پنجاب کا بجٹ اجلاس کون جیتا کون ہارا
اسپیکر کی شرط تھی کہ پہلے آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری پنجاب کو ایوان میں لایا جائے
کراچی:
پنجاب کا بجٹ پیش ہو گیا ہے، ویسے تو پنجاب میں دو بجٹ اجلاس ہوئے ہیں، ایک اسپیکر نے پنجاب اسمبلی کی بلڈنگ میں منعقد کیا، دوسرا اجلاس گورنر کی ہدایت پر ایوان اقبال میں ہوا۔ حکومت نے ایوان اقبال میں بجٹ پیش کیا جب کہ اپوزیشن نے پنجاب اسمبلی میں اجلاس کیا۔
ایک عمومی رائے یہی ہے کہ گورنر کی ہدایت پر بلایا گیا اجلاس قانونی ہے تاہم دونوں فریق اپنے اپنے اجلاس کو قانونی اور آئینی کہہ رہے ہیں۔ اب یہ تو عدالت ہی طے کر سکتی ہے کہ کس کا اجلاس قانونی ہے اور کس کا غیر قانونی ہے لیکن اپوزیشن نے تاحال عدالت جانے کا کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔
حکومت کے پاس ایوان اقبال میں بجٹ اجلاس بلانے کا ایک جواز ہے کہ اس نے دو دن تک معاملات حل کرنے کی کوشش کی لیکن جب معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے تو اس کے پاس متبادل حکمت عملی پر جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا، دو دن تک حکومت پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن اسپیکر اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ نے بجٹ پیش نہیں کرنے دیا۔
اسپیکر کی شرط تھی کہ پہلے آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری پنجاب کو ایوان میں لایا جائے، پھر بجٹ پیش ہوگا جب کہ حکومت چیف سیکریٹری اور آئی جی کو ایوان میں پیش کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ حکومت اسپیکر اسمبلی کی رولنگ پر عطاء تارڑ کو ایوان سے باہر بھیجنے کے لیے تو تیار ہو گئی لیکن حکومت کو علم تھا کہ اگر آئی جی اور چیف سیکریٹری کو ایوان میں لایا گیا تو کہیں اسپیکر ایسی رولنگ نہ دے دیں جس سے بعد میں مسائل پیدا ہو جائیں گے، اس لیے معاملات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے۔
اگر اس محاذ آرائی کا جائزہ لیا جائے تو مجھے یہ لگتا ہے کہ حکومت جیت گئی ہے اور اپوزیشن ہار گئی ہے، اگر حکومت کو پنجاب اسمبلی کی عمارت میں ہونے والے اجلاس میں بجٹ پیش کرنے دیا جاتا تو حکومت کے لیے مشکلات زیادہ تھیں کیونکہ بعد میں بجٹ پاس کرانے کے لیے ووٹ پورا کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا، ہر کٹوتی کی تحریک پر ووٹ پورے رکھنا حکومت کے لیے لازم ہوتا ہے ۔
پنجاب اسمبلی کی اس وقت عددی تقسیم ایسی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بمشکل ایک دو ووٹ کا فرق ہے۔ ایک دو ووٹ کا فرق بہت معمولی ہوتا ہے،ایسے میں ووٹنگ کے لیے ہر وقت ووٹ پورے رکھنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ لیکن جب اپوزیشن نے ایوان اقبال کے بجٹ اجلاس میں شرکت سے ہی انکار کر دیا ہے تو حکومت کو واک اوور مل گیا ہے۔ اب ووٹ پورے کرنے کا درد سر ہی ختم ہو گیا، اس لیے اگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو حکومت کا اس ساری لڑائی میں فائدہ ہو گیا ہے۔
اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کو اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ گورنر اجلاس ختم بھی کر سکتے ہیں اور نیا اجلاس بلا بھی سکتے ہیں۔ وہ پارلیمانی کھیل کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ گورنر کھیل کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔
اس سے پہلے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں جب گورنر کا عہدہ تحریک انصاف کے پاس تھا تو گورنر نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب اور بعد ازاں اس کے حلف کے لیے اس عہدہ کا بہت استعمال کیا تھا، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چوہدری پرویز الٰہی کو اندازہ نہیں تھا کہ گورنر کیا کر سکتے ہیں۔ اگر انھیں ان امور کا ادراک نہیں تھا تو یہ سیاسی اور قانونی غلطی ہی کہی جا سکتی ہے کیونکہ چوھری پرویز الٰہی نے جیتی ہوئی گیم ہار دی ہے۔ انھوں نے مشکل میں پھنسی ہوئی حکومت کو تمام مشکلات سے آزاد کر دیا ہے۔ اب جب کہ اپوزیشن نے بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا ہے، ایک طرح سے یہ حکومت کی مدد ہو گئی ہے۔
کچھ دوستوں کی رائے ہے کہ حکومت اور چوہدری پرویز الٰہی فکس میچ کھیل رہے تھے ۔ لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا کیونکہ حکومت چوہدری پرویز الٰہی خاندان کے خلاف کیسز کھول رہی ہے۔ چوہدری مونس الٰہی کے خلاف ایف آئی اے میں کیس کھل رہے ہیں۔
اس لیے فکس میچ تو نہیں ہوسکتا ، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس لڑائی کے نتائج حکومت کے حق میں آگئے۔ اندازہ کریں پنجاب کا بجٹ اجلاس جہاں تحریک انصاف کے تمام ارکان موجود ہیں، اسپیکر ان کے ساتھ ہے۔ حکومت کے لیے بجٹ پاس کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا اورکٹوتی کی تحاریک پیش کرنے کا بھر پور موقع ہونا تھا۔ حمزہ شہباز کے لیے ایک ایک موقع پر مشکل ہی مشکل ہوتی۔
انھیں نمبر گیم پوری رکھنے کے لیے پنجاب اسمبلی میں خود مورچہ لگانا پڑتا۔ ایک ایک ایم پی اے کی خوشنودی حاصل کرنی پڑتی۔ ہر وقت ایوان میں نمبر پورے رکھنے پڑتے۔ لیکن کھیل پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچا گیا اور حکومت نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مجھے اندازہ نہیں ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کی حکمت عملی کیا تھا اور پی ٹی آئی والے کس پلان کے ساتھ اسمبلی میں تھے لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ کسی نے بھی کوئی درمیانی راستہ اختیار نہیں کیا۔
لوگ سوال کرتے ہیں کہ پنجاب میں یہ بحرانی کیفیت کب تک جاری رہے گی۔ یہ سارا کھیل 17جو لائی کو اپنے منطقی انجام پر پہنچ جائے گا۔ پنجاب کے بیس ضمنی حلقوں میں ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔ اگر حکومت ان میں سے اکثریتی حلقے جیت جاتی ہے تو چوہدری پرویز الہیٰ اور تحریک انصاف کا کھیل ختم۔ اسی طرح اگر تحریک انصاف نے اکثریتی سیٹیں جیت لیں تو حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کا کھیل ختم ہوجائے گا۔
اس لیے پنجاب کے بیس حلقوں میں ضمنی انتخابات کے بعد ہی پنجاب میں بحران ختم ہوگا، اس سے پہلے استحکام ممکن نہیں۔آپ دیکھیں تحریک انصاف کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے پاس اکثریت ہے لیکن وہ حمزہ شہباز کے خلاف عدم اعتماد نہیں لا رہے کیونکہ ووٹ پورے نہیں ہیں۔
اسی طرح حکومت کے پاس بھی ووٹ پورے نہیں ہیں۔ اسی لیے چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہو رہی۔ دونوں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بحرانی کیفیت عارضی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کو مستقبل کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے چاہیے۔ انھیں اس محاذ آرائی کا کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے کیونکہ اس طرح کی محاذ آرائی ان کی سیاست کی پہچان نہیں ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔
پنجاب کا بجٹ پیش ہو گیا ہے، ویسے تو پنجاب میں دو بجٹ اجلاس ہوئے ہیں، ایک اسپیکر نے پنجاب اسمبلی کی بلڈنگ میں منعقد کیا، دوسرا اجلاس گورنر کی ہدایت پر ایوان اقبال میں ہوا۔ حکومت نے ایوان اقبال میں بجٹ پیش کیا جب کہ اپوزیشن نے پنجاب اسمبلی میں اجلاس کیا۔
ایک عمومی رائے یہی ہے کہ گورنر کی ہدایت پر بلایا گیا اجلاس قانونی ہے تاہم دونوں فریق اپنے اپنے اجلاس کو قانونی اور آئینی کہہ رہے ہیں۔ اب یہ تو عدالت ہی طے کر سکتی ہے کہ کس کا اجلاس قانونی ہے اور کس کا غیر قانونی ہے لیکن اپوزیشن نے تاحال عدالت جانے کا کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔
حکومت کے پاس ایوان اقبال میں بجٹ اجلاس بلانے کا ایک جواز ہے کہ اس نے دو دن تک معاملات حل کرنے کی کوشش کی لیکن جب معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے تو اس کے پاس متبادل حکمت عملی پر جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا، دو دن تک حکومت پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن اسپیکر اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ نے بجٹ پیش نہیں کرنے دیا۔
اسپیکر کی شرط تھی کہ پہلے آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری پنجاب کو ایوان میں لایا جائے، پھر بجٹ پیش ہوگا جب کہ حکومت چیف سیکریٹری اور آئی جی کو ایوان میں پیش کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ حکومت اسپیکر اسمبلی کی رولنگ پر عطاء تارڑ کو ایوان سے باہر بھیجنے کے لیے تو تیار ہو گئی لیکن حکومت کو علم تھا کہ اگر آئی جی اور چیف سیکریٹری کو ایوان میں لایا گیا تو کہیں اسپیکر ایسی رولنگ نہ دے دیں جس سے بعد میں مسائل پیدا ہو جائیں گے، اس لیے معاملات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے۔
اگر اس محاذ آرائی کا جائزہ لیا جائے تو مجھے یہ لگتا ہے کہ حکومت جیت گئی ہے اور اپوزیشن ہار گئی ہے، اگر حکومت کو پنجاب اسمبلی کی عمارت میں ہونے والے اجلاس میں بجٹ پیش کرنے دیا جاتا تو حکومت کے لیے مشکلات زیادہ تھیں کیونکہ بعد میں بجٹ پاس کرانے کے لیے ووٹ پورا کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا، ہر کٹوتی کی تحریک پر ووٹ پورے رکھنا حکومت کے لیے لازم ہوتا ہے ۔
پنجاب اسمبلی کی اس وقت عددی تقسیم ایسی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بمشکل ایک دو ووٹ کا فرق ہے۔ ایک دو ووٹ کا فرق بہت معمولی ہوتا ہے،ایسے میں ووٹنگ کے لیے ہر وقت ووٹ پورے رکھنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ لیکن جب اپوزیشن نے ایوان اقبال کے بجٹ اجلاس میں شرکت سے ہی انکار کر دیا ہے تو حکومت کو واک اوور مل گیا ہے۔ اب ووٹ پورے کرنے کا درد سر ہی ختم ہو گیا، اس لیے اگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو حکومت کا اس ساری لڑائی میں فائدہ ہو گیا ہے۔
اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کو اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ گورنر اجلاس ختم بھی کر سکتے ہیں اور نیا اجلاس بلا بھی سکتے ہیں۔ وہ پارلیمانی کھیل کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ گورنر کھیل کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔
اس سے پہلے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں جب گورنر کا عہدہ تحریک انصاف کے پاس تھا تو گورنر نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب اور بعد ازاں اس کے حلف کے لیے اس عہدہ کا بہت استعمال کیا تھا، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چوہدری پرویز الٰہی کو اندازہ نہیں تھا کہ گورنر کیا کر سکتے ہیں۔ اگر انھیں ان امور کا ادراک نہیں تھا تو یہ سیاسی اور قانونی غلطی ہی کہی جا سکتی ہے کیونکہ چوھری پرویز الٰہی نے جیتی ہوئی گیم ہار دی ہے۔ انھوں نے مشکل میں پھنسی ہوئی حکومت کو تمام مشکلات سے آزاد کر دیا ہے۔ اب جب کہ اپوزیشن نے بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا ہے، ایک طرح سے یہ حکومت کی مدد ہو گئی ہے۔
کچھ دوستوں کی رائے ہے کہ حکومت اور چوہدری پرویز الٰہی فکس میچ کھیل رہے تھے ۔ لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا کیونکہ حکومت چوہدری پرویز الٰہی خاندان کے خلاف کیسز کھول رہی ہے۔ چوہدری مونس الٰہی کے خلاف ایف آئی اے میں کیس کھل رہے ہیں۔
اس لیے فکس میچ تو نہیں ہوسکتا ، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس لڑائی کے نتائج حکومت کے حق میں آگئے۔ اندازہ کریں پنجاب کا بجٹ اجلاس جہاں تحریک انصاف کے تمام ارکان موجود ہیں، اسپیکر ان کے ساتھ ہے۔ حکومت کے لیے بجٹ پاس کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا اورکٹوتی کی تحاریک پیش کرنے کا بھر پور موقع ہونا تھا۔ حمزہ شہباز کے لیے ایک ایک موقع پر مشکل ہی مشکل ہوتی۔
انھیں نمبر گیم پوری رکھنے کے لیے پنجاب اسمبلی میں خود مورچہ لگانا پڑتا۔ ایک ایک ایم پی اے کی خوشنودی حاصل کرنی پڑتی۔ ہر وقت ایوان میں نمبر پورے رکھنے پڑتے۔ لیکن کھیل پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچا گیا اور حکومت نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مجھے اندازہ نہیں ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کی حکمت عملی کیا تھا اور پی ٹی آئی والے کس پلان کے ساتھ اسمبلی میں تھے لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ کسی نے بھی کوئی درمیانی راستہ اختیار نہیں کیا۔
لوگ سوال کرتے ہیں کہ پنجاب میں یہ بحرانی کیفیت کب تک جاری رہے گی۔ یہ سارا کھیل 17جو لائی کو اپنے منطقی انجام پر پہنچ جائے گا۔ پنجاب کے بیس ضمنی حلقوں میں ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔ اگر حکومت ان میں سے اکثریتی حلقے جیت جاتی ہے تو چوہدری پرویز الہیٰ اور تحریک انصاف کا کھیل ختم۔ اسی طرح اگر تحریک انصاف نے اکثریتی سیٹیں جیت لیں تو حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کا کھیل ختم ہوجائے گا۔
اس لیے پنجاب کے بیس حلقوں میں ضمنی انتخابات کے بعد ہی پنجاب میں بحران ختم ہوگا، اس سے پہلے استحکام ممکن نہیں۔آپ دیکھیں تحریک انصاف کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے پاس اکثریت ہے لیکن وہ حمزہ شہباز کے خلاف عدم اعتماد نہیں لا رہے کیونکہ ووٹ پورے نہیں ہیں۔
اسی طرح حکومت کے پاس بھی ووٹ پورے نہیں ہیں۔ اسی لیے چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہو رہی۔ دونوں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بحرانی کیفیت عارضی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کو مستقبل کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے چاہیے۔ انھیں اس محاذ آرائی کا کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے کیونکہ اس طرح کی محاذ آرائی ان کی سیاست کی پہچان نہیں ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔