دیر تک کام کرنا آپ کے لیے مہلک بھی ثابت ہوسکتا ہے
زیادہ کام کے اثرات کو کیسے روکا جائے یا ان اثرات سے نمٹنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں؟
LONDON:
دیر تک کام کرنا اور دائمی تناؤ سے نمٹنا کسی شخص کی صحت اور تندرستی پر دیرپااثرات مرتب کرسکتا ہے۔
اس مضمون میں، ہم بتائیں گیکہ زیادہ کام کرنا صحت پرکیسے منفی اثرات ڈال سکتا ہے؟ اور آپ یہ بھی جان لیں گے کہ زیادہ کام کرنے سے مرتب ہونے والے اثرات کو کیسے روکا جائے یا ان اثرات سے نمٹنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں؟
محنت کرنا کامیابی کا اولین اور لازمی تقاضا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان نہ صرف انفرادی طور پر ترقی کرتا ہے بلکہ اجتماعی طور پر بھی آگے بڑھتا ہے کیونکہ ایک شخص کی ترقی سے معاشرے کے دیگر افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جو فرد جس قدر زیادہ ترقی کرے گا، اس کے معاشرے پر اثرات اسی قدر زیادہ ہوں گے۔ اور زیادہ سے زیادہ ترقی حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت کرنا لازم ہے۔ ترقی وہی اچھی ہوتی ہے جو پائیدار ہو۔ اور پائیدار ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی استطاعت سے زیادہ محنت نہ کرے۔ اگرچہ ازل سے بہت سے انسان اپنی استطاعت سے زیادہ محنت کرتے رہے ہیں تاہم آج کے دور میں جب صحت کی خرابیوں کو جنم دینے والے عوامل زیادہ ہوئے ، ناقص ماحول ، ناقص خوراک وغیرہ ، بہت زیادہ محنت صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
حالیہ عالمی وبا ' کورونا ' میں جب پوری دنیا میں لاک ڈائون ہوا تو لوگ گھروں میں رہ کر دفتر کے لئے کام کرنے پر مجبور ہوئے۔اس دوران میں وہ گھریلو زندگی اور کام کے درمیان حد فاصل قائم نہ رہ سکے۔ یوں وہ زیادہ کام کرتے رہے۔ ایک جائزہ کے مطابق 34فیصد لوگوں نے اوسطاً آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام کیا۔ جب کہ صحت کی سہولیات اور ہنگامی امداد فراہم کرنے والے اداروں کے ورکرز کو بھی زیادہ کام کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں انھیں صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی علامات میں تھکاوٹ محسوس کرنا ، اپنے کام کے بارے میں منفی احساسات رکھنا اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے معاملے میں مناسب اندازمیں پرفارم نہ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ان سب کیفیات کے مجموعہ کو ' برن آئوٹ ' کہا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے 'برن آؤٹ' یا کام کی زیادتی سے نڈھال ہو جانے کی کیفیت کی نئی تشریح کی ہے۔
برن آؤٹ کیا ہے؟
برن آؤٹ کے تین عنصر ہیں۔ تھکان یا نقاہت، کام سے بددلی اور کارکردگی میں کمی۔ اس خیال کو دنیا بھر میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور آج عالمی سطح پر اسے ایک مسئلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ برن آؤٹ کا شکار لوگوں کے اعداد و شمار حاصل کرنا بہت مشکل ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق سنہ 2018 میں برطانیہ میں تقریباً چھ لاکھ لوگ کام کی جگہ پر ہونے والے دباؤ یا 'ورک پلیس سٹریس' کا شکار ہیں۔ کھلاڑی بھی اس کیفیت کا شکار ہوتے ہیں، یوٹیوب سٹار بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ بزنس مین بھی اس کا سامنا کر سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے عالمی ادارہ صحت نے ' برن آئوٹ' کو بیماریوں کی فہرست کے عالمی ہدایت نامے میں بیماری کے طور پر تسلیم کیا۔ اس کی تعریف ایک ایسی کیفیت کے طور پر کی ہے جو کام کی دائمی یا طویل عرصے تک زیادتی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور اس کا ابھی تک کوئی کامیاب حل نہیں ڈھونڈا جا سکا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 'برن آؤٹ' کے تین عنصر ہوتے ہیں جن میں نقاہت یا تھکان، کام سے بیزاری اور ناقص کارکردگی شامل ہیں۔
یہ احساس کیا ہوتا ہے؟
آپ کسی طرح جان سکیں گے کہ آپ 'برن آؤٹ' کا شکار ہو گئے ہیں۔ آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں نفسیاتی امراض کی معالج اور 'برن آؤٹ' کے مسئلہ پر ایک کتاب کی مصنفہ شیوبان مرے کا کہنا ہے کہ برن آؤٹ کی بہت سے علامات ڈپریشن کی علامات سے ملتی جلتی ہیں۔ برن آؤٹ کا شکار ہونے کے خدشے سے دوچار لوگوں کے لیے مرے کا مشورہ ہے کہ وہ بری عادتوں کے بارے میں ہوشیار رہیں جن میں شراب نوشی اور دن گزارنے کے لیے زیادہ چینی کا استعمال شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے ایسے لوگوں کو تھکان کے مستقل احساس کے بارے میں خبردار رہنا چاہیے۔ اگر آپ صبح دس بجے تک سکون کی نیند سوتے ہیں اور اس کے بعد دوبارہ سونے کا وقت گننا شروع ہو جائیں یا آپ اپنے جسم میں توانائی محسوس نہ کریں تو آپ برن آؤٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔
ڈپریشن کے لیے تو بہت سے علاج دستیاب ہیں لیکن برن آؤٹ کی کیفیت کو صرف طرز زندگی تبدیل کر کے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ ڈپریشن اور برن آؤٹ سے پہلے کی کیفیت تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے۔ گو کہ حال ہی میں اس بارے میں بہت زور شور سے یہ کہا جا رہا ہے کہ برن آؤٹ کو ایک طبی حالت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن ابھی اسے کام سے متعلق ہی ایک مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ آپ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں جو کہ دونوں حالتوں، ڈپریشن اور برن آؤٹ میں امتیاز کر سکے۔
برن آؤٹ کی طرف بڑھنے کی ایک اور بڑی علامت مزاج میں تلخی ہے۔ اس بات کا احساس کے آپ کے کام کی کوئی قدر نہیں، آپ سماجی محفلوں سے کنارہ کشی کرنے لگتے ہیں اور مایوسی طاری ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔
برن آؤٹ کی آخری اور یقینی علامت نہ ختم ہونے والا احساس ہوتا ہے کہ آپ کے کام کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ تب ایسے لوگ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ 'میں تو ایسا نہیں تھا، میں تو بہت کچھ کر لیتا تھا۔' ظاہر ہے کہ وہ جسمانی طور پر اپنے آپ کو پوری طرح توانا محسوس نہیں کریں گے تو معمول کی کارکردگی نہیں دکھا پائیں گے۔
برن آؤٹ سے بچنے کا اور ہمیشہ کے لیے اس سے جان چھڑانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ اس کی جڑیں ہی ختم کر دی جائیں۔ آپ اپنی زندگی میں ایسا کیا کر رہے ہیں جن سے آپ عارضی یا مستقل طور پر جان چھڑا سکیں۔ مثال کے طور زیادہ نیند تاکہ جسمانی تھکن کو دور کیا جا سکے۔
دیر تک کام کرنا اور دائمی تناؤ سے نمٹنا کسی شخص کی صحت اور تندرستی پر دیرپااثرات مرتب کرسکتا ہے۔
اس مضمون میں، ہم بتائیں گیکہ زیادہ کام کرنا صحت پرکیسے منفی اثرات ڈال سکتا ہے؟ اور آپ یہ بھی جان لیں گے کہ زیادہ کام کرنے سے مرتب ہونے والے اثرات کو کیسے روکا جائے یا ان اثرات سے نمٹنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں؟
محنت کرنا کامیابی کا اولین اور لازمی تقاضا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان نہ صرف انفرادی طور پر ترقی کرتا ہے بلکہ اجتماعی طور پر بھی آگے بڑھتا ہے کیونکہ ایک شخص کی ترقی سے معاشرے کے دیگر افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جو فرد جس قدر زیادہ ترقی کرے گا، اس کے معاشرے پر اثرات اسی قدر زیادہ ہوں گے۔ اور زیادہ سے زیادہ ترقی حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت کرنا لازم ہے۔ ترقی وہی اچھی ہوتی ہے جو پائیدار ہو۔ اور پائیدار ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی استطاعت سے زیادہ محنت نہ کرے۔ اگرچہ ازل سے بہت سے انسان اپنی استطاعت سے زیادہ محنت کرتے رہے ہیں تاہم آج کے دور میں جب صحت کی خرابیوں کو جنم دینے والے عوامل زیادہ ہوئے ، ناقص ماحول ، ناقص خوراک وغیرہ ، بہت زیادہ محنت صحت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
حالیہ عالمی وبا ' کورونا ' میں جب پوری دنیا میں لاک ڈائون ہوا تو لوگ گھروں میں رہ کر دفتر کے لئے کام کرنے پر مجبور ہوئے۔اس دوران میں وہ گھریلو زندگی اور کام کے درمیان حد فاصل قائم نہ رہ سکے۔ یوں وہ زیادہ کام کرتے رہے۔ ایک جائزہ کے مطابق 34فیصد لوگوں نے اوسطاً آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام کیا۔ جب کہ صحت کی سہولیات اور ہنگامی امداد فراہم کرنے والے اداروں کے ورکرز کو بھی زیادہ کام کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں انھیں صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی علامات میں تھکاوٹ محسوس کرنا ، اپنے کام کے بارے میں منفی احساسات رکھنا اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے معاملے میں مناسب اندازمیں پرفارم نہ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ان سب کیفیات کے مجموعہ کو ' برن آئوٹ ' کہا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے 'برن آؤٹ' یا کام کی زیادتی سے نڈھال ہو جانے کی کیفیت کی نئی تشریح کی ہے۔
برن آؤٹ کیا ہے؟
برن آؤٹ کے تین عنصر ہیں۔ تھکان یا نقاہت، کام سے بددلی اور کارکردگی میں کمی۔ اس خیال کو دنیا بھر میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی اور آج عالمی سطح پر اسے ایک مسئلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ برن آؤٹ کا شکار لوگوں کے اعداد و شمار حاصل کرنا بہت مشکل ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق سنہ 2018 میں برطانیہ میں تقریباً چھ لاکھ لوگ کام کی جگہ پر ہونے والے دباؤ یا 'ورک پلیس سٹریس' کا شکار ہیں۔ کھلاڑی بھی اس کیفیت کا شکار ہوتے ہیں، یوٹیوب سٹار بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ بزنس مین بھی اس کا سامنا کر سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے عالمی ادارہ صحت نے ' برن آئوٹ' کو بیماریوں کی فہرست کے عالمی ہدایت نامے میں بیماری کے طور پر تسلیم کیا۔ اس کی تعریف ایک ایسی کیفیت کے طور پر کی ہے جو کام کی دائمی یا طویل عرصے تک زیادتی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور اس کا ابھی تک کوئی کامیاب حل نہیں ڈھونڈا جا سکا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 'برن آؤٹ' کے تین عنصر ہوتے ہیں جن میں نقاہت یا تھکان، کام سے بیزاری اور ناقص کارکردگی شامل ہیں۔
یہ احساس کیا ہوتا ہے؟
آپ کسی طرح جان سکیں گے کہ آپ 'برن آؤٹ' کا شکار ہو گئے ہیں۔ آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں نفسیاتی امراض کی معالج اور 'برن آؤٹ' کے مسئلہ پر ایک کتاب کی مصنفہ شیوبان مرے کا کہنا ہے کہ برن آؤٹ کی بہت سے علامات ڈپریشن کی علامات سے ملتی جلتی ہیں۔ برن آؤٹ کا شکار ہونے کے خدشے سے دوچار لوگوں کے لیے مرے کا مشورہ ہے کہ وہ بری عادتوں کے بارے میں ہوشیار رہیں جن میں شراب نوشی اور دن گزارنے کے لیے زیادہ چینی کا استعمال شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے ایسے لوگوں کو تھکان کے مستقل احساس کے بارے میں خبردار رہنا چاہیے۔ اگر آپ صبح دس بجے تک سکون کی نیند سوتے ہیں اور اس کے بعد دوبارہ سونے کا وقت گننا شروع ہو جائیں یا آپ اپنے جسم میں توانائی محسوس نہ کریں تو آپ برن آؤٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔
ڈپریشن کے لیے تو بہت سے علاج دستیاب ہیں لیکن برن آؤٹ کی کیفیت کو صرف طرز زندگی تبدیل کر کے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ ڈپریشن اور برن آؤٹ سے پہلے کی کیفیت تقریباً ایک جیسی ہوتی ہے۔ گو کہ حال ہی میں اس بارے میں بہت زور شور سے یہ کہا جا رہا ہے کہ برن آؤٹ کو ایک طبی حالت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن ابھی اسے کام سے متعلق ہی ایک مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ آپ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں جو کہ دونوں حالتوں، ڈپریشن اور برن آؤٹ میں امتیاز کر سکے۔
برن آؤٹ کی طرف بڑھنے کی ایک اور بڑی علامت مزاج میں تلخی ہے۔ اس بات کا احساس کے آپ کے کام کی کوئی قدر نہیں، آپ سماجی محفلوں سے کنارہ کشی کرنے لگتے ہیں اور مایوسی طاری ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔
برن آؤٹ کی آخری اور یقینی علامت نہ ختم ہونے والا احساس ہوتا ہے کہ آپ کے کام کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ تب ایسے لوگ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ 'میں تو ایسا نہیں تھا، میں تو بہت کچھ کر لیتا تھا۔' ظاہر ہے کہ وہ جسمانی طور پر اپنے آپ کو پوری طرح توانا محسوس نہیں کریں گے تو معمول کی کارکردگی نہیں دکھا پائیں گے۔
برن آؤٹ سے بچنے کا اور ہمیشہ کے لیے اس سے جان چھڑانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ اس کی جڑیں ہی ختم کر دی جائیں۔ آپ اپنی زندگی میں ایسا کیا کر رہے ہیں جن سے آپ عارضی یا مستقل طور پر جان چھڑا سکیں۔ مثال کے طور زیادہ نیند تاکہ جسمانی تھکن کو دور کیا جا سکے۔