یہ مشکل نہیں آسان فیصلے ہیں
ہر مشکل فیصلے کو عمران خان کے کھاتے میں ڈال دینے کا عمل سیاسی طور پر شاید صحیح ہو مگر زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا
MILAN:
پاکستان اس وقت مشکلات کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے مشکل وقت میں بجٹ دیا ہے ۔ آئی ایم ایف ہم سے خوش نہیں، مزید مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ مفتاح اسماعیل پوسٹ بجٹ کانفرنس میں اپنی مجبوریوں کا دکھڑا سناتے ہوئے۔
آئی ایم ایف کی ناخوشی نے رنگ دکھایا اور موصوف نے تین روز قبل عین آدھی رات کو اعلان کیا کہ عمران خان نے آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کی، عمران خان نے جو معاہدے کیے ان کی وجہ سے ہمارے ہاتھ جکڑے ہوئے ہیں۔ انھوں نے جان بوجھ کر پٹرول کی قیمتیں کم کیں جب کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ مجبوری ہے مشکل فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے۔
تیل کی قیمتیں بڑھانا یقیناً مشکل فیصلہ تھا مگر ہر مشکل فیصلے کو عمران خان کے کھاتے میں ڈال دینے کا عمل سیاسی طور پر شاید صحیح ہو مگر زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اب یہ واویلا کیوں سنیں کہ اتحادیوں کو حکومت بڑے مشکل حالات میں ملی۔ انھوں نے کئی سال کی تگ و دو کے بعد یہ منزل حاصل کی۔ بار بار یہ جتلایا کہ اناڑی نے ملک تباہ کردیا ، بس ایک ذرا تجربہ کار ہاتھوں میں طنابیں آ جائیں پھر دیکھیئے گا تیل اور تیل کی دھار، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے!
اب جب کہ راضی بالرضا موقع مل گیا تو یہ گردان ہی ختم ہونے میں نہیں آ رہی کہ عمران خان نے پٹرول کی قیمتیں کم کرکے ہمارے لیے بارودی سرنگیں بچھا دیں۔ صورت حال کچھ یوں ہے کہ عمران خان کے دورہ روس کے موقع پر روس اور یوکرائن میں تلخی اور محاذ آرائی کے قرائن تو واضح تھے مگر یوں کھلم کھلا جنگ یورپ سمیت کسی کے گمان میں نہ تھی۔
روس یوکرائن جنگ 24 فروری کو شروع ہوئی۔ اس روز عالمی منڈی میں تیل کی قیمت92ڈالر فی بیرل، قدرتی گیس کی قیمت 4.5 فی ایم ایم بی ٹی یو اور روپے ڈالر کی شرح 177 تھی۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرتے ہوئے اپوزیشن کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے 28 فروری کو پٹرول کی قیمت میں دس روپے کمی کا اعلان کرتے ہوئے اس قیمت کو جون تک برقرار رکھنے کا وعدہ کیا۔ ان کی مالیاتی ٹیم کے مطابق انھوں نے بجٹ کی کچھ خفیہ گرہیں کھول کر اور پلو میں مشکل وقت کے لیے چھپایا کچھ جمع جتھا جوڑا ہے جس کی مدد سے حکومت اس عوامی رعایت کی عیاشی افورڈ کر لے گی۔
اب کرنا خدا کا یہ ہوا کہ روس یوکرائن جنگ کے بعد انرجی کی قیمتوں میں بھونچال آ گیا۔ خوراک اور زرعی اجناس کی شدید قلت اور قیمتوں میں اضافے سے پوری دنیا کی معیشت گڑ بڑا گئی ہے۔ تیل کی قیمتیں 120 ڈالر فی بیرل یعنی 30% بڑھ چکیں، قدرتی گیس کی قیمتوں میں 62%اضافہ ہو چکا۔ اس دوران روپے ڈالر کی شرح 177 سے گر کر 209 تک لڑھک گئی۔ لہٰذا اس قیمتوں کے مشکل فیصلے میں ایک حصہ عمران خان کے فیصلے کا ہے۔ دوسرا حصہ اس عالمی صورت حال کا ہے جو روس اور یوکرائن جنگ کے بعد رونما ہوئی۔ ابھی تک اس جنگ کے خاتمے کے آثار نہیں بلکہ اس کی طوالت کے لیے امریکا اور یورپ بے چین ہیں۔
جوش جذبات میں امریکا اور یورپ نے روس پر پابندیاں تو لگا دیں مگر ان پابندیوں کے اثرات مہنگائی اور کساد بازاری کو صورت میںان کے اپنے حلق میں اٹک گئیں۔ تیس سالوں کے بعد یورپ اور امریکا کو اس قدر مہنگائی کا سامنا ہے۔ کہاں یہ کہ کلائمیٹ چینج میں کوئلہ ایک غیر مہذب گالی بنتا جا رہا تھا اب وہی کوئلہ پھر سے دوبار تین گنا قیمت پر ڈیمانڈ میں ہے۔ خوراک کی عالمی سطح پر شدید قلت کا اندیشہ ہے۔
مالیاتی کساد بازاری کا اندیشہ دائیں بائیں سے جھانک رہا ہے۔ سو؛ روس یوکرائن جنگ کے بعد ایک ان دیکھی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ تمام ممالک اس صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس بدلے ہوئے عالمی منظر نامے کے اثرات کو علیحدہ دیکھنے اور اس سے نمٹنے کے بجائے حکومتی بانسری سے صرف ایک ہی عمرانی سر برآمد ہو رہا ہے۔
فریق مخالف پر ہر شے کا الزام دھرنا آسان فیصلہ ہے۔ مشکل فیصلے ان وجوہات کے سدباب میں ہیں جن سے آنکھیں چراتے چراتے ملکی معیشت اس مقام تک آن پہنچی ہے۔ ملکی معیشت سراسر غیر پیداواری سرمایہ کاری کے بھینٹ چڑھ چکی ہے؛ ایک مکمل صارف معیشت۔ گیارہ مہنیوں میں تجارتی خسارہ 43 ارب ڈالر سے بھی زائدیعنی پچھلے سال کے مقابلے میں 58% زائد !!
تسلیم! پاکستانی معیشت کو مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ کیا کہ دیوالیے کے دہانے معیشت کے بجٹ میں سول اور دیگر اداروں کو سالانہ تنخواہوں اور مراعات کی مد میں کھلے دل سے اضافہ، بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے مگر 800 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات اہتمام، بجٹ خسارے کے لیے دستاویزی عمل کو مزید آگے بڑھانے کے بجائے ریٹیلرز کے لیے پھر سے وہی فرسودہ فکس ٹیکس، کیا تماشا ہے، یہ مشکل فیصلے ہیں جو بجٹ خسارے کے لیے اٹھانے پڑے!
بار بار پیدا ہونے والے بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کا ایک فوری حل امپورٹس میں کمی کے ہنگامی اقدامات۔ انرجی کی کفایت کے لیے مشکل فیصلے کرنے کے بجائے ون سائز فٹ آل یعنی تیل، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے الزام عمران خان پر رکھنا آسان فیصلہ ہے۔ عمران خان کی حکومت قائم بھی رہتی تو روس یوکرائن جنگ کے بعد پیدا شدہ عالمی معاشی جھٹکوں کے سبب مشکل میں ہوتی۔ لیکن ن لیگ اور اس کے اتحادی آوٹ آف باکس حل ڈھونڈنے کے بجائے آسان فیصلے کر رہے ہیں اور الزام عمران خان حکومت پر۔
یہ روش حقیقت پسند ہے اور نہ زیادہ دیر چلنے والی۔ مشکل فیصلے کریں جن سے امپورٹس کم ہوں، انرجی کی کھپت کم ہو۔ بجٹ خسارہ دور کرنے کے لیے ٹیکس نیٹ کو بڑھائیں نہ کہ دستاویزی عمل کو تہہ کرکے اپنے حلقہ انتخاب کے تاجروں اور درآمد کنندگان کو معمولی فکس ٹیکس لگا کر دہائی مچائیں کہ ہم مشکل میں اور مشکل فیصلے کر رہے ہیں!!