلمانوں کے خلاف مسلح غنڈے پالے ہوئے تھے جس کا سب سے بڑا سرغنہ مردود گْرو گول والکر نامی شخص تھا۔ اْس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ پارٹی کبھی ہندوستان کے راج سِنگھاسَن پر قبضہ حاصل کر لے گی۔ اْس وقت غیر منقسم ہندوستان میں ہندو اور مسلمان مِل جْل کر نہایت آرام سے رہ رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان کی کانگریس پارٹی سیکولر ازم کی پالیسی پر تحریکِ آزادی کی مہم چلا رہی تھی۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سیکولرازم کی حامی کانگریس پارٹی میں بھی چند ایسے لوگ شامل تھے جن کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد اور نفرت کا زہر گھلا ہوا تھا۔ اِن میں تین اشخاص خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جن کے نام یہ ہیں پرشوتم داس ٹنڈن ، گووند ولبھ پنت اور سردار وَلَب بھائی پٹیل۔ یہ وہی بد نامِ زمانہ شخص ہے جو وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو کی کابینہ میں وزیرِ داخلہ کی حیثیت سے شامل تھا۔
جواہر لال نہرو کی کابینہ میں وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز تھا اور جس نے 1947 کے فسادات میں انتہا پسند تنظیموں آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا سے تعلق رکھنے والے بلوائیوں کی پشت پناہی کی تھی۔ کسی غارت گر نے حیدرآباد دکن ، مناودر، جوْنا گَڑھ اور مانگرال کی مسلم ریاستوں کے خلاف فوج کَشی کرکے انھیں بھارت میں جبراً شامل کیا تھا۔
برسبیلِ تذکرہ یہ بھی عرض ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے مہاراشٹر کے صوبے میں اِسی پٹیل کا ایک مجسمہ تعمیر کروایا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ شخص کانگریس میں ہندو مہاسبھا کے ایجنٹ کی حیثیت سے شامل تھا۔ بظاہر سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے ہوئے کانگریس پارٹی بھی مسلمانوں سے مخلص نہیں تھی چناچہ قائد اعظم محمد علی جناح پر جب یہ عقدہ کھلا تو انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کا فیصلہ کر لیا اور کانگریس کو خیر باد کہہ دیا حالانکہ اِس سے قبل وہ ہندو مسلم ایکتا کے سفیر مانے جاتے تھے۔
ایسا ہی معاملہ مصورِ پاکستان کے ساتھ بھی ہوا جنھیں دو قومی نظریہ پیش کرنے پر مجبور ہونا پڑا جب کہ یہ وہی اقبال ؒ تھے جنھوں نے ترانہ ہندی ؎
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
جیسا بے مثال اور لاجواب ترانہ تخلیق کیا تھا۔
توہینِ رسالت کے تازہ ترین واقعہ پر مسلم ممالک کا رد عمل فطری اور لائقِ تحسین ہے، اگر ایسا ہی ردعمل گجرات کے مسلم کْش فسادات اور اْس کے بعد ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے وقت آجاتا تو موجودہ صورتحال پیش نہ آتی۔ بھارت کے مسلمانوں پر عرصہ حیات روز بروز تنگ سے تنگ ہورہا ہے اور مساجد کی شہادت کے بہانے تلاش کیے جا رہے ہیں مگر مسلم ممالک کی خود غرضی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ وہ خلیجی ریاستوں میں لاکھوں کی تعداد میں بھارت کے ہندوؤں کو نہ صرف روزگار اور کاروبار کے سنہرے مواقع فراہم کررہے ہیں بلکہ اپنی سرزمین پر مندروں کی تعمیر کی بھی کھلی اجازت دے رہے ہیں۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
پانی سر سے اونچا ہورہا ہے اور اگر مسلم حکمرانوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو بھارت کے اسلام دشمن حکمرانوں کے حوصلے اور بلند ہوجائیں گے لیکن اگر یہ تمام مسلم ممالک او آئی سی کے جھنڈے تلے متحد ہوکر بھارت کا وائٹ واش کرنے کا الٹی میٹم دے دیں اور لاکھوں کی تعداد میں اپنے ہندو ملازمین کو فارغ کرنے اور بھارت کی برآمدات پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی ہی دے دیں تو ہندو توا کا نعرہ لگانے والے بی جے پی سرکار کے ہوش یک دم ٹھکانے آجائیں گے۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے بھی یہ نسخہ آزمایا جا سکتا ہے۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
(اقبال ؒ)