تیمور کے گھر والی حمیت اور امریکا
مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ تیمور کے گھر سے نکل آنے کے بعد حمیت کوئی مناسب ٹھکانہ اب تک نہیں ڈھونڈ سکی ہے
ہمارے شاعرِ مشرق نے عرصہ ہوا یہ طے کردیا تھا کہ ''حمیت'' تیمور کے گھر سے رخصت ہو چکی ہے۔ وہاں سے نکل کر کہاں جا بسی؟ اس بات کا تعین البتہ وہ کبھی نہ کر پائے۔ مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ تیمور کے گھر سے نکل آنے کے بعد حمیت کوئی مناسب ٹھکانہ اب تک نہیں ڈھونڈ سکی ہے۔ بے چین روح کی مانند دُنیا بھر میں بھٹکتی رہتی ہے۔ ہماری ''خود مختار سرزمین'' پر جب کبھی ڈرون طیاروں کے ذریعے امریکی میزائل گرائے جائیں تو بے تحاشہ دلوں میں یہی حمیت اپنا ٹھکانہ پاتی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے اُکسانے پر ہم پہلے ریاستی سطح پر اور حالیہ چند دن قبل تک عمران خان کے تبدیلی رضا کاروں کے ذریعے افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کو جانے والی سپلائی روک دیتے ہیں۔ جنرل کیانی کے ایماء پر آصف علی زرداری نے یہ سپلائی 7 ماہ تک روکے رکھی اور نتیجاََ اپنے ہی ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ غضب ناک حد تک بڑھا دی۔ انھیں یہ بات دریافت کرنے میں بہت دیر لگی کہ حمیت کی خاطر بھگتے جانے والی یہ لوڈشیڈنگ مئی2013ء کے انتخابات کے دوران ان کی جماعت کی جانب سے کھڑے امیدواروں کو بدترین شکست سے دوچار کر دے گی۔ بالآخر اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب کو انھوں نے حمیت سے جان چھڑانے کا کوئی معقول راستہ ڈھونڈنے کی ذمے داری سوپنی۔ ڈاکٹر نے تن تنہا اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے ''نکّی جئی معافی'' منگوا کر واشنگٹن کے ساتھ اسی تنخواہ میں گزارہ کرنے کا بندوبست کر دیا۔
عمران خان خوش نصیب ہیں۔ انھیں کسی ڈاکٹر حفیظ کی ضرورت نہیں پڑی۔ پشاور ہائی کورٹ نے ان کی جماعت کے تبدیلی رضا کاروں کے ذریعے نیٹو سپلائی کی بندش کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ خان صاحب انقلابی تو ہیں مگر عدالتی حکام کی سر جھکا کر تابعداری کرتے ہیں خواہ ان میں سے چند فیصلے انھیں ''شرمناک'' ہی محسوس کیوں نہ ہوں۔ بہرحال حمیت دوبارہ بے گھر ہوتی ضرور نظر آئی۔ حمیت کی اس دربدری پر میں اکثر پریشان ہو جاتا ہوں۔ بڑی بے چینی سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہتا ہوں کہ بے چاری کوکوئی ٹھکانہ ملایا نہیں۔ چند روز پہلے میرا دل یہ سوچ کر کچھ مطمئن ہونا شروع ہو گیا کہ حمیت کو شاید آج کے تیمور بنے امریکا میں کوئی مستقل ٹھکانہ مل جائے۔ بعد ازاں وہ جانے اور امریکا۔
میری امید کی وجہ یوکرین کا بحران تھا جہاں کئی ہفتوں کی ''عوامی جدوجہد'' کے بعد وہاں کے منتخب صدر کو اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا۔ امریکا اور یورپ کے جمہوریت پسند یوکرین میں برپا ہونے والے اس انقلاب کے بارے میں بہت شاداں دکھائی دیے۔ روس کے صدر پیوٹن نے مگر رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ پیوٹن ماضی کے سوویت یونین کے بدنام زمانہ جاسوسی ادارےKGB کے ایک دیوانے قوم پرست قسم کے افسر رہے ہیں۔ افغان جہاد کے برکتوں سے سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کو وہ انسانی تاریخ کا بدترین المیہ گردانتے ہیں۔ بطور پاکستانی میرے لیے انتہائی دُکھ کی بات مگر یہ بھی ہے کہ وہ ہمارے جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمن جیسے ''فاتحین افغانستان'' کو اس المیے کا ذمے دار نہیں ٹھہراتے۔ سارا دوش امریکا اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کے سر ڈال دیتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ سوویت یونین توڑ دینے کے بعد بھی امریکا کو قرار نہیں آیا۔ وہ اب بھی بچھے کچھے روس کو کمزور تر اور بدحال کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ پیوٹن پوری شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ یوکرین کا ''عوامی انقلاب'' امریکا اور یورپی ملکوں کی مدد سے رچایا گیا تھا۔
یوکرین میں ''عوامی انقلاب'' تو آ گیا مگر ایک دیرینہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ اس ملک کے دو نمایاں حصے ہیں۔ پولینڈ کے ہمسایے میں یوکرینین زبان بولنے والوں کی اکثریت والا مغربی حصہ شدید قوم پرست ہے۔ جو روس سے نفرت کرتا ہے۔ مشرقی یوکرین جسے کریمیا بھی کہا جاتا ہے کسی زمانے میں حمیت سے مالامال تیمور ہی کی نسل سے تعلق رکھنے والے تاتاریوں کے مکمل قبضے میں ہوا کرتا تھا۔ پھر اس پر روس نے قبضہ جما لیا۔ روسی بولنے والے ایک بہت بڑی تعداد میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ یہاں لا کر بسائے گئے۔ تاتاریوں کو اسٹالن نے بڑے ظالمانہ انداز میں یہاں سے نکالنے کے بعد سوویت یونین کے دور دراز علاقوں میں جا کر پھینک ڈالا۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد تاتاریوں کی ایک بہت بڑی تعداد یہاں واپس آ چکی ہے۔ ان کی موجودہ آبادی کا تخمینہ تین لاکھ تک لگایا گیا ہے جو کریمیا کا تقریباََ 15 فیصد بنتے ہیں۔ کریمیا کو واپس لوٹے تاتاری حمیت کو مگر عرصہ ہوا فراموش کر چکے۔ اب زیادہ تر دیہاتوں میں چھوٹے کسانوں کی طرح بکھرے ہوئے اپنے اپنے کونوں میں دبکے دہی کھاتے رہتے ہیں۔ کریمیا کے روسی بولنے والے مگر یوکرین قوم پرستوں کا ''غلام'' بننے کو تیار نہیں اور صدر پیوٹن ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
یوکرین میں ''عوامی انقلاب'' آیا تو صدر پیوٹن نے انتہائی ڈھٹائی سے اپنے جاسوسی اداروں کو استعمال کرتے ہوئے کریمیا پر نیم فوجی قبضہ کرتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ سارا امریکی میڈیا بلبلا اُٹھا۔ اپنے صدر سے مطالبہ کرنا شروع ہو گیا کہ ''بین الاقوامی قوانین کی جارحانہ خلاف ورزی کرتے ہوئے'' روس کے کریمیا پر فوجی قبضے کی راہ روکی جائے۔ صدر اوباما مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اپنے وزیر خارجہ کو یوکرین بھیج کر انھوں نے وہاں کی عبوری حکومت کو صرف معاشی اور سفارتی مدد کا یقین دلایا۔ پورا امریکی میڈیا اس وقت سے مسلسل سیاپا فروشی کر رہا ہے۔ اوباما پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ انھوں نے امریکا کے دُنیا کی واحد سپرطاقت والے دبدبے کا اپنی بزدلی سے خاتمہ کر دیا ہے۔ اپنی پہلی معیادِ صدارت میں موصوف نے عراق سے امریکی فوجیں نکال لیں۔ اس سال افغانستان سے جان چھڑا رہے ہیں۔ شام کے صدر کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دینے کے باوجود جب کوئی عملی قدم اٹھانے کا موقعہ آیا تو ''بکری'' بن گئے اور اب روس کے کریمیا پر ہونے والے فوجی قبضے کے خلاف بھی کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے کو ہرگز تیار نظر نہیں آ رہے۔ امریکی میڈیا کی جانب سے قومی حمیت کے بارے میں اتنے شدید سیاپوں کے باوجود اوباما اس حوالے سے کچھ بولنے کو بھی تیار نہیں۔ ہاں ان کے چند حامی کالم نگاروں نے گزشتہ دو دنوں سے اپنی قوم کو بتانا شروع کر دیا ہے کہ ''حمیت'' وغیرہ ایک غیر منطقی جنون ہوا کرتا ہے۔
امریکا کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ دُنیا کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اس بات پر اپنی توجہ مرکوز رکھے کہ اس کی معیشت میں زوال و جمود نہ آئے۔ ان کالم نگاروں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس ''منطقی حوالے'' سے اوباما نے Fracking ٹیکنالوجی کے حوالے سے امریکا کو تیل اور گیس کے حوالے سے نہ صرف مکمل طور پر خود کفیل بلکہ اپنے دوست ممالک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے قابل بھی بنا دیا ہے۔ معاشی طورپر خود مختار اور خوش حال معاشروں کو پرائے پھڈوں پر پنگے لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اوباما کو فرق نہیں پڑتا اگر دوسری حکومتوں کے سربراہ اسے اب ایک سپرطاقت کا سربراہ سمجھ کر اطاعتی لہجے میں بات نہیں کرتے۔ قصہ مختصر ''حمیت'' مجھے اب امریکا میں اپنا ٹھکانہ بناتی نظر نہیں آ رہی ۔
عمران خان خوش نصیب ہیں۔ انھیں کسی ڈاکٹر حفیظ کی ضرورت نہیں پڑی۔ پشاور ہائی کورٹ نے ان کی جماعت کے تبدیلی رضا کاروں کے ذریعے نیٹو سپلائی کی بندش کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ خان صاحب انقلابی تو ہیں مگر عدالتی حکام کی سر جھکا کر تابعداری کرتے ہیں خواہ ان میں سے چند فیصلے انھیں ''شرمناک'' ہی محسوس کیوں نہ ہوں۔ بہرحال حمیت دوبارہ بے گھر ہوتی ضرور نظر آئی۔ حمیت کی اس دربدری پر میں اکثر پریشان ہو جاتا ہوں۔ بڑی بے چینی سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہتا ہوں کہ بے چاری کوکوئی ٹھکانہ ملایا نہیں۔ چند روز پہلے میرا دل یہ سوچ کر کچھ مطمئن ہونا شروع ہو گیا کہ حمیت کو شاید آج کے تیمور بنے امریکا میں کوئی مستقل ٹھکانہ مل جائے۔ بعد ازاں وہ جانے اور امریکا۔
میری امید کی وجہ یوکرین کا بحران تھا جہاں کئی ہفتوں کی ''عوامی جدوجہد'' کے بعد وہاں کے منتخب صدر کو اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا۔ امریکا اور یورپ کے جمہوریت پسند یوکرین میں برپا ہونے والے اس انقلاب کے بارے میں بہت شاداں دکھائی دیے۔ روس کے صدر پیوٹن نے مگر رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ پیوٹن ماضی کے سوویت یونین کے بدنام زمانہ جاسوسی ادارےKGB کے ایک دیوانے قوم پرست قسم کے افسر رہے ہیں۔ افغان جہاد کے برکتوں سے سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کو وہ انسانی تاریخ کا بدترین المیہ گردانتے ہیں۔ بطور پاکستانی میرے لیے انتہائی دُکھ کی بات مگر یہ بھی ہے کہ وہ ہمارے جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمن جیسے ''فاتحین افغانستان'' کو اس المیے کا ذمے دار نہیں ٹھہراتے۔ سارا دوش امریکا اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کے سر ڈال دیتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ سوویت یونین توڑ دینے کے بعد بھی امریکا کو قرار نہیں آیا۔ وہ اب بھی بچھے کچھے روس کو کمزور تر اور بدحال کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ پیوٹن پوری شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ یوکرین کا ''عوامی انقلاب'' امریکا اور یورپی ملکوں کی مدد سے رچایا گیا تھا۔
یوکرین میں ''عوامی انقلاب'' تو آ گیا مگر ایک دیرینہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ اس ملک کے دو نمایاں حصے ہیں۔ پولینڈ کے ہمسایے میں یوکرینین زبان بولنے والوں کی اکثریت والا مغربی حصہ شدید قوم پرست ہے۔ جو روس سے نفرت کرتا ہے۔ مشرقی یوکرین جسے کریمیا بھی کہا جاتا ہے کسی زمانے میں حمیت سے مالامال تیمور ہی کی نسل سے تعلق رکھنے والے تاتاریوں کے مکمل قبضے میں ہوا کرتا تھا۔ پھر اس پر روس نے قبضہ جما لیا۔ روسی بولنے والے ایک بہت بڑی تعداد میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ یہاں لا کر بسائے گئے۔ تاتاریوں کو اسٹالن نے بڑے ظالمانہ انداز میں یہاں سے نکالنے کے بعد سوویت یونین کے دور دراز علاقوں میں جا کر پھینک ڈالا۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد تاتاریوں کی ایک بہت بڑی تعداد یہاں واپس آ چکی ہے۔ ان کی موجودہ آبادی کا تخمینہ تین لاکھ تک لگایا گیا ہے جو کریمیا کا تقریباََ 15 فیصد بنتے ہیں۔ کریمیا کو واپس لوٹے تاتاری حمیت کو مگر عرصہ ہوا فراموش کر چکے۔ اب زیادہ تر دیہاتوں میں چھوٹے کسانوں کی طرح بکھرے ہوئے اپنے اپنے کونوں میں دبکے دہی کھاتے رہتے ہیں۔ کریمیا کے روسی بولنے والے مگر یوکرین قوم پرستوں کا ''غلام'' بننے کو تیار نہیں اور صدر پیوٹن ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
یوکرین میں ''عوامی انقلاب'' آیا تو صدر پیوٹن نے انتہائی ڈھٹائی سے اپنے جاسوسی اداروں کو استعمال کرتے ہوئے کریمیا پر نیم فوجی قبضہ کرتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ سارا امریکی میڈیا بلبلا اُٹھا۔ اپنے صدر سے مطالبہ کرنا شروع ہو گیا کہ ''بین الاقوامی قوانین کی جارحانہ خلاف ورزی کرتے ہوئے'' روس کے کریمیا پر فوجی قبضے کی راہ روکی جائے۔ صدر اوباما مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اپنے وزیر خارجہ کو یوکرین بھیج کر انھوں نے وہاں کی عبوری حکومت کو صرف معاشی اور سفارتی مدد کا یقین دلایا۔ پورا امریکی میڈیا اس وقت سے مسلسل سیاپا فروشی کر رہا ہے۔ اوباما پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ انھوں نے امریکا کے دُنیا کی واحد سپرطاقت والے دبدبے کا اپنی بزدلی سے خاتمہ کر دیا ہے۔ اپنی پہلی معیادِ صدارت میں موصوف نے عراق سے امریکی فوجیں نکال لیں۔ اس سال افغانستان سے جان چھڑا رہے ہیں۔ شام کے صدر کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دینے کے باوجود جب کوئی عملی قدم اٹھانے کا موقعہ آیا تو ''بکری'' بن گئے اور اب روس کے کریمیا پر ہونے والے فوجی قبضے کے خلاف بھی کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے کو ہرگز تیار نظر نہیں آ رہے۔ امریکی میڈیا کی جانب سے قومی حمیت کے بارے میں اتنے شدید سیاپوں کے باوجود اوباما اس حوالے سے کچھ بولنے کو بھی تیار نہیں۔ ہاں ان کے چند حامی کالم نگاروں نے گزشتہ دو دنوں سے اپنی قوم کو بتانا شروع کر دیا ہے کہ ''حمیت'' وغیرہ ایک غیر منطقی جنون ہوا کرتا ہے۔
امریکا کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ دُنیا کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اس بات پر اپنی توجہ مرکوز رکھے کہ اس کی معیشت میں زوال و جمود نہ آئے۔ ان کالم نگاروں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس ''منطقی حوالے'' سے اوباما نے Fracking ٹیکنالوجی کے حوالے سے امریکا کو تیل اور گیس کے حوالے سے نہ صرف مکمل طور پر خود کفیل بلکہ اپنے دوست ممالک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے قابل بھی بنا دیا ہے۔ معاشی طورپر خود مختار اور خوش حال معاشروں کو پرائے پھڈوں پر پنگے لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اوباما کو فرق نہیں پڑتا اگر دوسری حکومتوں کے سربراہ اسے اب ایک سپرطاقت کا سربراہ سمجھ کر اطاعتی لہجے میں بات نہیں کرتے۔ قصہ مختصر ''حمیت'' مجھے اب امریکا میں اپنا ٹھکانہ بناتی نظر نہیں آ رہی ۔