زراعت پر ہی توجہ دے کر دیکھ لیں
اگر حکومت زراعت پر سنجیدگی سے توجہ دے تو ہم اربوں ڈالر کی زرعی اجناس ایکسپورٹ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں
بجٹ میں عوام کے لیے ویسے توکچھ نہیں ہے لیکن ہمیں اس بجٹ میں ایک اچھی بات نظر آئی ہے ۔ وفاقی بجٹ میں زرعی آلات سمیت دیگر مشینری اور زراعت کے حوالے سے ٹیکس کو فری کردیا گیا ہے جو ایک خوش آیند امر ہے۔
اگر حکومت زراعت پر سنجیدگی سے توجہ دے تو ہم اربوں ڈالر کی زرعی اجناس ایکسپورٹ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ افسوس! ہم زرعی اجناس امپورٹ کر رہے ہیں۔ پچھلے سال پاکستان نے آٹھ ارب ڈالر کاغذائی مواد درآمد کیا اور اس میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی گندم بھی تھی۔ میرے لیے یہ خبر بالکل اچھی نہیں تھی۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ہمارے شمال مغربی جانب دو تین ممالک میں روٹی اور نان پاکستانی آٹے سے بنتے ہیں،گویا ہمارا سبسڈائز آٹا اور گندم اسمگل ہوکر ان ممالک میں پہنچ جاتا ہے۔
پاکستان میں 22.15 ملین ہیکٹر رقبہ زیر کاشت ہے جب کہ 9.40 ملین ہیکٹر رقبہ ایسا ہے جس میں گزشتہ سال کے دوران کم از کم ایک فصل کاشت ہوئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 8.29 ملین ہیکٹر رقبہ ایسا ہے جو قابلِ کاشت تو ہے لیکن اس پر کاشتکاری نہیں ہو رہی۔ یہ رقبہ اس وقت کے کل زیر کاشت رقبے کا تقریباً 30 فیصد سے زائد بنتا ہے۔ اگر ہم اس 8.29 ملین ہیکٹر قابلِ کاشت رقبے کے صرف 25 سے 30 فیصد حصے پر کاشت کر لیں تو ملک میں یقینا زرعی انقلاب آ سکتا ہے لیکن ایسا کرے گا کون اور کیوں کرے گا؟آپ اندازہ لگائیں کہ گزشتہ 20 سالوں میں ہماری زیر کاشت رقبے اور قابلِ کاشت بیکار پڑے رقبے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
اس سے آپ حکومتوں کی زراعت سے عدم دلچسپی اور عدم توجہی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔اور پھر پاکستان میں انگریز کا قائم کردہ آبپاشی کا بہترین نظام موجود ہے۔ ہماری غفلت سے وہ کم اثر ہورہا ہے۔اس کے علاوہ بھی بے شمار چیلنجز ہیں۔ جن سے پیداوار متاثر ہورہی ہے۔مثلاََ یہاں پہلا مسئلہ پانی کی عدم دستیابی ہے، 1950 میں ہر پاکستانی کو پانچ ہزار مکعب فٹ سالانہ پانی دستیاب تھا جو اب ایک ہزار مکعب فٹ رہ گیا ہے۔اس کی بڑی وجہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہے۔ ہمارے ہاں پچپن سے ساٹھ فیصد لوگوں کی روزی روٹی زراعت سے منسلک ہے، ٹیکسٹائل انڈسٹری کی رونقیں بھی زرعی شعبے سے جڑی ہوئی ہیں۔پاکستان میں آبپاشی زیادہ تر اب بھی روایتی طریقے سے ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں اب Irrigation Drip اورPivot Irrigationاستعمال ہوتی ہیں۔ ڈرپ سسٹم میں پانی پلاسٹک کی باریک نالیوں میں سے قطرہ قطرہ پودوں کی جڑوں میں گرتا ہے جب کہ Pivot سسٹم میں فواروں کے ذریعے اچھے خاصے رقبے کو چند منٹوں میں سیراب کر دیا جاتا ہے۔ اس میں پانی کم از کم آدھا بچ جاتا ہے اور وقت بھی کم لگتا ہے ۔ Pivot Irrigationکے چند پائلٹ پروجیکٹ لگائے گئے ہیں مگر بڑے شہروں کے آس پاس اور وہ بھی ایسے اضلاع میں جہاں پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔نہر کے آخری حصے کو ٹیل (Tail)کہا جاتا ہے۔ ٹیل والے حصے میں پانی کا بہاؤ کمزور بھی ہو سکتا ہے اور مقدار میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔ پانی چوری کی وبا بھی موجود ہے۔ پانی چور محکمہ انہارکے اہلکاروں سے ملی بھگت کر کے پانی چوری کرتے ہیں۔
ہماری زراعت کا دوسرا بڑا چیلنج کھاد کی بروقت عدم دستیابی ہے۔ اس مرتبہ گندم کی بوائی کے وقت DAPغائب تھی، چلیں یہ کھاد تو 40فیصد ہی ملک میں بنتی ہے ہمارے ملک میں بننے والی یوریا بھی مارکیٹ میں شارٹ ہے اور مہنگے داموں مل رہی ہے۔ یہ دونوں کھادیں گندم کی فصل کے لیے لازمی ہیں۔ سنا ہے ہماری یوریا کھاد بھی افغانستان سے سینٹرل ایشیا تک اسمگل ہوتی ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے اونچی قیمت پر بیچی جاتی ہے مگر کسان کو رسید کنٹرول پرائس والی دی جاتی ہے۔
کسان مہنگی کھاد افورڈ ہی نہیں کر سکتا ہے اور ہمارے اکثر کسان چھوٹی ہولڈنگ والے ہیں۔زرعی ریسرچ کے فوائد اور ماڈرن مشینری پروگریسو فارمرز کو بھی نہیں مل پاتے' گندم اور گنے کی کاشت کے نئے طریقے نکل آئے ہیں۔ گندم کے لیے ساڑھے تین فٹ چوڑے اور بہت لمبے بیڈ بنائے جاتے ہیں۔ ان کے اوپر گندم بوئی جاتی ہے۔ دونوں جانب پانی کے لیے نالیاں بنائی جاتی ہیں۔ اس عمل سے آدھا پانی بچ سکتا ہے اور پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے مگر بیڈ اور نالیاں بنانے والی مشینری کسانوں کو نہیں مل رہی۔
اور پھر ان مسائل سے بڑھ کر زراعت کا سب سے اہم شعبہ لائیو اسٹاک بھی حکومت کی ناقص پالیسیوں کا شکار ہو چکا ہے حالانکہ پاکستان لائیو اسٹاک کی دولت سے مالا مال ہے۔ ہمارے پاس 42.4 ملین بھینسیں 51.5 ملین گائے 80.3 ملین بکریاں اور 31.6 ملین بھیڑیں بھی موجود ہیں لیکن دنیا کی حلال گوشت کی مارکیٹ میں ہمارا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کا چوتھا نمبر ہے لیکن اس کے باوجود ہم دودھ اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات کی درآمد پر ہر سال اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم بیج کھاد، کرم کش ادویات اور زراعت سے متعلقہ کئی اشیاء کی درآمد پر لگے ہوئے ہیں۔
بہرکیف کتنی شرم کی بات ہے کہ پاکستان کو گندم، چینی بھی درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارا میڈیا، نامور اینکر پرسنز، معیشت کے ماہرین، بڑے بڑے بینکار اور بیوروکریٹس اور ان کی اولادیں زراعت سے لاعلم ہیں، اپنے لائیو اسٹاک کی اہمیت و افادیت سے بے بہرہ ہیں، دیہی معاشرت کو وہ نہیں سمجھتے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موبائل فونز، کمپیوٹر، لیپ ٹاپس،لگژری گاڑیوں پر تو بات ہوتی ہے لیکن زرعی شعبے پر کوئی بات نہیں ہوتی کیونکہ اس کے بارے میں کسی کو آگاہی نہیں ہے۔کہیں سے ایسی آواز نہیں آتی کہ ہم فی ایکڑ بہتر پیداوار کے ذریعے پاکستان کو خوشحال کر سکتے ہیں۔ غربت کے خاتمے میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ لہٰذاحکومت کو چاہیے کہ اگر اُس نے زراعت پر زیرو ٹیکس لگا کر بہترین اقدام اُٹھایا ہے تو کسان کے باقی ماندہ مسائل کو حل کرنے میں بھی دلچسپی دکھائے ۔
اگر حکومت زراعت پر سنجیدگی سے توجہ دے تو ہم اربوں ڈالر کی زرعی اجناس ایکسپورٹ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ افسوس! ہم زرعی اجناس امپورٹ کر رہے ہیں۔ پچھلے سال پاکستان نے آٹھ ارب ڈالر کاغذائی مواد درآمد کیا اور اس میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی گندم بھی تھی۔ میرے لیے یہ خبر بالکل اچھی نہیں تھی۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ہمارے شمال مغربی جانب دو تین ممالک میں روٹی اور نان پاکستانی آٹے سے بنتے ہیں،گویا ہمارا سبسڈائز آٹا اور گندم اسمگل ہوکر ان ممالک میں پہنچ جاتا ہے۔
پاکستان میں 22.15 ملین ہیکٹر رقبہ زیر کاشت ہے جب کہ 9.40 ملین ہیکٹر رقبہ ایسا ہے جس میں گزشتہ سال کے دوران کم از کم ایک فصل کاشت ہوئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 8.29 ملین ہیکٹر رقبہ ایسا ہے جو قابلِ کاشت تو ہے لیکن اس پر کاشتکاری نہیں ہو رہی۔ یہ رقبہ اس وقت کے کل زیر کاشت رقبے کا تقریباً 30 فیصد سے زائد بنتا ہے۔ اگر ہم اس 8.29 ملین ہیکٹر قابلِ کاشت رقبے کے صرف 25 سے 30 فیصد حصے پر کاشت کر لیں تو ملک میں یقینا زرعی انقلاب آ سکتا ہے لیکن ایسا کرے گا کون اور کیوں کرے گا؟آپ اندازہ لگائیں کہ گزشتہ 20 سالوں میں ہماری زیر کاشت رقبے اور قابلِ کاشت بیکار پڑے رقبے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
اس سے آپ حکومتوں کی زراعت سے عدم دلچسپی اور عدم توجہی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔اور پھر پاکستان میں انگریز کا قائم کردہ آبپاشی کا بہترین نظام موجود ہے۔ ہماری غفلت سے وہ کم اثر ہورہا ہے۔اس کے علاوہ بھی بے شمار چیلنجز ہیں۔ جن سے پیداوار متاثر ہورہی ہے۔مثلاََ یہاں پہلا مسئلہ پانی کی عدم دستیابی ہے، 1950 میں ہر پاکستانی کو پانچ ہزار مکعب فٹ سالانہ پانی دستیاب تھا جو اب ایک ہزار مکعب فٹ رہ گیا ہے۔اس کی بڑی وجہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہے۔ ہمارے ہاں پچپن سے ساٹھ فیصد لوگوں کی روزی روٹی زراعت سے منسلک ہے، ٹیکسٹائل انڈسٹری کی رونقیں بھی زرعی شعبے سے جڑی ہوئی ہیں۔پاکستان میں آبپاشی زیادہ تر اب بھی روایتی طریقے سے ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں اب Irrigation Drip اورPivot Irrigationاستعمال ہوتی ہیں۔ ڈرپ سسٹم میں پانی پلاسٹک کی باریک نالیوں میں سے قطرہ قطرہ پودوں کی جڑوں میں گرتا ہے جب کہ Pivot سسٹم میں فواروں کے ذریعے اچھے خاصے رقبے کو چند منٹوں میں سیراب کر دیا جاتا ہے۔ اس میں پانی کم از کم آدھا بچ جاتا ہے اور وقت بھی کم لگتا ہے ۔ Pivot Irrigationکے چند پائلٹ پروجیکٹ لگائے گئے ہیں مگر بڑے شہروں کے آس پاس اور وہ بھی ایسے اضلاع میں جہاں پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔نہر کے آخری حصے کو ٹیل (Tail)کہا جاتا ہے۔ ٹیل والے حصے میں پانی کا بہاؤ کمزور بھی ہو سکتا ہے اور مقدار میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔ پانی چوری کی وبا بھی موجود ہے۔ پانی چور محکمہ انہارکے اہلکاروں سے ملی بھگت کر کے پانی چوری کرتے ہیں۔
ہماری زراعت کا دوسرا بڑا چیلنج کھاد کی بروقت عدم دستیابی ہے۔ اس مرتبہ گندم کی بوائی کے وقت DAPغائب تھی، چلیں یہ کھاد تو 40فیصد ہی ملک میں بنتی ہے ہمارے ملک میں بننے والی یوریا بھی مارکیٹ میں شارٹ ہے اور مہنگے داموں مل رہی ہے۔ یہ دونوں کھادیں گندم کی فصل کے لیے لازمی ہیں۔ سنا ہے ہماری یوریا کھاد بھی افغانستان سے سینٹرل ایشیا تک اسمگل ہوتی ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے اونچی قیمت پر بیچی جاتی ہے مگر کسان کو رسید کنٹرول پرائس والی دی جاتی ہے۔
کسان مہنگی کھاد افورڈ ہی نہیں کر سکتا ہے اور ہمارے اکثر کسان چھوٹی ہولڈنگ والے ہیں۔زرعی ریسرچ کے فوائد اور ماڈرن مشینری پروگریسو فارمرز کو بھی نہیں مل پاتے' گندم اور گنے کی کاشت کے نئے طریقے نکل آئے ہیں۔ گندم کے لیے ساڑھے تین فٹ چوڑے اور بہت لمبے بیڈ بنائے جاتے ہیں۔ ان کے اوپر گندم بوئی جاتی ہے۔ دونوں جانب پانی کے لیے نالیاں بنائی جاتی ہیں۔ اس عمل سے آدھا پانی بچ سکتا ہے اور پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے مگر بیڈ اور نالیاں بنانے والی مشینری کسانوں کو نہیں مل رہی۔
اور پھر ان مسائل سے بڑھ کر زراعت کا سب سے اہم شعبہ لائیو اسٹاک بھی حکومت کی ناقص پالیسیوں کا شکار ہو چکا ہے حالانکہ پاکستان لائیو اسٹاک کی دولت سے مالا مال ہے۔ ہمارے پاس 42.4 ملین بھینسیں 51.5 ملین گائے 80.3 ملین بکریاں اور 31.6 ملین بھیڑیں بھی موجود ہیں لیکن دنیا کی حلال گوشت کی مارکیٹ میں ہمارا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کا چوتھا نمبر ہے لیکن اس کے باوجود ہم دودھ اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات کی درآمد پر ہر سال اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم بیج کھاد، کرم کش ادویات اور زراعت سے متعلقہ کئی اشیاء کی درآمد پر لگے ہوئے ہیں۔
بہرکیف کتنی شرم کی بات ہے کہ پاکستان کو گندم، چینی بھی درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارا میڈیا، نامور اینکر پرسنز، معیشت کے ماہرین، بڑے بڑے بینکار اور بیوروکریٹس اور ان کی اولادیں زراعت سے لاعلم ہیں، اپنے لائیو اسٹاک کی اہمیت و افادیت سے بے بہرہ ہیں، دیہی معاشرت کو وہ نہیں سمجھتے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موبائل فونز، کمپیوٹر، لیپ ٹاپس،لگژری گاڑیوں پر تو بات ہوتی ہے لیکن زرعی شعبے پر کوئی بات نہیں ہوتی کیونکہ اس کے بارے میں کسی کو آگاہی نہیں ہے۔کہیں سے ایسی آواز نہیں آتی کہ ہم فی ایکڑ بہتر پیداوار کے ذریعے پاکستان کو خوشحال کر سکتے ہیں۔ غربت کے خاتمے میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ لہٰذاحکومت کو چاہیے کہ اگر اُس نے زراعت پر زیرو ٹیکس لگا کر بہترین اقدام اُٹھایا ہے تو کسان کے باقی ماندہ مسائل کو حل کرنے میں بھی دلچسپی دکھائے ۔