عوام کی آواز

بجٹ کے نفاذ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آئے گا

mjgoher@yahoo.com

قومی میزانیہ پیش کرنا ہر حکومت کے لیے ایک چیلنج اور کڑا امتحان ہوتا ہے۔ عوام الناس سے لے کر خواص تک ہر ایک فرد قومی میزانیے کو اپنی ضرورتوں، خواہشوں اور طلب کی عینک لگا کر دیکھتا ہے اور اس میں اپنی مرضی و منشا کے مطابق چیزیں تلاش کرتا ہے۔

قومی میزانیے میں معاشی ماہرین، مبصرین اور تجزیہ کاروں کے لیے بھی غور و فکر کا بڑا سامان ہوتا ہے۔ آمدنی و اخراجات میں توازن رکھ کر ایسا میزانیہ بنانا کہ جس کے نفاذ سے نہ صرف قومی ادارے اور عوام مطمئن ہوں بلکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے بالخصوص آئی ایم ایف کہ جن کے قرضوں کے طفیل قومی معیشت کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے کو بھی اطمینان دلانا برسر اقتدار حکومت کی معاشی ٹیم کے لیے ایک درد سر ہوتا ہے۔

بجا کہ سرکاری ملازمین سے لے کر عام مزدور تک، طالب علم سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک، چھوٹے دکانداروں سے لے کر بڑے تاجروں تک، ریاستی اداروں سے لے کر عام صنعتوں اور زراعتی شعبے تک اور معاشی استحکام سے لے کر سماجی و معاشرتی ضرورتوں تک غرض ہر شعبہ ہائے زندگی کے حوالے سے قومی میزانیے میں کچھ نہ کچھ ''اچھا '' یا ''برا '' ضرور موجود ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قومی میزانیہ اعداد و شمار کا ایسا گورکھ دھندا ہوتا ہے جسے سمجھنا اور سمجھانا بجائے خود ایک کار محال ہے۔

یہ بالکل ایک طے شدہ بات ہے کہ جب بھی کوئی حکومت قومی میزانیہ پیش کرتی ہے تو اس کے وزیر، مشیر اور ترجمان قومی میزانیے کے دفاع میں رطب اللسان نظر آتا ہے۔ قومی میزانیے کی تعریف میں حکومتی زعما زمین و آسمان کے قلابے ایسے ملا رہے ہوتے ہیں کہ جیسے ملک کی 72 سالہ تاریخ میں ایسا '' سنہری بجٹ '' پہلی مرتبہ پیش کیا گیا ہے جس کے نافذ العمل ہونے سے ملک کے طول و ارض میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی، فاقہ مستوں کے دن پھر جائیں گے، غربت کا کوئی نام لیوا نہ ہوگا، بے روزگاروں کے پیچھے نوکریوں کی قطاریں لگی ہوں گی، مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو جائے گا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے ان کی زندگیوں میں ایسی تبدیلی و خوش حالی آئے گی جو حاشیہ خیال بھی نہیں اور یہ ملک خداداد قومی میزانیے کی برکت سے خوش حالی و ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا۔

بعینہ اپوزیشن جماعتوں اور مخالف حلقوں کا قومی میزانیے پر تنقید کرنا اور حکومت پر تبرے بھیجنا ان کی سیاست کا جزلاینفک ہے۔ ان کا یہ واویلا ہوتا ہے کہ بجٹ عوام دشمن ہے، ٹیکسوں کی بھر مار ہے، غریب آدمی کے لیے اس میزانیے میں کچھ نہیں بلکہ اس پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے، بجٹ کے نفاذ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آئے گا، غربت اور بے روزگاروں میں اضافہ ہوگا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے اور حکومت کا یہ بجٹ ملک کو مزید معاشی مسائل سے دوچار کردے گا وغیرہ وغیرہ۔


اس پس منظر میں آپ شہباز حکومت کے پہلے بجٹ کو دیکھ لیجیے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے لیے جو بجٹ پیش کیا ہے اس کا مجموعی حجم 9502 ارب ہے جس میں 3798 ارب کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جب کہ انکم ٹیکس کی چھوٹ کی حد 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کردی گئی ہے۔ موبائل فونز اور بڑی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے اور زرعی آلات، بیجوں، سولر پینل اور اہم ادویات پر ٹیکس ختم کردیا گیا ہے، قومی بجٹ اسکیموں پر ٹیکس کی شرح نصف کردی گئی ہے، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے بالترتیب 109 ارب اور 24 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد میں 364 ارب روپے رکھے گئے ہیں اور نوجوانوں کو 5 لاکھ تک بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا دعویٰ ہے کہ ملکی برآمدات کو 35 ارب ڈالر مل جائیں گے اور آیندہ مالی سال میں تاریخ رقم کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ درپیش سنگین بین الاقوامی اور ملکی حالات میں متوازن بجٹ پیش کیا ہے۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ موجودہ بجٹ کے حوالے سے آئی ایم ایف ہم سے خوش نہیں ہے، حکومت کو مزید مشکل ترین فیصلے کرنے پڑیں گے اور ملک کو انتظامی طور پر ٹھیک کرنا پڑے گا۔

وزیر اعظم شہباز شریف بھی حسب روایت اپنی حکومت کے بجٹ کی تعریف پر مجبور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا بجٹ پی ٹی آئی سے بہتر ہے، ہم نے کمزور طبقات کو سبسڈی دی ہے، جب کہ ملک کی واحد اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے شہباز حکومت کے بجٹ کو تاریخی خسارے والا بجٹ قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ حکومت نے مہنگائی کا طوفان برپا کردیا ہے اور بجٹ مین نئے ٹیکسز کی خوش خبری آئی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ موجودہ بجٹ کے بعد شہباز حکومت ڈیڑھ ماہ میں رخصت ہو جائے گی۔

آئی ایم ایف موجودہ حکومت کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ بعض مبصرین و تجزیہ نگاروں نے سخت چیلنجز اور مشکلات میں پیش کیا گیا متوازن بجٹ قرار دیا ہے تو بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ کی تیاری میں معاشی ٹیم نے جو غلطیاں کی ہیں وہ آئی ایم ایف پروگرام میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔

یہ بات طے ہے کہ ہماری معیشت آئی ایم ایف کے شکنجے میں پوری طرح جکڑی جا چکی ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مانے بغیر قرض کا حصول ممکن نہیں، سخت اقدامات سے عوام پر پڑنے والے بوجھ سے حکومت تنقید کی زد میں آتی ہے اور عوام ناخوش بھی ہوتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی کے مکمل خاتمے اور لیوی کے نفاذ کی جو خبر سنائی ہے اس کے نتیجے میں پٹرول و ڈیزل مزید مہنگا ہوگا، بجلی و گیس کی قیمتیں بھی بڑھیں گی اور مہنگائی کا ایک خوفناک سیلاب غریب اور عام آدمی، جو پہلے ہی گرانی کے عذاب میں مبتلا ہے کے ارمانوں کو بہا کر لے جائے گا۔ عوام کو نہ آئی ایم ایف سے غرض ہے نہ قرضوں کے حصول سے، نہ سرکاری افسران کے پٹرول کوٹے میں '' نمایشی کٹوتی'' سے اور نہ ہی کفایت شعاری کے فرضی حکومتی اعلانات سے۔ عوام کو سستا آٹا، چاول، چینی، دالیں، گھی، سبزی، گوشت اور دیگر اشیا ضرورت کی طلب ہے۔ پٹرول ، ڈیزل ، بجلی اور گیس کی کم ترین نرخوں میں فراہمی کی حاجت ہے، حکمرانوں نے عوام کی آواز نہ سنی تو پھر عوام بھی ان کی ایک نہ سنیں گے۔ عوام کی نفرت اور غصہ حاکموں کے محلات سے ٹکرا کے انھیں زمیں بوس کردے گا۔
Load Next Story