قرض کی پیتے تھے مے …
تاریخ قوموں کو غلطیوں کی اصلاح اور خود کو تبدیل کرنے کا موقع بار بار نہیں دیا کرتی
BARCELONA:
ہمارا ملک اپنے قیام کے فوراً بعد سے مسلسل سیاسی بحرانوں کی زد میں رہا ہے۔ ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ سیاسی بحرانوں سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے جس کا نتیجہ معاشی تباہی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہمارے ملک کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
سرد جنگ کے طویل دور میں اس اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا۔ سوویت یونین ہمارے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا تھا جب کہ امریکا ہر قیمت پر اسے روکنے کے درپے تھا۔ پڑوسی ملک ہندوستان کہنے کو تو ایک غیر وابستہ پالیسی پر کاربند تھا لیکن درحقیقت اس پر سابق سوویت یونین کا گہرا اثر تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آزادی کے بعد ہندوستان میں کانگریس پارٹی اقتدار میں آئی جو بڑے زمین داروں اور سرمایہ داروں کے خلاف تھی ، پنڈت جواہر لعل نہرو سامراج مخالف ذہن رکھتے تھے اور سوشل ازم کی فکر سے متاثر تھے ، اس لیے ہندوستان ، امریکا کے دائرہ اثر میں نہیں گیا اور اس نے سوویت یونین سے گہرے اور بامعنی تعلقات قائم کر لیے۔
ہوسکتا ہے یہ بات بہت سے لوگوں کو پسند نہ آئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان نے سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین کی جانب جھکاؤ رکھ کر ماضی کی اس دوسری بڑی سپر پاور سے خوب فائدہ اٹھایا۔ سابق سوویت یونین کی مدد سے اس نے بنیادی صنعتوں کا ایک مضبوط ڈھانچہ بنا لیااور اپنے ملک کو مغربی اشیا کی منڈی نہیں بننے دیا۔ اپنے دفاع کے لیے بھی اس نے سوویت یونین پر انحصار کیااوراس سے کوڑیوں کے مول اسلحہ اور دیگر جنگی سازوسامان خریدا۔ آزادی کے بعد مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے درآمدات پر پابندیاں لگادی گئیں۔
کئی لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تجارت اور آمدورفت ہوا کرتی تھی تو ہندوستان کے لوگ ہماری خوشامد کیا کرتے تھے کہ ہم ان کے لیے استعمال شدہ ہی سہی مغربی کپڑے اور مصنوعات لایا کریں۔ ہندوستان 40 سال تک ایک مشکل دور گزارا اور وہاں کے عوام للچائی نظروں سے ہماری طرف دیکھا کرتے تھے اور اکثر اوقات ہم پر رشک تک کیا کرتے تھے۔
اب ہم ذرا اپنے معاملات پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ آزادی کے فوراً بعد ہم نے کوئی وقت ضایع کیے بغیر امریکا سے مدد طلب کی جس نے اپنی خارجہ حکمت عملی اور اس خطے میں سوویت یونین کو پیش قدمی سے روکنے کے لیے ہماری درخواست کو فوراً شرف قبولیت عطا کر دی۔ ہمارے قومی اور دفاعی بجٹ امریکا کی مالی مدد سے تیار ہونے لگے اور یہ سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا اور اس کے مغربی حلیفوں کو دو بڑی مشکلات کا سامنا تھا۔ ایک جانب سوویت یونین اور چین کی صورت میں مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں ایک متبادل سوشلسٹ نظام ابھر کر سامنے آچکا تھا اور اسے تیسرے دنیا کے غریب ملکوں میں زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی تھی۔ مغرب کی دوسری مشکل یہ تھی کہ جنگ عظیم اور نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد اسے اپنی مصنوعات اور خام مال کے لیے منڈیوں کی تلاش تھی۔
اس کا مقصد اپنے بلاک میں شامل ملکوں کو معاشی طور پر مضبوط بنانا یا انھیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنا نہیں بلکہ ان کو اپنی مصنوعات کی منڈیاں بنانا تھا۔ پاکستان کے حکمرانوں اور بالادست طبقات نے اپنے مفادات کی خاطر ملک کو امریکا اور مغربی بلاک کی جھولی پھینک دیا ۔ جب تک سوویت یونین برقرار رہا اس وقت تک امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک تیسری دنیا کے دوست ملکوں کی کفالت کرتے رہے۔ وہ انھیں فیاضی سے مدد ، گرانٹ اور آسان شرائط پر قرض فراہم کرتے تھے اور پھر ان ملکوں میں اپنی مصنوعات فروخت کر کے یہ رقم منافع کے ساتھ دوبارہ واپس لے لیا کرتے تھے۔
سرد جنگ کے دور میں ہم نے بہ ظاہر غیر جانبدار رہ کر ہندوستان کی طرح فائدہ نہیں اٹھایا اور مشکل وقت گزارنے کے بجائے مغرب کی کفالت قبول کر کے ان کو ہر طرح کا تعاون فراہم کیا۔ ہم یہ بھول گئے تھے یا ہمارے فیصلہ سازوں نے اپنے محدود مقاصد کی خاطر اس امر کو بالکل فراموش کردیا تھا کہ سرد جنگ ہمیشہ جاری نہیں رہے گی، ایک نہ ایک دن اسے ختم ہونا ہی پڑے گا اور جب ایسا ہوگا توکیا اس وقت ہمارے '' مہربان '' ہمارے ساتھ اپنی '' فیاضی'' کا سلسلہ یوں ہی جاری رکھیں گے؟ اگر یہ خیال کبھی کسی کے ذہن میں پیدا ہوا ہوگا تو عملاً خود کو تبدیل کرنا آسان بھی نہیں تھا کیونکہ معاشی ، دفاعی اور سیاسی طور پر امریکا اور مغرب پر غیر معمولی حد تک انحصار کرنا ملک کی مجبوری بن چکی تھی۔
9/11 کے بعد دنیا مزید بدلی، افغانستان سے امریکا کے چلے جانے اور پھر اس سے کوئی سروکار نہ رکھنے کی پالیسی نے اس خطے میں ہماری تزویزاتی اہمیت کو بڑی حد تک کم کردیا۔ اب ہمارے مشکل دن شروع ہوگئے، ہمارے سر سے '' دست شفقت '' اٹھا لیا گیا۔ پہلے تعریفیں ہوا کرتی تھیں اب طعنے دیے جانے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہوگیا ! جب ہماری آنکھیں کھلیں تو معلوم ہوا کہ ہمارے ماضی کے '' گہرے اور مہربان '' دوست ہمیں چھوڑ چکے ہیں یا ایسا کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔ وہ سب ہندوستان کی طرف دیکھ رہے ہیں جہاں صارفین کی ایک بہت بڑی منڈی ان کو معاشی کساد بازاری سے نکالنے کے لیے موجود ہے۔
کالم کا آغاز کیا تھا تو ارادہ تھا کہ مالی سال 2023-2022 کا جو بجٹ پیش کیا گیا اس کے بارے میں اظہار خیال کرنے کی کوشش کروں گی۔ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا دیکھنے اور تجزیہ نگاروں کی ہولناک باتیں سننے کے بعد بجٹ کے حوالے سے مزید کچھ کہنا ممکن نہیں۔ تاہم، میرے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوا کہ ہمارا ملک اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران اور دیوالیہ ہونے کے جس خطرے سے دوچار ہوچکا ہے اس کے بنیادی اسباب اور وجوہ کیا ہوسکتی ہیں؟ اس تناظر میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ آزادی کے فوراً بعد جب ہم کو خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنی تھی تو ہم نے اس مشکل چیلنج سے گھبرا کر سہل اور آسان راستہ اختیار کیا اور مغربی مدد کے عوض خود کو اس کی اشیاء اور مصنوعات کی ایک منڈی میں تبدیل کردیا۔
لہٰذا آج جب حالات تبدیل ہوگئے ہیں تو کوئی ہماری مدد کے لیے تیار نہیں ہے، مہربان آئی ایم ایف بھی ظالم آئی ایم ایف بن گیا ہے۔ قرض دینے والے اپنا دیا ہوا قرض واپس مانگ رہے ہیں جب کہ قرض واپس کرنے کے لیے ہمارے پاس زرمبادلہ نہیں ہے۔ ایسے حالات میں بجٹ پر تبصرہ کرنا بے مقصد ہوگا۔ ہم نے جو بویا تھا اب اسے کاٹنا ہوگا۔ آزادی کی ابتدائی دہائیوں میں خود کو صنعتی ملک بنانے کی پالیسی اختیار کی ہوتی تو مشکل وقت گزار کر ہم آج کہیں زیادہ بہتر حیثیت میں ہوتے۔
تاریخ قوموں کو غلطیوں کی اصلاح اور خود کو تبدیل کرنے کا موقع بار بار نہیں دیا کرتی لہٰذا اس موقع کو غنیمت جان کر ہم جتنا جلد خود کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرلیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔ اس کے لیے چند فیصلے ناگزیر ہیں۔ سیاسی استحکام کو ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے تاکہ غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہو جو پائیدار معاشی ترقی کے لیے زہر قاتل ہے۔ سیاسی بحران اور غیر یقینی ماحول میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار کبھی سرمایہ کاری نہیں کریں گے صنعتی، زرعی اور دیگر کاروباری سرگرمیوں کے لیے جس کی اشد ضرورت ہے۔
معیشت ترقی نہیں کرے گی تو بے روزگاری ، مہنگائی میں اضافہ ہوتا جائے گا ، حکومت کی آمدنی میں کمی ہوگی اور اسے کشکول اٹھا کر در بدر گھومنا پڑے گا۔ کالم کا اختتام مرزا اسد اللہ خان غالب کے اس شعر پر کروں گی جو ہم پر آج خوب صادق آتا ہے:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن