دوسری شادی وقت کی اہم ضرورت مگر
پاکستان میں 40 سے 60 لاکھ بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین موجود ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں
BEIJING:
''اگر ہم نے دوسری شادی کو فروغ نہ دیا تو زنا عام ہو جائے گا۔ خاص طور پر کورونا کے بعد حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ دوسری شادی کو فروغ دیا جائے، کیونکہ کورونا کے دوران کتنی ہی عورتیں بیوہ ہوگئی ہیں اور وہ دوسری بیوی بننے کے لیے بخوشی تیار ہیں۔ آج کے حالات میں دوسری شادی وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔ اگر ہم نے چشم پوشی کی تو معاشرے میں گناہ کے پھیلاؤ میں ہم بھی برابر کے حصے دار ہوں گے۔''
ہمیں ہمہ تن گوش دیکھ کر وہ اور زیادہ پرجوش ہوگیا۔ اس کی کوشش تھی کہ آج کی اس محفل میں اسے کم از کم ایک ہم خیال مل جائے۔ مگر ہم سب ڈرپوک ہیں، ہمارے اندر سماج کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے، ہم آسان نیکیوں کے متلاشی رہتے ہیں۔
''میرے کتنے ہی دوست ہیں جو دوسری شادی کرچکے ہیں، ہم میں سے کسی نے نہیں کی۔'' وہ جیسے ہی خاموش ہوا، میرے ساتھ بیٹھے ساتھی نے شرارتی انداز میں لقمہ دیا۔ اچانک قہقہہ لگا اور محفل برخاست ہوگئی۔ مگر اس کی گفتگو میرے ذہن میں نئے دریچے وا کرگئی۔
اگلے ہی دن میں نے اس کے والد صاحب جو ایک ریٹائرڈ انجینئر ہیں اور اہلیہ کی وفات کے بعد تنہائی، شوگر، بلڈ پریشر کا شکار ہیں، دیکھ بھال کرنے ولا کوئی نہیں اور آج کل وزٹ ویزہ پر یہاں آئے ہوئے تھے۔ میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے تیار کرلیا کہ مجھے شادی دفتر کے بارے میں مکمل معلومات ہیں، کیونکہ میں دو سال قبل یہ کارخیر سر انجام دے چکا ہوں۔ انہوں نے تمام صورتحال دوسری شادی کے علمبردار بیٹے کے گوش گزار کی۔
مگر بیٹے نے بجائے خوش ہونے کے یو ٹرن لے لیا۔ کیونکہ باپ کی دوسر ی شادی کی صورت میں اسے اپنی سوتیلی ماں کو جائیداد میں حصہ دینا پڑتا۔ اس نے دوسری شادی کے نقصانات بیان کرنا شروع کردیے اور ان دوستوں کے قصے بھی سنا ڈالے جو دوسری شادی کرکے پچھتا رہے ہیں، کیونکہ دوسری بیویاں لاکھوں روپے لوٹ کر فرار ہوگئیں۔ دوسری شادی کے حق میں وہ دلائل جو اس نے دوستوں کی محفل میں دیئے تھے کہیں پس پشت چلے گئے۔ کیونکہ مجموعی طور پر ہم ایسے ہی منافقانہ رویوں کے پروردہ ہیں جہاں اپنی خواہش کے مطابق چیزوں کو اچھا یا برا سمجھنے کا رواج ہے۔
مگر باباجی تنہائی سے نکلنے کا راستہ دیکھ چکے تھے، اس لیے وہ ڈٹ گئے۔ تلخیوں، بحثوں کے بعد باباجی اپنے ملک روانہ ہوگئے تاکہ دوسری شادی کرسکیں۔
آپ سب سے عاجزانہ، فدویانہ التماس ہے کہ اپنے اردگرد موجود بزرگوں کا خیال کیجئے۔ اگر آپ کے والد صاحب اپنی شریک حیات سے محروم ہوچکے ہیں تو ہندوانہ رسم کا خاتمہ کرتے ہوئے ان کی فوری طور پر شادی کرائیں، تاکہ وہ بقیہ زندگی پرسکون گزار سکیں۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے دوسری شادی کو ایک لعنت بنادیا گیا ہے اور بزرگوں کی دوسری شادی تو اس قدر معیوب سمجھی جاتی ہے جیسے گناہ کبیرہ۔ عملی طور پر ہم زنا سے اس قدر نفرت نہیں کرتے جس قدر دوسری شادی سے کرتے ہیں۔ حالانکہ اس عمر شریک سفر زندگی کے باقی ادوار سے زیادہ ضروری ہوتا ہے، مگر ہمیں اسی وقت سمجھ آتی ہے جب خدانخواستہ خود پر وقت آتا ہے۔
حالانکہ یہ قرآن کا فیصلہ ہے، دو، تین، چار شادیاں کرو، اگر تم عدل کرسکتے ہو، اور اگر نہیں کرسکتے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔ مگر ہم اللہ کو مانتے ہیں، اللہ کی نہیں مانتے۔ رسول کو مانتے ہیں، رسول کی نہیں مانتے۔ ہم عشق رسول میں جان دینے کو تیار ہیں، مگر اتباع کرنے کو تیار نہیں اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آج کا مسلمان ہر جگہ پٹ رہا ہے، کہیں اپنوں کے ہاتھوں تو کہیں غیروں کے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسری شادی کو عام کیا جائے، کیونکہ اس وقت پاکستان میں 40 سے 60 لاکھ بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین موجود ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔
جو صاحبِ حیثیت لوگ ہیں وہ آگے آئیں اور معاشرے میں اس کارخیر کے پھیلنے کا ذریعہ بنیں۔ اگر آپ کے اردگرد ایسے بزرگ یا نوجوان موجود ہیں جو شریک حیات سے محروم ہیں تو اپنے فارغ وقت میں انہیں یا ان کی اولاد کو نیکی کے درجے میں قائل کرنے کی کوشش کریں کہ بزرگوں کا نکاح کریں اور اگر ہوسکے تو ان کی مناسب رہنمائی کریں۔
یاد رکھیے اگر ہم نہ جاگے یا ہم جائیداد کی تقسیم سے ڈرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب زنا عام ہوجائے گا اور ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ اور پھر یہ تو ایک مسلم حقیقت ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''اگر ہم نے دوسری شادی کو فروغ نہ دیا تو زنا عام ہو جائے گا۔ خاص طور پر کورونا کے بعد حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ دوسری شادی کو فروغ دیا جائے، کیونکہ کورونا کے دوران کتنی ہی عورتیں بیوہ ہوگئی ہیں اور وہ دوسری بیوی بننے کے لیے بخوشی تیار ہیں۔ آج کے حالات میں دوسری شادی وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔ اگر ہم نے چشم پوشی کی تو معاشرے میں گناہ کے پھیلاؤ میں ہم بھی برابر کے حصے دار ہوں گے۔''
ہمیں ہمہ تن گوش دیکھ کر وہ اور زیادہ پرجوش ہوگیا۔ اس کی کوشش تھی کہ آج کی اس محفل میں اسے کم از کم ایک ہم خیال مل جائے۔ مگر ہم سب ڈرپوک ہیں، ہمارے اندر سماج کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے، ہم آسان نیکیوں کے متلاشی رہتے ہیں۔
''میرے کتنے ہی دوست ہیں جو دوسری شادی کرچکے ہیں، ہم میں سے کسی نے نہیں کی۔'' وہ جیسے ہی خاموش ہوا، میرے ساتھ بیٹھے ساتھی نے شرارتی انداز میں لقمہ دیا۔ اچانک قہقہہ لگا اور محفل برخاست ہوگئی۔ مگر اس کی گفتگو میرے ذہن میں نئے دریچے وا کرگئی۔
اگلے ہی دن میں نے اس کے والد صاحب جو ایک ریٹائرڈ انجینئر ہیں اور اہلیہ کی وفات کے بعد تنہائی، شوگر، بلڈ پریشر کا شکار ہیں، دیکھ بھال کرنے ولا کوئی نہیں اور آج کل وزٹ ویزہ پر یہاں آئے ہوئے تھے۔ میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے تیار کرلیا کہ مجھے شادی دفتر کے بارے میں مکمل معلومات ہیں، کیونکہ میں دو سال قبل یہ کارخیر سر انجام دے چکا ہوں۔ انہوں نے تمام صورتحال دوسری شادی کے علمبردار بیٹے کے گوش گزار کی۔
مگر بیٹے نے بجائے خوش ہونے کے یو ٹرن لے لیا۔ کیونکہ باپ کی دوسر ی شادی کی صورت میں اسے اپنی سوتیلی ماں کو جائیداد میں حصہ دینا پڑتا۔ اس نے دوسری شادی کے نقصانات بیان کرنا شروع کردیے اور ان دوستوں کے قصے بھی سنا ڈالے جو دوسری شادی کرکے پچھتا رہے ہیں، کیونکہ دوسری بیویاں لاکھوں روپے لوٹ کر فرار ہوگئیں۔ دوسری شادی کے حق میں وہ دلائل جو اس نے دوستوں کی محفل میں دیئے تھے کہیں پس پشت چلے گئے۔ کیونکہ مجموعی طور پر ہم ایسے ہی منافقانہ رویوں کے پروردہ ہیں جہاں اپنی خواہش کے مطابق چیزوں کو اچھا یا برا سمجھنے کا رواج ہے۔
مگر باباجی تنہائی سے نکلنے کا راستہ دیکھ چکے تھے، اس لیے وہ ڈٹ گئے۔ تلخیوں، بحثوں کے بعد باباجی اپنے ملک روانہ ہوگئے تاکہ دوسری شادی کرسکیں۔
آپ سب سے عاجزانہ، فدویانہ التماس ہے کہ اپنے اردگرد موجود بزرگوں کا خیال کیجئے۔ اگر آپ کے والد صاحب اپنی شریک حیات سے محروم ہوچکے ہیں تو ہندوانہ رسم کا خاتمہ کرتے ہوئے ان کی فوری طور پر شادی کرائیں، تاکہ وہ بقیہ زندگی پرسکون گزار سکیں۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے دوسری شادی کو ایک لعنت بنادیا گیا ہے اور بزرگوں کی دوسری شادی تو اس قدر معیوب سمجھی جاتی ہے جیسے گناہ کبیرہ۔ عملی طور پر ہم زنا سے اس قدر نفرت نہیں کرتے جس قدر دوسری شادی سے کرتے ہیں۔ حالانکہ اس عمر شریک سفر زندگی کے باقی ادوار سے زیادہ ضروری ہوتا ہے، مگر ہمیں اسی وقت سمجھ آتی ہے جب خدانخواستہ خود پر وقت آتا ہے۔
حالانکہ یہ قرآن کا فیصلہ ہے، دو، تین، چار شادیاں کرو، اگر تم عدل کرسکتے ہو، اور اگر نہیں کرسکتے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔ مگر ہم اللہ کو مانتے ہیں، اللہ کی نہیں مانتے۔ رسول کو مانتے ہیں، رسول کی نہیں مانتے۔ ہم عشق رسول میں جان دینے کو تیار ہیں، مگر اتباع کرنے کو تیار نہیں اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آج کا مسلمان ہر جگہ پٹ رہا ہے، کہیں اپنوں کے ہاتھوں تو کہیں غیروں کے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسری شادی کو عام کیا جائے، کیونکہ اس وقت پاکستان میں 40 سے 60 لاکھ بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین موجود ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔
جو صاحبِ حیثیت لوگ ہیں وہ آگے آئیں اور معاشرے میں اس کارخیر کے پھیلنے کا ذریعہ بنیں۔ اگر آپ کے اردگرد ایسے بزرگ یا نوجوان موجود ہیں جو شریک حیات سے محروم ہیں تو اپنے فارغ وقت میں انہیں یا ان کی اولاد کو نیکی کے درجے میں قائل کرنے کی کوشش کریں کہ بزرگوں کا نکاح کریں اور اگر ہوسکے تو ان کی مناسب رہنمائی کریں۔
یاد رکھیے اگر ہم نہ جاگے یا ہم جائیداد کی تقسیم سے ڈرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب زنا عام ہوجائے گا اور ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ اور پھر یہ تو ایک مسلم حقیقت ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔