پنجاب کا بجٹ
بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے
پنجاب کا آئندہ مالی سال 2022-23کا 32کھرب 26ارب روپے کا بجٹ بدھ کو پیش کر دیا گیا، اس بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 685 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اور پینشن میں 5 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے، مہنگائی اور آمدن کی شرح میں بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کے لیے 15فیصد اسپیشل الاؤنس دیا جائے گا۔ گریڈ 1سے 19تک کے ایسے ملازمین جو اپنے الاؤنسز کی انتہائی حد سے کم الاؤنسز وصول کر رہے ہیں انھیں اضافی 15فیصد اسپیشل الاؤنس ملے گا۔ دیہاڑی داری طبقہ اور مزدوروں کی کم ازکم اجرت 20ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 25ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے۔ شہری علاقوں میں اسٹیمپ ڈیوٹی کی شرح ایک فیصد سے بڑھا کر 2فیصد کرنے کی تجویز ہے، بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے۔
بجٹ کا مجموعی حجم گزشتہ مال سال سے 22فیصد زائد ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ نے کہا پنجاب کے غریب عوام کے لیے صوبے کی تاریخ کے سب سے بڑے امدادی پیکیج کا اعلان کرنے کا اعزاز حاصل کر رہا ہوں۔
حکومت نے وزیر اعلیٰ عوامی سہولت پیکیج کے تحت 200 ارب روپے کی خطیر رقم سے عام آدمی کے لیے سستے آٹے کی فراہمی کو یقینی بنا دیا ہے، نئے بڑے رعایتی پیکیج کی مالیت 142ارب روپے ہے جس کے تحت عوام کو اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی، رعایتی نرخوں پر سفری سہولیات کی فراہمی، غریب کاشتکاروں کو سستی کھاد اور دیگر زرعی ضروریات کی فراہمی شامل ہیں۔ اس بجٹ کو ''کر کے دکھائیں گے'' کے نعرے سے موسوم کیا ہے۔
اس وقت اہم ترین سوال یہ ہے کہ مشکل حالات میں اتحادی حکومت کا پیش کردہ صوبائی بجٹ کیا عوام کی توقعات پر پورا اترسکے گا۔ پنجاب کی دیگر صوبوں سے الگ حیثیت ہے، بلاشبہ وطن عزیز پاکستان کا ہر صوبہ اپنی مثال آپ ہے لیکن جب ہم اعداد وشمار کی بات کرتے ہیں تو کچھ زمینی حقائق ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر صوبہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے، پنجاب ایک بڑا زرعی صوبہ ہے جہاں حکومت کا فوکس زراعت سے ہٹ کر سرمایہ کاری اور صنعتکاری کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
خوشحالی کے اعتبار سے بھی پنجاب باقی صوبوں سے آگے ہے۔ المیہ یہ ہے کہ زرخیز زرعی زمینوں کے باوجود پنجاب کے چھوٹے کسان معاشی بدحالی اور غربت کا شکار ہیں، جس پر توجہ دینے کی بے حد ضرورت ہے۔ زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں سرمایہ کاری ملک کے دیگر شعبہ جات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
ایک کسان جب گنے کی بہتر پیداوار لاتا ہے تو اس سے ملک میں چینی کی صنعت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ گندم کی بہتر پیداوار گندم کی برآمدات پر اثر انداز ہوتی ہے جب کہ کپاس کی پیداوار سے ٹیکسٹائل کی صنعت پر اثر پڑتا ہے۔
صوبائی وزیر اویس لغاری کے مطابق زراعت کے شعبہ کے لیے مجموعی طور پر 53 ارب 19 کروڑ روپے مختص کر رہے ہیں، زراعت میں 14 ارب 77 کروڑ روپے ترقیاتی مقاصد کے حصول پر خرچ ہوں گے، زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے ورلڈ بینک کے تعاون سے جامع پروگرام بنایا ہے۔
بلاشبہ اگر پنجاب کی صوبائی حکومت خلوص نیت سے شعبہ زراعت کی ترقی کے لیے عملی طور پر کام کرے اور بجٹ میں اعلان کردہ منصوبوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے تو نہ صرف پنجاب کے کسان خوشحال ہوسکتے ہیں بلکہ اس سے ہمارے ملک میں بھی خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
دوسری جانب گھریلو خواتین نے پنجاب کے صوبائی بجٹ پراپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ میں گھریلو صارفین کے استعمال کی اشیا پر کوئی خاص ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر نے اپنی بجٹ تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر نے کہا کہ سڑکوں اور پلوں کے لیے 80 ارب 73 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، اسکولوں میں مفت کُتب کی فراہمی کے لیے 3 ارب 20 کروڑ روپے رکھے ہیں، اسکول کونسلز کے ذریعے تعلیمی سہولتوں کی بہتری کے لیے 14 ارب 93 کروڑ روپے رکھے ہیں، دانش اسکولز کے جاری تعلیمی اخراجات کے لیے 3 ارب 75 کروڑ روپے رکھے ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ پنجاب حکومت نے صوبے میں تعلیم کے فروغ کے لیے ایک جامع پلان کا اعلان کیا ہے، بلاشبہ وہی قومیں دنیا میں مقام بناتی ہیں جو حصول علم کو اپنا نصب العین بنالیتی ہیں۔
صنعتوں کا پہیہ جام ہونے، زراعت پر ٹڈی دل کے حملوں اور کورونا وائرس کے باعث پنجاب کے ہر شعبے میں عوام عدم تحفظ اور معاشی پریشانیوں کا شکار ہیں جنھیں ریلیف چاہیے۔ حکومتِ پنجاب کو چاہیے کہ معاشی بدحالی، غربت اور مصنوعی مہنگائی کے مسائل پر قابو پائے تاکہ جن غریبوں کے گھر کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے، انھیں بھی قومی دھارے میں شامل کیا جاسکے۔