ذیابیطس کے مریض میٹھا کھانے کی خواہش سے کیسے جان چھڑائیں
پاکستان میں ہر چار میں سے ایک بالغ فرد کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ تناسب ہے
بین الاقوامی ڈایابیٹیز فیڈریشن کی دسویں اشاعت کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک بالغ فرد کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہے یعنی26.7 فیصد بالغان اس مرض میں مبتلا ہیں جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ تناسب ہے۔
اس مرض کے بارے میں مختلف معالجین کی مختلف رائے ہے۔ ایک گروہ قائل ہے کہ یہ استحالہ کی خرابی ہے کہ جس کی وجہ سے کھائی گئی گلوکوزجزوِ بدن نہیں بن پاتی اور یوں خون میں پڑی رہ جاتی ہے اور مختلف مراحل میں تکلیف پہنچاتی ہے۔ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ شوگر کا مرض دماغی مشقت کی بنا پر لاحق ہوتا ہے۔ اس کا گلوکوز کھانے یا نہ کھانے سے کوئی تعلق نہیں۔
تیسرے گروہ کے خیال کے مطابق انسانی جسم کے خلیات میں انسولین کی حساسیت کم ہوجاتی ہے، لہذا وہ گلوکوز کو جذب کر کے توانائی حاصل کرنے کی بجائے گلوکوز کو خون میں ہی رہنے دیتے ہیںاور خود لاغری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
چوتھے گروہ جن میں اطبا ء متقدمین پیش پیش ہے ، ان کے مطابق یہ عارضہ گردے کی خرابی کی علامت ہے، کیونکہ ذیابیطس کے مریضوں کا گردہ فیل ہوجاتاہے جبکہ ذیابیطس کے مریضوں کی رائے کے مطابق ذیابیطس ایک مورثی مرض ہے۔ لہذا انہی اختلاف رائے کی بنا پر آج تک ذیابیطس کا مکمل علاج دریافت کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہوئی ، صرف عارضی طور پر گلوکوز کی خون میں مقدار قابو کی جاتی ہے ، مستقل طور پر نہیں۔
خلیات کی گلوکوز کو جذب کرنے کی کیفیت بڑھانے کے لیے چہل قدمی کی نصیحت کی جاتی ہے۔ انسانی جسم میں کچھ اجزاء کی آخذ خلیات (ریسیپٹرز) پائے جاتے ہیںمثلاً نکوٹین ، کیفین ، گلوکوز وغیرہ ۔ جب ان اجزاء کی کمی آخذ خلیات محسوس کرتے ہیںتو ان کی خاص قسم کی پیاس ظاہر ہوتی ہے، ساتھ ہی نیند کا اچاٹ ہونا، دل کی دھڑکن میں اضافہ ، بے چینی پیدا ہوتی ہے اور اس جزو کی شدت سے طلب ہوتی ہے۔ اس کیفیت کو 'کریونگ ' کہا جاتا ہے۔
اس کریونگ کے ساتھ مسئلہ یوں ہے کہ جتنی طویل عرصے سے عادت ہوگی اس لحاظ سے اس جزو کے چھوڑنے پر طلب ہو گی ، اس لیے چھوٹے بچوں کو کولڈڈرنکس اور چائے کافی وغیرہ پینے کی اجازت نہیں دی جاتی کہ اگر بڑھتی عمر میں اگر عادت لگ گئی ، پھر چھوڑنا ممکن نہ ہوگا اور بغیر اس شے کے تکلیف سے ہم کنار ہونا پڑے گا۔ مگر گلوکوز ایسی چیز ہے کہ بچپن سے ہی بچے میٹھی اشیاء کا خوب استعمال کرتے اور شوق رکھتے ہیں، لہذا بعد کی عمر کو جب ذیابیطس میں مبتلا ہو جائیں، پھر گلوکوز کو چھوڑنا بہت مشکل اور موذی ( اذیت پہنچانے کا سبب) ہے۔
اسی طرح نمک کی بھی کیفیت ہے کہ کچھ اشخاص کو بچپن سے ہی نمک زیادہ کھانے میں ڈالنے سے ذائقہ آتا ہے اور ہاضمہ بہتر ہوتا ہے، مگر خدا نخواستہ فشارالدم (ہائی بلڈ پریشر) کا عارضہ لاحق ہوجائے تو نمک کی ممانعت کی وجہ سے ان کے نہ صرف معدے ہی خراب ہوتے ہیں بلکہ سستی اور بے چینی کی انتہا محسوس ہوتی ہے۔
بعض معالجین نے اس طلب کا حل یہ بتایا ہے کہ ناشتے کے وقت میٹھی خوراک کا استعمال کریںاور دن بھر نہ کریں بلکہ ایسی خوراک کے بعد چہل قدمی اور ورزش کے ذریعے جزو بدن بنائیں اس طرح فشارالدم کے مبتلا حضرات کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ سوپ کا کر کے دن بھر میں کسی ایک وقت بدن کی ضرورت پوری کر لیں، مگر آج کل کچھ حضرات کا رجحان 'علاج بالغذاء' کی طرف ہے جو ایک بہتر ذریعہ ہے۔ امریکا میں ایک شخص نے گلوکوز کی طلب ' کریونگ ' کو عبور کرنے کے لیے تجربہ کیا جو کہ کامیاب ثابت ہوا یاد رہے کہ امریکا میں پچاس ملین آبادی ذیابیطس اور قبل ِ ذیابیطس علامات میں مبتلا ہے، جس کی مقدار یہ ہے ذیابیطس : نہار منہ شوگر 126 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر اور زیادہ کھانے کے بعد شوگر : 150 ملی گرام فی ڈیسی لیٹریا زیادہ قبل ذیابیطس نہار منہ 125۔100 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ، کھانے کے بعد:130 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر۔
میٹھا کھانے کی خواہش کو پچھاڑنے
والے امریکی شخص کا قصہ
اس شخص کو ذیابیطس کے بظاہر کو ئی آثار دکھائی نہ دیتے تھے مگر جب اس نے خون کا ٹیسٹ کرایا تواُسے معلوم ہوا کہ وہ کتنا ہی بیمار ہے۔ اس کا جگر بری طرح نقصان کی زد میں آچکا تھا۔ اس نے ہمت نہ ہاری اور معالج کے مشورے کے مطابق ذیابیطس قابو کرنے کی کلاس میں آن لائن داخلہ لیا، وہاں اسے زندگی کے معمولات میں صحت مند تبدیلیاں لانے کا مشورہ دیاگیا۔ چنانچہ اس نے ایک ڈائیٹ پلان بنا کراس پر عمل کیا۔ یاد رہے کہ اب تک کی زندگی میں وہ میٹھا کھانے کا بہت زیادہ شوقین تھا ۔کوئی کھانا ایسا نہیں ہوتا تھا جس کے بعد وہ میٹھا نہ کھاتا ہو۔ لیکن پھر اس نے اپنا طرز زندگی تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
وہ روز جب بستر سے اٹھتا تو ایک کامیاب دن کا آغاز کرتا ، بستر سمیٹنے کے بعد وہ اصول و ضوابط تشکیل دیتا اور ان پر سارا دن عمل پیرا ہوتا ۔ وہ روزانہ صبح ورزش کرتا۔ اپنے آپ کو سوشل میڈیا سے دور رکھتا کیوں کہ وہ جان چکا تھا کہ وہاںسے اسے کھانے ، ان میں موجود غذائیت اورچاق وچوبند رہنے کے متعلق غلط معلومات ہی ملیںگی۔ وہ ایسے راستوں سے نہ گزرتا جہاں کوئی ریسٹورنٹ موجود ہوتی اور ٹیلی ویژن میں ایسے چینل بھی دیکھنے سے پرہیز کرتا جہاں کھانے پکانے سکھائے جاتے ہوں۔
اگر اسے کسی بیکری جانا پڑ ہی جاتا تو وہ اپنے سے ہم کلام ہوتا اور کہتا : میں ان میں سے ایک بسکٹ یا ڈونٹ تک نہ خریدوں گا ۔ وہ کبھی بسکٹ یا جنک فوڈز نہ کھاتا ، ہاں مگر جب انتہائی مجبور ہوجاتا تو کبھی کبھار کوئی ایسی میٹھی اشیاء کا استعمال کرلیتا جس کا اسے انتہائی اشتیاق ہوتا۔ جب اُسے میٹھے شربت کا دل کرتا تو ٹھنڈا پانی پی لیتا اور اپنے آپ کو تسلی دیتا کہ یہ وہی اشیاء ہے جس سے میری میٹھاس کی پیاس بجھے گی۔
اس کا نتیجہ اُسے یہ حاصل ہوا کہ اے ون سی ٹیسٹ رپورٹ کے مطابق شوگر تقریباً چھ فیصدکے قریب رہی، بلڈ شوگر 200 سے نیچے ہی رہااور اس کے وزن میں 20 پونڈ کمی ہوئی اور وہ اپنی جلد تروتازہ اوراپنے بدن میں قوت محسوس کرتا۔ اس کے علاوہ وہ 'کریونگ' کی غلامی سے بھی آزاد ہو گیا اور ایک خوشگوار اورصحت مند زندگی کی طرف گامزن ہوا۔
اس مرض کے بارے میں مختلف معالجین کی مختلف رائے ہے۔ ایک گروہ قائل ہے کہ یہ استحالہ کی خرابی ہے کہ جس کی وجہ سے کھائی گئی گلوکوزجزوِ بدن نہیں بن پاتی اور یوں خون میں پڑی رہ جاتی ہے اور مختلف مراحل میں تکلیف پہنچاتی ہے۔ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ شوگر کا مرض دماغی مشقت کی بنا پر لاحق ہوتا ہے۔ اس کا گلوکوز کھانے یا نہ کھانے سے کوئی تعلق نہیں۔
تیسرے گروہ کے خیال کے مطابق انسانی جسم کے خلیات میں انسولین کی حساسیت کم ہوجاتی ہے، لہذا وہ گلوکوز کو جذب کر کے توانائی حاصل کرنے کی بجائے گلوکوز کو خون میں ہی رہنے دیتے ہیںاور خود لاغری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
چوتھے گروہ جن میں اطبا ء متقدمین پیش پیش ہے ، ان کے مطابق یہ عارضہ گردے کی خرابی کی علامت ہے، کیونکہ ذیابیطس کے مریضوں کا گردہ فیل ہوجاتاہے جبکہ ذیابیطس کے مریضوں کی رائے کے مطابق ذیابیطس ایک مورثی مرض ہے۔ لہذا انہی اختلاف رائے کی بنا پر آج تک ذیابیطس کا مکمل علاج دریافت کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہوئی ، صرف عارضی طور پر گلوکوز کی خون میں مقدار قابو کی جاتی ہے ، مستقل طور پر نہیں۔
خلیات کی گلوکوز کو جذب کرنے کی کیفیت بڑھانے کے لیے چہل قدمی کی نصیحت کی جاتی ہے۔ انسانی جسم میں کچھ اجزاء کی آخذ خلیات (ریسیپٹرز) پائے جاتے ہیںمثلاً نکوٹین ، کیفین ، گلوکوز وغیرہ ۔ جب ان اجزاء کی کمی آخذ خلیات محسوس کرتے ہیںتو ان کی خاص قسم کی پیاس ظاہر ہوتی ہے، ساتھ ہی نیند کا اچاٹ ہونا، دل کی دھڑکن میں اضافہ ، بے چینی پیدا ہوتی ہے اور اس جزو کی شدت سے طلب ہوتی ہے۔ اس کیفیت کو 'کریونگ ' کہا جاتا ہے۔
اس کریونگ کے ساتھ مسئلہ یوں ہے کہ جتنی طویل عرصے سے عادت ہوگی اس لحاظ سے اس جزو کے چھوڑنے پر طلب ہو گی ، اس لیے چھوٹے بچوں کو کولڈڈرنکس اور چائے کافی وغیرہ پینے کی اجازت نہیں دی جاتی کہ اگر بڑھتی عمر میں اگر عادت لگ گئی ، پھر چھوڑنا ممکن نہ ہوگا اور بغیر اس شے کے تکلیف سے ہم کنار ہونا پڑے گا۔ مگر گلوکوز ایسی چیز ہے کہ بچپن سے ہی بچے میٹھی اشیاء کا خوب استعمال کرتے اور شوق رکھتے ہیں، لہذا بعد کی عمر کو جب ذیابیطس میں مبتلا ہو جائیں، پھر گلوکوز کو چھوڑنا بہت مشکل اور موذی ( اذیت پہنچانے کا سبب) ہے۔
اسی طرح نمک کی بھی کیفیت ہے کہ کچھ اشخاص کو بچپن سے ہی نمک زیادہ کھانے میں ڈالنے سے ذائقہ آتا ہے اور ہاضمہ بہتر ہوتا ہے، مگر خدا نخواستہ فشارالدم (ہائی بلڈ پریشر) کا عارضہ لاحق ہوجائے تو نمک کی ممانعت کی وجہ سے ان کے نہ صرف معدے ہی خراب ہوتے ہیں بلکہ سستی اور بے چینی کی انتہا محسوس ہوتی ہے۔
بعض معالجین نے اس طلب کا حل یہ بتایا ہے کہ ناشتے کے وقت میٹھی خوراک کا استعمال کریںاور دن بھر نہ کریں بلکہ ایسی خوراک کے بعد چہل قدمی اور ورزش کے ذریعے جزو بدن بنائیں اس طرح فشارالدم کے مبتلا حضرات کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ سوپ کا کر کے دن بھر میں کسی ایک وقت بدن کی ضرورت پوری کر لیں، مگر آج کل کچھ حضرات کا رجحان 'علاج بالغذاء' کی طرف ہے جو ایک بہتر ذریعہ ہے۔ امریکا میں ایک شخص نے گلوکوز کی طلب ' کریونگ ' کو عبور کرنے کے لیے تجربہ کیا جو کہ کامیاب ثابت ہوا یاد رہے کہ امریکا میں پچاس ملین آبادی ذیابیطس اور قبل ِ ذیابیطس علامات میں مبتلا ہے، جس کی مقدار یہ ہے ذیابیطس : نہار منہ شوگر 126 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر اور زیادہ کھانے کے بعد شوگر : 150 ملی گرام فی ڈیسی لیٹریا زیادہ قبل ذیابیطس نہار منہ 125۔100 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ، کھانے کے بعد:130 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر۔
میٹھا کھانے کی خواہش کو پچھاڑنے
والے امریکی شخص کا قصہ
اس شخص کو ذیابیطس کے بظاہر کو ئی آثار دکھائی نہ دیتے تھے مگر جب اس نے خون کا ٹیسٹ کرایا تواُسے معلوم ہوا کہ وہ کتنا ہی بیمار ہے۔ اس کا جگر بری طرح نقصان کی زد میں آچکا تھا۔ اس نے ہمت نہ ہاری اور معالج کے مشورے کے مطابق ذیابیطس قابو کرنے کی کلاس میں آن لائن داخلہ لیا، وہاں اسے زندگی کے معمولات میں صحت مند تبدیلیاں لانے کا مشورہ دیاگیا۔ چنانچہ اس نے ایک ڈائیٹ پلان بنا کراس پر عمل کیا۔ یاد رہے کہ اب تک کی زندگی میں وہ میٹھا کھانے کا بہت زیادہ شوقین تھا ۔کوئی کھانا ایسا نہیں ہوتا تھا جس کے بعد وہ میٹھا نہ کھاتا ہو۔ لیکن پھر اس نے اپنا طرز زندگی تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
وہ روز جب بستر سے اٹھتا تو ایک کامیاب دن کا آغاز کرتا ، بستر سمیٹنے کے بعد وہ اصول و ضوابط تشکیل دیتا اور ان پر سارا دن عمل پیرا ہوتا ۔ وہ روزانہ صبح ورزش کرتا۔ اپنے آپ کو سوشل میڈیا سے دور رکھتا کیوں کہ وہ جان چکا تھا کہ وہاںسے اسے کھانے ، ان میں موجود غذائیت اورچاق وچوبند رہنے کے متعلق غلط معلومات ہی ملیںگی۔ وہ ایسے راستوں سے نہ گزرتا جہاں کوئی ریسٹورنٹ موجود ہوتی اور ٹیلی ویژن میں ایسے چینل بھی دیکھنے سے پرہیز کرتا جہاں کھانے پکانے سکھائے جاتے ہوں۔
اگر اسے کسی بیکری جانا پڑ ہی جاتا تو وہ اپنے سے ہم کلام ہوتا اور کہتا : میں ان میں سے ایک بسکٹ یا ڈونٹ تک نہ خریدوں گا ۔ وہ کبھی بسکٹ یا جنک فوڈز نہ کھاتا ، ہاں مگر جب انتہائی مجبور ہوجاتا تو کبھی کبھار کوئی ایسی میٹھی اشیاء کا استعمال کرلیتا جس کا اسے انتہائی اشتیاق ہوتا۔ جب اُسے میٹھے شربت کا دل کرتا تو ٹھنڈا پانی پی لیتا اور اپنے آپ کو تسلی دیتا کہ یہ وہی اشیاء ہے جس سے میری میٹھاس کی پیاس بجھے گی۔
اس کا نتیجہ اُسے یہ حاصل ہوا کہ اے ون سی ٹیسٹ رپورٹ کے مطابق شوگر تقریباً چھ فیصدکے قریب رہی، بلڈ شوگر 200 سے نیچے ہی رہااور اس کے وزن میں 20 پونڈ کمی ہوئی اور وہ اپنی جلد تروتازہ اوراپنے بدن میں قوت محسوس کرتا۔ اس کے علاوہ وہ 'کریونگ' کی غلامی سے بھی آزاد ہو گیا اور ایک خوشگوار اورصحت مند زندگی کی طرف گامزن ہوا۔