زندگی کی الجھنوں کا حل ’طلاق‘ میں ڈھونڈنا خلوص اورمحبت کی کمی کا غماز ہے
غیر متوازن ’تفریحی مواد‘ نے ازدواجی زندگی کی توقعات کو غیر فطری طور پر بڑھا دیا ہے
”میں چاہتی ہوں کہ کوئی ایسا ہو؟“ فوٹو: فائل
کراچی میں دعا زہرا نامی لڑکی کے مبینہ اغوا یا پسند کی شادی کے معاملے پر 'فیس بُک' پر ایک صاحب کی رائے سنی، وہ کہہ رہے تھے کہ "دعا مالی طور پر اچھے گھرانے کی بچی ہے، وہ بھلا ایک نچلے طبقے کے غریب خاندان کے لڑکے کی طرف کیوں کر راغب ہو سکتی ہے!"
دعا زہرا کے معاملے کے مکمل حقائق تو شاید وقت گزرنے کے ساتھ ہی سامنے آ سکیں، فی الوقت ہم طبقاتی تفریق کے حوالے سے دی جانے والی اس رائے کا تذکرہ کرنا چاہیں گے کہ مبینہ طور پر ایک پسند کی شادی کے معاملے پر صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ آج ہم غربت اور امارت کے فرق کو 'دلیل' کے طور پر پیش کرنے لگے ہیں! بس شاید یہی اب ہمارے بدلتے ہوئے سماج کا اصل چہرہ ہے۔
پہلے کی اکثر قصے کہانیوں میں یہی مرکزی خیال سامنے آتا تھا کہ یہ دھن دولت، شہرت، روپیا پیسا، خاندان اور نام، عہدہ اور مرتبہ اور یہ مال ومتاع کوئی معنی ہی نہیں رکھتی، اصل اہمیت ایک انسان کی دوسرے انسان سے محبت یا پُرخلوص تعلق کی ہوتی ہے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان وفا اور محبت موجود ہے، تو یہ ساری چیزیں بالکل ثانوی ہیں، ان کا ہونا نہ ہونا بالکل بے معنی سا ہے۔
یہ خیال اور تصور کوئی زیادہ پرانی بات بھی تو نہیں، ماضی ¿ قریب ہی کا ماجرا ہے۔ اس کے باوجود بزرگ یہی نصیحت کرتے تھے کہ قصے کہانیوں کی افسانوی اور غیر حقیقی دنیا میں نہیں رہنا چاہیے، بلکہ زندگی کی کچھ تلخیوں کو بھی سامنے رکھنا چاہیے، عملی زندگی میں کٹھنائیاں بھی بہت آتی ہیں، سماجی اور معاشی مشکلات اور مسئلے مسائل بھی کم نہیں ہوتے۔ تاہم یہ بات سبھی مانتے تھے اور مانتے بھی ہیں کہ اگر زوجین ایک دوسرے سے مخلص اور وفادار ہوں، تو پھر زندگی کے سارے نشیب وفراز اور دھوپ چھاﺅں بھی بہت آرام سے گزر جاتی ہے۔ یعنی گھوم پھر کر بات وہیں آجاتی ہے کہ جیون ساتھی سے قلبی تعلق اور محبت سب سے بنیادی اور بلند تر امر ہوتا ہے۔
تبھی میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہیوں سے تعبیر کیا جاتا تھا، لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے 'معیار' تبدیل ہوا اور ہماری ترجیحات کا چلن بدلنے لگا یوں ہمارے بہت سے قصے کہانیوںِ، افسانوں اور ڈراموں میں بات فقط 'محبت' پر نہ ٹھیری، بلکہ نام نہاد محبت کی آڑ میں ہوس، حسد، جلن اور رقابت کے نام پر ایک پاکیزہ جذبے کو پراگندہ کرنے لگی، گو کہ ناقدین پہلے کے عشق ومحبت کے موضوعات پر بھی بہتیرا اعتراض کرتے تھے کہ کیا زندگی میں 'دل لگی' کے سوا اور کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ جس پر کچھ لکھا جاسکے، لیکن سچ تو یہ تھا کہ مسائل بہت سے تھے، لیکن فطرت نے محبت کے جذبے میں اتنی زیادہ کشش رکھی ہے کہ کوئی چاہے یا نہ چاہے کہیں نہ کہیں اس جذبے کے تعلق سے دل چسپی پیدا ہو ہی جاتی تھی۔
اب جناب کیا ہوا کہ کہانیوں اور ڈراموں کے موضوعات نے عجب طرح سے انگڑائی لی، ایک طرف مغرب کے پُر فریب 'آزادی' کے نعرے نے مختلف 'غیر سرکاری تنظیموں' کے 'بامعاوضہ' اور باقاعدہ 'بیرونی امداد' کے سہارے نام نہاد صنفی مساوات، آزادی اظہار اور "میری مرضی" جیسے مختلف نظریات کو عجیب وغریب طریقے سے پھیلانا شروع کیا۔ سونے پہ سہاگہ 'سوشل میڈیا' کا دور یعنی ہر شخص ہی ایک چلتا پھرتا اور ہر لمحہ شایع ہونے والا اخبار بن گیا۔ رابطوں کی اس قدر فراوانی نے گویا جلتی پر تیل کا سا کام کیا۔ موضوع تو بہت طویل ہے، فی الوقت اس صورت حال کے جس اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے، وہ ہماری بچیوں اور لڑکیوں کا اپنی نئی زندگی کے حوالے سے توقعات اور خواہشات کا نہایت غیر حقیقی انداز میں بلند ہونا اور زندگی کی مادّی سہولتوں پر بہت زیادہ مرکوز ہو جانا ہے۔
اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لڑکیاں کسی ایسے شاہ زادے کے خواب دیکھنے لگی ہیں، جو ہر وقت ان کی ہر بات سنے، ہر جذبے کو بن کہے سمجھ جائے، وہ روئیں تو چپ کرائے، غصہ کرے تو ہمیشہ چپ رہ کر سنے، وہ روٹھ جائیں، تو منائے، چپ ہوں تو خاموشی کی وجہ جان جائے، ہر وقت اور ہر خواہش پوری کرتا رہے، وہ کچھ نہ بتائیں، لیکن وہ سب کچھ جان لے، انھیں اپنے ساتھ ہواﺅں میں لے کر اڑے، سمندروں کی سیر کرائے، الغرض ان کی زندگی بھر کی ساری پر تعیش خواہشات پوری کرے۔ آپ کہیں گے کہ ان خواہشات کا کیا ہے، یہ تو بہت فطری سی باتیں ہیں۔ بالکل! ہم بھی اتفاق کرتے ہیں، لیکن گڑبڑ یہاں پیدا ہو رہی ہے کہ وہ یہ ساری توقعات ایک جیتے جاگتے انسان سے رکھ رہی ہیں، جو زندگی بھر کے لیے ان کا ساتھی ہوگا۔
یقیناً ایسا ہو بھی سکتا ہے، لیکن یہ خیال بھی تو رکھا جائے کہ زندگی کے سفر میں وہ بھی تو آپ کا برابر کا ساتھی ہے۔ چلیے زیادہ نہ سہی، لیکن اتنی ہی خواہش وہ بھی آپ سے رکھ سکتا ہے کہ زندگی کی اونچ نیچ میں، جذبات کے نشیب وفراز اور تلخی وترشی میں آپ بھی اس کا ہاتھ ایسے ہی تھامے رکھیں کہ جیسا آپ کو خواہش ہے۔ لیکن آپ غور کیجیے کہ دوسری جانب یہی رویہ پیش کرنے کا ذکر کوئی نہیں کرتا کہ آپ دونوں کو ایک دوسرے کا لباس بنایا گیا ہے، دونوں ہی کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے۔ حقیقت کی زندگی میں ایسا جیون ساتھی ملنا مشکل ہے کہ جو یک طرفہ طور پر بیوی کی ہمیشہ ایسی سیوا کرتا رہے اور جواب میں اُسے یہ سب نہ ملے۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ خواہش رکھو کہ وہ تمھاری مانے تو یہ حق اُسے بھی ہے کہ تمھیں بھی اس کی ماننی چاہیے، تم اس پر جس طرح حق رکھتی ہو، وہ بھی تم پر ایسے ہی حق کا خواہاں ہے اور یہ اس کا بھی حق ہے، جبر نہیں۔
ہوتا کیا ہے کہ 'فیس بُک' اور 'واٹس ایپ' کے چند لمحوں کے دل فریب شاعرانہ خیال، محبت بھرے خیالی ساتھ، چند لمحے کے یک طرفہ اور شدید ترین افسانوی فقروں کو حقیقت کی زندگی میں توقع کرنے کی خواہشات لیے جب بھی ازدواجی زندگی شروع ہوتی ہے، اور عملی زندگی ایسی نہیں ہوتی، تو لڑکی کو بہت زیادہ مایوسی ہونے لگتی ہے۔ ہر چند کہ شوہر بہت خیال رکھنے والا ہو، لیکن جب آپ نے صرف اپنے لیے خواہشات رکھی ہوں اور اپنی ساری ذمہ داری فراموش کر دی ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ اس کے معاشی حالت، سماجی مجبوریوں سے لے کر ایک انسانی فطرت اور خطا کی کسی گنجائش کا سوچا تک نہ ہو، تو بعضے وقت بہت معمولی سی تکرار ازدواجی زندگی میں کسی دھماکے کا کام کرتی ہے اور ایک نئے خاندان کے تار وپود بکھر کر رہ جاتے ہیں، حالاں کہ دو افراد کے درمیان یہ نہایت معمولی سی بات ہوتی ہے کہ وہ کبھی الجھ بھی جاتے ہیں، کبھی غصہ، تو کبھی ناراض بھی ہوتے ہیں، لیکن تعلق یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے آگے غیر مشروط طور پر سرنگوں ہوتے ہیں، غلطیاں مانتے ہیں، اور یہ بتاتے ہیں کہ اِس تلخی یا غلط فہمی کی نہیں، بلکہ ایک کے لیے دوسرے کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ہمارے پِدر سری سماج میں اگر پہلے مرد ظالم اور منہ زور ہوتا تھا اور بہت سی جگہ مظلوم بیوی ساری زندگی جبر سہتے سہتے گزار دیتی تھی۔ اب سماج نے مرد کے اِس جبر اور ظلم کی اصلاح کرتے کرتے، یکا یک علاحدگی اور 'طلاق' کی کھل کر 'حوصلہ افزائی' کرنی شروع کر دی ہے۔ زیادہ دور کیوں جاتے ہیں، ذرا 20، 25 برس پہلے تک اپنے خاندانوں اور ملنے جلنے والوں میں گھروں کے ٹوٹنے کے واقعات گن لیجیے اور اس کے بعد سے آج تک کے واقعات شمار کر لیجیے، ساری صورت حال سامنے آجائے گی۔
اب اسے 'ظلم سے نجات' اور 'آزادی' کے پرچم تلے چھپانے کی ایک غیر فطری کوشش کی جاتی ہے۔ 'غیر فطری' ان معنوں میں کہ ہمیں اگر خاندانی نظام پر یقین ہے اور اِسے واقعی جوڑے رکھنا بھی ہے، تو پھر اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ یہ بہت خوف ناک مستقبل کی غمازی ہے۔ اور اب آپ سنیے طلاق کی 'حوصلہ افزائی' کیسے کی جا رہی ہے کہ 'تم کوئی ہم پر بوجھ تھوڑی ہو!' اور 'مرنے سے بہتر ہے کہ علاحدہ ہو جاﺅ!'
بھئی یہ کس نے کہا ہے کہ ظالم اور خود سر شوہر درست ہے یا وہ اچھا کرتا ہے، لیکن بہ جائے لڑکے اور اس کے گھر والوں کے بیمار رویوں کی اصلاح کے، ہم فوراً 'علاحدگی' میں حل ڈھونڈنے لگے ہیں اور پھر خم ٹھونک کر کہتے ہیں کہ واہ صاحب، اب ہماری لڑکیاں اور خواتین بڑی بااختیار ہو گئی ہیں! جب کہ یہ قطعی طور پر خواتین کی خودمختاری نہیں ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ رخصتی کے وقت "بٹیا، لال میں جا رہی ہو، سفید میں آنا" جیسی نصیحتیں بھی کچھ زیادہ ہی انتہا پسندانہ تھیں، لیکن اس کے برعکس اس انتہا کو پہنچ جانا کہ گھروں میں ہم جس عمل کا نام تک لینا تک معیوب سمجھتے تھے، آج بار بار اِس کے واقعات سامنے آنے لگے ہیں، یہ بھی تو مکمل طور پر ایک انتہا پسندانہ رویہ ہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایمان داری سے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب ہمارے ہاں طلاقیں کم ہوتی تھیں، تو کیا تب 'ظالم شوہروں' کی تعداد اتنی تھی کہ جتنی آج علاحدہ ہو جانے والوں کی ہے؟ یقیناً ایسا نہیں تھا، البتہ یہ ضرور ہے کہ جب دو افراد زندگی بھر کے لیے ایک دوسرے سے جُڑتے ہیں، تو اس میں دونوں طرف سے لچک، ایثار اور قربانی کی ضرورت پڑتی ہے، دونوں کی زندگی پہلے جیسی نہیں رہتی، ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض کا ایک مکمل سلسلہ ہوتا ہے اور اس سب کے لیے بنیاد اسی وقت بنتی ہے کہ جب ہم لڑکی اور لڑکا دل وجان سے یہ مان لیتے ہیں کہ اب وہ "یک جان، دو قالب" ہیں۔
ایسا ناممکن ہے کہ دو افراد ایک ساتھ ہوں اور ان میں کبھی جھگڑا یا تلخی وترشی نہ ہو، لیکن دونوں طرف یہ سرد وگرم زندگی کا حصہ سمجھتے ہوئے سہنے چاہئیں، اِس کی گنجائش پیدا کرنی چاہیے، لیکن کیا کیجیے کہ جب دل محبت سے خالی ہوں، خلوص میں کمی ہو یا یہ تعلق واستواری دل کے بہ جائے دماغ نے مادّی جمع وتفریق کر کے قائم کی ہو، تو یقیناً زوجین میں ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور غلطیوں کے لیے سہار اور گنجائش کم تر ہوتی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل پسند کی شادیوں کا چلن بڑھنے سے، بہ جائے زیادہ محبت ہونے کے، گلے شکوے زیادہ ہوتے ہیں اور پھر بات بہت جلد ہی راہیں جدا کرنے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس سارے امر میں ایک بڑی وجہ خلوص کے بہ جائے ظاہری محبت ہوتی ہے، اور مالی حیثیت کی کشش کو 'پیار' جتایا گیا ہوتا ہے۔
اس سارے معاملے کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم نے انسانی جذبات کو اب بہت زیادہ ہی 'مادّیت پرستی' کی طرف موڑ دیا ہے۔ دنیا کے لطیف ترین، بنیادی اور فطری جذبہ ¿ محبت کو بے رحم سرمایہ دارانہ منڈی نے جس بھرپور طریقے سے سامان تعیشات اور دھن دولت سے نتھی کر دیا ہے، اس پر ہمیں بہت زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی محبت یا اچھی زندگی کے لیے مہنگے مہنگے کپڑے، اچھے گھر، عمدہ گاڑی، دعوتوں کی تام جھام، گھومنے پھرنے اور پرتعیش زندگی ضروری ہے؟ نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ پہلے بھی روپیے پیسے کے بل پر لوگ شادیاں رچاتے تھے، لیکن وہ یقیناً چند کم ظرف ہوتے تھے۔
آج ہمارے اوپر اِسے محبت اور تعلق پر حاوی کر دیا گیا ہے، بلکہ دھن دولت ہی دراصل اس نام نہاد رشتے کے وجود کی ضامن بن چکی ہے اور کچھ بھی کہہ لیجیے یہ انسانی فطرت اور نفسیات کے ایک برعکس عمل ہے۔ جب بنیادی انسانی جبلت کو دیگر مصنوعی چیزوں سے پورا کیا جائے گا، تو لازماً عدم اطمینان پیدا ہوگا، ہماری زندگیوں سے ٹھیراﺅ ختم ہوگا، رویے بدلیں گے، برداشت اٹھ جائے گی اور نہ صرف ازدواج اس سے متاثر ہوں گے، بلکہ ان کی عام سماجی زندگی میں بھی مختلف طرح کے مسائل سامنے آئیں گے۔
ممکن ہے بہت سے قارئین یہ سوچ رہے ہوں کہ یہ سماجی مسئلہ تو مرد وزن، ہر دو جانب ہی توجہ کا متقاضی ہے، تو پھر اس موضوعِ سخن کو خاص خواتین کے صفحے پر کیوں کر چھیڑا گیا؟ بالکل، یہ بات ہمارے ذہن میں بھی پہلے سے موجود تھی۔ بات یہ ہے کہ گذشتہ دنوں ہمارے ایک پرانے شناسا ازدواجی تلخی کا شکار ہوئے اور انھوں نے ہم سے نصیحت آمیز انداز میں کہا کہ "بھائی، جب شادی کرو، تو اپنی بیوی کو 'سوشل میڈیا' مت استعمال کرنے دینا!" یعنی آپ اندازہ لگائیے کہ ایک 'پی ایچ ڈی' کیا ہوا لڑکا اِس نتیجے پر پہنچا کہ اُس بنیادی سے رشتے کو، جو ٹھیرتا ہی وفا اور اعتماد کی بنیاد پر ہے، اتنا 'غیر یقینی' کا شکار ہوگیا۔ ہماری ازدواجی زندگی میں جب محبت کو ذرا کم علاقہ ہوتا ہے، تو پھر براہ راست عملی زندگی میں اعتماد کی ڈور بھی کمزور تر ہوئی جاتی ہے، اور اگر اس تعلق میں اعتماد نہ ہو تو پھر یہ تعلق چاہے دنیاوی طور پر قائم بھی رہ جائے، لیکن دراصل منقطع ہو چکا ہوتا ہے۔
کئی باشعور، صاحب الرائے اور سنجیدہ سماجی ماہرین نے اِس صورت حال کی جانب اشارہ کیا ہے کہ جو براہ راست صنف نازک کی جانب ہیں اور یہ کہا گیا کہ پہلے کچھ لڑکوں اور مرد حضرات کی جانب سے 'وقت گزاری' کے لیے کسی کے جذبات سے کھیلنے کا دوش ہوتا تھا، یا کچھ عرصے بعد راہیں بدلنے کا الزام عائد ہوتا تھا۔ اب صنفی اعتبار سے ایسی شکایات دوسری جانب بھی عام ہوتی جا رہی ہیں۔ اور اگر آپ زوجین کی علاحدگی کو دیکھیے، تو شاید اِس بات سے اتفاق بھی کریں، یعنی 'بے وفائی' کے واقعات شوہر یا مرد کی جانب ہونا اب ایسا واقعہ نہیں رہا، بلکہ اب کبھی کبھی پلڑا دوسری جانب کو جھکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یقیناً لطیف انسانی جذبات سے کھلواڑ کرنا اور نئی زندگی کے لیے خلوص اور محبت کے سوا کسی اور مادّی چیز کو بنیاد بنانا کسی بھی صنف کی جانب سے ہو، یک ساں طور پر غلط عمل ہے۔ خاندان اور سماجی ڈھانچے کو بکھرنے سے بچانے کے لیے فوری طور پر اِس رویے کی اصلاح ضروری ہے۔