کچھ تبدیلی محسوس ہوگی ورنہ …

افسران کہتے ہیں کہ بجلی کی نجی کمپنیوں سے جومعاہدے ہوئے ان کے تحت حکومت توانائی کے متبادل ذرایع کوترقی نہیں دے سکتی


Dr Tauseef Ahmed Khan June 18, 2022
[email protected]

BEIJING: بجٹ آیا ، مہنگائی کا طوفان لایا۔ مہنگائی کا ایک طوفان تو پٹرول، مٹی کے تیل، ڈیزل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ سے ہوا۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے گزشتہ ہفتہ جب قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا تو وہ مطمئن نظر آرہے تھے اور ایک عام آدمی کے بجٹ کی خوش خبری سنا رہے تھے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی اقتصادی ٹیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے یہ کہا کہ ڈیڑھ ماہ پہلے معیشت جن حالات میں ملی تھی، ان حالات میں اس سے زیادہ متوازن بجٹ پیش نہیں ہو سکتا ہے۔ اس مخلوط حکومت سے اچھی امید لگانے والے صاحبان گزشتہ جمعہ کی رات کو چین کی نیند سوئے۔

ان میں سے کچھ نے رات کی نیند میں یہ خواب ضروری دیکھا ہوگا کہ اب عوام حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہوجائیں گے ، مگر پھر روایت کے مطابق ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے گزشتہ ہفتہ صحافیوں کے سامنے بجٹ کے اہم نکات بیان کیے تو اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے کہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈز سے معاہدہ ضروری ہے اور اب معیشت کو بچانے کے لیے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوگیا ہے۔

اقتصادی تجزیہ نگاروں نے بجٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ بجلی کے بلوں میں 46.77 فیصد اضافہ ہوگا۔ بجلی کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (NEPRA) ہر یونٹ پر جو 16.91 ہے 24.82 پر مشتمل ہے 7.91 روپے پر یونٹ عائد ہوا۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق گھریلو صارفین کو ہر یونٹ پر 30 روپے 28 پیسے ادا کرنے ہونگے۔ بجلی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت کی کوششوں کے باوجود بجلی کے نقصانات کی بناء پر خسارہ بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں بجلی کے کارخانے فرنس آئل وغیرہ پر چلتے ہیں۔

روس اور یوکرین کی جنگ کی بناء پر بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، یوں بجلی پر آنے والی لاگت بڑھ گئی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے حکام اس بات پر تیار نہیں ہیں کہ حکومت ان کے ادارہ سے حاصل ہونے والے قرضہ سے بجلی اور گیس عام آدمی کو رعایتی قیمتوں پر فراہم کرے۔ اس صورتحال میں بجلی، گیس اور پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

وفاقی حکومت سرکاری یونیورسٹیوں کو مالیاتی امداد فراہم کرنے کی ذمے دار ہے۔ سرکاری یونیورسٹیاں ہمیشہ مالیاتی بحران کا شکار رہتی ہیں۔ عمران خان حکومت نے یونیورسٹیوں کی گرانٹ میں خاطر خواہ کمی کی تھی اور یہ نسخہ دریافت کیا تھا کہ سرکاری یونیورسٹیاں اپنی قیمتی اراضی نیلام کریں اور کام چلائیں۔ یونیورسٹیوں کی نگرانی کے ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر طارق بنوری نے اس تجویز سے اختلاف کیا تو وہ معتوب قرار پائے تھے۔

موجودہ حکومت کی بجٹ ترجیحات سامنے آئیں تو پتہ چلا کہ ایچ ای سی کی گرانٹ میں 60 فیصد کٹوتی کی تجویز ہے مگر اساتذہ اور سول سوسائٹی کے احتجاج پر حکومت نے اس بجٹ میں ساٹھ فیصد تو کٹوتی نہیں کی مگر یونیورسٹیوں کی Recurring Grant کے لیے جو 104 بلین روپے کم از کم ضروری ہیں مگر حکومت نے صرف 66 بلین روپے کی رقم اس مقصد کے لیے مختص کی ہے۔ یوں یونیورسٹیوں میں تدریس اور تحقیق کا معیار متاثر ہوگا جس کا نقصان مجموعی طور پر ریاست اور معاشرہ کو ہوگا۔

ایک محقق پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ جب 1985میں محمد خان جونیجو وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے تو جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کی بناء پر ملک اقتصادی بحران کا شکار تھا۔ محمد خان جونیجو کو پیر پگارا نے وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے نامزد کیا تھا۔ وہ ایک غیر جماعتی اسمبلی کے گمنام وزیر اعظم تھے مگر انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام وزراء اور وزیر اعلیٰ ، اعلیٰ سرکاری افسران اور جج صاحبان چھوٹی گاڑیاں استعمال کریں گے اور تمام بڑی کاریں نیلام کردی جائیں گی تو ان قیمتی گاڑیوں کی خریداری پر ہونے والا قیمتی زرِ مبادلہ بچے گا اور پٹرول کی بچت ہوگی۔

محمد خان جونیجو کے اس فیصلہ کی بااثر حلقوں میں مزاحمت ہوئی مگر انھوں نے ایک تاریخ رقم کردی۔موجودہ حکومت نے وزراء اور سول افسروں کے پٹرول کے بلوں پر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں۔ اسی طرح درآمدی پالیسی میں معمولی تبدیلیاں ہیں مگر وزیر اعظم ، صدر، وزراء اعلیٰ، وفاقی وزراء اور جج صاحبان کو فراہم کردہ جدید ترین گاڑیوں کے بارے میں کوئی پالیسی نہیں بنائی۔

ملک کا بیشتر حصہ لوڈ شیڈنگ کی زد میں ہے۔ ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، وزراء اور اعلیٰ ججوں کے دفاتر میں جنریٹر موجود ہیں جن کے لیے ڈیزل، پٹرول اور گیس کی خریداری پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ حکمران طبقے کا شمار ملک کے امراء میں ہوتا ہے انھیں تو اپنے دفاتر کے ایئرکنڈیشن بند کرنے کے فیصلے کرنے چاہئیں اور اگر ان کی صحت کے لیے ایئرکنڈیشن ضروری ہے تو انھیں یہ اعلان کرنا چاہیے کہ وہ ایئرکنڈیشن کا بل اپنی جیب خاص سے ادا کریں گے اور پھر ان کی اس روایت کو وزراء، وزیر اعلیٰ، ججوں اور سرکاری افسروں کو اپنانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی تمام سرکاری عمارتوں کو سولر نظام پر منتقل کرنے کے لیے ہنگامی بنیاد پر پالیسی بنانی چاہیے۔

بعض افسران کہتے ہیں کہ بجلی کی نجی کمپنیوں سے جو معاہدے ہوئے تھے ان کے تحت حکومت توانائی کے متبادل ذرایع کو ترقی نہیں دے سکتی اور I.P.Ps کو اب بھی مالیاتی امداد دینے کی پابند ہے۔ اگر واقعی ایسے معاہدے کیے گئے ہیں تو ان معاہدوں کو عوام کے سامنے آنا چاہیے اور قانونی ماہرین کو اس کام پر مامور کرنا چاہیے کہ وہ معاہدوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے قانونی راستے تلاش کریں۔بعض صحافی تو یہ کہتے ہیں کہ حکمران طبقے سمیت تمام افسروں کوسادہ کپڑے پہن کر سادگی کی مثال قائم کرنی چاہیے۔ عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ روس سے تیل خریدنے کا معاہدہ کرنے والے تھے۔

روس کے سفارت کار کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے ایک خط تحریر کیا مگر کوئی باضابطہ کارروائی نہیں کی گئی ۔پٹرولیم انڈسٹری کے کئی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کی تیل کو پروسیس کرنے والی ریفائنری کے پاس وہ ٹیکنالوجی نہیں ہے جس سے روس سے تیل کی خریداری کا سودا فائدہ مند ثابت ہو۔ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ بھارت سے ادویات اور خام مال کی درآمد سے ہی یہ قیمتیں کم ہوسکتی ہیں۔ موجودہ اقتصادی بحران سے متوسط طبقہ گھل رہا ہے۔ غریب مزید غریب ہورہے ہیں۔ حکومت اگر عوامی نوعیت کے اقدامات کرے گی تو کچھ تبدیلی محسوس ہوگی ورنہ...

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔