معیشت… سمت درست کی جائے
پاکستان کی معیشت ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں سے چند قدم آگے دیوالیہ پن کی سرحد کھڑی ہے
MANILA:
اگر جولائی تک پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی ختم نہ کی تو ملک دیوالیہ ہوجائیگا، پٹرول پر 19اور ڈیزل پر53 روپے سبسڈی دے رہے ہیں ، آئی ایم ایف کا کہنا ہے یہ ختم کریں۔ فیول ایڈ جسٹمنٹ چارجز جون میں لگے تو ایسا بل آئے گا ، اللہ معاف کرے، ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ کانفرنس سے خطاب کرتے اور نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
پاکستان کی معیشت ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں سے چند قدم آگے دیوالیہ پن کی سرحد کھڑی ہے۔ آج ہمارے سامنے سری لنکا کی مثال موجود ہے کہ کوئی ملک دیوالیہ ہوجائے تو وہاں عوام کن مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ بلاشبہ ملکی معیشت کے حالات اس قدر گمبھیر ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے مشکل اور غیر مقبول فیصلے موجودہ اتحادی حکومت کو کرنے پڑے ہیں۔
کہا جاتا ہے 2008 تک ہر پاکستانی 500 روپے کا مقروض تھا، آج 2022 میں ہر شخص 2 لاکھ 27 ہزار سے زائد کا مقروض ہو چکا ہے۔ پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے اور ٹیکس پر ٹیکس لگائے جانے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں میں کمی آرہی ہے ۔
بھوک اور افلاس کے سائے میں رہنے والے کروڑوں پاکستانی، اشرافیہ کی مفاد پرستی اور بے حسی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ قدرت کی بے پناہ مہربانیوں اور تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود وطن عزیز کی معاشی حالت ایک فقیر کی سی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد صرف یہ رہ گیا کہ کہیں سے امداد یا قرض حاصل کیا جا سکے،قرض حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں ہے، بہت سے ملکوں نے عالمی مالیاتی اداروں کی مدد اور تعاون سے ترقی کی منزل حاصل کی ہے۔
جاپان، جرمنی، جنوبی کوریا، سنگار پور اور ملائیشیاء اس کی بہترین مثالیں ہیں لیکن پاکستان نے عالمی مالیاتی اداروں سے جو قرض حاصل کیے ، انھیں ایمانداری سے خرچ کرنے کے بجائے اس قرض سے مخصوص اشرافیہ کو فوائد دیے جائیں۔ ملک میں ایک چھوٹا سا طبقہ امیر سے امیر تر ہوا ہے ، جب کہ پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد نان جویں سے محروم ہے۔ مڈل کلاس کو کسی بھی ملک میں ترقی کا انجن سمجھا جاتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ ٹیکسز، سوشل پریشر اور مسائل مڈل کلاس کو دیکھنا پڑتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ درمیانے طبقے کو پاکستان میں مستحکم ہونے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
پاکستان اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قرضوں کی واپسی ناممکن ہوچکی ہے بلکہ ان پر عائد سود کی ادائیگی بھی نہیں ہو پارہی ہے۔ قرض کا طوق عوام کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔ عوام کولہو کے بیل کی طرح دن رات کام کرتے ہیں۔ حکمران طبقات ان پر سوار ہو کر حکومت کرتے ہیں اور قرض لیتے ہیں۔ پاکستان کے مجموعی قرضے قومی پیداوار کے 87 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کے قرضوں کی شرح 30 فیصد، چین 54 فیصد اور روس کی شرح 19 فیصد ہے۔ امریکا کا شمار دنیا کے سب سے مقروض ممالک میں ہوتا ہے لیکن اس کی پالیسیز آزاد ہیں۔ قرض لے کر اگر ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں جن سے ملکی صنعت، زراعت اور انسانی وسائل کی ترقی ہو تو ملک آگے بڑھتا ہے۔
جی ڈی پی کی گروتھ سے قرض کا حجم خود بخود کم ہو جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کا 90 فیصد قرض غیر ترقیاتی کاموں میں لگایا گیا۔ قرضوں کی واپسی تو درکنار ہم سود ادا کرنے کے بھی قابل نہیں رہے۔ اس سے زیادہ قابل رحم بات کیا ہو سکتی ہے؟ قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے پاکستان اپنی معاشی آزادی اور خود مختاری سے محروم ہو چکا ہے۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نہیں ابھی تک نہیں نکل سکا ہے۔ پاکستان کی قرضوں میں ڈوبنے کی بڑی وجہ پروٹوکول کلچر ہے۔ بڑے عہدوں پر موجود افراد بعد از ریٹائرمنٹ انھی سہولیات اور مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
قرض لے کر وی آئی پی کلچر کو مسلط کیے رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ دوسرا حکمران اشرافیہ اول تو ٹیکس نہیں دیتی، اگر دیتی ہے تو انتہائی کم ۔ پاکستان کے اب تک کے لیے گئے قرضوں اور اس کے مصرف پر اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن بننا چاہیے، جو تحقیقات کرے کہ قرض کیوں لیا گیا اور کہاں خرچ کیا گیا۔ جن لوگوں نے قرض کے غلط استعمال کے فیصلے کیے یا چوری کی، ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے ۔ حکومتی اخراجات میں حقیقی کمی کی جائے۔ آیندہ قرض کے لیے پارلیمان سے منظوری لی جائے۔ اسے گڈ گورننس کو بروئے کار لاتے ہوئے عوامی ترقی، فلاح اور خوشحالی کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے۔
کیا پاکستان خود کو ان گمبھیر معاشی حالات سے باہر نکال سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں، پاکستان خود کو دیوالیہ ہونے سے بچاسکتا ہے مگر اس کے لیے انتہائی اہم معاشی فیصلے کرنا ہوں گے۔ اہم یا مشکل فیصلے محض پٹرول، بجلی یا گیس کی قیمت بڑھانا یا عوام کو مختلف مدات میں دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ نہیں ہوتے، حکومت کے لیے تو یہ بہت آسان فیصلے ہوتے ہیں۔ بس عوام کے لیے مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ مشکل فیصلہ ایک آزاد، جامع اور مضبوط و مربوط معاشی پالیسی بنانا ہوتا ہے۔ قوانین کو شفاف اور غیر مبہم بنانا ہوتاہے، ٹیکسز کا رخ بڑی مچھلیوں کی جانب کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر چند فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کی آمدنی ٹیکسوں سے ہوتی ہے یا ان کاروبار سے جو عوام کے ٹیکسوں کے پیسہ سے حکومت کرتی ہے۔ ٹیکس دو طرح کے ہوتے ہیں: بلا واسطہ اور بالواسطہ۔ بالواسطہ ٹیکس عام عوام پر بری طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ عام خرید و فروخت پر ٹیکس یعنی جنرل سیلز ٹیکس اس کی ایک مثال ہے۔ ایکسائز، کسٹم ڈیوٹیز اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی بالواسطہ ٹیکسز کے زمرے میں آتے ہیں۔ حکومت کے لیے مشکل فیصلہ بلاواسطہ یا براہ راست ٹیکس کا حصول ہوتا ہے جیسے انفرادی اور کمپنیوں کی آمدنی اور جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس۔ سرمایہ کی غیر قانونی بیرون ملک منتقلی کو روکا جائے۔ ایران اور افغانستان سے اسمگلنگ کو ختم کیا جائے خواہ اس کے لیے بارڈرز کو سیل کرنا پڑے۔
وفاقی حکومت کا خرچہ کم کرکے آدھا کیا جائے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بھی جب ہیلی کاپٹر استعمال کریں گے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ انھیں ملکی معیشت کی کتنی فکر ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ تنخواہ کے علاوہ اضافی فوائد جو بجلی، گیس، پٹرول، ادویات، سفر وغیرہ کی صورت میں حکومتی اور ریاستی مشینری کو حاصل ہیں وہ کسی طرح بھی اس وقت ہماری معیشت سے میل نہیں کھاتے۔ عوامی نمایندوں اور نوکر شاہی سے فی الفور اضافی مراعات واپس لی جائیں، یہ حالات بہتر ہونے پر دوبارہ دی جاسکتی ہیں۔
سرکاری اداروں کی نجکاری کے بجائے ان کی بحالی کا کام کیا جائے ۔ بیمار یعنی نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کو بحال کرنا مشکل نہیں ہے ، دنیا میں ایسے مثالیں موجود جن میں قومی اداروں کو خسارے سے نکال کر منافع میں لایا گیا ہے ۔ بھارت میں ریلوے کبھی خسارے میں ہوا کرتا تھا لیکن آج بھارتی ریلوے منافع بخش ادارہ بن چکاہے۔ دہلی کے وزیراعلیٰ کیجریوال کی حکومت نے دہلی کے سرکاری اسکولوں کو معیاراعلیٰ ترین اور مہنگے نجی تعلیمی اداروں کے برابر کردیا ہے، سرکاری اساتذہ کی تنخواہوں میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا اور طلبہ کو سہولتیں فراہم کی ہیں، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مہنگے نجی تعلیمی اداروں کو اپنی فیسیں کم کرنا پڑ گئی ہیں۔
صنعتی اور زرعی پالیسی کو ازسر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ زرعی ٹیکس کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) کا درست نفاذ حالات کا تقاضا ہے۔ وہ حکومتی ادارے جو درآمدات و برآمدات سے ڈیل کرتے ہیں، ان کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ برآمدات بڑھانے کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ سے لے کر توانائی کی مد میں رعایت دی جاسکتی ہیں تاکہ دوسرے ملکوں سے مسابقت پیدا ہوسکے اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ زراعت اور صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کے ''زیادہ سے زیادہ استعمال پر کم سے کم قیمت '' کے اصول پر عمل کیا جائے۔ شرح سود میں اضافہ سرمایہ کاری کی رفتار کو سست کردے گا۔ سرمایہ کاری کے فروغ لے لیے شرح سود کم رکھی جائے۔
افراط زر پر کنٹرول اور روپے کی قدر میں اضافہ کے لیے اسٹیٹ بینک اپنا کردار ادا کرے۔ پرتعیش اور لگژری اشیاء پر حکومت پہلے سی ہی پابندی عائد کرچکی ہے مگر اس کا دائرہ کار اور بڑھایا جاسکتا ہے، صرف ان درآمدات کی جو ملکی برآمدات کی پیداوار بڑھانے میں مدد گار ہوں جیسے خام مال اور جدید مشینری کی نہ صرف اجازت ہو بلکہ انھیں ٹیکس میں بھی خاطر خواہ چھوٹ دی جائے۔ اس سے درآمدات و برآمدات میں جاری خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔
اس سال قرضوں کی ادائیگی اور دیگر ضروریات کے لیے پاکستان کو پینتیس ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔ برآمدات میں اضافہ کیے بغیر یہ ہدف پورا کرنا ممکن نہیں۔ مشکل حالات میں مشکل معاشی فیصلوں کے ساتھ ساتھ غیر روایتی اور پائیدار پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ معاشی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لیے سیاسی عدم استحکام کا فوری خاتمہ ناگزیر ہوچکا۔
اگر جولائی تک پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی ختم نہ کی تو ملک دیوالیہ ہوجائیگا، پٹرول پر 19اور ڈیزل پر53 روپے سبسڈی دے رہے ہیں ، آئی ایم ایف کا کہنا ہے یہ ختم کریں۔ فیول ایڈ جسٹمنٹ چارجز جون میں لگے تو ایسا بل آئے گا ، اللہ معاف کرے، ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ کانفرنس سے خطاب کرتے اور نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
پاکستان کی معیشت ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں سے چند قدم آگے دیوالیہ پن کی سرحد کھڑی ہے۔ آج ہمارے سامنے سری لنکا کی مثال موجود ہے کہ کوئی ملک دیوالیہ ہوجائے تو وہاں عوام کن مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ بلاشبہ ملکی معیشت کے حالات اس قدر گمبھیر ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے مشکل اور غیر مقبول فیصلے موجودہ اتحادی حکومت کو کرنے پڑے ہیں۔
کہا جاتا ہے 2008 تک ہر پاکستانی 500 روپے کا مقروض تھا، آج 2022 میں ہر شخص 2 لاکھ 27 ہزار سے زائد کا مقروض ہو چکا ہے۔ پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے اور ٹیکس پر ٹیکس لگائے جانے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں میں کمی آرہی ہے ۔
بھوک اور افلاس کے سائے میں رہنے والے کروڑوں پاکستانی، اشرافیہ کی مفاد پرستی اور بے حسی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ قدرت کی بے پناہ مہربانیوں اور تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود وطن عزیز کی معاشی حالت ایک فقیر کی سی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد صرف یہ رہ گیا کہ کہیں سے امداد یا قرض حاصل کیا جا سکے،قرض حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں ہے، بہت سے ملکوں نے عالمی مالیاتی اداروں کی مدد اور تعاون سے ترقی کی منزل حاصل کی ہے۔
جاپان، جرمنی، جنوبی کوریا، سنگار پور اور ملائیشیاء اس کی بہترین مثالیں ہیں لیکن پاکستان نے عالمی مالیاتی اداروں سے جو قرض حاصل کیے ، انھیں ایمانداری سے خرچ کرنے کے بجائے اس قرض سے مخصوص اشرافیہ کو فوائد دیے جائیں۔ ملک میں ایک چھوٹا سا طبقہ امیر سے امیر تر ہوا ہے ، جب کہ پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد نان جویں سے محروم ہے۔ مڈل کلاس کو کسی بھی ملک میں ترقی کا انجن سمجھا جاتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ ٹیکسز، سوشل پریشر اور مسائل مڈل کلاس کو دیکھنا پڑتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ درمیانے طبقے کو پاکستان میں مستحکم ہونے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
پاکستان اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قرضوں کی واپسی ناممکن ہوچکی ہے بلکہ ان پر عائد سود کی ادائیگی بھی نہیں ہو پارہی ہے۔ قرض کا طوق عوام کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔ عوام کولہو کے بیل کی طرح دن رات کام کرتے ہیں۔ حکمران طبقات ان پر سوار ہو کر حکومت کرتے ہیں اور قرض لیتے ہیں۔ پاکستان کے مجموعی قرضے قومی پیداوار کے 87 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کے قرضوں کی شرح 30 فیصد، چین 54 فیصد اور روس کی شرح 19 فیصد ہے۔ امریکا کا شمار دنیا کے سب سے مقروض ممالک میں ہوتا ہے لیکن اس کی پالیسیز آزاد ہیں۔ قرض لے کر اگر ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں جن سے ملکی صنعت، زراعت اور انسانی وسائل کی ترقی ہو تو ملک آگے بڑھتا ہے۔
جی ڈی پی کی گروتھ سے قرض کا حجم خود بخود کم ہو جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کا 90 فیصد قرض غیر ترقیاتی کاموں میں لگایا گیا۔ قرضوں کی واپسی تو درکنار ہم سود ادا کرنے کے بھی قابل نہیں رہے۔ اس سے زیادہ قابل رحم بات کیا ہو سکتی ہے؟ قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے پاکستان اپنی معاشی آزادی اور خود مختاری سے محروم ہو چکا ہے۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نہیں ابھی تک نہیں نکل سکا ہے۔ پاکستان کی قرضوں میں ڈوبنے کی بڑی وجہ پروٹوکول کلچر ہے۔ بڑے عہدوں پر موجود افراد بعد از ریٹائرمنٹ انھی سہولیات اور مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
قرض لے کر وی آئی پی کلچر کو مسلط کیے رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ دوسرا حکمران اشرافیہ اول تو ٹیکس نہیں دیتی، اگر دیتی ہے تو انتہائی کم ۔ پاکستان کے اب تک کے لیے گئے قرضوں اور اس کے مصرف پر اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن بننا چاہیے، جو تحقیقات کرے کہ قرض کیوں لیا گیا اور کہاں خرچ کیا گیا۔ جن لوگوں نے قرض کے غلط استعمال کے فیصلے کیے یا چوری کی، ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے ۔ حکومتی اخراجات میں حقیقی کمی کی جائے۔ آیندہ قرض کے لیے پارلیمان سے منظوری لی جائے۔ اسے گڈ گورننس کو بروئے کار لاتے ہوئے عوامی ترقی، فلاح اور خوشحالی کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے۔
کیا پاکستان خود کو ان گمبھیر معاشی حالات سے باہر نکال سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں، پاکستان خود کو دیوالیہ ہونے سے بچاسکتا ہے مگر اس کے لیے انتہائی اہم معاشی فیصلے کرنا ہوں گے۔ اہم یا مشکل فیصلے محض پٹرول، بجلی یا گیس کی قیمت بڑھانا یا عوام کو مختلف مدات میں دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ نہیں ہوتے، حکومت کے لیے تو یہ بہت آسان فیصلے ہوتے ہیں۔ بس عوام کے لیے مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ مشکل فیصلہ ایک آزاد، جامع اور مضبوط و مربوط معاشی پالیسی بنانا ہوتا ہے۔ قوانین کو شفاف اور غیر مبہم بنانا ہوتاہے، ٹیکسز کا رخ بڑی مچھلیوں کی جانب کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر چند فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کی آمدنی ٹیکسوں سے ہوتی ہے یا ان کاروبار سے جو عوام کے ٹیکسوں کے پیسہ سے حکومت کرتی ہے۔ ٹیکس دو طرح کے ہوتے ہیں: بلا واسطہ اور بالواسطہ۔ بالواسطہ ٹیکس عام عوام پر بری طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ عام خرید و فروخت پر ٹیکس یعنی جنرل سیلز ٹیکس اس کی ایک مثال ہے۔ ایکسائز، کسٹم ڈیوٹیز اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی بالواسطہ ٹیکسز کے زمرے میں آتے ہیں۔ حکومت کے لیے مشکل فیصلہ بلاواسطہ یا براہ راست ٹیکس کا حصول ہوتا ہے جیسے انفرادی اور کمپنیوں کی آمدنی اور جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس۔ سرمایہ کی غیر قانونی بیرون ملک منتقلی کو روکا جائے۔ ایران اور افغانستان سے اسمگلنگ کو ختم کیا جائے خواہ اس کے لیے بارڈرز کو سیل کرنا پڑے۔
وفاقی حکومت کا خرچہ کم کرکے آدھا کیا جائے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بھی جب ہیلی کاپٹر استعمال کریں گے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ انھیں ملکی معیشت کی کتنی فکر ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ تنخواہ کے علاوہ اضافی فوائد جو بجلی، گیس، پٹرول، ادویات، سفر وغیرہ کی صورت میں حکومتی اور ریاستی مشینری کو حاصل ہیں وہ کسی طرح بھی اس وقت ہماری معیشت سے میل نہیں کھاتے۔ عوامی نمایندوں اور نوکر شاہی سے فی الفور اضافی مراعات واپس لی جائیں، یہ حالات بہتر ہونے پر دوبارہ دی جاسکتی ہیں۔
سرکاری اداروں کی نجکاری کے بجائے ان کی بحالی کا کام کیا جائے ۔ بیمار یعنی نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کو بحال کرنا مشکل نہیں ہے ، دنیا میں ایسے مثالیں موجود جن میں قومی اداروں کو خسارے سے نکال کر منافع میں لایا گیا ہے ۔ بھارت میں ریلوے کبھی خسارے میں ہوا کرتا تھا لیکن آج بھارتی ریلوے منافع بخش ادارہ بن چکاہے۔ دہلی کے وزیراعلیٰ کیجریوال کی حکومت نے دہلی کے سرکاری اسکولوں کو معیاراعلیٰ ترین اور مہنگے نجی تعلیمی اداروں کے برابر کردیا ہے، سرکاری اساتذہ کی تنخواہوں میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا اور طلبہ کو سہولتیں فراہم کی ہیں، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مہنگے نجی تعلیمی اداروں کو اپنی فیسیں کم کرنا پڑ گئی ہیں۔
صنعتی اور زرعی پالیسی کو ازسر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ زرعی ٹیکس کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) کا درست نفاذ حالات کا تقاضا ہے۔ وہ حکومتی ادارے جو درآمدات و برآمدات سے ڈیل کرتے ہیں، ان کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ برآمدات بڑھانے کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ سے لے کر توانائی کی مد میں رعایت دی جاسکتی ہیں تاکہ دوسرے ملکوں سے مسابقت پیدا ہوسکے اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ زراعت اور صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کے ''زیادہ سے زیادہ استعمال پر کم سے کم قیمت '' کے اصول پر عمل کیا جائے۔ شرح سود میں اضافہ سرمایہ کاری کی رفتار کو سست کردے گا۔ سرمایہ کاری کے فروغ لے لیے شرح سود کم رکھی جائے۔
افراط زر پر کنٹرول اور روپے کی قدر میں اضافہ کے لیے اسٹیٹ بینک اپنا کردار ادا کرے۔ پرتعیش اور لگژری اشیاء پر حکومت پہلے سی ہی پابندی عائد کرچکی ہے مگر اس کا دائرہ کار اور بڑھایا جاسکتا ہے، صرف ان درآمدات کی جو ملکی برآمدات کی پیداوار بڑھانے میں مدد گار ہوں جیسے خام مال اور جدید مشینری کی نہ صرف اجازت ہو بلکہ انھیں ٹیکس میں بھی خاطر خواہ چھوٹ دی جائے۔ اس سے درآمدات و برآمدات میں جاری خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔
اس سال قرضوں کی ادائیگی اور دیگر ضروریات کے لیے پاکستان کو پینتیس ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔ برآمدات میں اضافہ کیے بغیر یہ ہدف پورا کرنا ممکن نہیں۔ مشکل حالات میں مشکل معاشی فیصلوں کے ساتھ ساتھ غیر روایتی اور پائیدار پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ معاشی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لیے سیاسی عدم استحکام کا فوری خاتمہ ناگزیر ہوچکا۔