چوہے بھگانے کا شکریہ

’’چوہے بھگانے پر آسٹریلیا نے پی سی بی کا شکریہ ادا کر دیا‘‘ واہ کیا بات ہے


Saleem Khaliq June 17, 2022
[email protected]

جس طرح آپ یہ ہیڈنگ پڑھ کر چونکے قسم سے میں بھی سن کر ہکابکا رہ گیا تھا، جب میں نے یہ جملہ پڑھا تو قہقہہ لگاتے ہوئے اپنے دوست سے فون پر کہا یار آسٹریلوی ٹیم کو تو بخش دو، یہ سن کر اس نے مجھے وہ ای میل ہی بھیج دی جو میڈیا منیجر برائن نے پی سی بی کو ارسال کی تھی، دراصل اس میں تو بے تحاشا تعریفیں تھیں، انتظامات کو سراہا گیا تھا، بار بی کیو پر شکریہ ادا کیا گیا، بس درمیان میں کہیں یہ بھی لکھ دیا کہ ٹیم ہوٹل میں چوہے دیکھ کر کھلاڑی و آفیشلز گھبرا گئے تھے، پاکستان نے اس مسئلے کو بھی حل کرا دیا، اس پر شکریہ۔

کرکٹ بورڈ نے یہ ای میل بعض دوستوں کو بھیج دی تاکہ تعریفیں سمیٹی جا سکیں مگر معاملہ الٹا پڑ گیا اور چوہوں کا ذکر ہی میڈیا پر زیادہ ہوتا رہا، اس سے بہتر یہ رہتا کہ ایک میڈیا ریلیز جاری کرتے جس میں انتظامات کی تعریفوں وغیرہ کا ہی ذکر ہوتا مگر شاید وہ خبر ٹی وی چینلز پر نہ چلتی، اب تو سب اس پر خوب ہنس ہی رہے ہیں، چلیں اس سے پیٹرول کی قیمتوں کے مسلسل بڑھنے سے افسردہ عوام کو کچھ تو موڈ بہتر کرنے کا موقع ملا، جہاں تک آسٹریلوی ٹیم کی بات ہے پاکستان نے انھیں یہاں شہزادوں کی طرح رکھا تھا، تعریف تو بنتی ہی ہے، میں تو ہمیشہ سے یہی دیکھ رہا ہوں کہ یہاں زمبابوے کی ٹیم بھی آ جائے تو ہم اس کی خوب آو بھگت کرتے ہیں، مہمان نوازی ہمارے کلچر کا حصہ ہے، البتہ اپنی کامیابیوں کو کیش کرانا بھی آنا چاہیے، دنیا کو بتائیں کہ ہم کتنے اچھے انداز میں غیرملکی ٹیموں کا خیال رکھتے ہیں، مثبت باتوں پر توجہ دیں، انا کو پس پشت رکھتے ہوئے فیصلے کریں، میں ابھی پڑھ رہا تھا کہ آئی پی ایل کے نشریاتی حقوق 48 ہزار کروڑ روپے میں فروخت ہوئے جس سے فرنچائزز کا منافع بھی دگنا ہو جائے گا اور وہ بیحد خوش ہیں، دوسری جانب پی ایس ایل فرنچائزز اور پی سی بی میں ہر چند روز بعد کوئی اختلاف ہی سامنے آ جاتا ہے، جیسے اب کوڈ آف کنڈکٹ پر تنازع کی وجہ سے گورننگ کونسل کا اجلاس بھی نہیں ہو پا رہا، ماضی میں بڑے بڑے بادشاہوں اور دیگر حکمرانوں نے سب کچھ اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے، آج ایسے لوگوں کا کوئی نام لینے والا موجود نہیں ہے۔

پی سی بی کی بھی یہ خامی ہے کہ وہ سب کچھ اپنے بس میں کرنا چاہتا ہے، وہ کہیں دن ہے تو دن ہے، وہ کہیں رات ہے تو رات ہے، ایسا نہیں ہوتا بھائی، شیر کی طرح دھاڑنے والے کئی سابق کرکٹرز ملازمت ملنے پر اب بالکل سیدھے ہو گئے ہیں، بڑے سے بڑا مسئلہ ہو جائے تو بھی خاموش رہتے ہیں، میڈیا کے دوست بھی نجانے کس بات سے ڈرتے ہیں، موجودہ کرکٹرز سینٹرل کنٹریکٹ کی کتاب میں صرف یہ پڑھتے ہیں کہ پیسے کتنے بڑھے، البتہ زبانی طور پر انھیں بتا دیا جاتا ہے کہ بس اب تم ہمارے غلام ہو جو ہم کہیں وہی بولنا، ایسا کہاں ہوتا ہے بھائی، مجھے یاد رہے اعجاز بٹ کے دور میں کپتان کو تو انٹرویو کے لیے کسی سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہ ہوتی تھی، اب تو ڈومیسٹک کرکٹرز کی آزادی بھی چند لاکھ روپے دے کر سلب کر لی گئی ہے، کئی سابق کرکٹرز کی مالی حالت اچھی نہیں، وہ بیچارے پینشن کی وجہ سے اظہار خیال کرنے سے محتاط رہتے ہیں، جو سابق کھلاڑی کھل کر بولتے ہیں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، ایسے ہی ایک صاحب نے گذشتہ دنوں بعض سچی باتیں کیں جو ارباب اختیار کو گراں گذریں، کارروائی کا حکم صادر ہوا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ کسی فرنچائز آفیشل پر جرمانے یا پابندی کا تو بورڈ کو اختیار ہی نہیں ہے، اس پر نیا ضابطہ اخلاق بنانے کا فیصلہ ہوا جسے بادل ناخواستہ فرنچائزز کو قبول کرنا ہی ہوگا۔

دلچسپ بات تب سامنے آئے گی جب وسیم اکرم جیسے کسی کرکٹر نے کوئی سخت بات کی تب دیکھیں گے کہ ان کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے، بھارت اپنی لیگ میں دنیا بھر کے بڑے بڑے کرکٹرز لے آیا، اربوں کھربوں روپے کما رہا ہے، یہاں ہم اس بات پر منہ بنائے بیٹھے ہیں کہ فلاں نے ایسا بیان کیوں دیا، بھائیوں انا کو پست پشت رکھیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہی توجہ دیتے رہیں گے تو آگے نہیں بڑھ سکتے، آپ کو اس وقت شور مچانا چاہیے تھا جب آئی سی سی نے آئی پی ایل کےلیے فیوچر ٹور پروگرام میں ڈھائی ماہ مختص کرنے پر اتفاق کر لیا، بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ اس کا اعلان کر چکے، تصدیق بھی جلد ہو جائے گی، پاکستانی کھلاڑیوں کے سوا تقریبا سب ہی بھارتی لیگ میں کھیلتے ہیں، یعنی اب ڈھائی ماہ ہمارے کرکٹرز فارغ رہیں گے، اس کا کچھ سوچا تھا یا فرنچائزز سے بدلہ لینے کی تدبیروں پر ہی غور ہوتا رہا، آسٹریلیا سے مٹی منگوا رہے ہیں، ماہر آ رہا ہے، اب یہ باتیں ہونے لگیں، پہلے ڈراپ ان پچز کا شوشہ چھوڑا گیا، ہم تو بچپن سے یہی سن رہے ہیں کہ پاکستان سے مٹی باہر جاتی ہے، آپ آسٹریلیا سے مٹی تو لے آئیں گے وہاں کا موسم یہاں کیسے آئے گا، اگر صرف مٹی سے من پسند پچز بنتیں تو کیا بات تھی، ہمیں کرکٹ کو فروغ دینے کے لیے اصل معاملات پر توجہ دینا ہوگی،۔

تعریفیں سنتے سنتے ہمیں سب اچھا لگنے لگتا ہے، اس سے اپنی خامیاں بھی نظر نہیں آتیں، آپ سب کو اسپیس دیں، کام کرنے سے نہ روکیں، اگر کوئی تنقید بھی کر رہا ہے تو اس کی آپ سے کوئی دشمنی یا ذاتی مفاد تو نہیں ہے، وہ بھی کرکٹ کی بہتری چاہتا ہے، پی ایس ایل فرنچائز مالکان اس وقت سامنے آئے جب کوئی اس منصوبے پر پیسہ لگانے کو تیار نہ تھا، آپ ان کو بھی اپنے ملازمین کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں، ایسا نہیں چلے گا، رویہ بہتر بنائیں ورنہ آگے اور مسائل ہوں گے، اگر صرف تعریفیں ہی سننی ہیں تو ٹھیک ہے بھائی ''چوہے بھگانے پر آسٹریلیا نے پی سی بی کا شکریہ ادا کر دیا'' واہ کیا بات ہے، اب تو خوش ہیں ناں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں