قوم شہباز حکومت کو یاد رکھے گی
دنیا شہباز شریف کو پہلے ایک اچھے منتظم کے طور پر یاد رکھتی تھی، اب ایک ’’ظالم حکمران‘‘ کے طور پر یاد رکھے گی
''یہ ہمیں روزگار دیا ہے شہباز شریف نے۔ 235 روپے میں پٹرول۔ آج گاڑیاں جل رہی ہیں، کل ریلوے بند کریں گے۔ اپنے بچے لے کر آئیں گے۔ ہم کہاں سے کھائیں؟ بھیک مانگیں؟ یہ ہمارے بچوں کی روزی ہے جو سڑک پر لے آئی۔ ہم نے تمھیں اس لیے منتخب کیا تھا''۔
یہ الفاظ ایک رکشہ ڈرائیور کے ہیں جس نے پٹرول مہنگا ہونے پر اپنے رکشے کو آگ لگادی۔ عقب میں صرف ایک نہیں کئی رکشے جل رہے تھے۔ ایسے الفاظ ملک کے طول و عرض سے سننے کو مل رہے ہیں، سوشل میڈیا پر طوفان مچا ہے۔ اچھے بھلے لوگ گاڑیاں، موٹرسائیکلیں گھروں میں کھڑی کرکے پیدل اور پبلک بسوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔
یہ تو ابتدائے عشق ہے، ''آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا'' کے مصداق مخلوط حکومت ''شہباز اسپیڈ '' سے چل رہی ہے۔ جو حکومت مہنگائی ختم کرنے آئی تھی وہ تیزی سے پٹرول، ڈیزل بم گرا رہی ہے۔ غریبوں کو مہنگی بجلی کے جھٹکے دے رہی ہے۔ مہنگی گیس سے گھر جلا رہی ہے۔ ریلیف کے نام پر عوام کو تکلیف دے رہی ہے۔ مہنگائی، مہنگائی اور صرف مہنگائی کی ہر طرف چیخ و پکار ہے۔ صرف 18 دنوں میں پٹرول 84، ڈیزل تقریباً ایک سو روپے لیٹر تک مہنگا کردیا گیا۔ عالمی ادارے پاکستان کی مزید معاشی بدحالی کا پتا دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف حال میں پیش کیا گیا بجٹ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ شہباز حکومت کا چند روز پرانا بجٹ بن کھلے مرجھا گیا۔ مہنگائی کا صرف ٹریلر چلا ہے اب پوری فلم چلے گی۔ قوم شہباز حکومت کو یاد رکھے گی۔
قومی اسمبلی میں جو بجٹ پیش کیا گیا اس پر پاکستان اور آئی ایم ایف میں اتفاق نہیں تھا۔ ایک تجویز سامنے آئی تھی کہ بجٹ ملتوی کردیا جائے۔ بجٹ اجلاس کا اعلان کردیا گیا تھا کہ بجٹ اجلاس ہوا۔ بجٹ بک پر واضح لکھا ہے کہ یہ ضمنی بجٹ ہے۔ حکومتی وزرا قوم کو بجلی، گیس، تیل کی قیمتوں میں اضافے کےلیے ایک عرصے سے تیار کررہے تھے، اسی لیے روز بیانات دیے جارہے تھے۔ جب لوگ سو گئے تو رات کے اندھیرے میں پٹرول بم چلا دیا۔ ان کا خیال تھا کہ 60 روپے پٹرول، ڈیزل مہنگا کرنے سے حالات سنبھل جائیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مزید اضافہ کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔ حکومت کو ابھی تک کسی ملک سے کچھ نہیں ملا، آئی ایم ایف سے بھی اب تک اچھے کی امید نہیں۔
حکومت کہتی ہے کہ ہمیں سابق حکومت کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے، عمران حکومت کے کیے گئے معاہدے ہمارے گلے پڑ رہے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔ اگر الزام ٹھیک بھی مان لیا جائے تو ان کی قابلیت پر سوالیہ نشان اٹھ جاتا ہے جو عمران خان کو نالائقی کا طعنہ دیتے تھے۔
میرے خیال میں اس حکومت کے ساتھ دو ایسے کام ہوئے جن کی امید نہیں تھی یا جن کےلیے یہ تیار نہیں تھے۔ ایک تو وہ معاشی بارودی سرنگیں تھیں جو پی ٹی آئی نے ان کےلیے بچھائیں۔ دوسرا ان کا خیال تھا کہ عمران حکومت جاتے ہی ان کو عالمی سپورٹ مل جائے گی۔ آئی ایم ایف تو دور کی بات چین بھی ان کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں ہوا۔ پاکستان کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ حکومت ایک ایسی جگہ پہنچ چکی ہے جہاں سے تین ماہ تک کوئی آسانی نظر نہیں آتی۔ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ آئی ایم ایف جانتا ہے کہ اس وقت وہ جو چاہے پاکستان سے منوا لے گا۔ بجٹ پر نظر ثانی کی جائے گی، تنخواہوں میں اضافہ واپس لیا جاسکتا ہے۔
اگر حکومتی منطق کو مان بھی لیا جائے تو ان کو بجٹ میں عوام کےلیے جو اقدامات کرنے تھے وہ نہیں کیے۔ اگر یہ سنجیدہ ہوتے تو بجٹ میں کافی وسائل مہیا ہوسکتے تھے۔ حکومت نے عوام کو اپنی ترجیح میں نہیں رکھا۔ حکومت نے ترقیاتی بجٹ دے کر ٹھیکیداروں کو نوازا، ملٹری اور سول بیوروکریسی کےلیے بھی پیسے رکھے۔ فلم اور اداکاروں پر خرچ کرنے کےلیے بھی ان کو پیسے مل گئے۔ اگر یہ چاہتے تو عوام کےلیے سبسڈی جاری رکھ کر ریلیف دے سکتے تھے۔
ن لیگ نے اپنے بزنس مین ووٹ بینک کو محفوظ بنایا ہے اور کسانوں کو پاؤں تلے روند دیا ہے۔ تنخواہ دار اور سفید پوش طبقے کی کمر توڑ دی ہے۔
حکومت کےلیے اس وقت آگے کنواں، پیچھے کھائی والی صورتحال ہے۔ مہنگائی پر مہنگائی کرتی ہے تو عوام کا غیظ و غضب برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا نہیں کرتی تو ملکی معیشت ڈوبنے کا خطرہ ہے۔ دنیا شہباز شریف کو پہلے ایک اچھے منتظم کے طور پر یاد رکھتی تھی، اب ایک ''ظالم حکمران'' کے طور پر یاد رکھے گی۔ دونوں صورتوں میں ان کی تاریخ بن رہی ہے، جس کا وہ شوق رکھتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ الفاظ ایک رکشہ ڈرائیور کے ہیں جس نے پٹرول مہنگا ہونے پر اپنے رکشے کو آگ لگادی۔ عقب میں صرف ایک نہیں کئی رکشے جل رہے تھے۔ ایسے الفاظ ملک کے طول و عرض سے سننے کو مل رہے ہیں، سوشل میڈیا پر طوفان مچا ہے۔ اچھے بھلے لوگ گاڑیاں، موٹرسائیکلیں گھروں میں کھڑی کرکے پیدل اور پبلک بسوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔
یہ تو ابتدائے عشق ہے، ''آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا'' کے مصداق مخلوط حکومت ''شہباز اسپیڈ '' سے چل رہی ہے۔ جو حکومت مہنگائی ختم کرنے آئی تھی وہ تیزی سے پٹرول، ڈیزل بم گرا رہی ہے۔ غریبوں کو مہنگی بجلی کے جھٹکے دے رہی ہے۔ مہنگی گیس سے گھر جلا رہی ہے۔ ریلیف کے نام پر عوام کو تکلیف دے رہی ہے۔ مہنگائی، مہنگائی اور صرف مہنگائی کی ہر طرف چیخ و پکار ہے۔ صرف 18 دنوں میں پٹرول 84، ڈیزل تقریباً ایک سو روپے لیٹر تک مہنگا کردیا گیا۔ عالمی ادارے پاکستان کی مزید معاشی بدحالی کا پتا دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف حال میں پیش کیا گیا بجٹ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ شہباز حکومت کا چند روز پرانا بجٹ بن کھلے مرجھا گیا۔ مہنگائی کا صرف ٹریلر چلا ہے اب پوری فلم چلے گی۔ قوم شہباز حکومت کو یاد رکھے گی۔
قومی اسمبلی میں جو بجٹ پیش کیا گیا اس پر پاکستان اور آئی ایم ایف میں اتفاق نہیں تھا۔ ایک تجویز سامنے آئی تھی کہ بجٹ ملتوی کردیا جائے۔ بجٹ اجلاس کا اعلان کردیا گیا تھا کہ بجٹ اجلاس ہوا۔ بجٹ بک پر واضح لکھا ہے کہ یہ ضمنی بجٹ ہے۔ حکومتی وزرا قوم کو بجلی، گیس، تیل کی قیمتوں میں اضافے کےلیے ایک عرصے سے تیار کررہے تھے، اسی لیے روز بیانات دیے جارہے تھے۔ جب لوگ سو گئے تو رات کے اندھیرے میں پٹرول بم چلا دیا۔ ان کا خیال تھا کہ 60 روپے پٹرول، ڈیزل مہنگا کرنے سے حالات سنبھل جائیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مزید اضافہ کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔ حکومت کو ابھی تک کسی ملک سے کچھ نہیں ملا، آئی ایم ایف سے بھی اب تک اچھے کی امید نہیں۔
حکومت کہتی ہے کہ ہمیں سابق حکومت کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے، عمران حکومت کے کیے گئے معاہدے ہمارے گلے پڑ رہے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔ اگر الزام ٹھیک بھی مان لیا جائے تو ان کی قابلیت پر سوالیہ نشان اٹھ جاتا ہے جو عمران خان کو نالائقی کا طعنہ دیتے تھے۔
میرے خیال میں اس حکومت کے ساتھ دو ایسے کام ہوئے جن کی امید نہیں تھی یا جن کےلیے یہ تیار نہیں تھے۔ ایک تو وہ معاشی بارودی سرنگیں تھیں جو پی ٹی آئی نے ان کےلیے بچھائیں۔ دوسرا ان کا خیال تھا کہ عمران حکومت جاتے ہی ان کو عالمی سپورٹ مل جائے گی۔ آئی ایم ایف تو دور کی بات چین بھی ان کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں ہوا۔ پاکستان کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ حکومت ایک ایسی جگہ پہنچ چکی ہے جہاں سے تین ماہ تک کوئی آسانی نظر نہیں آتی۔ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ آئی ایم ایف جانتا ہے کہ اس وقت وہ جو چاہے پاکستان سے منوا لے گا۔ بجٹ پر نظر ثانی کی جائے گی، تنخواہوں میں اضافہ واپس لیا جاسکتا ہے۔
اگر حکومتی منطق کو مان بھی لیا جائے تو ان کو بجٹ میں عوام کےلیے جو اقدامات کرنے تھے وہ نہیں کیے۔ اگر یہ سنجیدہ ہوتے تو بجٹ میں کافی وسائل مہیا ہوسکتے تھے۔ حکومت نے عوام کو اپنی ترجیح میں نہیں رکھا۔ حکومت نے ترقیاتی بجٹ دے کر ٹھیکیداروں کو نوازا، ملٹری اور سول بیوروکریسی کےلیے بھی پیسے رکھے۔ فلم اور اداکاروں پر خرچ کرنے کےلیے بھی ان کو پیسے مل گئے۔ اگر یہ چاہتے تو عوام کےلیے سبسڈی جاری رکھ کر ریلیف دے سکتے تھے۔
ن لیگ نے اپنے بزنس مین ووٹ بینک کو محفوظ بنایا ہے اور کسانوں کو پاؤں تلے روند دیا ہے۔ تنخواہ دار اور سفید پوش طبقے کی کمر توڑ دی ہے۔
حکومت کےلیے اس وقت آگے کنواں، پیچھے کھائی والی صورتحال ہے۔ مہنگائی پر مہنگائی کرتی ہے تو عوام کا غیظ و غضب برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا نہیں کرتی تو ملکی معیشت ڈوبنے کا خطرہ ہے۔ دنیا شہباز شریف کو پہلے ایک اچھے منتظم کے طور پر یاد رکھتی تھی، اب ایک ''ظالم حکمران'' کے طور پر یاد رکھے گی۔ دونوں صورتوں میں ان کی تاریخ بن رہی ہے، جس کا وہ شوق رکھتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔