لاپتہ افراد کیس آئینی مجبوری نہ ہوتی تو تفتیش کیلیے خود نکل پڑتے سپریم کورٹ

حکومت کی غیرسنجیدگی ناقابل برداشت ہے، حکومت عوام کوتحفظ دے ورنہ لاپتہ افراد کو تیسرے درجے کا شہری قرار دیدے


مالاکنڈ حراستی مرکز سے اٹھائے گئے یاسین شاہ کا مقدمہ درج نہ کرنے پربرہمی، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل پختونخوا پیر کو طلب۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے مالاکنڈحراستی مرکز سے اٹھائے گئے قیدیوں کے مقدمے میں ریمارکس دیے کہا لاپتہ افراد کی بازیابی میں حکومت کی غیرسنجیدگی ناقابل برداشت ہے۔

آئینی اور قانونی مجبوری حائل نہ ہوتی توخود تفتیش کے لیے نکل کھڑے ہوتے، عدالت نے لاپتہ یاسین شاہ کا مقدمہ درج نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کیا اور اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کو پیر کو ذاتی طور پر طلب کر لیا۔ جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے سماعت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل پختونخوا لطیف یوسف زئی کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کسی ایمرجنسی میں پشاور چلے گئے ہیں، جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ اتنا اہم کیس چل رہا ہے اور وہ پشاور چلے گئے، عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ مالاکنڈ کس کے زیر انتظام ہے اور حراستی مرکز کس جگہ ہے تاہم وہ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل دونوں ہی جواب نہ دے سکے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ وفاق اور پختونخوا حکومت کا رویہ غیرسنجیدہ ہے، دونوں حکومتیں معاملہ لٹکا رہی ہیں، اگر کوئی خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے تو عدالت کو آگاہ کیا جائے، عطا اللہ اور صوبیدار کا بیان لینا ہے، کسی پر شبہ نہیں کریں گے تو بات کیسے آگے چلے گی۔ آن لائن کے مطابق جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی میں حکومت کی غیرسنجیدگی ناقابل برداشت ہے، آئینی اور قانونی مجبوری حائل نہ ہوتی توخود تفتیش کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں