جنہوں نے اپنی جانیں وار دیں

پولیو کی تاریکی میں 10 خواتین نے اپنا لہو جلایا

پولیو کی تاریکی میں 10 خواتین نے اپنا لہو جلایا۔

خواتین آج جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں، وہیں طب کا شعبہ بھی ان کی خدمات سے خالی نہیں، بلکہ یہ ایسا شعبہ ہے، جو ان کے بغیر گویا نامکمل سا ہے۔

اسی سے جڑی انسداد پولیو مہم ہے، جو کہ دہشت گرد حملوں کی زد میں ہے۔ یہ وہ مہم ہے جس میں بہت سی خواتین اپنی جان داؤ پر لگا کر حصہ لیتی ہیں، تاکہ ذہنی معذور سماج کو جسمانی معذوری سے بچایا جا سکے۔

مردوں کے ساتھ خواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد پولیو مہم کا حصہ بنتی ہے۔ دہشت گردی کے باوجود خواتین کی اس مہم میں شرکت بلاشبہ ان کے بلند عزم و حوصلوں کی دلیل ہے۔ معاشرے کو یقیناً ایسی خواتین کا احسان مند ہونا چاہیے، جو اتنے خطرات کے باوجود اپنی جان کی پروا کیے بغیر اس جدوجہد میں شامل ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان میں پولیو کی صورت حال بہتر نہیں ہے۔ 2013ء میں پوری دنیا میں 369 پولیو کیسز درج ہوئے، جس میں سے 83 پاکستان کے ہیں، جب کہ افغانستان جیسے ملک میں بھی محض 11 کیسز سامنے آئے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہندوستان میں گزشتہ تین سالوں سے کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔

پاکستان کے علاوہ نائجیریا اور افغانستان بھی ابھی تک پولیو سے نبرد آزما ہیں، لیکن ان کے ہاں پولیو کیسز میں کمی، جب کہ ہمارے ہاں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورت حال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں پولیو مہم کس قدر ضروری ہے اور اس مہم کے لیے خواتین رضاکار محض 250 روپے یومیہ کے عوض جان ہتھیلی پر رکھی مصروف عمل ہیں۔ انہیں اس کے بدلے سماج کی نفرت وحقارت کے سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن ایک ماں اپنے بچے کی بھوک مٹانے کے لیے اور ایک بہن اپنے چھوٹے بہن، بھائی کو اسکول کا بستہ دلانے کے لیے اس پر بھی آمادہ ہو جاتی ہے، اور دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی زندگی گنوا بیٹھتی ہے۔

پاکستان میں باقاعدہ حکومتی سطح پر انسداد پولیو مہم کا آغاز 1993 میں ہوا۔ 1999ء کے بعد گھر گھر پولیو مہم شروع ہوئی، جس کے مفید اثرات سامنے آئے۔ بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے سے یہ مہم شدید خطرات کا شکار ہے۔ پولیو رضاکاروں پر حملوں کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے، جس میں خواتین رضا کار بھی نشانہ بن رہی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2012ء کے وسط سے اب تک پولیو رضا کاروں پر حملوں میں 32 افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں 10 خواتین سمیت 22 پولیو رضاکار، جب کہ 10 پولیس اہلکار ہیں۔

انسداد پولیو ٹیم پر 17 جولائی 2012ء کو ہونے والے حملے میں پولیو ٹیم کے غیر ملکی رضا کار بھی زخمی ہوئے۔ 18 جولائی 2012ء کو گڈاپ ٹاؤن، کراچی میں ایک پولیو رضاکار اسحاق جاں بحق ہوا۔ 16 اکتوبر 2012ء میں کوئٹہ میں ایک پولیو ورکر مارا گیا۔




18 دسمبر 2012ء کا دن پولیو رضاکاروں کے لیے انتہائی اندوہناک ثابت ہوا، کیوں کہ اس ایک دن میں 5 خواتین رضاکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ فہمیدہ، کنیز، نسیم، مدیحہ کو لانڈھی، بلدیہ اور کورنگی کراچی میں جب کہ پشاور میں فرزانہ جاں بحق ہوئیں۔

19 دسمبر 2012ء بھی خیبر پختونخوا کے پولیو رضاکاروں کے لیے ایک خونی دن ثابت ہوا، جس میں ایک ورکر ہلال خان پشاور جب کہ شبقدر میں انسداد پولیو مہم کی لیڈی سپروائزر ذکیہ جہانزیب اور ان کے ڈرائیور اپنی جان سے گئے۔ 28 مئی 2013ء کو پشاور میں دو لیڈی پولیو ورکرز شرافت اور سنبل گل جاں بحق ہوئیں۔

رواں سال 21 جنوری کو قیوم آباد کے علاقے میں پولیو ٹیم پر حملے کے نتیجے میں تین پولیو ورکرز انیتا، اکبری خاتون اور فہد جاں بحق ہوئے، جب کہ مانسہرہ میں بھی حملے کے نتیجے میں ایک رضاکار جان سے گیا۔

المیہ یہ ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کو معذوری سے بچانے کے لیے اپنی جانیں دینے والی ان خواتین رضا کاروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سرکاری طور پر انہیں اس خدمت کے عوض نہایت قلیل معاوضہ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اکثر یہ اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر آنے پر مجبور رہتی ہیں۔

اس صورت حال کے تدارک کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کے مسائل حل کرے۔ مناسب اور بروقت معاوضے کے ساتھ خدانخواستہ کسی حادثے کی صورت میں انہیں اور ان کے اہل خانہ کو حکومتی سرپرستی کی ضمانت بھی دی جائے، تاکہ اس اہم ترین شعبے میں جدوجہد کرنے والی خواتین کا جانیں محفوظ رہیں اور حقیقی معنوں میں ان کی خدمات کا اعتراف ہو سکے۔

دوسری طرف پولیو مہم کے حوالے سے ہمارے ہاں پائے جانے والے غلط تصورات کی بیخ کنی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے روز اول سے ہی رائے عامہ اس مہم کے حوالے سے طرح طرح کے شکوک وشبہات کا شکار رہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مہم کے خلاف پروپیگنڈے میں شدت آئی اور ان پر حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہوتا چلا گیا۔ اس لیے انسداد پولیو مہم کے ساتھ اس مہم کے حق میں بھی رائے سازی کی اشد ضرورت ہے، تاکہ دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ ہم وار رہے۔ اس مقصد کے لیے علما اور مختلف رائے ساز شخصیات کا تعاون حاصل کیا جائے۔

اس عالمی یوم خواتین پر ہم پولیو جیسے مرض کی تاریکی میں اپنے لہو کا اجالا بکھیرنے والی ان خواتین رضا کاروں کو نہیں بھول سکتے۔ یہ دن جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں جدوجہد کرنے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے کا ہے، وہیں ان مظلوم خواتین کو بھی یاد رکھنے کا ہے، جنہوں نے ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے خود کو واردیا۔
Load Next Story