نظر انداز کیا جانے والا معاشرتی مسئلہ
کہیں خاندان اور معیار رکاوٹ بن جاتاہے تو پھر وہی کچھ پروان چڑھتا ہے جو آج کل ہو رہا ہے
BEIJING:
ملک کے میڈیا میں سیاست کے بعد پسند کی شادی ، پریمی جوڑوں میں بڑھتا عدم تحفظ ، نوجوان لڑکیوں کے اغوا ، گھرفرار اور اسی باعث قتل کی خبریں نمایاں جگہ حاصل کر رہی ہیں اور بعض میڈیا چینلز کی ہیڈلائنز ہی اب ایسی خبروں سے شروع ہونے لگی ہیں اور عدالتوں میں بھی پریمی جوڑوں کے مقدمات مقررہ تاریخ سے قبل ہی زیر سماعت آنے لگے ہیں جس کی ایک واضح مثال چشتیاں پنجاب سے برآمدگی کے بعد کراچی لائے جانے والی لڑکی کا کیس ہے۔
یہ لڑکی 51 روز روپوش رہنے کے بعد پولیس اس تک پہنچنے میں کامیابی ہوئی اور اسے کراچی لایا گیا۔ ملک کے بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے قصبوں، شہروں میں نوجوان لڑکیوں کے فرار، اغوا اور عدالتوں کے ذریعے پسند کی شادی کی خبریں اور بعد میں پریمی جوڑوں کو اپنے قتل کے خوف سے علاقہ چھوڑنے یا اعلیٰ حکام سے تحفظ فراہم کرنے کی اپیلوں کی خبروں سے پہلے اخبارات بھرے ہوتے تھے اور اب مین اسٹریم میڈیا میں ایسی خبریں نمایاں طور پر نشر ہو رہی ہیں۔
ایسے واقعات ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے لیکن اسکے باوجود معاشرے میں ایسے واقعات نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔ کہیں انھیں عزت و انا کا مسئلہ سمجھ کر قانون کو ہاتھ میں لے لیا جاتا ہے جس کا انجام قتل و غارت گری اور جیلیں ہوتی ہیں۔
عدالتوں میں قتل کے ایسے واقعات پر سزائے موت تو نہیں ہوتی کیونکہ ایسے قتل کو غیرت یا اشتعال کا نام دے دیا جاتا ہے جس کی سزا موت نہیں ہوتی مگر یہ جرم ضرور ہے اور ایسے جرائم اب مسلسل بڑھ رہے ہیں اور عدالتوں اور پولیس پر اب ایسے معاملات کا بوجھ بھی بڑھ رہا ہے جب کہ دیگر مقدمات کا بوجھ پہلے ہی کم نہیں ہے۔ عدالتوں کے حکم پر پولیس پر اب یہ افتاد بھی آ پڑی ہے کہ پہلے سے موجود اہم معاملات کے باوجود پولیس کو ملک بھر میں چھاپے مار کر گھر سے فرار ہو جانے والی لڑکیوں کو برآمد کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ایسے معاملات میں والدین اپنی بیٹی کے فرار کی بجائے اغوا کا مقدمہ درج کراتے ہیں اور پولیس کے دلچسپی نہ لینے پر عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے اور عدالتی حکم پر پولیس کے لیے نئے مسئلے پیدا ہو جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں کراچی میں دو لڑکیوں کی پسند کی شادی کی خبروں کو میڈیا اور عدالتوں میں بڑی اہمیت ملی اور انجام یہ افسوس ناک ہوا کہ پولیس نے ملک کے مختلف علاقوں سے لڑکیوں کو برآمد کرکے جب اعلیٰ عدلیہ میں پیش کیا تو لڑکیوں نے بیان دیا کہ انھیں اغوا نہیں کیا گیا بلکہ انھوں نے اپنی مرضی سے گھر چھوڑا تھا اور پسند کی شادی کی تھی اور اب وہ اپنے شوہروں کے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔ ان لڑکیوں نے اپنے والدین سے ملنے سے بھی انکار کردیا اور عدالت عالیہ کے جج کو بھی کہنا پڑا کہ جب لڑکی اپنے والدین سے ملنے سے منع کر چکی ہے تو عدالت کیسے اسے زبردستی سے اپنے والدین سے ملنے کا کہہ سکتی ہے۔
برآمدگی کے بعد عدالت میں پیش کی جانے والی لڑکیاں صاف کہہ رہی ہیں کہ انھیں اغوا نہیں کیا گیا، والدین نے جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے اور وہ والدین کی بجائے اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔ چشتیاں سے برآمد ہونے والی لڑکی 51 دن بعد پولیس نے کراچی پہنچائی تو اس خبر سے اس کے گھر میں عید کا سماں دیکھنے میں آیا اور خوشی سے نڈھال والدین کو عدالت میں کتنی شرمندگی ہوئی ہوگی جب ان کی بیٹی نے ان سے ملنے سے بھی انکار کردیا اور عمر کے تعین تک عدالت نے اسے شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دیا اور والدین یہ دیکھ کر کس کرب سے گزرے یہ دکھ تو متاثر ہونے والے ہی جان سکتے ہیں مگر انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ نوبت کیوں آئی کہ ان کی بیٹی ان سے ملنے کی روادار نہیں جسے انھوں نے پالا پوسا ، تعلیم دلوائی اور وہی بیٹی پسند کی شادی کی خاطر انھیں رسوا کرکے شوہر کے پاس چلی گئی۔
معاشرے میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کے رشتے ہونا جہاں والدین کے لیے اہم معاشرتی مسئلہ بنا ہوا ہے وہاں پسند کی شادی کرائے جانے کے معاملات بہت محدود ہیں اور بہت کم خاندان ایسے ہیں جو بچوں کیپسند کی شادی پر نہ چاہتے ہوئے بھی رضامند ہوتے ہیں۔ مخلوط تعلیم یا ملازمت کرنے والے لڑکے اور لڑکی پسند کی شادی پر رضامند ہو جاتے ہیں تو ان کے والدین نہیں مانتے جس کی وجہ سے لڑکیاں ماں باپ کو چھوڑ کر عدالتوں میں جا کر شادی کرلیتی ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کم پڑھے لکھے اور پس ماندہ خاندانوں میں بیٹی سے اس کی شادی پر پوچھا ہی نہیں جاتا اور اپنی مرضی سے اس کا رشتہ طے کردیا جاتا ہے اور بعض دفعہ نکاح تک کردیا جاتا ہے کہ شادی بعد میں کردی جائے گی اور لڑکی اس پر رضامند نہیں ہوتی اور اپنے اچھے مستقبل کی خاطر اس کے ساتھ فرار ہو جاتی ہے جسے وہ پسند کرتی ہے ۔ لڑکوں سے تو ان کی پسند پوچھ لی جاتی ہے مگر اکثر لڑکیوں سے کچھ نہیں پوچھا جاتا حالاں کہ ہمارا مذہب بھی لڑکیوں کی جبری شادی کے خلاف ہے۔ مہنگائی و بے روزگاری میں جہیز جمع کرکے بیٹی کی شادی اب آسان نہیں رہا۔ شرعی طور پر بیٹی شادی کے قابل ہو جاتی ہے تو کہیں رشتے نہیں ملتے۔ رشتے آتے ہیں تو برادری ازم آڑے آ جاتا ہے ،کہیں مسلک کا اختلاف ہوتا ہے۔
جہیز نہ ہونے سے لڑکی کی عمر بڑھتی جاتی ہے، کہیں خاندان اور معیار رکاوٹ بن جاتاہے تو پھر وہی کچھ پروان چڑھتا ہے جو آج کل ہو رہا ہے اور لڑکیاں والدین کی عزت خاک میں ملا کر باہر نکل کر پسند کی شادی کرلیتی ہیں اور پھر عدالتوں میں وہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو سندھ ہائی کورٹ میں دیکھے گئے۔ والدین کے رویے بدلنے اور بیٹی کو نظرانداز کرنے کے یہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
ملک کے میڈیا میں سیاست کے بعد پسند کی شادی ، پریمی جوڑوں میں بڑھتا عدم تحفظ ، نوجوان لڑکیوں کے اغوا ، گھرفرار اور اسی باعث قتل کی خبریں نمایاں جگہ حاصل کر رہی ہیں اور بعض میڈیا چینلز کی ہیڈلائنز ہی اب ایسی خبروں سے شروع ہونے لگی ہیں اور عدالتوں میں بھی پریمی جوڑوں کے مقدمات مقررہ تاریخ سے قبل ہی زیر سماعت آنے لگے ہیں جس کی ایک واضح مثال چشتیاں پنجاب سے برآمدگی کے بعد کراچی لائے جانے والی لڑکی کا کیس ہے۔
یہ لڑکی 51 روز روپوش رہنے کے بعد پولیس اس تک پہنچنے میں کامیابی ہوئی اور اسے کراچی لایا گیا۔ ملک کے بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے قصبوں، شہروں میں نوجوان لڑکیوں کے فرار، اغوا اور عدالتوں کے ذریعے پسند کی شادی کی خبریں اور بعد میں پریمی جوڑوں کو اپنے قتل کے خوف سے علاقہ چھوڑنے یا اعلیٰ حکام سے تحفظ فراہم کرنے کی اپیلوں کی خبروں سے پہلے اخبارات بھرے ہوتے تھے اور اب مین اسٹریم میڈیا میں ایسی خبریں نمایاں طور پر نشر ہو رہی ہیں۔
ایسے واقعات ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے لیکن اسکے باوجود معاشرے میں ایسے واقعات نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔ کہیں انھیں عزت و انا کا مسئلہ سمجھ کر قانون کو ہاتھ میں لے لیا جاتا ہے جس کا انجام قتل و غارت گری اور جیلیں ہوتی ہیں۔
عدالتوں میں قتل کے ایسے واقعات پر سزائے موت تو نہیں ہوتی کیونکہ ایسے قتل کو غیرت یا اشتعال کا نام دے دیا جاتا ہے جس کی سزا موت نہیں ہوتی مگر یہ جرم ضرور ہے اور ایسے جرائم اب مسلسل بڑھ رہے ہیں اور عدالتوں اور پولیس پر اب ایسے معاملات کا بوجھ بھی بڑھ رہا ہے جب کہ دیگر مقدمات کا بوجھ پہلے ہی کم نہیں ہے۔ عدالتوں کے حکم پر پولیس پر اب یہ افتاد بھی آ پڑی ہے کہ پہلے سے موجود اہم معاملات کے باوجود پولیس کو ملک بھر میں چھاپے مار کر گھر سے فرار ہو جانے والی لڑکیوں کو برآمد کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ایسے معاملات میں والدین اپنی بیٹی کے فرار کی بجائے اغوا کا مقدمہ درج کراتے ہیں اور پولیس کے دلچسپی نہ لینے پر عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے اور عدالتی حکم پر پولیس کے لیے نئے مسئلے پیدا ہو جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں کراچی میں دو لڑکیوں کی پسند کی شادی کی خبروں کو میڈیا اور عدالتوں میں بڑی اہمیت ملی اور انجام یہ افسوس ناک ہوا کہ پولیس نے ملک کے مختلف علاقوں سے لڑکیوں کو برآمد کرکے جب اعلیٰ عدلیہ میں پیش کیا تو لڑکیوں نے بیان دیا کہ انھیں اغوا نہیں کیا گیا بلکہ انھوں نے اپنی مرضی سے گھر چھوڑا تھا اور پسند کی شادی کی تھی اور اب وہ اپنے شوہروں کے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔ ان لڑکیوں نے اپنے والدین سے ملنے سے بھی انکار کردیا اور عدالت عالیہ کے جج کو بھی کہنا پڑا کہ جب لڑکی اپنے والدین سے ملنے سے منع کر چکی ہے تو عدالت کیسے اسے زبردستی سے اپنے والدین سے ملنے کا کہہ سکتی ہے۔
برآمدگی کے بعد عدالت میں پیش کی جانے والی لڑکیاں صاف کہہ رہی ہیں کہ انھیں اغوا نہیں کیا گیا، والدین نے جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے اور وہ والدین کی بجائے اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔ چشتیاں سے برآمد ہونے والی لڑکی 51 دن بعد پولیس نے کراچی پہنچائی تو اس خبر سے اس کے گھر میں عید کا سماں دیکھنے میں آیا اور خوشی سے نڈھال والدین کو عدالت میں کتنی شرمندگی ہوئی ہوگی جب ان کی بیٹی نے ان سے ملنے سے بھی انکار کردیا اور عمر کے تعین تک عدالت نے اسے شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم دیا اور والدین یہ دیکھ کر کس کرب سے گزرے یہ دکھ تو متاثر ہونے والے ہی جان سکتے ہیں مگر انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ نوبت کیوں آئی کہ ان کی بیٹی ان سے ملنے کی روادار نہیں جسے انھوں نے پالا پوسا ، تعلیم دلوائی اور وہی بیٹی پسند کی شادی کی خاطر انھیں رسوا کرکے شوہر کے پاس چلی گئی۔
معاشرے میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کے رشتے ہونا جہاں والدین کے لیے اہم معاشرتی مسئلہ بنا ہوا ہے وہاں پسند کی شادی کرائے جانے کے معاملات بہت محدود ہیں اور بہت کم خاندان ایسے ہیں جو بچوں کیپسند کی شادی پر نہ چاہتے ہوئے بھی رضامند ہوتے ہیں۔ مخلوط تعلیم یا ملازمت کرنے والے لڑکے اور لڑکی پسند کی شادی پر رضامند ہو جاتے ہیں تو ان کے والدین نہیں مانتے جس کی وجہ سے لڑکیاں ماں باپ کو چھوڑ کر عدالتوں میں جا کر شادی کرلیتی ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کم پڑھے لکھے اور پس ماندہ خاندانوں میں بیٹی سے اس کی شادی پر پوچھا ہی نہیں جاتا اور اپنی مرضی سے اس کا رشتہ طے کردیا جاتا ہے اور بعض دفعہ نکاح تک کردیا جاتا ہے کہ شادی بعد میں کردی جائے گی اور لڑکی اس پر رضامند نہیں ہوتی اور اپنے اچھے مستقبل کی خاطر اس کے ساتھ فرار ہو جاتی ہے جسے وہ پسند کرتی ہے ۔ لڑکوں سے تو ان کی پسند پوچھ لی جاتی ہے مگر اکثر لڑکیوں سے کچھ نہیں پوچھا جاتا حالاں کہ ہمارا مذہب بھی لڑکیوں کی جبری شادی کے خلاف ہے۔ مہنگائی و بے روزگاری میں جہیز جمع کرکے بیٹی کی شادی اب آسان نہیں رہا۔ شرعی طور پر بیٹی شادی کے قابل ہو جاتی ہے تو کہیں رشتے نہیں ملتے۔ رشتے آتے ہیں تو برادری ازم آڑے آ جاتا ہے ،کہیں مسلک کا اختلاف ہوتا ہے۔
جہیز نہ ہونے سے لڑکی کی عمر بڑھتی جاتی ہے، کہیں خاندان اور معیار رکاوٹ بن جاتاہے تو پھر وہی کچھ پروان چڑھتا ہے جو آج کل ہو رہا ہے اور لڑکیاں والدین کی عزت خاک میں ملا کر باہر نکل کر پسند کی شادی کرلیتی ہیں اور پھر عدالتوں میں وہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو سندھ ہائی کورٹ میں دیکھے گئے۔ والدین کے رویے بدلنے اور بیٹی کو نظرانداز کرنے کے یہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔