پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ
پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کروانا آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے
کراچی:
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں چوبیس روپے تین پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں انسٹھ روپے فی لٹر اضافے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق حکومت نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب پیٹرولیم مصنوعات کے معاملے پر کوئی نقصان برداشت نہیں کرے گی۔
اس بارے میں تو دو آراء نہیں پائی جاتی ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کروانا آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے اور پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کی مدد کی اشد ضرورت ہے تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔
مہنگائی کا طوفان اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ معیشت اور عوام پر حملہ آور ہوچکا ہے۔ درمیانے طبقے کی قوت خرید بہت کم ہوگئی ہے۔ان پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ یقینا ناقابل برداشت ہے اور ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
پاکستان کے لیے مشکل یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام اُس وقت تک روک دیا جب تک پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی مکمل طور پر ختم نہیں کی جاتی۔ چند دن پہلے تو آئی ایم ایف نے قیمتیں بڑھائے بغیر اگلی قسط دینے سے صاف انکار کر دیا جس کے بعد چار و ناچار حکومت کو قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ اب اس بات پر تنقید کی جا رہی ہے کہ یکمشت اتنا زیادہ اضافہ کیوں کیا گیا؟
اس کی وجہ بھی شاید یہ ہے کہ پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا تھا اُس میں ہر ماہ قیمت بڑھانے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی لیکن جب تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا شور و غوغا اٹھا تو اس معاہدے کو پس ِ پشت ڈالتے ہوئے پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں 10 روپے لیٹر کمی کر کے جون تک قیمتیں منجمد کر دی گئیں۔
روس یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھتی رہیں، مگر پاکستان میں قیمت نہ بڑھائی گئی جس کے باعث مالی خسارہ ناقابل برداشت حد تک پہنچ گیا، اس سے ادائیگیوں کا توازن شدید متاثر ہوا اور قومی خزانے پر بوجھ مزید بڑھا۔ اتحادی حکومت نے بڑے فیصلے کرنے شروع کر دیے ہیں، بظاہر وہ بہت زیادہ خوشگوار نظر نہیں آرہے ہیں پسندیدہ نہیں ہیں لیکن وہ ضروری ہیں ان کے نتائج اچھے نکلنے کی توقعات ظاہر کی جارہی ہیں۔
حکومت اپنے ایسے فیصلوں کا دفاع بھی کر رہی ہے ظاہراً انھیں ایسا کرنا بھی چاہیے۔ پاکستانی معیشت بند گلی میں چلی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے حالیہ بجٹ میں امیر اور مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس لگانے کی جانب قدم بڑھایا ہے لیکن اس کے فوائد زیادہ نہیں ہیں کیونکہ معیشت کے مسائل گمبھیر ہیں۔ پاکستان میں اب بھی کئی شعبے ایسے ہیں جو حکومت سے مراعات بھی لے رہے ہیں اور انھیں ہر قسم کے ٹیکس کی چھوٹ بھی حاصل ہے۔
حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی ٹرسٹ' وقف اور فلاحی ادارے ہیں' ان کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔ پاکستان میں سیکڑوں کی تعداد میں فلاحی ادارے' صحت اور تعلیم کے نام پر قائم کیے گئے ہیں۔
انھیں سرکاری زمینیں اور عمارتیں الاٹ کی گئی ہیں۔ ٹیکسوں میں بھی چھوٹ دی گئی ہے۔ اصولی طور پر تو صدقہ و خیرات انفرادی نیکی کے زمرے میں آتی ہے اور امراء کو صدقہ و خیرات انتہائی غریب اور مسکینوں اور یتیموں پر خرچ کرنی چاہیے۔ اگر کوئی سیلیبریٹی یا امیر آدمی ٹرسٹ قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ کام اپنے پیسے سے کرنا چاہیے۔ حکومت کو یہ پالیسی بنانی چاہیے کہ وہ کسی بھی ٹرسٹ کے لیے سرکاری زمین الاٹ نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی ٹرسٹ کے مالکان کو عوام سے صدقہ و خیرات اور قربانی کی کھالیں مانگنے اور اکٹھی کرنے کی اجازت دے گی۔