پختون قیادت کی کمزوری
بلوچستان وسائل کے اعتبار سے ملک کا امیر ترین صوبہ ہے
پچھلے کالم میں نواب خیر بخش مری سے ملاقات کا احوال بیان ہو رہا تھا۔ نواب خیر بخش مری کہہ رہے تھے کہ ایک قبائلی بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اس نظام میں زندگی گزارتا ہے، وہ اپنے قبیلے اور سردار کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا' انھوں نے کہا کہ ہر نظام اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اس کو عوام کی حمایت حاصل ہو' جب تعلیم عام ہوگی' اسکول ' کالج اور اسپتال تعمیر ہوں گے۔
روزگار کے نئے ذرائع آئیں گے اور عوام کا شعور بلند ہوگا' سڑکوں اور مواصلاتی نظام میں ترقی ہوگی تو عوام کا رابطہ بیرونی دنیا سے قائم ہوگا اور ان کا انحصار قبائلی اور سرداری نظام پر کم سے کم ہوتا جائے گا۔ آج بھی جو طلباء کوئٹہ یونیورسٹی یا بولان میڈیکل کالج میں پڑھتے ہیں یا دیگر شہروں میں کاروبار اور مزدوری کرتے ہیں، وہ جمہوری سوچ کے حامل اور سرداری نظام کے مخالف ہیں' جاگیرداری اور قبائلی نظام کے خاتمے کے بغیر سردار' چوہدری' خان اور وڈیرے کا اقتدار ختم نہیں کیا جا سکتا۔
بلوچستان وسائل کے اعتبار سے ملک کا امیر ترین صوبہ ہے' یہاں ترقی کے امکانات بہت زیادہ ہیں لیکن یہاں کی حکومت ہمیشہ بینکوں اور مرکزی حکومت کی مقروض ہوتی ہے' صوبائی بجٹ ہمیشہ خسارے کا ہو تا ہے کیونکہ مرکزی حکومت کا کنٹرول سخت ہے 'اسی لیے یہ صوبہ پسماندگی کا شکار ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں ذہنی طور پر سوشلسٹ ہوں لیکن مجھے روسی نظام سے بھی اختلاف ہے کیونکہ وہاں پر سینٹرل ایشیائی ریاستیں' چیچن' داغستان، جارجیا اور یوکرین، سفید فام روسی نسل کی بالادستی میں زندگی گزار رہی ہیں۔
ان کا خیال یہ تھا کہ اسی طرح پاکستان میں سندھی'بلوچ اور پختون قومیتیں' پنجابی بالادستی میں وقت گزار رہی ہیں'انھوں نے کہا کہ جاگیردارانہ نظام تبدیل کرنے میں جمہوری نظام بھی ایک اہم رول ادا کرتی ہے لیکن پاکستان میں سول اور فوجی نوکرشاہی نے کبھی بھی جمہوریت کو کام کرنے کا موقعہ نہیں دیا' اس لیے ان حالات میں سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں'آپ لوگوں نے اس بوڑھے کو دیکھا جو دو دن کی تکلیف دہ سفر کے بعد مجھ سے ملاقات کے لیے آیا تھا 'اس کے دماغ سے آپ سردار کا احترام نہیں نکال سکتے لیکن اگر اس کے بیٹے کو اچھی تعلیم اور روزگار کے مواقع ملے تو شاید وہ سردار ی نظام کا محتاج نہ رہے''۔
ہم نواب خیر بخش مری کی باتیں بہت غور سے سن رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ میرے دو شوق ہیں' مطالعہ کرنا اور مرغ لڑانا ' لڑاکا مرغ ان کے ساتھ جیل میں بھی رہتے تھے 'حیدر آباد جیل میں ان کے ساتھی بھی ان کے مطالعے کا ذکر کرتے تھے،بلوچ نوجوان ان کو بلوچستان کا ''چے گویرا'' کہتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اپنے وسائل پر اپنا اختیار ہے' جب تک یہ وسائل ہمیں نہیں ملیں گے بلوچستان کے حالات تبدیل نہیں ہو سکتے۔
انھوں نے سرفراز ساتھی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ '' ہم پاکستان کے وفاق میں رہ کر اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر ہمیں دیوار سے لگایا گیا تو پھر آزاد بلوچستان کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے''۔اٹھنے کو جی نہیں چاہ رہا تھالیکن وقت بھی کافی ہوگیا تھا اور دوسرے لوگ بھی سردار صاحب کا انتظار کر رہے تھے، نوکر نے کھانا لگنے کا اعلان کیا'کھانا زمین پر لگایا گیا تھا'شیر محمد مری اور چند اور بلوچ دوست بھی شریک ہوئے، تین چار قسم کا دنبے کا گوشت انتہائی لذیذ تھا'کھانے پر بھی باتوں کا سلسلہ جاری رہا ۔
نواب صاحب نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج حکومت ایسا تاثر دے رہی ہے جیسے پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ سرداری نظام ہے جب کہ یہ نظام صوبہ بلوچستان کے آدھے سے بھی کم علاقے میں رائج ہے' جس کا پاکستان کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔ ظاہر یہ کیا جارہا ہے کہ حکومت کے مخالف سردار شیطان ہیں اور حکومت کے حامی سردار فرشتے ہیں۔
حکمرانوں کو مصنوعی مسائل تخلیق کرنے کے بجائے حقیقی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے 'پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ حق حکمرانی کاہے، ملک کے اصلی مالک عوام ہیں لیکن ان کو ابھی تک حق حکمرانی نہیں دیا گیا 'آئین کوہمیشہ روندا گیا عوام کی فلاح وبہود پر بہت کم رقم خرچ کی جاتی ہے 'جب کہ ملکی وسائل غیر ترقیاتی اخراجات پر لٹائے جارہے ہیں' ملک کو وفاقی بنیادوں کے بجائے وحدانی طرزپر چلایا جا رہا ہے۔مسلسل مطالبات کے باوجود قومی وصوبائی حقوق کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا اسی لیے میں نے 1973کے آئین پر دستخط نہیں کیے۔
اس وقت حقوق حاصل کرنے کا بہترین موقعہ تھا'جو ہماری قیادت نے کھودیا' عوام مہنگائی وبیروزگاری کی وجہ سے تنگ ہیں اور ان کے لیے قانون کی حکمرانی اور انصاف کا حصول ناممکن بنادیاگیاہے۔ جس ملک کو عوام نے بڑی مشکلوں سے قائم کیاتھا اس کا آدھا حصہ پہلے ہی الگ کر لیا گیا' ہمسایہ ممالک سے مسلسل محاذ آرائی کی پالیسی اختیار کی گئی' ملک میں آئین اور جمہوری ادارے و جود میں نہ آسکے' حکمران طبقوں میں کرپشن کے قصے عام ہیں اور دنیا ہمیں ایک ناکام ریاست کے طور پر جانتی ہے۔ بلوچوں کا وہ ہیرو بن چکا ہے 'یہ پہلی بار ہوا کہ ہزاروں بلوچ نوجوانوں اور خواتین نے ان کے جنازے کو کندھا دیا اور زبردستی انھیں بلوچ شہداء کا قبرستان کہلانے والے ''نیو کاہان'' میں دفن کیا گیا۔
نواب صاحب اور دیگر بلوچ قیادت کا پختون قوم پرست قیادت سے حیدر آباد جیل میں ہی اختلافات پیدا ہوئے تھے، اسی وجہ بلوچ سیاسی لیڈر اور کارکن نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی ) میں شامل نہیں ہوئے' یوں پختونوں پرست ا ور بلوچ قوم پرست سیاستدانوں کا یہ اتحاد ٹوٹ گیا۔وزیر اعظم بھٹو نے قومی اتحاد کے تحریک کے دوران حید رآباد سازش کیس کے قیدیوں کو رہا کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن جنرل ضیاء الحق نے سخت مخالفت کی۔جب بھٹو کی حکومت کو ہٹاکر جنرل ضیاء نے حکومت پر قبضہ کیا تو پہلا کام یہ کیا کہ حیدر آباد جا کر سازش کیس کے قیدیوں سے ملاقات کی اور ان کو رہائی کی یقین دہانی کرائی۔
نواب خیر بخش مری اور سردار عطاء اللہ مینگل نے جنرل ضیاء سے ایک ایک منٹ ملاقات کی'بزنجو صاحب نے تین منٹ ملاقات کی اور جنرل ضیاء کو طنزاً کہا کہ دنیا بھر کے مہاجرتو پاکستان آگئے ہیں' اب صرف ویت نام کے کشتیوں والے مہاجر باقی ہیں، ان کو بھی لے آئیں۔ ولی خان وغیرہ نے ڈیڑھ گھنٹے تک جنرل ضیاء سے ملاقات کی ' اس ملاقات کے بعد ولی خان اور دیگر پختون قوم پرست رہنماؤں نے عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کی لیکن بلوچ قیادت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا' اس وجہ سے بلوچ قیادت کو چھ ماہ بعد رہائی نصیب ہوئی۔
اس کے علاوہ بھی جیل میں دیگر اختلافات ابھرے تھے جس میں این ڈی پی کا پاکستان قومی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ بھی تھا 'یہ بے اعتمادی اتنی زیادہ تھی کہ جب ہم ساتھی بزنجو صاحب کی نیشنل پارٹی سے الگ ہوکر اے این پی بنا رہے تھے' تو اس وقت بھی میر صاحب نے ولی خان کی سیاست کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تھا۔عطاء اللہ مینگل نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔
اس کے علاوہ جب بھٹو صاحب نے بلوچستان میں فوجی کارروائی کا حکم دیا'تو معروف پختون قوم پرست لیڈر مرحوم عبدالصمد خان اچکزئی بھی بھٹو کے ساتھ کھڑے تھے 'نواب صاحب کو ان معاملات کا سخت دکھ تھااور وہ پختون قوم پرست قیادت کی سودے بازی کے شاکی تھے' ان کا کہنا تھا کہ موجودہ پختون قیادت میں یہ صلاحیت اور حوصلہ نہیں ہے کہ وہ قافلے کو منزل تک پہنچا سکے۔آج جب ہم روایتی پختون قومی تحریک کی حالت کو دیکھتے ہیں تو نواب صاحب کی باتیں یاد آتی ہیں۔
روزگار کے نئے ذرائع آئیں گے اور عوام کا شعور بلند ہوگا' سڑکوں اور مواصلاتی نظام میں ترقی ہوگی تو عوام کا رابطہ بیرونی دنیا سے قائم ہوگا اور ان کا انحصار قبائلی اور سرداری نظام پر کم سے کم ہوتا جائے گا۔ آج بھی جو طلباء کوئٹہ یونیورسٹی یا بولان میڈیکل کالج میں پڑھتے ہیں یا دیگر شہروں میں کاروبار اور مزدوری کرتے ہیں، وہ جمہوری سوچ کے حامل اور سرداری نظام کے مخالف ہیں' جاگیرداری اور قبائلی نظام کے خاتمے کے بغیر سردار' چوہدری' خان اور وڈیرے کا اقتدار ختم نہیں کیا جا سکتا۔
بلوچستان وسائل کے اعتبار سے ملک کا امیر ترین صوبہ ہے' یہاں ترقی کے امکانات بہت زیادہ ہیں لیکن یہاں کی حکومت ہمیشہ بینکوں اور مرکزی حکومت کی مقروض ہوتی ہے' صوبائی بجٹ ہمیشہ خسارے کا ہو تا ہے کیونکہ مرکزی حکومت کا کنٹرول سخت ہے 'اسی لیے یہ صوبہ پسماندگی کا شکار ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں ذہنی طور پر سوشلسٹ ہوں لیکن مجھے روسی نظام سے بھی اختلاف ہے کیونکہ وہاں پر سینٹرل ایشیائی ریاستیں' چیچن' داغستان، جارجیا اور یوکرین، سفید فام روسی نسل کی بالادستی میں زندگی گزار رہی ہیں۔
ان کا خیال یہ تھا کہ اسی طرح پاکستان میں سندھی'بلوچ اور پختون قومیتیں' پنجابی بالادستی میں وقت گزار رہی ہیں'انھوں نے کہا کہ جاگیردارانہ نظام تبدیل کرنے میں جمہوری نظام بھی ایک اہم رول ادا کرتی ہے لیکن پاکستان میں سول اور فوجی نوکرشاہی نے کبھی بھی جمہوریت کو کام کرنے کا موقعہ نہیں دیا' اس لیے ان حالات میں سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں'آپ لوگوں نے اس بوڑھے کو دیکھا جو دو دن کی تکلیف دہ سفر کے بعد مجھ سے ملاقات کے لیے آیا تھا 'اس کے دماغ سے آپ سردار کا احترام نہیں نکال سکتے لیکن اگر اس کے بیٹے کو اچھی تعلیم اور روزگار کے مواقع ملے تو شاید وہ سردار ی نظام کا محتاج نہ رہے''۔
ہم نواب خیر بخش مری کی باتیں بہت غور سے سن رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ میرے دو شوق ہیں' مطالعہ کرنا اور مرغ لڑانا ' لڑاکا مرغ ان کے ساتھ جیل میں بھی رہتے تھے 'حیدر آباد جیل میں ان کے ساتھی بھی ان کے مطالعے کا ذکر کرتے تھے،بلوچ نوجوان ان کو بلوچستان کا ''چے گویرا'' کہتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اپنے وسائل پر اپنا اختیار ہے' جب تک یہ وسائل ہمیں نہیں ملیں گے بلوچستان کے حالات تبدیل نہیں ہو سکتے۔
انھوں نے سرفراز ساتھی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ '' ہم پاکستان کے وفاق میں رہ کر اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر ہمیں دیوار سے لگایا گیا تو پھر آزاد بلوچستان کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے''۔اٹھنے کو جی نہیں چاہ رہا تھالیکن وقت بھی کافی ہوگیا تھا اور دوسرے لوگ بھی سردار صاحب کا انتظار کر رہے تھے، نوکر نے کھانا لگنے کا اعلان کیا'کھانا زمین پر لگایا گیا تھا'شیر محمد مری اور چند اور بلوچ دوست بھی شریک ہوئے، تین چار قسم کا دنبے کا گوشت انتہائی لذیذ تھا'کھانے پر بھی باتوں کا سلسلہ جاری رہا ۔
نواب صاحب نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج حکومت ایسا تاثر دے رہی ہے جیسے پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ سرداری نظام ہے جب کہ یہ نظام صوبہ بلوچستان کے آدھے سے بھی کم علاقے میں رائج ہے' جس کا پاکستان کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔ ظاہر یہ کیا جارہا ہے کہ حکومت کے مخالف سردار شیطان ہیں اور حکومت کے حامی سردار فرشتے ہیں۔
حکمرانوں کو مصنوعی مسائل تخلیق کرنے کے بجائے حقیقی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے 'پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ حق حکمرانی کاہے، ملک کے اصلی مالک عوام ہیں لیکن ان کو ابھی تک حق حکمرانی نہیں دیا گیا 'آئین کوہمیشہ روندا گیا عوام کی فلاح وبہود پر بہت کم رقم خرچ کی جاتی ہے 'جب کہ ملکی وسائل غیر ترقیاتی اخراجات پر لٹائے جارہے ہیں' ملک کو وفاقی بنیادوں کے بجائے وحدانی طرزپر چلایا جا رہا ہے۔مسلسل مطالبات کے باوجود قومی وصوبائی حقوق کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا اسی لیے میں نے 1973کے آئین پر دستخط نہیں کیے۔
اس وقت حقوق حاصل کرنے کا بہترین موقعہ تھا'جو ہماری قیادت نے کھودیا' عوام مہنگائی وبیروزگاری کی وجہ سے تنگ ہیں اور ان کے لیے قانون کی حکمرانی اور انصاف کا حصول ناممکن بنادیاگیاہے۔ جس ملک کو عوام نے بڑی مشکلوں سے قائم کیاتھا اس کا آدھا حصہ پہلے ہی الگ کر لیا گیا' ہمسایہ ممالک سے مسلسل محاذ آرائی کی پالیسی اختیار کی گئی' ملک میں آئین اور جمہوری ادارے و جود میں نہ آسکے' حکمران طبقوں میں کرپشن کے قصے عام ہیں اور دنیا ہمیں ایک ناکام ریاست کے طور پر جانتی ہے۔ بلوچوں کا وہ ہیرو بن چکا ہے 'یہ پہلی بار ہوا کہ ہزاروں بلوچ نوجوانوں اور خواتین نے ان کے جنازے کو کندھا دیا اور زبردستی انھیں بلوچ شہداء کا قبرستان کہلانے والے ''نیو کاہان'' میں دفن کیا گیا۔
نواب صاحب اور دیگر بلوچ قیادت کا پختون قوم پرست قیادت سے حیدر آباد جیل میں ہی اختلافات پیدا ہوئے تھے، اسی وجہ بلوچ سیاسی لیڈر اور کارکن نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی ) میں شامل نہیں ہوئے' یوں پختونوں پرست ا ور بلوچ قوم پرست سیاستدانوں کا یہ اتحاد ٹوٹ گیا۔وزیر اعظم بھٹو نے قومی اتحاد کے تحریک کے دوران حید رآباد سازش کیس کے قیدیوں کو رہا کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن جنرل ضیاء الحق نے سخت مخالفت کی۔جب بھٹو کی حکومت کو ہٹاکر جنرل ضیاء نے حکومت پر قبضہ کیا تو پہلا کام یہ کیا کہ حیدر آباد جا کر سازش کیس کے قیدیوں سے ملاقات کی اور ان کو رہائی کی یقین دہانی کرائی۔
نواب خیر بخش مری اور سردار عطاء اللہ مینگل نے جنرل ضیاء سے ایک ایک منٹ ملاقات کی'بزنجو صاحب نے تین منٹ ملاقات کی اور جنرل ضیاء کو طنزاً کہا کہ دنیا بھر کے مہاجرتو پاکستان آگئے ہیں' اب صرف ویت نام کے کشتیوں والے مہاجر باقی ہیں، ان کو بھی لے آئیں۔ ولی خان وغیرہ نے ڈیڑھ گھنٹے تک جنرل ضیاء سے ملاقات کی ' اس ملاقات کے بعد ولی خان اور دیگر پختون قوم پرست رہنماؤں نے عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کی لیکن بلوچ قیادت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا' اس وجہ سے بلوچ قیادت کو چھ ماہ بعد رہائی نصیب ہوئی۔
اس کے علاوہ بھی جیل میں دیگر اختلافات ابھرے تھے جس میں این ڈی پی کا پاکستان قومی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ بھی تھا 'یہ بے اعتمادی اتنی زیادہ تھی کہ جب ہم ساتھی بزنجو صاحب کی نیشنل پارٹی سے الگ ہوکر اے این پی بنا رہے تھے' تو اس وقت بھی میر صاحب نے ولی خان کی سیاست کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تھا۔عطاء اللہ مینگل نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔
اس کے علاوہ جب بھٹو صاحب نے بلوچستان میں فوجی کارروائی کا حکم دیا'تو معروف پختون قوم پرست لیڈر مرحوم عبدالصمد خان اچکزئی بھی بھٹو کے ساتھ کھڑے تھے 'نواب صاحب کو ان معاملات کا سخت دکھ تھااور وہ پختون قوم پرست قیادت کی سودے بازی کے شاکی تھے' ان کا کہنا تھا کہ موجودہ پختون قیادت میں یہ صلاحیت اور حوصلہ نہیں ہے کہ وہ قافلے کو منزل تک پہنچا سکے۔آج جب ہم روایتی پختون قومی تحریک کی حالت کو دیکھتے ہیں تو نواب صاحب کی باتیں یاد آتی ہیں۔