دعائے ابراہیمؑ کی دعاؤں کی روشنی میں امت مسلمہ کا تاب ناک مستقبل
’’اگر تم صحیح کامل اور پکے مومن ہوگے تو تم ہی غالب رہو گے۔‘‘
ISLAMABAD:
مفہوم: ''اور جب ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے اس کو قبول فرما۔ بے شک! تُو خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
اے ہمارے رب! ہم دونوں کو ہمیشہ اپنا فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت پیدا فرما جو تیری فرماں بردار ہو، اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما، تُو اپنے بندوں کی طرف بہت رجوع فرمانے والا ہے۔
انتہائی مہربان ہے۔ اے ہمارے رب! اور ان میں ایک رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیات تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کردے ، بے شک! تُو ہی غالب ہے اور حکمت والا ہے۔'' (سورۃ بقرہ)
حضرت ابراہیم علیہ السلام اﷲ کے اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں اور اپنے بعد کے تمام نبیوں اور رسولوں کے جد امجد ہیں۔ حضرت ابراہیم کی نسل سے دو بڑی شاخیں نکلیں، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہؑ کے بطن اطہر سے اﷲ رب العزت نے حضرت اسمٰعیلؑ کو پیدا فرمایا۔ حضرت اسمٰعیلؑ کی اولاد جو سرزمین عرب میں آباد ہوئی اسی خاندان میں اﷲ عزوجل نے اپنے آخری نبی رسول کریم حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا۔
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وہ فرزند ہیں جنہیں آپ نے بچپن میں سرزمین مکہ مکرمہ میں آ کر بسایا اور جب جوان ہوئے تو تعمیر خانہ کعبہ میں شریک کیا۔ تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام دعا بھی کرتے جا رہے تھے جو سب کی سب دعائیں قبول ہوئیں جس کا تذکرہ مذکورہ بالا آیات میں درج تھا۔
پہلی دعا کا مفہوم: ''یااﷲ! ہماری اس خانہ کعبہ کی تعمیر کو قبول فرما لے۔ تُو ہی ہماری دعاؤں کا سننے والا، جاننے والا ہے۔''
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے یہ دعا قبول کرلی اور خانہ کعبہ آج بھی آباد ہے۔ جو عظمت خانہ کعبہ کو ملی کسی اور عبادت خانے کو نہیں مل سکی۔ دنیا بھر کے مسلمان اس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے اور لاکھوں افراد ہر سال فریضہ حج اور عمرہ ادا کرتے ہیں۔ اطراف عالم سے مسلمان وہاں کی زیارت کو اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔
دوسری دعا اس طرح قبول ہوئی کہ اس شہر کو امن والا شہر بنا دیا گیا۔ یہاں تک کہ دجال کو بھی حرم میں داخل ہونے کی قدرت نہ ہوگی۔ شرعی طور پر بھی احکام جاری فرما دیے گئے کہ حرم میں باہمی قتل و قتال حتیٰ کہ جانوروں کا شکار بھی حرام کردیا گیا۔
تیسری دعا یہ فرمائی کہ اس شہر کے باشندوں کو پھلوں کا رزق عطا فرمائیے حالاں کہ مکہ مکرمہ اور اس کے آس پاس کی زمین میں کوئی کھیتی یا باغ نہ تھا بل کہ دور دور تک پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا مگر حق تعالیٰ نے دعائے ابراہیمؑ کو قبول فرمایا اور مکہ کے قریب ہی طائف کا ایک ایسا خطہ بنا دیا جس میں ہر طرح کے بہ کثرت اور بہترین پھل پیدا ہوتے ہیں اور مکہ میں آکر فروخت ہوتے ہیں۔
چوتھی دعا یہ تھی کہ اے پروردگار! ہماری نسل میں مسلم قوم پیدا فرما۔ یہ دعا بھی قبول ہوئی کہ رسول کریم حضرت محمد ﷺ حضرت اسمٰعیلؑ کی نسل سے تھے اور ایک ایسی مسلم قوم پیدا ہوئی جو قیامت تک رشد و ہدایت کا سرچشمہ بنی رہے گی۔ ان شاء اﷲ۔
ایک اور موقع پر اﷲ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے:
''تم اپنے باپ ابراہیمؑ کے دین پر قائم رہو، اس نے تمہارا لقب مسلمان رکھا ہے، پہلے بھی یعنی دوسری الہامی کتب اور اس میں بھی یعنی قرآن پاک میں۔''
اﷲ سبحان و تعالیٰ کی طرف سے جتنے بھی انبیائے علیہم السلام تشریف لائے جتنی الہامی کتب نازل ہوئیں ان سب کی روح اسلام یعنی اطاعت حق، گردن جھکا دینا، اﷲ کے احکامات کو مان لینا، اسی کی رضا کے مطابق اپنی زندگی گزارنا ہے۔
پانچویں دعا دونوں نے یہ کی تھی کہ ہمیں حج کے طریقے یعنی مناسک حج سکھلا دے۔ چناں چہ آپ کو اعمال حج اور مقامات حج پوری طرح سمجھا دیے گئے۔ اور مقامات حج کو بہ ذریعہ جبرئیل امینؑ دکھلا کر متعین کردیا گیا۔ امت مسلمہ آپ ہی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق فریضۂ حج ادا کرتی ہے اور ان شاء اﷲ تاقیامت کرتی رہے گی۔ یہ دعا بھی قبول ہوئی۔
چھٹی دعا اور خواہش یہ تھی کہ ہماری اولاد میں ایک رسول مبعوث فرما جو ان چند صفات سے متصف ہو۔ الہامی کتاب نازل ہو اور اس کی آیات لوگوں کو پڑھ کر سنائے، لوگوں کو حکمت و دانائی کی باتیں بھی سکھائے، لوگوں کے نفوس کو پاک کرے اور انہیں شرک و کفر، ظلم و معصیت سے متنفر کردے۔ ہر طرح کی کم زوریوں اور خامیوں سے پاک کردے، انھیں اخلاقِ حسنہ کی تعلیم سے آراستہ کردے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس دعا کا جواب حق تعالیٰ کی طرف سے یہ ملا: ''آپ کی دعا قبول کرلی گئی اور یہ رسول آخری زمانہ میں بھیجے جائیں گے۔''
مفہوم: ''یاد کرو جب اس سے (حضرت ابراہیمؑ) اس کے رب نے کہا کہ فرماں برداری کرو، تو بولا کہ میں تمام عالم کے پروردگار کا فرماں بردار ہوں۔'' (سورہ بقرہ)
اس دعا کی قبولیت جناب رسالت مآب خاتم النبیین حضور نبی کریم ﷺ کے مبعوث ہونے پر پوری ہوگئی۔
مندرجہ بالا آیت کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ ملت اسلام ملت ابراہیمی کے مطابق ہے اور دین اسلام تمام انبیائے کرامؑ کا مشترکہ دین اور نقطۂ وحدت ہے۔ آگے اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ملت ابراہیمی سے رو گردانی صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس میں ذرا بھی عقل نہ ہو، کیوں کہ یہی دین فطرت کے عین مطابق ہے۔ سَلَمَ کا مطلب ہی اطاعت حق ہے، گردن جھکا دینا۔ اﷲ کی رضا کے مطابق اپنی زندگی گزارنا، اسی کا نام عبادت ہے، اسی جذبۂ عبدیت، اطاعت و محبت کا کمال انسان کی ترقی کا آخری مقام ہے جہاں پہنچ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام ''خلیل اﷲ '' کے لقب سے نوازے گئے۔
پھر آپ کو ''امام الناس'' کا خطاب بھی دیا گیا۔ نماز میں درود ابراہیمی ایک اہم رکن ہے جس کے بغیر نماز مکمل نہیں ہوتی، پھر قرآن کریم کی ایک طویل سورۃ حضرت ابراہیم کے نام پر ہے جو ان کی عظمت کی واضح دلیل ہے۔
قرآن نے واضح الفاظ میں یہ بھی فرما دیا: ''دین تو اﷲ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔''
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں رسول کریم ﷺ تک جتنے بھی نبی مبعوث ہوئے سب ایک ہی صداقت یعنی توحید اور ایک ہی راہ راست کی تعلیمات دیتے رہے، اسی لیے تمام انبیائے کرام ؑ کو برحق تسلیم کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسلام ہی ایک عالم گیر دین ہے جسے ہر دین پر غالب آنا ہے اور یہی منشاء خداوندی ہے۔
اﷲ تعالیٰ یہ کام امت مسلمہ سے لینا چاہتا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کی نصرت کا وعدہ ایمان کی مضبوطی کے ساتھ مشروط ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے:
''اگر تم صحیح کامل اور پکے مومن ہوگے تو تم ہی غالب رہو گے۔''
ان شاء اﷲ مسلم امہ کا مستقبل روشن اور تاب ناک ہوگا۔
مفہوم: ''اور جب ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے اس کو قبول فرما۔ بے شک! تُو خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
اے ہمارے رب! ہم دونوں کو ہمیشہ اپنا فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت پیدا فرما جو تیری فرماں بردار ہو، اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما، تُو اپنے بندوں کی طرف بہت رجوع فرمانے والا ہے۔
انتہائی مہربان ہے۔ اے ہمارے رب! اور ان میں ایک رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیات تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کردے ، بے شک! تُو ہی غالب ہے اور حکمت والا ہے۔'' (سورۃ بقرہ)
حضرت ابراہیم علیہ السلام اﷲ کے اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں اور اپنے بعد کے تمام نبیوں اور رسولوں کے جد امجد ہیں۔ حضرت ابراہیم کی نسل سے دو بڑی شاخیں نکلیں، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہؑ کے بطن اطہر سے اﷲ رب العزت نے حضرت اسمٰعیلؑ کو پیدا فرمایا۔ حضرت اسمٰعیلؑ کی اولاد جو سرزمین عرب میں آباد ہوئی اسی خاندان میں اﷲ عزوجل نے اپنے آخری نبی رسول کریم حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا۔
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وہ فرزند ہیں جنہیں آپ نے بچپن میں سرزمین مکہ مکرمہ میں آ کر بسایا اور جب جوان ہوئے تو تعمیر خانہ کعبہ میں شریک کیا۔ تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام دعا بھی کرتے جا رہے تھے جو سب کی سب دعائیں قبول ہوئیں جس کا تذکرہ مذکورہ بالا آیات میں درج تھا۔
پہلی دعا کا مفہوم: ''یااﷲ! ہماری اس خانہ کعبہ کی تعمیر کو قبول فرما لے۔ تُو ہی ہماری دعاؤں کا سننے والا، جاننے والا ہے۔''
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے یہ دعا قبول کرلی اور خانہ کعبہ آج بھی آباد ہے۔ جو عظمت خانہ کعبہ کو ملی کسی اور عبادت خانے کو نہیں مل سکی۔ دنیا بھر کے مسلمان اس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے اور لاکھوں افراد ہر سال فریضہ حج اور عمرہ ادا کرتے ہیں۔ اطراف عالم سے مسلمان وہاں کی زیارت کو اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔
دوسری دعا اس طرح قبول ہوئی کہ اس شہر کو امن والا شہر بنا دیا گیا۔ یہاں تک کہ دجال کو بھی حرم میں داخل ہونے کی قدرت نہ ہوگی۔ شرعی طور پر بھی احکام جاری فرما دیے گئے کہ حرم میں باہمی قتل و قتال حتیٰ کہ جانوروں کا شکار بھی حرام کردیا گیا۔
تیسری دعا یہ فرمائی کہ اس شہر کے باشندوں کو پھلوں کا رزق عطا فرمائیے حالاں کہ مکہ مکرمہ اور اس کے آس پاس کی زمین میں کوئی کھیتی یا باغ نہ تھا بل کہ دور دور تک پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا مگر حق تعالیٰ نے دعائے ابراہیمؑ کو قبول فرمایا اور مکہ کے قریب ہی طائف کا ایک ایسا خطہ بنا دیا جس میں ہر طرح کے بہ کثرت اور بہترین پھل پیدا ہوتے ہیں اور مکہ میں آکر فروخت ہوتے ہیں۔
چوتھی دعا یہ تھی کہ اے پروردگار! ہماری نسل میں مسلم قوم پیدا فرما۔ یہ دعا بھی قبول ہوئی کہ رسول کریم حضرت محمد ﷺ حضرت اسمٰعیلؑ کی نسل سے تھے اور ایک ایسی مسلم قوم پیدا ہوئی جو قیامت تک رشد و ہدایت کا سرچشمہ بنی رہے گی۔ ان شاء اﷲ۔
ایک اور موقع پر اﷲ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے:
''تم اپنے باپ ابراہیمؑ کے دین پر قائم رہو، اس نے تمہارا لقب مسلمان رکھا ہے، پہلے بھی یعنی دوسری الہامی کتب اور اس میں بھی یعنی قرآن پاک میں۔''
اﷲ سبحان و تعالیٰ کی طرف سے جتنے بھی انبیائے علیہم السلام تشریف لائے جتنی الہامی کتب نازل ہوئیں ان سب کی روح اسلام یعنی اطاعت حق، گردن جھکا دینا، اﷲ کے احکامات کو مان لینا، اسی کی رضا کے مطابق اپنی زندگی گزارنا ہے۔
پانچویں دعا دونوں نے یہ کی تھی کہ ہمیں حج کے طریقے یعنی مناسک حج سکھلا دے۔ چناں چہ آپ کو اعمال حج اور مقامات حج پوری طرح سمجھا دیے گئے۔ اور مقامات حج کو بہ ذریعہ جبرئیل امینؑ دکھلا کر متعین کردیا گیا۔ امت مسلمہ آپ ہی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق فریضۂ حج ادا کرتی ہے اور ان شاء اﷲ تاقیامت کرتی رہے گی۔ یہ دعا بھی قبول ہوئی۔
چھٹی دعا اور خواہش یہ تھی کہ ہماری اولاد میں ایک رسول مبعوث فرما جو ان چند صفات سے متصف ہو۔ الہامی کتاب نازل ہو اور اس کی آیات لوگوں کو پڑھ کر سنائے، لوگوں کو حکمت و دانائی کی باتیں بھی سکھائے، لوگوں کے نفوس کو پاک کرے اور انہیں شرک و کفر، ظلم و معصیت سے متنفر کردے۔ ہر طرح کی کم زوریوں اور خامیوں سے پاک کردے، انھیں اخلاقِ حسنہ کی تعلیم سے آراستہ کردے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس دعا کا جواب حق تعالیٰ کی طرف سے یہ ملا: ''آپ کی دعا قبول کرلی گئی اور یہ رسول آخری زمانہ میں بھیجے جائیں گے۔''
مفہوم: ''یاد کرو جب اس سے (حضرت ابراہیمؑ) اس کے رب نے کہا کہ فرماں برداری کرو، تو بولا کہ میں تمام عالم کے پروردگار کا فرماں بردار ہوں۔'' (سورہ بقرہ)
اس دعا کی قبولیت جناب رسالت مآب خاتم النبیین حضور نبی کریم ﷺ کے مبعوث ہونے پر پوری ہوگئی۔
مندرجہ بالا آیت کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ ملت اسلام ملت ابراہیمی کے مطابق ہے اور دین اسلام تمام انبیائے کرامؑ کا مشترکہ دین اور نقطۂ وحدت ہے۔ آگے اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ملت ابراہیمی سے رو گردانی صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس میں ذرا بھی عقل نہ ہو، کیوں کہ یہی دین فطرت کے عین مطابق ہے۔ سَلَمَ کا مطلب ہی اطاعت حق ہے، گردن جھکا دینا۔ اﷲ کی رضا کے مطابق اپنی زندگی گزارنا، اسی کا نام عبادت ہے، اسی جذبۂ عبدیت، اطاعت و محبت کا کمال انسان کی ترقی کا آخری مقام ہے جہاں پہنچ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام ''خلیل اﷲ '' کے لقب سے نوازے گئے۔
پھر آپ کو ''امام الناس'' کا خطاب بھی دیا گیا۔ نماز میں درود ابراہیمی ایک اہم رکن ہے جس کے بغیر نماز مکمل نہیں ہوتی، پھر قرآن کریم کی ایک طویل سورۃ حضرت ابراہیم کے نام پر ہے جو ان کی عظمت کی واضح دلیل ہے۔
قرآن نے واضح الفاظ میں یہ بھی فرما دیا: ''دین تو اﷲ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔''
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں رسول کریم ﷺ تک جتنے بھی نبی مبعوث ہوئے سب ایک ہی صداقت یعنی توحید اور ایک ہی راہ راست کی تعلیمات دیتے رہے، اسی لیے تمام انبیائے کرام ؑ کو برحق تسلیم کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسلام ہی ایک عالم گیر دین ہے جسے ہر دین پر غالب آنا ہے اور یہی منشاء خداوندی ہے۔
اﷲ تعالیٰ یہ کام امت مسلمہ سے لینا چاہتا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کی نصرت کا وعدہ ایمان کی مضبوطی کے ساتھ مشروط ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے:
''اگر تم صحیح کامل اور پکے مومن ہوگے تو تم ہی غالب رہو گے۔''
ان شاء اﷲ مسلم امہ کا مستقبل روشن اور تاب ناک ہوگا۔