انسان جانوروں کی نسبت زیادہ ذہین کیوں
شعور کے لحاظ سے انسان تمام جانداروں میں سب سے آگے ہے
DUBAI:
شعور کے لحاظ سے انسان تمام جانداروں میں سب سے آگے ہے۔ کسی دوسری مخلوق نے سیاروں کی طرف خلائی جہاز بھیجے نہ زندگیاں بچانے والی ویکسینز ایجاد کیں اور نہ ہی شاعری تخلیق کی۔ یہ سب کرنے کے لیے انسانی دماغ معلومات کو کس طرح استعمال یا پروسس کرتا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جس نے انسان کو اپنے لامحدود سحر میں جکڑا ہوا ہے لیکن اس سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ دماغ کے بارے میں ہماری سمجھ میں تبدیلی آئی ہے۔
لیکن موجودہ نظریات کے مطابق دماغ ' تقسیم شدہ معلومات کو پروسس کرنے کا نظام ' ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دماغ کے مختلف حصے ہیں جو بے شمار تاروں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ یہ حصے آنے اور جانے والے سگنلز کے ایک نظام کے ذریعے معلومات کا تبادلہ کر کے ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔
تاہم یہ زیادہ پیچیدہ صورتحال کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ جریدے نیچر نیورو سائنس میں چھپنے والی تحقیق میں مختلف جانداروں اور کئی نیورو سائنٹیفک نظریات کے شواہد کو استعمال کیا گیا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دماغ صرف ایک ہی طرح کی معلومات کو پروسس نہیں کرتا۔
معلومات کے استعمال کا طریقہ بھی انسانوں اور دوسرے جانداروں کے درمیان مختلف ہے جس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ انسان شعور کے لحاظ سے کیوں بلند سطح پر ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ دماغ معلومات کو کس طرح استعمال کرتا ہے ہم انفارمیشن تھیوری کے ریاضی کے تصوارت کا سہارا لیتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دماغ کے مختلف حصے ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے لیے مختلف حکمتِ عملیاں اختیار کرتے ہیں۔
مختلف حکمت عملیاں
دماغ کے کچھ حصے بہت دقیانوسی طریقے سے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور آنے اور جانے والے سگنلز کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ سگنل اپنا پیغام مسلسل اور بخوبی بھیجتے رہیں۔ یہ ان حصوں سے متعلق ہے جو محسوس کرنے اور حرکت کے ذمہ دار ہیں جیسے آواز، بصارت اور حرکت کی معلومات کا استعمال۔ آنکھ کے بارے میں سوچیے جو دماغ کو استعمال کرنے کے لیے سگنل بھیجتی ہے۔ یہ زیادہ تر دہری معلومات ہوتی ہیں جو دونوں آنکھیں بھیجتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے معلومات کے آدھے حصے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم یہ مضبوط اور قابلِ بھروسہ ہے اور اسی وجہ سے ہم ایک آنکھ سے دیکھنا بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔
یہ صلاحیت اپنی بقا کے لیے ضروری ہے۔ در حقیقت یہ صلاحیت اتنی زیادہ ضروری ہے کہ دماغ کے مختلف حصے آپس میں ایسے جڑے ہوتے ہیں جیسے کوئی لینڈ لائن فون ہو۔ تاہم آنکھوں کی جانب سے بھیجی جانے والی تمام معلومات کی نوعیت دھری نہیں ہوتی یعنی ایک جیسی دو معلومات نہیں ہوتی کہ ان میں سے ایک غیر ضروری یا فالتو ہو۔ دونوں آنکھوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ایک جیسی معلومات سے دماغ اشیاء کے درمیان گہرائی اور فاصلے کو پروسس کرتا ہے۔ دماغ کا یہی کام سنیما میں مختلف اقسام کے تھری ڈی چشمووں کی بنیاد ہے۔
ہم دماغ میں معلومات کے اس طرح پروسس ہونے کو سائنرجک کہتے ہیں یعنی جب دماغ کے مختلف نیٹ ورکس سے آنے والی پیچیدہ سگنل ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انسانی دماغ کی پیچیدہ نیٹ ورکنگ کے ذریعے معلومات کو جمع اور پروسس کرنے کی صلاحیت کیا ان دوسری مخلوقات سے مختلف ہے جو ارتقائی لحاظ سے انسان سے قریب ہیں۔ اس صلاحیت کو سائنرجی کہتے ہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے نیچر نیورو سائنس کی تحقیق میں مختلف جانوروں کے دماغ کی تصاویر کے ڈیٹا اور جینیاتی تجزیے کا جائزہ لیا گیا۔ اس جائزے سے معلوم ہوا کہ انسانی دماغ میں پیچیدہ معلومات کو پروسس کرنے کی صلاحیت بندروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
اس تحقیق میں خاص طور دماغ میں سامنے کے حصے، جسے پری فرنٹل کوٹیکس کہتے ہیں، کا جائزہ لیا گیا۔ یہ حصہ شعور کے لحاظ سے اعلیٰ سطح کے کام کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ بندروں میں یہ حصہ فالتو یہ غیر ضروری معلومات کو پروسس کرتا ہے جبکہ انسانی دماغ میں یہ جگہ سائنرجی کا منبع ہے یعنی یہیں پر پیچیدہ نیٹ ورکنگ کے ذریعے معلومات کو جمع اور پروسس کرنے کا کام ہوتا ہے۔ اسی لیے انسانی دماغ دوسرے ایسے جانوروں سے بہتر ہے جو ارتقائی عمل سے لحاظ سے انسانوں کے قریب ترین ہیں۔
اسی طرح انسانی دماغ کے وہ حصے جو معلومات کی سائنرجک پروسسنگ کرتے ہیں انسانی دماغ کو بندروں سے افضل بناتے ہیں۔ دماغ کے یہی حصے انسان کو ذہانت مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انسانی دماغ کا وہ اضافی ٹشو جو ارتقا کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے سائنرجی جیسے عمل کا ذمہ دار ہے۔ اس وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی میں موجود شعور کی اضافی صلاحیت اسی وجہ سے ہے۔
شعور کے لحاظ سے انسان تمام جانداروں میں سب سے آگے ہے۔ کسی دوسری مخلوق نے سیاروں کی طرف خلائی جہاز بھیجے نہ زندگیاں بچانے والی ویکسینز ایجاد کیں اور نہ ہی شاعری تخلیق کی۔ یہ سب کرنے کے لیے انسانی دماغ معلومات کو کس طرح استعمال یا پروسس کرتا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جس نے انسان کو اپنے لامحدود سحر میں جکڑا ہوا ہے لیکن اس سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ دماغ کے بارے میں ہماری سمجھ میں تبدیلی آئی ہے۔
لیکن موجودہ نظریات کے مطابق دماغ ' تقسیم شدہ معلومات کو پروسس کرنے کا نظام ' ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دماغ کے مختلف حصے ہیں جو بے شمار تاروں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ یہ حصے آنے اور جانے والے سگنلز کے ایک نظام کے ذریعے معلومات کا تبادلہ کر کے ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔
تاہم یہ زیادہ پیچیدہ صورتحال کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ جریدے نیچر نیورو سائنس میں چھپنے والی تحقیق میں مختلف جانداروں اور کئی نیورو سائنٹیفک نظریات کے شواہد کو استعمال کیا گیا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دماغ صرف ایک ہی طرح کی معلومات کو پروسس نہیں کرتا۔
معلومات کے استعمال کا طریقہ بھی انسانوں اور دوسرے جانداروں کے درمیان مختلف ہے جس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ انسان شعور کے لحاظ سے کیوں بلند سطح پر ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ دماغ معلومات کو کس طرح استعمال کرتا ہے ہم انفارمیشن تھیوری کے ریاضی کے تصوارت کا سہارا لیتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دماغ کے مختلف حصے ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے لیے مختلف حکمتِ عملیاں اختیار کرتے ہیں۔
مختلف حکمت عملیاں
دماغ کے کچھ حصے بہت دقیانوسی طریقے سے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور آنے اور جانے والے سگنلز کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ سگنل اپنا پیغام مسلسل اور بخوبی بھیجتے رہیں۔ یہ ان حصوں سے متعلق ہے جو محسوس کرنے اور حرکت کے ذمہ دار ہیں جیسے آواز، بصارت اور حرکت کی معلومات کا استعمال۔ آنکھ کے بارے میں سوچیے جو دماغ کو استعمال کرنے کے لیے سگنل بھیجتی ہے۔ یہ زیادہ تر دہری معلومات ہوتی ہیں جو دونوں آنکھیں بھیجتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے معلومات کے آدھے حصے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم یہ مضبوط اور قابلِ بھروسہ ہے اور اسی وجہ سے ہم ایک آنکھ سے دیکھنا بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔
یہ صلاحیت اپنی بقا کے لیے ضروری ہے۔ در حقیقت یہ صلاحیت اتنی زیادہ ضروری ہے کہ دماغ کے مختلف حصے آپس میں ایسے جڑے ہوتے ہیں جیسے کوئی لینڈ لائن فون ہو۔ تاہم آنکھوں کی جانب سے بھیجی جانے والی تمام معلومات کی نوعیت دھری نہیں ہوتی یعنی ایک جیسی دو معلومات نہیں ہوتی کہ ان میں سے ایک غیر ضروری یا فالتو ہو۔ دونوں آنکھوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ایک جیسی معلومات سے دماغ اشیاء کے درمیان گہرائی اور فاصلے کو پروسس کرتا ہے۔ دماغ کا یہی کام سنیما میں مختلف اقسام کے تھری ڈی چشمووں کی بنیاد ہے۔
ہم دماغ میں معلومات کے اس طرح پروسس ہونے کو سائنرجک کہتے ہیں یعنی جب دماغ کے مختلف نیٹ ورکس سے آنے والی پیچیدہ سگنل ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انسانی دماغ کی پیچیدہ نیٹ ورکنگ کے ذریعے معلومات کو جمع اور پروسس کرنے کی صلاحیت کیا ان دوسری مخلوقات سے مختلف ہے جو ارتقائی لحاظ سے انسان سے قریب ہیں۔ اس صلاحیت کو سائنرجی کہتے ہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے نیچر نیورو سائنس کی تحقیق میں مختلف جانوروں کے دماغ کی تصاویر کے ڈیٹا اور جینیاتی تجزیے کا جائزہ لیا گیا۔ اس جائزے سے معلوم ہوا کہ انسانی دماغ میں پیچیدہ معلومات کو پروسس کرنے کی صلاحیت بندروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
اس تحقیق میں خاص طور دماغ میں سامنے کے حصے، جسے پری فرنٹل کوٹیکس کہتے ہیں، کا جائزہ لیا گیا۔ یہ حصہ شعور کے لحاظ سے اعلیٰ سطح کے کام کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ بندروں میں یہ حصہ فالتو یہ غیر ضروری معلومات کو پروسس کرتا ہے جبکہ انسانی دماغ میں یہ جگہ سائنرجی کا منبع ہے یعنی یہیں پر پیچیدہ نیٹ ورکنگ کے ذریعے معلومات کو جمع اور پروسس کرنے کا کام ہوتا ہے۔ اسی لیے انسانی دماغ دوسرے ایسے جانوروں سے بہتر ہے جو ارتقائی عمل سے لحاظ سے انسانوں کے قریب ترین ہیں۔
اسی طرح انسانی دماغ کے وہ حصے جو معلومات کی سائنرجک پروسسنگ کرتے ہیں انسانی دماغ کو بندروں سے افضل بناتے ہیں۔ دماغ کے یہی حصے انسان کو ذہانت مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انسانی دماغ کا وہ اضافی ٹشو جو ارتقا کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے سائنرجی جیسے عمل کا ذمہ دار ہے۔ اس وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی میں موجود شعور کی اضافی صلاحیت اسی وجہ سے ہے۔