ایک ہیں مسلم تحفظِ ناموسِ رسالت کے لیے
عرب ممالک کے عوام کی جانب سے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ نے مودی سرکار کی چولیں ہلا کر رکھ دیں
WASHINGTON:
بھارت کی انتہا پسند، دہشت گرد جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے رہنماؤں نوپور شرما اور نوین کمار جندال نے آقائے نامدار، تاجدار مدینہ، سرور قلب و سینہ محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرکے روئے زمین پر بسنے والے اربوں مسلمانوں کے دل چھلنی کردیے ہیں۔ اس گستاخانہ بیان کے بعد سعودی عرب، کویت، یو اے ای، عمان اور قطر سمیت کئی مسلم ممالک نے شدید احتجاج کیا تھا۔
عمان کے مفتی اعظم کی جانب سے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کا اعلان بھی کیا گیا، تمام عرب ممالک میں عوامی سطح پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت و محبت کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب عرب تاجروں نے بھارتی مصنوعات کو اٹھا کر کچرے کے ڈبوں میں پھینک دیا، عموماً ایسے واقعات کے بعد سب سے پہلے پاکستان میں احتجاج ہوتاتھا، پھر باقی مسلم ممالک کے عوام آگے بڑھتے لیکن اس بار عرب ممالک بازی لے گئے۔
ہم پاکستانیوں تک ابھی خبر بھی نہیں پہنچی تھی لیکن عرب ممالک کے عوام کی جانب سے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ نے مودی سرکار کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ عرب ممالک کے غیور مسلمانوں میں اس بیداری کی لہر نے دنیائے اسلام کو حیران کرڈالا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے ہر عرب مسلمان کہہ رہا ہو:
ہم نے ہر دور میں تقدیس رسالت کے لیے
وقت کی تیز ہواؤں سے بغاوت کی ہے
اور توڑ کے سلسلہ رسم سیاست کا فسوں
اک فقط نام محمدﷺ سے محبت کی ہے
اس بار تو اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) نے بھی اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اوآئی سی کی جانب سے جو بیان جاری ہوا، اس میں کہا گیا کہ بی جے پی کے عہدیداروں نے جو گستاخی کی ہے وہ بھارت میں اسلام کے خلاف نفرت اور اسے بدنام کرنے والی پرتشدد مہم کا حصہ ہے۔
بھارتی مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کے تحت اقدامات کیے جارہے ہیں۔ متعدد ریاستوں کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی، مسلمانوں کی املاک منہدم کرنے والے اقدامات اور ان پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کے سلسلے کی کڑی ہے۔ اس بیان میں بھارتی حکومت کو دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ وہ ایسے واقعات کا سختی سے نوٹس لے۔
اشتعال پھیلانے والوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور تشدد کے جرائم کرنے والوں کو عدالت میں پیش کرے اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے۔ حکومت مسلمانوں کے حقوق اور ان کی مذہبی و ثقافتی شناخت، ان کے وقار اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اسلامی تعاون تنظیم نے عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف تشدد بند کرانے کے لیے ضروری اقدامات اور انسانی حقوق کونسل خصوصی کارروائی کرے۔
مودی سرکار کو عرب ممالک اور خصوصاََ او آئی سی کی جانب سے اتنے سخت ردعمل کی توقع نہ تھی۔ خلاف توقع ردعمل کو دیکھتے ہوئے بھارت کی حکمران جماعت نے اپنی ترجمان نوپور شرما کو فوراً معطل کر دیا اور نوین جندال کو پارٹی سے نکال دیا اور ساتھ ہی ساتھ دونوں ملعونوں کی جانب سے کی جانے والی گستاخی کی مذمت بھی کی لیکن یہ اقدامات محض دکھائوا ہیں۔ ایک مکروہ سرکار کسی طور بھی قابل اعتماد نہیں ہوسکتی، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ان گستاخانہ بیانات کے خلاف مسلمانوں کے مظاہروں پر ریاستی تشدد کیا جارہا ہے، ان پر گولیاں اور آنسو گیس برسا رہی ہے، کئی مسلمان جام شہادت نوش کرگئے ہیں۔ مودی حکومت سے اس کے علاوہ کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔
بھارت میں شدت پسند ہندوؤں کی جانب سے متواتر اسلام، اسلامی شعار اور مقدس شخصیات کی توہین کی کوششیں عرصے سے جاری ہیں۔ آئے روز کوئی نہ کوئی بدبخت ہندو جوگی یا پنڈت اٹھ کر اپنا زہر اگل دیتا ہے۔ حالیہ واقعہ پر مسلم دنیا کے ردعمل نے بھارتی مسلمانوں کو حوصلہ بخشا۔ حکمران جماعت بی جے پی اور وزیراعظم نریندرا مودی پچھلے کئی برسوں میں پہلی بار شدید مشکلات اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں کیونکہ اس بار یہ ردعمل بھارت کے باہر سے آیا ہے۔
امریکا، اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ نے مسلمانوں کو پوری دنیا میں جو نقصان پہنچایا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اس وقت جو اہم ہے ،اس کی بات کرتے ہیں یعنی مودی سرکار کی۔ نریندر مودی کے سات سالہ دور اقتدار میں ہندوستان کی سرزمین انسانیت کے لیے تنگ کردی گئی ہے، نچلی ذات کے ہندوؤں، اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں ان کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وہاں سے آنے والی ویڈیوز میں جنونی ہندو مساجد کی کھلم کھلا بے حرمتی کرتے ہیں، مسلمانوں کی گھروں اور املاک کو نذر تش کرتے ہیں، چادر اور چاردیواری کو پامال کرتے ہوئے ان کے گھروں پر بلوائیوں کے حملے ہوتے ہیں، نوجوانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ ایسی ایسی خوفناک ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہورہی ہیں جنھیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ سب کچھ گجرات کے قصائی نریندرا مودی کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔
ہندوستان کا یہ انتہاپسند ایک سیکولر ملک کو بڑی تیزی سے ہندو ریاست میں بدل رہا ہے، کوئی بعید نہیں کہ وہ سرکاری طور پر اسے ہندو ریاست ڈیکلئیر کردے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھارت چھوڑنے کی دھمکی دے دے۔ مودی بھارت کو جس تباہی کی طرف لے جا رہا ہے بھارت کی بربادی کے لیے یہی کافی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ پورے خطے کی امن و آشتی کو بھی آگ میں جھونکنے پر تلا ہوا ہے۔
نریندرا مودی دہشت گرد اور متعصب وشدت پسند تنظیم آر ایس ایس کے ایجنڈے اور منشور پر عمل پیرا ہے، یہ تنظیم مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کی شدید مخالف ہے، اور ہر قیمت پر بھارت میں ہندو توا کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے۔ ذات پات کی حامی اِس تنظیم نے اقلیتوں کے خلاف ہندودھرم کے گرو،پروہتوں، پنڈتوں وغیرہ کو بھی متحرک کر دیا ہے اور مبینہ طور پر اس مقصد کے حصول کے لیے بھاری رقوم بھی تقسیم کی جا رہی ہیں جو نہایت خطر ناک صورتحال پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بھارت میں ایک بار پھر مسلمانوں کے قتل عام کی کوشش کی جا سکتی ہے، سکھوں کی تحریک کو ختم کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، مختصر یہ کہ مودی سرکار ہر طرح سے بھارت کے اندر اور پڑوسی ممالک کے ساتھ نفرت اور جنگ کی آگ بھڑکانے پر کمر بستہ ہے۔ حکمران بی جے پی کی یہ بھی کوشش ہے کہ پورے بھارت میں یک جماعتی نظام قائم ہو اور بی جے پی پی کی حکمرانی قائم رہے تاکہ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو یا توختم کیا جا سکے یا پھر دبایا جا سکے۔ آج اس منصوبے پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے بھارت سخت اندرونی انتشار کا شکار ہے، معیشت کا بھٹہ بیٹھ رہا ہے۔
ہرطرف خوف و ہراس کا عالم ہے، کوئی پتہ نہیں کس وقت کس علاقے میں کب فساد شروع ہو جائے؟ بی جے پی کے رہنماؤں کے گستاخانہ بیانات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جن کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج جاری ہیں، پاکستان میں جمعیت علماء اسلام کی اپیل پر ملک کے تمام ضلع ہیڈ کوارٹرز میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کرکے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق و محبت کا اظہار کیا، باقی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس مسئلہ پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا، پاکستان اسلام کے نام پر معروض وجود میں آیا، اسی بنیاد پر دنیا میں جہاں کہیں ایسی ناپاک جسارت ہوتی ہے، اس کے خلاف سب سے پہلی اور توانا آواز پاکستان کی ہونی چاہیے جو نہیں ہے۔
اللہ مولانا فضل الرحمان کو جزائے خیر عطا کرے جنہوں نے پاکستان بھر کے مسلمانوں کی نمایندگی کرتے ہوئے اس ناپاک جسارت کے خلاف بھرپور آواز بلندکی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عرب ممالک سمیت پوری دنیا میں اس گستاخی پر ہونے والے مسلمانوں کے احتجاج کو چینلائز کیا جائے۔ یہ کام او آئی سی کی سطح پر ہو تو زیادہ بہتر ہے، او آئی سی فوری طور پر ہنگامی اجلاس بلائے اور بھارت کے سوشل بائیکاٹ کا اعلان کرے۔ اس اقدام سے جہاں بھارت مسلمانوں پر مظالم سے باز آجائے گا وہاں او آئی سی کی ساکھ بھی بحال ہوگی۔ اگر او آئی سی نے آج بھی قدم آگے نہیں بڑھایا پھر اس پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا اور مسلمان کسی متبادل فورم کی جانب دیکھیں گے۔
بھارت کی انتہا پسند، دہشت گرد جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے رہنماؤں نوپور شرما اور نوین کمار جندال نے آقائے نامدار، تاجدار مدینہ، سرور قلب و سینہ محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرکے روئے زمین پر بسنے والے اربوں مسلمانوں کے دل چھلنی کردیے ہیں۔ اس گستاخانہ بیان کے بعد سعودی عرب، کویت، یو اے ای، عمان اور قطر سمیت کئی مسلم ممالک نے شدید احتجاج کیا تھا۔
عمان کے مفتی اعظم کی جانب سے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کا اعلان بھی کیا گیا، تمام عرب ممالک میں عوامی سطح پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت و محبت کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب عرب تاجروں نے بھارتی مصنوعات کو اٹھا کر کچرے کے ڈبوں میں پھینک دیا، عموماً ایسے واقعات کے بعد سب سے پہلے پاکستان میں احتجاج ہوتاتھا، پھر باقی مسلم ممالک کے عوام آگے بڑھتے لیکن اس بار عرب ممالک بازی لے گئے۔
ہم پاکستانیوں تک ابھی خبر بھی نہیں پہنچی تھی لیکن عرب ممالک کے عوام کی جانب سے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ نے مودی سرکار کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ عرب ممالک کے غیور مسلمانوں میں اس بیداری کی لہر نے دنیائے اسلام کو حیران کرڈالا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے ہر عرب مسلمان کہہ رہا ہو:
ہم نے ہر دور میں تقدیس رسالت کے لیے
وقت کی تیز ہواؤں سے بغاوت کی ہے
اور توڑ کے سلسلہ رسم سیاست کا فسوں
اک فقط نام محمدﷺ سے محبت کی ہے
اس بار تو اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) نے بھی اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اوآئی سی کی جانب سے جو بیان جاری ہوا، اس میں کہا گیا کہ بی جے پی کے عہدیداروں نے جو گستاخی کی ہے وہ بھارت میں اسلام کے خلاف نفرت اور اسے بدنام کرنے والی پرتشدد مہم کا حصہ ہے۔
بھارتی مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کے تحت اقدامات کیے جارہے ہیں۔ متعدد ریاستوں کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی، مسلمانوں کی املاک منہدم کرنے والے اقدامات اور ان پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کے سلسلے کی کڑی ہے۔ اس بیان میں بھارتی حکومت کو دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ وہ ایسے واقعات کا سختی سے نوٹس لے۔
اشتعال پھیلانے والوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور تشدد کے جرائم کرنے والوں کو عدالت میں پیش کرے اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے۔ حکومت مسلمانوں کے حقوق اور ان کی مذہبی و ثقافتی شناخت، ان کے وقار اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اسلامی تعاون تنظیم نے عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف تشدد بند کرانے کے لیے ضروری اقدامات اور انسانی حقوق کونسل خصوصی کارروائی کرے۔
مودی سرکار کو عرب ممالک اور خصوصاََ او آئی سی کی جانب سے اتنے سخت ردعمل کی توقع نہ تھی۔ خلاف توقع ردعمل کو دیکھتے ہوئے بھارت کی حکمران جماعت نے اپنی ترجمان نوپور شرما کو فوراً معطل کر دیا اور نوین جندال کو پارٹی سے نکال دیا اور ساتھ ہی ساتھ دونوں ملعونوں کی جانب سے کی جانے والی گستاخی کی مذمت بھی کی لیکن یہ اقدامات محض دکھائوا ہیں۔ ایک مکروہ سرکار کسی طور بھی قابل اعتماد نہیں ہوسکتی، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ان گستاخانہ بیانات کے خلاف مسلمانوں کے مظاہروں پر ریاستی تشدد کیا جارہا ہے، ان پر گولیاں اور آنسو گیس برسا رہی ہے، کئی مسلمان جام شہادت نوش کرگئے ہیں۔ مودی حکومت سے اس کے علاوہ کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔
بھارت میں شدت پسند ہندوؤں کی جانب سے متواتر اسلام، اسلامی شعار اور مقدس شخصیات کی توہین کی کوششیں عرصے سے جاری ہیں۔ آئے روز کوئی نہ کوئی بدبخت ہندو جوگی یا پنڈت اٹھ کر اپنا زہر اگل دیتا ہے۔ حالیہ واقعہ پر مسلم دنیا کے ردعمل نے بھارتی مسلمانوں کو حوصلہ بخشا۔ حکمران جماعت بی جے پی اور وزیراعظم نریندرا مودی پچھلے کئی برسوں میں پہلی بار شدید مشکلات اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں کیونکہ اس بار یہ ردعمل بھارت کے باہر سے آیا ہے۔
امریکا، اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ نے مسلمانوں کو پوری دنیا میں جو نقصان پہنچایا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اس وقت جو اہم ہے ،اس کی بات کرتے ہیں یعنی مودی سرکار کی۔ نریندر مودی کے سات سالہ دور اقتدار میں ہندوستان کی سرزمین انسانیت کے لیے تنگ کردی گئی ہے، نچلی ذات کے ہندوؤں، اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں ان کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وہاں سے آنے والی ویڈیوز میں جنونی ہندو مساجد کی کھلم کھلا بے حرمتی کرتے ہیں، مسلمانوں کی گھروں اور املاک کو نذر تش کرتے ہیں، چادر اور چاردیواری کو پامال کرتے ہوئے ان کے گھروں پر بلوائیوں کے حملے ہوتے ہیں، نوجوانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ ایسی ایسی خوفناک ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہورہی ہیں جنھیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ سب کچھ گجرات کے قصائی نریندرا مودی کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔
ہندوستان کا یہ انتہاپسند ایک سیکولر ملک کو بڑی تیزی سے ہندو ریاست میں بدل رہا ہے، کوئی بعید نہیں کہ وہ سرکاری طور پر اسے ہندو ریاست ڈیکلئیر کردے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھارت چھوڑنے کی دھمکی دے دے۔ مودی بھارت کو جس تباہی کی طرف لے جا رہا ہے بھارت کی بربادی کے لیے یہی کافی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ پورے خطے کی امن و آشتی کو بھی آگ میں جھونکنے پر تلا ہوا ہے۔
نریندرا مودی دہشت گرد اور متعصب وشدت پسند تنظیم آر ایس ایس کے ایجنڈے اور منشور پر عمل پیرا ہے، یہ تنظیم مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کی شدید مخالف ہے، اور ہر قیمت پر بھارت میں ہندو توا کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے۔ ذات پات کی حامی اِس تنظیم نے اقلیتوں کے خلاف ہندودھرم کے گرو،پروہتوں، پنڈتوں وغیرہ کو بھی متحرک کر دیا ہے اور مبینہ طور پر اس مقصد کے حصول کے لیے بھاری رقوم بھی تقسیم کی جا رہی ہیں جو نہایت خطر ناک صورتحال پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بھارت میں ایک بار پھر مسلمانوں کے قتل عام کی کوشش کی جا سکتی ہے، سکھوں کی تحریک کو ختم کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، مختصر یہ کہ مودی سرکار ہر طرح سے بھارت کے اندر اور پڑوسی ممالک کے ساتھ نفرت اور جنگ کی آگ بھڑکانے پر کمر بستہ ہے۔ حکمران بی جے پی کی یہ بھی کوشش ہے کہ پورے بھارت میں یک جماعتی نظام قائم ہو اور بی جے پی پی کی حکمرانی قائم رہے تاکہ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو یا توختم کیا جا سکے یا پھر دبایا جا سکے۔ آج اس منصوبے پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے بھارت سخت اندرونی انتشار کا شکار ہے، معیشت کا بھٹہ بیٹھ رہا ہے۔
ہرطرف خوف و ہراس کا عالم ہے، کوئی پتہ نہیں کس وقت کس علاقے میں کب فساد شروع ہو جائے؟ بی جے پی کے رہنماؤں کے گستاخانہ بیانات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جن کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج جاری ہیں، پاکستان میں جمعیت علماء اسلام کی اپیل پر ملک کے تمام ضلع ہیڈ کوارٹرز میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کرکے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق و محبت کا اظہار کیا، باقی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس مسئلہ پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا، پاکستان اسلام کے نام پر معروض وجود میں آیا، اسی بنیاد پر دنیا میں جہاں کہیں ایسی ناپاک جسارت ہوتی ہے، اس کے خلاف سب سے پہلی اور توانا آواز پاکستان کی ہونی چاہیے جو نہیں ہے۔
اللہ مولانا فضل الرحمان کو جزائے خیر عطا کرے جنہوں نے پاکستان بھر کے مسلمانوں کی نمایندگی کرتے ہوئے اس ناپاک جسارت کے خلاف بھرپور آواز بلندکی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عرب ممالک سمیت پوری دنیا میں اس گستاخی پر ہونے والے مسلمانوں کے احتجاج کو چینلائز کیا جائے۔ یہ کام او آئی سی کی سطح پر ہو تو زیادہ بہتر ہے، او آئی سی فوری طور پر ہنگامی اجلاس بلائے اور بھارت کے سوشل بائیکاٹ کا اعلان کرے۔ اس اقدام سے جہاں بھارت مسلمانوں پر مظالم سے باز آجائے گا وہاں او آئی سی کی ساکھ بھی بحال ہوگی۔ اگر او آئی سی نے آج بھی قدم آگے نہیں بڑھایا پھر اس پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا اور مسلمان کسی متبادل فورم کی جانب دیکھیں گے۔