سانحات
سانحہ مچھ، سانحہ12مئی اور دیگر کئی سانحات میں برباد ہونے والے گھرانوں کی حالت زار کی کہانی نہیں سنی
ISLAMABAD:
سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور 17جون 2014 کو رونما ہوا تھا اور اپنے ساتھ کئی داستانیں چھوڑ گیا۔ اس سانحہ میں 14افراد شہید اور 100سے زائد زخمی ہوئے تھے، اس لیے اس سانحہ کے بارے میں آپ کو سو سے زائد ایسی داستانیں سننے کو ملیں گی۔ ادھر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خلاف احتجاج کرنے والے سو سے زائد افراد کو پانچ اور سات سال تک کی سزائیں ہوئیں اور وہ جیلوں میں بند اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
جب کہ طاہر القادری صاحب سے بھی اس حوالے سے یہ شکوہ بنتا ہے کہ وہ سانحہ کو لے کر بھرپور انداز میں احتجاج کرتے نظر نہیں آرہے۔ وہ منظر عام سے غائب ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ پاکستان آئیں اور ان مظلومین کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ دنیا کو نظر آئے کہ قائد کو بھی اتنا ہی دکھ ہے جتنا لواحقین کو ہے۔
بہرحال یہ الگ بحث ہے مگر حیرت اس بات پر ہے کہ امراء اور خواص پر محض سوال پوچھنے کے لیے پولیس بلا لے تو سیاستدانوں سے لے کر انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں کے عہدیداران تک آسمان سر پھر اٹھا لیتے ہیں لیکن ان مظلوموں کی کوئی سننے کو تیار نہیں۔ اس کی مثال ڈاکٹر شیریں مزاری کی لے لیں۔
اُن کی گرفتاری پر کس طرح میڈیا چیخ اُٹھا، انسانی حقوق کا لبادہ اوڑھنے والے خواتین و حضرات نے ہاہا کار مچادی جیسے کسی مقدس ہستی کی بے حرمتی ہوگئی ہو، کسی نے شیریں مزاری اور ان کی صاحبزادی سے زمینوں کے کیس کے بارے میں سوال نہیں پوچھا اور نہ انھوں نے کوئی وضاحت دینا مناسب سمجھا۔ میڈیا کا دباؤ اتنا بڑھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے گرفتاری کا نوٹس لیا اور ہدایت جاری کی کہ ڈاکٹر صاحبہ کو فوری رہا کیا جائے،اس کے لیے رات ساڑھے گیارہ بجے عدالت لگ گئی،جنھیں طلب کیا گیا وہ سب بھی وہاں پہنچ گئے۔
ڈاکٹر صاحبہ بھی وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عدالت پہنچ گئیں اور تقریباً کوئی رات بارہ بجے ڈاکٹر شیریں مزاری کو رہائی مل گئی اور ساتھ ہی ساتھ جوڈیشل انکوائری کا بھی حکم دے دیا گیا تاکہ دیکھا جائے کہ کن حالات میں، کس قانون کے تحت اور کس بنیاد پر تحریک انصاف کی خاتون رہنما کو گرفتار کیا گیا۔ اُس وقت بھی یہ میڈیا، تحریک انصاف اور انسانی حقوق کے علم برداروں کے لیے بڑی کامیابی تھی لیکن یہ سب دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا کہ کیا جو انصاف ڈاکٹر صاحبہ کو ملا، جس طرح میڈیا نے اُن کی گرفتاری پر شور مچایا، جیسے وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس پر نوٹس لیا اور فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ ایسا رویہ ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف ہے اور پھر جیسے رات بارہ بجے ڈاکٹر صاحبہ کو رہائی ملی، کیا ایسا انصاف پاکستان کی عام عورت کو حاصل ہے؟
کیا یہ انصاف سانحہ ساہیوال، سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سانحہ سندر سمیت ہزاروں سانحات کے لواحقین کو ملا ہے؟ نا جانے کتنے معصوموں کو روزانہ کی بنیاد پر جھوٹے سچے کیسوں میں گرفتار کیا جاتا ہے، کتنے نوجوان اور لڑکیاں ظالمانہ انداز میں قتل اور اغوا ہوتے ہیں، ان مظلومین کے لیے میڈیا نے شور مچایا، کتنی بار وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نے انھیں انصاف دلانے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، کتنی بار نظام انصاف متحرک ہوا۔
بہرکیف واپس سانحہ ماڈل ٹاؤن پر آتے ہیں تو اس کیس کو بھی آج 8سال بیت گئے مگر کہیں کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے میں نہ آسکی۔ حالانکہ اس دوران بہت سوں نے اپنی سیاست چمکائی اور بہت سوں نے وقتی طور پر ان مظلومین کے سر پر ہاتھ رکھا جیسے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے بھری عدالت میں تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد کو کمٹمنٹ دی کہ آپ تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے اپنی ماں کا خواب پورا کرو انصاف آپ کو ہم دیں گے۔پھر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دھرنے کے موقعے پر ایف آئی آر کے اندراج کے ساتھ ساتھ انصاف کا یقین دلایا۔
پھر سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایک سے زائد بار وعدہ کیا کہ اقتدار میں آ کر مظلوموں کو انصاف دلوائیں گے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے وزراء اور قائدین نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر اشک شوئی کی۔ مگر نتیجہ وہی صفر بٹا صفر ہی رہا۔ لہٰذامسئلہ یہ نہیں کہ اس سانحہ کے ابھی کتنے راؤنڈز باقی ہیں اور آخری راؤنڈ کب آئے گا؟ مسئلہ یہ ہے کہ قصوروار کب سامنے آئیں گے؟ چلیں مان لیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کاانصاف کرنا اور غیرجانبدار تفتیش کرانا سابق حکمرانوں کی ذمے داری تھی کیونکہ الزام ان پر تھا، تو کیا اس کے بعد آنے والی حکومت نے کچھ نہیں کرنا تھا؟ نئے پاکستان اور ریاست مدینہ کے دعویدار بھی اپنا چورن بیچ کر چلتے بنے اور امریکی سازش کا چورن لے کر سیاست اور میڈیا کے بازار میں آگئے ہیں لیکن کسی انصافیے کے منہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤں، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سانحہ ساہیوال، سانحہ اسلام آباد، کوئٹہ میں برپا ہونے والے قیامتیں، سانحہ مچھ، سانحہ12مئی اور دیگر کئی سانحات میں برباد ہونے والے گھرانوں کی حالت زار کی کہانی نہیں سنی ۔
عمران خان ہر تقریر میں افغانستان اور قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرونز کا نشانہ بننے والوں کا بڑھے دکھ سے ذکر کرتے ہیں لیکن سانحہ اے پی ایس پشاور، سانحہ ماڈل ، سانحہ بلدیہ ٹاؤن اور دیگرسانحات ان کی نظر میں اہمیت ہی نہیں رکھتے۔ اس سے پہلے کہ عوامی عدالتیں لگیں، جس کے خدشات 90فیصد تک بڑھ چکے ہیں، ہمیں کم از کم ان سانحات کی انکوائریاں کر لینی چاہئیں ، تاکہ کوئی بڑا ''سانحہ'' نہ ہو جائے۔
پاکستان کے عوام نا انصافیوں اور ظلم کی وجہ سے نک و نک ہیں۔ عمران خان نے لوگوں کو تبدیلی کا خواب دکھایا ۔ دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگا کر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا۔ پھر نیا پاکستان کا راگ الاپا اور آخر میں ریاست مدینہ کا نام استعمال کر کے اپنی حکومت کو دوام دیتے رہے۔ پھر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کا اقتدار ختم ہو گیا۔ اس صورتحال میں انھوں نے امریکا کی سازش کا نعرہ بلند کیا ۔
اب آگے کیا ہونا ہے کسی کو پتہ نہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ عوام انتہائی مایوس اور دل گرفتہ ہے۔ اب جو لوگ حکومت میں ہیں 'وہ پہلے بھی حکومت کر چکے ہیں ' ان کے دور میں بھی پاکستان کیسا تھا 'وہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں اس لیے عوام کو ان سے بھی کوئی توقع نہیں ہے۔ نظام انصاف کے نقائص اور خامیاں بھی سب کو معلوم ہیں لیکن کوئی انھیں دور کرنے پر آمادہ نہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور 17جون 2014 کو رونما ہوا تھا اور اپنے ساتھ کئی داستانیں چھوڑ گیا۔ اس سانحہ میں 14افراد شہید اور 100سے زائد زخمی ہوئے تھے، اس لیے اس سانحہ کے بارے میں آپ کو سو سے زائد ایسی داستانیں سننے کو ملیں گی۔ ادھر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خلاف احتجاج کرنے والے سو سے زائد افراد کو پانچ اور سات سال تک کی سزائیں ہوئیں اور وہ جیلوں میں بند اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
جب کہ طاہر القادری صاحب سے بھی اس حوالے سے یہ شکوہ بنتا ہے کہ وہ سانحہ کو لے کر بھرپور انداز میں احتجاج کرتے نظر نہیں آرہے۔ وہ منظر عام سے غائب ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ پاکستان آئیں اور ان مظلومین کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ دنیا کو نظر آئے کہ قائد کو بھی اتنا ہی دکھ ہے جتنا لواحقین کو ہے۔
بہرحال یہ الگ بحث ہے مگر حیرت اس بات پر ہے کہ امراء اور خواص پر محض سوال پوچھنے کے لیے پولیس بلا لے تو سیاستدانوں سے لے کر انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں کے عہدیداران تک آسمان سر پھر اٹھا لیتے ہیں لیکن ان مظلوموں کی کوئی سننے کو تیار نہیں۔ اس کی مثال ڈاکٹر شیریں مزاری کی لے لیں۔
اُن کی گرفتاری پر کس طرح میڈیا چیخ اُٹھا، انسانی حقوق کا لبادہ اوڑھنے والے خواتین و حضرات نے ہاہا کار مچادی جیسے کسی مقدس ہستی کی بے حرمتی ہوگئی ہو، کسی نے شیریں مزاری اور ان کی صاحبزادی سے زمینوں کے کیس کے بارے میں سوال نہیں پوچھا اور نہ انھوں نے کوئی وضاحت دینا مناسب سمجھا۔ میڈیا کا دباؤ اتنا بڑھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے گرفتاری کا نوٹس لیا اور ہدایت جاری کی کہ ڈاکٹر صاحبہ کو فوری رہا کیا جائے،اس کے لیے رات ساڑھے گیارہ بجے عدالت لگ گئی،جنھیں طلب کیا گیا وہ سب بھی وہاں پہنچ گئے۔
ڈاکٹر صاحبہ بھی وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عدالت پہنچ گئیں اور تقریباً کوئی رات بارہ بجے ڈاکٹر شیریں مزاری کو رہائی مل گئی اور ساتھ ہی ساتھ جوڈیشل انکوائری کا بھی حکم دے دیا گیا تاکہ دیکھا جائے کہ کن حالات میں، کس قانون کے تحت اور کس بنیاد پر تحریک انصاف کی خاتون رہنما کو گرفتار کیا گیا۔ اُس وقت بھی یہ میڈیا، تحریک انصاف اور انسانی حقوق کے علم برداروں کے لیے بڑی کامیابی تھی لیکن یہ سب دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا کہ کیا جو انصاف ڈاکٹر صاحبہ کو ملا، جس طرح میڈیا نے اُن کی گرفتاری پر شور مچایا، جیسے وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس پر نوٹس لیا اور فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ ایسا رویہ ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف ہے اور پھر جیسے رات بارہ بجے ڈاکٹر صاحبہ کو رہائی ملی، کیا ایسا انصاف پاکستان کی عام عورت کو حاصل ہے؟
کیا یہ انصاف سانحہ ساہیوال، سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سانحہ سندر سمیت ہزاروں سانحات کے لواحقین کو ملا ہے؟ نا جانے کتنے معصوموں کو روزانہ کی بنیاد پر جھوٹے سچے کیسوں میں گرفتار کیا جاتا ہے، کتنے نوجوان اور لڑکیاں ظالمانہ انداز میں قتل اور اغوا ہوتے ہیں، ان مظلومین کے لیے میڈیا نے شور مچایا، کتنی بار وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نے انھیں انصاف دلانے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، کتنی بار نظام انصاف متحرک ہوا۔
بہرکیف واپس سانحہ ماڈل ٹاؤن پر آتے ہیں تو اس کیس کو بھی آج 8سال بیت گئے مگر کہیں کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے میں نہ آسکی۔ حالانکہ اس دوران بہت سوں نے اپنی سیاست چمکائی اور بہت سوں نے وقتی طور پر ان مظلومین کے سر پر ہاتھ رکھا جیسے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے بھری عدالت میں تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد کو کمٹمنٹ دی کہ آپ تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے اپنی ماں کا خواب پورا کرو انصاف آپ کو ہم دیں گے۔پھر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دھرنے کے موقعے پر ایف آئی آر کے اندراج کے ساتھ ساتھ انصاف کا یقین دلایا۔
پھر سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایک سے زائد بار وعدہ کیا کہ اقتدار میں آ کر مظلوموں کو انصاف دلوائیں گے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے وزراء اور قائدین نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر اشک شوئی کی۔ مگر نتیجہ وہی صفر بٹا صفر ہی رہا۔ لہٰذامسئلہ یہ نہیں کہ اس سانحہ کے ابھی کتنے راؤنڈز باقی ہیں اور آخری راؤنڈ کب آئے گا؟ مسئلہ یہ ہے کہ قصوروار کب سامنے آئیں گے؟ چلیں مان لیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کاانصاف کرنا اور غیرجانبدار تفتیش کرانا سابق حکمرانوں کی ذمے داری تھی کیونکہ الزام ان پر تھا، تو کیا اس کے بعد آنے والی حکومت نے کچھ نہیں کرنا تھا؟ نئے پاکستان اور ریاست مدینہ کے دعویدار بھی اپنا چورن بیچ کر چلتے بنے اور امریکی سازش کا چورن لے کر سیاست اور میڈیا کے بازار میں آگئے ہیں لیکن کسی انصافیے کے منہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤں، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سانحہ ساہیوال، سانحہ اسلام آباد، کوئٹہ میں برپا ہونے والے قیامتیں، سانحہ مچھ، سانحہ12مئی اور دیگر کئی سانحات میں برباد ہونے والے گھرانوں کی حالت زار کی کہانی نہیں سنی ۔
عمران خان ہر تقریر میں افغانستان اور قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرونز کا نشانہ بننے والوں کا بڑھے دکھ سے ذکر کرتے ہیں لیکن سانحہ اے پی ایس پشاور، سانحہ ماڈل ، سانحہ بلدیہ ٹاؤن اور دیگرسانحات ان کی نظر میں اہمیت ہی نہیں رکھتے۔ اس سے پہلے کہ عوامی عدالتیں لگیں، جس کے خدشات 90فیصد تک بڑھ چکے ہیں، ہمیں کم از کم ان سانحات کی انکوائریاں کر لینی چاہئیں ، تاکہ کوئی بڑا ''سانحہ'' نہ ہو جائے۔
پاکستان کے عوام نا انصافیوں اور ظلم کی وجہ سے نک و نک ہیں۔ عمران خان نے لوگوں کو تبدیلی کا خواب دکھایا ۔ دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگا کر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا۔ پھر نیا پاکستان کا راگ الاپا اور آخر میں ریاست مدینہ کا نام استعمال کر کے اپنی حکومت کو دوام دیتے رہے۔ پھر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کا اقتدار ختم ہو گیا۔ اس صورتحال میں انھوں نے امریکا کی سازش کا نعرہ بلند کیا ۔
اب آگے کیا ہونا ہے کسی کو پتہ نہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ عوام انتہائی مایوس اور دل گرفتہ ہے۔ اب جو لوگ حکومت میں ہیں 'وہ پہلے بھی حکومت کر چکے ہیں ' ان کے دور میں بھی پاکستان کیسا تھا 'وہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں اس لیے عوام کو ان سے بھی کوئی توقع نہیں ہے۔ نظام انصاف کے نقائص اور خامیاں بھی سب کو معلوم ہیں لیکن کوئی انھیں دور کرنے پر آمادہ نہیں۔